Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
62 - 151
 (۱۳) حسن رضاخاں مدعی نے اپنے اظہار ۱۹/اکتوبر میں بیان کیا ہے کہ میں نے اپنے نکاح میں اپنے پھوپھی زاد بھائی محمد حسین خاں کو شریک کیا تھا محمد حسین خاں گواہ اپنی شرکت جلسہ نکاح میں بیان نہیں کرتا اس گواہ کو بروز خانہ تلاشی زبانی والدہ مدعی کے نکاح کا علم ہوا جس سے بے اصلیت دعوٰی کی معلوم ہوتی ہے محمد حسین خاں کو گواہی وکالت یا عقد نکاح سے متعلق نہیں بلکہ وہ صرف عصمت جہاں بیگم کے جواب دعوٰی کی تکذیب کرتی ہے مگر سخت قابل افسوس یہ بات ہے کہ اظہار حسن خاں کی نقل جو یہاں آئی اس میں صاف یہ لفظ لکھے ہیں میں نے کسی کو نہیں بلایا میری شہر میں رشتہ داری ہے محمد حسین خاں میرے پھوپی زاد بھائی ہیں میں نے ان کو نہیں بلایا تھا اور محمد حسین خاں کی زوجہ کو بھی نہیں بلایا تھا میں نے بار بار بہ تکرار سائل سے دریافت کیا کہ اس نقل میں کوئی تفاوت تو نہ ہوا اس نے بوثوق تمام کہا کہ ایک حرف کا ہرگز فرق نہیں میں نے کئی بار کہا کہ فیصلے میں تو یہ لکھا ہے، سائل نے باصرار کہا کہ اظہارمیں وہی تھا کہ نہیں بلایا فیصلے میں اس کا عکس نقل کیا ہے اب اس کو کیاکہا جائے میں نہیں کہہ سکتا کہ ایسی حالت میں بے اصلی دعوٰی کی معلوم ہوتی ہے یا فیصلے کی۔

(۱۴) نکاح نامہ جو ثبوت میں پیش کیاگیا اس میں تاریخ ناکح ۲اپریل ہے دعوٰی اس نکاح کی بابت ہے جس کا وقوع بقول مدعی ۲۴/اپریل کو ہوا ہے یہ وجہ بھی واسطے بے اصلیت دعوٰی کے ظاہر ہے۔ذی علم مجوز نے نکاح نامہ کو وجہ ثبوت میں لیا اور بوجہ اختلاف تاریخ بے اصلی دعوٰی کے دلیل قرا ر دیا، یہاں اولاً جو فقہی مباحث ہیں خادم فقہ پر پوشیدہ نہیں مگر اتنی بات تو عام فہم ہے کہ عوام رات کو روز گزشتہ کا تابع ٹھہراتے ہیں شب آئندہ کے بارہ بجے جو آنے والاہوا سے آج دن میں کہیں گے کہ آج رات کے بارہ بجے آئے گا اور اہل علم باتباع شرع رات کو روز آئندہ کا تابع مانتے ہیں شب جمعہ اس رات کو کہیں گے جس کی صبح کو جمعہ ہو نہ کہ وہ جو بعدہ جمعہ آئی سوالیالی حج کے کہ وہ حج میں تابع روزہائے گزشتہ ہیں لہذا اگر دسویں شب میں طلوع صبح سے پہلے وقوف عرفہ کرلیا حج ہوگیا کہ وہ رات عرفہ ہی کی رات ہے یہ نکاح آدھی رات کو یا اس کے قریب اپریل کی پچیسویں شب میں ہوا جس کی صبح کو ۲۵ تھی مدعی نے عرف عام عوام کے طور پر ۲۴/اپریل کہی کہ رات تابع روز گزشتہ سمجھی نکاح نامہ میں ذی علم قاضی نے ۲۵ /اپریل لکھی کہ شب تابع روز آئندہ تھی۔

ثانیاً جب انگریزی تاریخ انگریزی مہینہ تحریر میں آیا اور انگریزی میں تاریخ میں رات آدھی رات سے بدلتی ہے ولہذا ریل و تار کے دفاتر میں آدھی رات سے آدھی رات تک پورے ۲۴ گھنٹے شمار ہوتے ہیں فلاں ریل گاڑی ۱۴بجے چلے گی یعنی دن کے دو بجے، یہ تاربیس بجے دیا گیا یعنی شام کے ۸بجے۔ ممکن کہ نکاح کہ نکاح خواں نے ۱۲بجے جانا سمجھ کر خیال کیا ہو کہ انگریزی تاریخ بدل گئی لہذا ۲۵/اپریل لکھی۔

(۱۵) نکاح نامہ میں سکونت مدعا علیہا کی محلہ مدرسہ تحریر ہے قاضی نکاح خوان جس سے ترتیب و خانہ پری نقشہ کے متعلق ہے اس نے اپنی گواہی میں تحریر کرایا ہے کہ میں نے اس کی سکونت کی بابت دریافت 

نہ کیا تھا پس بلادریافت نقشہ میں سکونت اندراج یہ کارروائی برادر مدعی کی ہے جیسا کہ نکاح خوان نے بیان کیا ہے کہ یا دداشت نکاح نامہ برادر حسن رضاخاں سے میں نے لکھائی تھی، اولاً مقدمہ موجودہ میں نکاح خواں کی شہادت کہ اس عہدہ سے استعفا کے بعد اپنے فعل پر ہے حاکم کو اس کا لینا سننا ہی ممنوع تھا لانہ اشتغال بما لایصح کما سیأتی(کیونکہ یہ غیر صحیح کام میں مشغولیت ہے جیسا کہ آئیگا۔ت) اور جب وہ شہادت شرعاً کوئی چیز نہیں تو اس کے اختلاف سے دعوٰی پر اثر ڈالنا یعنی چہ۔

ثانیاً قاضی کے اظہار میں یہ ہے کہ حسن رضاخاں کے بھائی سے کاغذ لکھوایا تھا میں نے یہ دریافت نہیں کیا کہ لڑکی کی عمر کس قدر ہے میں نے اور کچھ نہیں پوچھا کہ لڑکی کون سے مکاں میں رہتی ہے اور کوئی بات میں نے نہیں دریافت کی، یہاں اس دریافت کی نفی ہے کہ لڑکی کس مکان میں رہتی ہے، نہ اس دریافت کی کہ کس محلہ میں رہتی ہے، ظاہر ہےکہ مکان محلہ سے خاص ہے ا س سے سوال کی نفی محلہ سے سوال کی نفی نہیں کرسکتی جبکہ سوق عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ محلہ سے سوال کیا کہ وہ کہتا ہے اور کچھ نہیں پوچھا اور کوئی بات دریافت نہ کی، یہ اور کا لفظ بڑھانا ہی صاف کہہ رہا ہے کہ اسی قدر پوچھا اس سے زیادہ کچھ نہ پوچھا اگراس نے اتنا بھی نہ پوچھا ہوتا تو یہ نہ کہتا کہ اور کچھ نہ پوچھا بلکہ یوں کہتا کہ میں نے کچھ نہ پوچھا ان دونوں محاوروں کا فرق اہل زبان پر ظاہر ہے، رہا یہ کہ آخر کیا پوچھا اس کا پتہ مظہر نے ان لفظوں سے دیا کہ اس نے برادر حسن رضاخاں سے کاغذ لکھوایا تھا یعنی خانہ پری نقشہ کے لئے جتنی ضرورت ہے بس اسی قدر پوچھا اور محمد رضاخاں سے خانہ پری کو کہا اور کچھ نہ پوچھا کہ عمر کتنی ہے کس مکان میں رہتی ہے۔

ثالثا اندراج نقشہ کےلئے واقفیت درکار ہے خواہ بعد سوال ہو یا بلاسوال تونفی سوال نفی علم کو مستلزم نہیں وقت نکاح کی گفتگو دن میں لوگوں کے تذکرہ سے اس نے بے دریافت کے سن لیا ہوگا کہ عصمت جہاں بیگم محلہ مدرسہ میں رہتی ہے بلکہ انصافاً تذکرہ مرد مان کی بھی حاجت نہیں پیشہ نکاح خوانی والے کو اکثر اہل شہرسے واقفیت ہوجاتی ہے اور عصمت جہاں بیگم کا باپ خود ایک مشہور آدمی تھا اس کانام اس وقت ضرور لیا گیا تھا کہ مسعود خاں کی بیٹی کا نکاح ہے جیسا کہ خود قاضی کے اظہار میں موجود ہے وہ جانتا تھا کہ مسعود خاں ساکن محلہ مدرسہ ہے لہذا عصمت جہاں بیگم کی سکونت مدرسہ اسے بلا دریافت معلوم ہوگئی۔ محمد رضاخاں نے جب بحکم قاضی خانہ پری کی جس کا قاضی کو اعتراف ہے تو وہ خود قاضی کی خانہ پری تھی اور یہ کارروائی قاضی کی کارروائی ہوئی نہ کہ محمد رضاخاں کی،
فان فعل المامور یرجع الی الاٰمر لاسیما فیما لاتتعلق الحقوق بالمامور کما ھٰھنا۔
کیونکہ مامور کا فعل آمر کی طرف راجع ہوتا ہے خصوصاً ان امور میں جہاں حقوق کا تعلق مامور سے نہیں ہوتاجیسا کہ یہاں ہے۔(ت)
 (۱۶) تعداد مہر مندرج نکاح نامہ اس کا جواب نمبر۱۲میں گزرا،نکاح نامہ اگر ہو تو ایک گواہ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا اور گواہ مدعی کے بیان میں اختلاف تعداد مہر دعوی نکاح کو اصلاً مضر نہیں کماعلمت۔

(۱۷) محمد حسین خاں نے اپنا آنا بمکان حسن رضا خاں بروز خانہ تلاشی بہمراہی اپنے پسر محمد حسن خاں کے بیان کیا ہے محمد حسین خاں لکھاتا ہے کہ میرے والد جب آئے تھے کہ اظہار ہوچکا تھا اپنے بعد آنا اپنے باپ کا بیان کیا ہے اولاً محمد حسین خان کے بیان میں یہ ہے کہ میں آیا اور میرا لڑکا آیا، اس میں ہمراہی کا لفظ کہیں نہیں لفظ(اور) حرف(و) کا ترجمہ ہے جس سے نہ معیت مفہوم ہو نہ ترتیب ہو نہ تراخی نہ تعقیب، صرف اشتراک پر دلیل ہے کما صرح بہ جمیع کتب الاصول(جیساکہ تمام کتب اصول میں اس کی تصریح ہے۔ت) یہاں تو محمد حسین خاں نے اپنے اور اپنے لڑکے کے لئے دو فعل جدا جدا ذکر کئے کہ میں آیا اور میرالڑکا آیا، اگر ایک ہی فعل میں لفظ''اور''کے ساتھ جمع کرتا ہر گز معیت مفہوم نہ ہوتی،

 اﷲ عزوجل فرماتا ہے :
وجاء فرعون ومن قبلہ والمؤتفکت بالخاطئۃ۱؎۔
فرعون آیا اور اس سے پہلے والے اور گناہ کا ارتکاب کرنے والے۔(ت)
(۱؎ القرآن الکریم    ۶۹ /۹)
ایک کلمہ جاء میں سب کو جمع فرمایا یہاں اس بیان کی کیا ضرورت کہ فرعون وقوم لوط میں تقریباً دو ہزار برس کا فاصلہ تھا کہ خود من قبلہ فرعون پر واؤ کے ساتھ معطوف ہے قبلیت و معیت کیونکر جمع ہوئیں۔

ثانیاً بالفرض محمد حسین خاں یہی کہتا کہ میں اپنے لڑکے کے ساتھ آیا تھا اور محمد حسن خاں کہتا میرے بعد آئے تو اس اختلاف کا بھی کچھ اثرنہ پڑتا، فتاوٰی ظہیریہ و فتاوٰی عالمگیریہ وغیرہما کی عبارت نمبر۳ میں گزری کہ
لوقال احدھما کان معنا فلان وقال الاٰخر لم یکن معنا ذکرفی الاصل انہ یجوز ولاتبطل ھذہ الشہادۃ۲؎۔
ایک گواہ نے کہا ہمارے ساتھ فلاں تھا اور دوسرے نے کہا ہمارے ساتھ نہیں تھا تو اصل میں ذکر فرمایا کہ یہ گواہی جائز ہے باطل نہ ہوگی(ت)
(۲؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الشہادات    الباب الثامن     نورانی کتب خانہ پشاور     ۳ /۵۰۹)
 (۱۸) جو واقعات محمد حسن خاں نے لکھائے محمد حسین خاں نہیں لکھاتا کیونکر لکھاتا حالانکہ وہ اظہار عصمت جہاں بیگم کے بعد آیا تھا جیسا کہ محمد حسن خاں نے بیان کیا محمد حسین خاں اگر وہ سب واقعات لکھاتاتو اس بیان محمد حسن کی تکذیب کہ اظہار ہوچکا تھا کچھ باقی تھا جب میرے والدآئے، یہ طرفہ بات ہے کہ دلیل کذب نہ پائے جانے کو دلیل کذب قرار دیا جاتا ہے،______معہذا پر واضح ہوچکا کہ اگر دونوں معاً آتے اور ایک کچھ واقعات بیان کرتا کہ دوسرے کے بیان میں نہ آتے ہرگز اختلاف نہ تھا کہ عدم ذکر ذکر عدم نہیں، یہ تھے وہ تمام بے اصل وبے اثر اختلافات جن کی بناء پر ذی علم مجوز نے شہادتوں کو رد فرمادیا اب شہادات پر دیگر اعتراضات کی طرف چلئے۔
Flag Counter