Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
61 - 151
 (۶) مسماتان مذکور کہتی ہیں عصمت جہاں بیگم نے تین مرتبہ کلمات اجازت کہے جلال خاں تین مرتبہ اجازت دینا بیان نہیں کرتا، یہ بھی وہی عدم ذکر وذکر عد م میں فرق نہ کرنا ہے جلال خاں یہ بھی تو نہیں کہتا کہ عصمت جہاں بیگم نے تین مرتبہ نہ کہا صرف ایک ہی بار کہاتھا، اس مقدمہ بگابیگم بنام عباس علی خاں میں بھی اس قسم کے اختلافات تجویز فرمائے گئے تھے جنہیں فقیر نے اپنے فتوی میں لکھا، 

رب العزت جلا وعلانے سورہ نمل میں فرمایا:
یٰموسٰی لاتخف انی لایخاف لدی المرسلون۲؎۔
اے موسٰی (علیہ السلام) !آپ خو ف نہ کریں میرے حضور رسولوں کو خوف نہیں ہوتا(ت)
 (۲؎ القرآن الکریم    ۲۷/ ۱۰)
اور سورہ قصص میں فرمایا :
یاموسی اقبل ولاتخف انک من الاٰمنین۳؎۔
اے موسٰی(علیہ السلام) ! آگے بڑھو خوف نہ کرو آپ بیشک امن والوں میں ہیں(ت)
( ۳؎ القرآن الکریم     ۲۸ /۳۱)
اور سورہ طٰہٰ میں ارشاد ہوا :
قال خذھا ولاتخف سنعیدھا سیرتھا الاولٰی۴؎۔
فرمایا اسے پکڑو اور خوف نہ کرو ہم اسے عنقریب پہلی حالت پر پھیردیں گے(ت)
 (۴؎القرآن الکریم    ۲۱/۲۱)
ان دونوں سورتوں میں ذکر ندا ہے یہاں نہیں بلکہ جملہ لاتخف کے سوا ہر جگہ نیا کلام نقل فرمایاہے، کیامعاذاﷲ یہ قرآن مجید کا اختلاف ٹھہرے گا، ہماری رائے میں ایک بڑااختلاف ذکر سے رہ گیا، اظہارات کی نقلیں کہ یہاں آئی ہیں ان میں سروری بیگم وامجدی بیگم کے بیان میں جتنی جگہ عصمت جہاں بیگم کا نام آیا ہے سب جگہ مع لفظ بیگم ہے اور جلال خاں کے بیان میں ایک جگہ لفظ بیگم نہیں تو ارشاد فرمانا تھا کہ عورتیں عصمت جہاں بیگم کہتی ہیں اور جلال خاں نے ایک جگہ بے لفظ بیگم کہا لہذا گواہیاں بوجہ اختلاف مردود ہیں۔
 (۷) جلال خاں نے بیان کیا کہ جب بوستاں خاں اندر مکان کے گئے تو حسن رضاخاں کی ہمشیرہ سے کہا کہ تم اس عورت سے میرے رو برو کہلوادو، چنانچہ انہوں نے اس عورت سے کہا کہ تم خود اپنے منہ سے کہو، تو اس نے کہا کہ میں نے اپنے نفس کا اختیار الخ، مسماتوں نے یہ کہا ہے کہ بوستاں خاں نے میری بڑی نند سے کہا کہ بیگم اب لڑکی سے کہو کہ کیاکہتی ہے جو میں بھی سنوں، میری نند کہنے بھی نہ پائی کہ عصمت جہاں بیگم نے کہا کہ میں ہوں عصمت جہاں بیگم میں نے حسن رضا کے ساتھ الخ۔سارے اختلافوں میں یہ بڑا بھاری اختلاف ہے کہ ظاہراً نفی واثبات کا فرق ہے،جلال خاں کہتا ہے شمسن بیگم کے کہنے پر عصمت جہاں بیگم نے کہا عورتیں کہتی ہیں شمسن بیگم کہنے بھی نہ پائی تھی کہ ا س نے کہہ دیا مگر انصاف کیجئے تو یہ اعتراض بھی مہمل ہے۔

اولاً اظہار جلال خاں کی نقل جو یہاں آئی اس کی عبارت یہ ہے بوستاں خاں اندر مکان کے گئے حسن رضا کی ہمشیرہ سے جا کر کہا کہ تم میرے روبرو کہلوادو، چنانچہ انہوں نے اس عورت سے کہا کہ کہہ دو، تب اس عورت نے اپنی زبان سے کہا کہ میں نے اپنے نفس کا اختیار کہہ دو، ایک چار حرفی کلمہ ہے، شمسن بیگم عصمت جہاں بیگم کے پاس بیٹھی تھی اس نے آہستہ سے کہا کہہ دو سروری بیگم و امجدی بیگم نے نہ سنا سروری بیگم کے بیان میں کہیں نہیں کہ وہ اس وقت شمسن بیگم یا عصمت جہاں بیگم کے پاس ہی زانوں سے زانو ملائے بیٹھی تھی اور خصوصاًامجدی بیگم نے توصاف بیان کیا ہے کہ جوان عورت ہوں میرا تینوں سے پردہ ہے میں اس وقت اوٹ میں ہوگئی تھی دو لائی اوڑھ کراوٹ کرکے ذرا آڑ سے بیٹھی تھی خصوصاًایسے وقت لوگوں کے کان دلہن کے بیان کی طرف لگے ہوتے ہیں بالائی لوگوں کے ایں و آں کی طرف توجہ نہیں ہوتی۔

ثانیاً محتمل کہ ادھر تو شمسن بیگم نے اس سے کہا کہہ دو یا یہی کہ تم خود اپنے منہ سے کہوادھر عصمت جہاں بیگم نے بوستاں خاں سے خطاب شروع کردیا، دونوں بیان ایسے متصل معاً واقع ہوئے کہ سامع کو اشتباہ ہو کہ یہ عصمت جہاں بیگم نے بطور خود کہا یا شمسن بیگم کے کہنے سے کہا جلال خاں غیر آدمی اس نے حسب عادت زنان دو شیزہ نیک گمان کیا کہ شمسن بیگم کے کہنے ہی سے کہا ہوگا سروری بیگم عصمت جہاں بیگم کی بھانجی ہے وہ اپنی خالہ کے طلاقت لسانی سے خوب آگاہ تھی جس کا اظہار عصمت جہاں بیگم کے اظہاروں میں ہوا ہے جن کا بیان ان شاء اﷲ تعالٰی آگے آتا ہے اس نے جانا کہ اس کی نچلی طبیعت کا گرم تو سن کیا محتاج مہمیز ہوتا شمسن بیگم کے منہ سے پوری بات بھی نہ نکلی تھی کہ اس نے توکیل کا خطبہ پڑھنا شروع کردیا، ذرا غور سے سروری بیگم کے لفظ دیکھئے وہ یہ نہیں کہتی کہ میری نند کچھ نہ بولی بلکہ کہتی ہے میری نند کہنے بھی نہیں پائی کہ عصمت جہاں بیگم نے کہا یعنی اس کا کہنا ختم نہ ہوا تھا کہ عصمت جہاں بیگم نے خطاب آغاز کیا، اہل زبان جانتے ہیں کہ کسی فعل کا ہوپانا اس کے تمام واختتام پر ہوتا ہے نہ کہ وسط و آغاز میں، مثلاًامام قعدہ اولٰی بھول کر تیسری رکعت کو کھڑا ہوا سیدھا نہ ہوا تھا کہ مقتدی نے تسبیح کی امام نے بعد سلام کہاتم نے بیجا بتایاتمہاری نماز نہ ہوئی کہ قعدہ اولٰی سے کھڑے ہوکرعود کا محل نہیں تو مقتدی کہے گا آپ ابھی اٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ میں نے بتایا یعنی قیام ہنوز تمام نہ ہوا تھا۔

(۸) مسماتوں نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ بوستاں خاں کو لڑکی پہلے نہ جانتی تھی آگے بڑھ کر لکھا یا کہ اجازت دیتے وقت کہا بوستاں خاں بھائی تم کو وکیل کیا جب مدعا علیہا بوستاں خاں کو پہلے نہ جانتی تھی تو بوستاں خاں کا نام کیسے جانا کیونکہ مسماتوں نے کسی جگہ نہ لکھا، یا کہ کس نے اس کانام بتایا تھا، یہ اعتراض بھی سخت حیرت انگیز ہے۔ 

اولاً تو کسی شخص کو جاننا اس کے ساتھ شناسائی وتعارف کو کہتے ہیں اجنبی آدمی جسے کبھی نہ دیکھا ہو اس وقت اس کا نام کسی کی زبان سے سن لینے سے یہ نہ کہا جائیگا کہ ہم اسے جانتے ہیں۔

ثانیاًبالفرض کہا بھی جائے تو امجدی بیگم وسروری بیگم نے جاننے کی مطلقاً نفی کب کی وہ تو صاف کہہ رہی ہیں کہ پہلے سے نہ جانتی تھی کیا کسی کا نام معلوم کرنے کے لئے یہ بھی ضرور ہے کہ پہلے سے اسے جانے ورنہ نام معلوم نہیں ہوسکتا، عورتوں کو اس بیان کی کیاضرورت تھی کہ عصمت جہاں بیگم نے بوستاں خاں کا نام کس سے سنا، ایسے مواقع کے عام معمولی واقعات پر نظر فرمائی جاتی تو خود معلوم ہوجاتا کہ عصمت جہاں بیگم کو اس کا نام کیونکر معلوم ہوا، ذی علم مجوز نے خود فرمایا ہے کہ بوستاں خاں اجنبی شخص تھا سروری بیگم کے اظہار میں ہے کہ جو مرد اس وقت مکان میں آئے جلسے کی نصف عورتوں کا ان سے پردہ تھا امجدی بیگم نے خود اپنا بیان کیا کہ میراکوئی رشتہ بوستاں خاں سے نہیں ہمارے خاندان میں پردہ کارواج ہے ایسے جلسے میں غیر مرد ہر گز بلا اطلاع نہیں جاتے ضرور اول سے کہا گیا کہ بوستاں خاں اذن لینے کو آتے ہیں اور جب وہ آیا اور اس نے شمسن بیگم سے کہا کہ بیگم میرے سامنے کہلوادو ضرور عصمت جہاں بیگم نے معلوم کیا کہ یہی بوستاں خاں ہے پھر نام معلوم کرنے کو بعید از عقل بتانا کیونکر قرین عقل ہوا۔

ثالثاً واقعات رائجہ کو جانے دیجئے ذرا اظہارات جلال خاں وبوستاں خاں و امجدی بیگم و سروری بیگم پر 

نظر فرمائیے یہ سب بالاتفاق کہہ رہے ہیں کہ بوستاں خاں کے گھرمیں جانے سے پہلے عصمت جہاں بیگم سے بوستاں کے نام کی توکیل کرالی گئی تھی دوبارہ بوستاں خاں اپنے سامنے توکیل کرانے کو گھر میں گیا تو عصمت جہاں بیگم کو اس کے جانے سے پہلے ضرور اس کا نام معلوم ہوچکا تھا آگے جو بیباکی وبیحیائی کا اعتراض فرمایا ہے اس کا حال بعونہ تعالٰی ذکر قرائن میں آتا ہے۔
 (۹) بوستاں خاں نے اول بیان کیا ہے کہ جب میں اندر گیا تو عصمت جہاں دالان پشت پھیرے بیٹھی تھی پھر آخر قول میں لکھایا کہ جب میں گیا تو اس نے مجھ سے ایسا پردہ کیا تھا کہ میں نصف چہرہ دیکھ سکتا تھا اور اوپر کے حصے پر گھونگھٹ تھا یہ دونوں قول متناقض ہیں جب پشت بیٹھی تھی تو نصف چہرہ دکھائی دینا محالات سے ہے،

اولاً یہ محال سہی کیا پیٹھ پھیرے بیٹھنے والے کو وقت خطاب ادھر منہ کرنا بھی محال ہے بوستاں خاں نے اول بیان میں یہ کہا ہے کہ میں مکان میں گیا تو پشت پھیرے عصمت جہاں بیگم بیٹھی تھی، یہ نہیں کہا کہ اخیر تک وہ پشت ہی پھیرے بیٹھی تھی، آخر بیان میں یہ کہا ہے کہ وقت نکاح میں عصمت جہاں کو ناک کے نیچے سے دیکھا تھا نصف اوپر کی ناک پر گھونگھٹ تھا، یہ نہیں کہا کہ جس وقت میں مکان میں گیا اسی وقت عصمت جہاں کو اس طرح اپنے سامنے بیٹھا پایا پھر دونوں میں تنافی کیاہوئی، یہاں جو نقل اظہار آئی اس کے الفاظ یہ تھے اور اگر بالفرض بیان آخر میں وہی لفط ہوں کہ جب میں گیا تو اس نے مجھ سے ایسا پردہ کیا تھا کہ میں نصف چہرہ الخ جب ھی بات صریح ظاہر ہے وہ مکان میں جاتے وقت کا ابتدائی حال ہے اور یہ وقت خطاب پر دہ وحجاب کا یہاں بھی یہ نہ کہا کہ جب میں گیا تووہ ایسی بیٹھی تھی کہ میں نصف چہرہ الخ۔

ثانیاً ممکن کہ عصمت جہاں بیگم اول تاآخر پشت پھیرے ہی بیٹھی رہی ہو مگر بیان میں یہ کہیں نہیں آیا کہ وہ دیوار سے ملی بیٹھی تھی وہ وسط دالان میں ہوگی بوستاں خاں مزید وثوق کے لئے خود اندر گیا تھا کہ میرے سامنے عصمت جہاں بیگم اقرار تو کیل کرے اس نے اقرار سن لیا مگر سمجھا کہ مقرہ کی معرفت چہرہ چاہئے کہ طریق توثیق جو اس کا مقصود خاص تھا اس میں ہے لہذا وہ آگے بڑھا اور سامنے سے عصمت جہاں بیگم کو دیکھا، کیا یہ بھی محال ہے غرض مثبت اختلاف مستدل ہے اور احتمال قاطع استدلال ہے۔

(۱۰) شفیع حیدرخاں کی خاص متعلق معاملہ گواہی کو جس طرح محض بے علاقہ خیال فرمایا گیا اس کا ذکر تو بعونہ تعالٰی دیگر اعتراضات کے جواب میں آئے گا یہاں بھاری اختلاف یہ بتایا گیا ہے کہ اس کے بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ جلسے میں شریک ہی نہ تھا اس لئے کہ بوستاں خاں بعد نکاح کے تقسیم ہونا بتاشوں کا اور صاحبزادے نظام الدین خاں چھوہاروں کا اور یہ گواہ خلاف ان کے تقسیم ہونا شیرینی کا بیان کرتا ہے واقعی 

شفیع حیدر خاں سے یہ بھاری غلطی ہوئی کہ اس نے بتاشوں کو شیرینی کہا اسے کیا معلوم تھا کہ بتاشے کھٹے ہوتے ہیں،

اولاً ذی علم مجوز نے سنا ہوگا کہ حسب رسم قدیم نکاح میں چھوہارے ضرور ہوتے ہیں پھر کہیں ان کے ساتھ شکر بھی ہوتی ہے، کہیں بتاشے چھوٹے کہیں بڑے، کہیں اور قسم کی مٹھائی اور شیرینی کا لفظ ان سب کو عام ہے، یہاں اگر چھوہارے اور بتاشے تقسیم ہوئے اور ایک گواہ نے ایک شے دوسرے نے دوسری کا خاص نام تیسرے نے عام ذکر کیا، کیا گناہ ہوا!

ثانیاً بعض لوگ نکاح ختم ہوتے ہی معاً اٹھ جاتے ہیں اور خرموں کی تقسیم معاً ہوتی ہے ممکن کہ نظام الدین خاں بھی فوراً اٹھ گیا ہوا سکے سامنے خرما ہی تقسیم ہوئے تھے بعد کو بتاشے بٹے، وہ اس نے نہ دیکھے کہ انہیں بیان کرتا، بوستاں خاں شفیع حیدر خاں نے خرموں کی تقسیم کا ذکر ضروری جانا کہ وہ تو عادۃً تقسیم ہوتے ہی ہیں دوسری چیز جو تقسیم ہوئی اس کا بیان کیا اگرچہ وہ بھی محض بے ضرورت وزائد تھا۔

(۱۱) مہر میں بوستاں خاں نے قسم اشرفی نادر شاہی اور اس گواہ نے محمدشاہی بیان کی ہے حالانکہ شہادت ایک وقت اور جلسے کی ہے یہ دلیل ہے کہ گواہ مذکور شریک جلسہ نہ تھا۔

(۱۲) نیز گواہ نے تعداداشرفی کی خلاف دعوٰی مدعی کے بیان کی ہے مدعی نے اپنے بیان میں دس لکھایا ہے گواہ نے بیس، پس یہ شہادت کالعدم ہے، تمام اختلافات میں یہی دو اصل معاملہ نکاح سے کچھ متعلق ہیں کہ مہر بدل نکاح ہے مگر اگر کتب فقہ پر نظر فرمائی  جاتی تو ظاہر ہوتا کہ مہر نکاح میں مقصود نہیں وہ محض تابع و زائد ہے، یہاں تک کہ عقد نکاح میں اگر نفی مہر کی شرط کرلی جائے نکاح صحیح ہوجائے گا اور مہر مثل لازم آئے گا تو ایسی چیز جس کا سرے سے ہونا نہ ہونا ہی اصل نکاح پر کچھ اثر  نہیں ڈالتا اس کی کمی بیشی یا سکہ کے تفاوت سے کیا ضرر ہوسکتا ہے، لاجرم ہمارے امام رضی اﷲتعالٰی عنہ نے تصریح فرمائی کہ ایک گواہ ہزار روپے مہر بتائے اور دوسرا پندرہ سو، یا گواہ سو اشرفی مہر کہتے ہوں اور مدعی ڈیڑھ سو، یا مدعی ہزار دینار بتاتا ہو اور گواہ دو ہزار، سب صورتوں میں نکاح ثابت ہے، اور ان اختلافات سے گواہیوں یا دعوٰی پر کوئی برا اثر نہ پڑے گا۔

ہدایہ وکافی وتبیین الحقائق وفتاوٰی عالمگیریہ میں ہے :
واللفظ لھا فی النکاح یصح باقل المالین عند ابی حنیفۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سواء کانت الدعوی من الزوج او من المرأۃ، ویستوی فیہ دعوی اقل المالین اواکثر ھما فی الصحیح۱؎۔
الفاظ عالمگیری کے ہیں نکاح کے باب میں، امام ابوحنیفہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے ہاں دو مذکور رقموں میں سے کم رقم پر نکاح درست قرار پائیگا دعوٰی مرد کا ہویا عورت کا اس میں بڑی رقم کا  دعوٰی ہو یا کم کا ہو کوئی فرق نہیں صحیح مذہب میں۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الشہادات    الباب الثامن     نورانی کتب خانہ پشاور    ۳ /۵۰۶)

(الہدایۃ    کتاب الشہادات    باب الاختلاف فی الشہادۃ     مطبع یوسفی لکھنؤ    ۳ /۱۶۸)
جامع الفصولین میں ہے :
اختلفا فی قدر البدل لا تقبل الافی النکاح۲؎۔
کسی بدل میں گواہوں کا اختلاف ہوتو نکاح کے علاوہ کسی اور معاملہ میں قبول نہ ہوگی(ت)
 (۲؎ جامع الفصولین     الفصل الحادی عشر    اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱ /۱۶۴)
درمختار میں ہے :
شھد واحد بشراء عبداوکتابتہ علی الف وآخر بالف وخمس مائۃ ردت و صح النکاح بالف مطلقا استحسانا۳؎ (ملتقطا)
گواہوں میں سے ایک نے عبد خرید نے یا اس کی کتابت میں ہزار اور دوسرے نے ڈیڑھ ہزار کا ذکرکیا تو شہادت مردود ہوگی اور اگر نکاح میں یہ اختلاف ہوتو استحساناً ایک ہزار پر شہادت قبول ہوگی(ملتقطاً)۔(ت)
 (۳ ؎ درمختار    کتاب الشہادات     باب الاختلاف فی الشہادۃ    مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۹۹)
تبیین الحقائق پھر قرۃ العیون میں ہے :
ویستوی فیہ دعوی اقل المالین فی الصحیح لا تفاقہما فی الاصل وھو العقد فالاختلاف فی التبع لایوجب خللافیہ۴؎۔
کم مقدار میں دونوں کی گواہی متفق ہوپائیگی کیونکہ اس اصل مقدار میں دونوں متفق ہیں اور اصل سے زائد میں اختلاف خلل کا موجب نہیں ہے(ت)
(۴؎ قرۃ عیون الاخیار  کتاب الشہادات     باب الاختلاف فی الشہادۃ    مصطفی البابی مصر     ۱ /۱۶۲)
جب کتب مذہب میں روشن تصریحیں تھیں کہ مہر کے اختلافات خواہ باہم گواہوں میں ہوں خواہ گواہ مدعی میں ہوں دعوٰی نکاح اور شہادتوں سے ثبوت نکاح کو مطلقاً کچھ ضرر نہیں دیتے یہی مذہب امام ہے یہی استحسان ہے یہی صحیح ہے تو حاکم یا مفتی کو اس سے عدول کیونکر حلال ہوا۔
Flag Counter