Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
60 - 151
روایت نادرہ ابی یوسف کو مذہب امام ابی یوسف کہنا کس قدر خلاف فقاہت ہے، نہ قاضی و مفتی کو اس پر عمل کی اجازت، جامع صغیر ومبسوط امام محمد وبحرالرائق واشباہ والنظائر وزواہر الجواہر ودرمختار وفتاوی صغری وفصول عمادی وخزانۃ المفتین وجامع الفصولین وغایۃ البیان و فتاوٰی انقرویہ وردالمحتار وفتاوی خلاصہ وکافی ولسان الحکام و معین الحکام وعقود دریہ ووجیز کردری وفتاوٰی خانیہ وفتاوٰی ظہیریہ و فتاوٰی قاعدیہ وغیرہ کتب معتمدہ مذہب کی عبارات کثیرہ اوپر گزریں کہ اس روایت نادرہ کے سراسر خلاف ہیں اور انہیں پر انحصار نہیں عامہ کتب مذہب میں اس کا خلاف موجود، نوادر میں بھی یہ صرف روایت ابی یوسف ہے برخلاف امام اعظم وہمام اقدم رضی اﷲتعالٰی عنہ توجماہیر کے خلاف امام کے خلاف ظاہر الروایۃ کے خلاف دلیل کے خلاف بے تصحیح صریح وترجیح رجیح ائمہ افتاء ایک روایت شاذہ نادرہ پر فیصلہ کیونکر روا۔ ائمہ و علماء کی روشن تصریحات ہیں کہ جو کچھ ظاہر الروایۃ سے خارج ہے ہمارے ائمہ کا مذہب نہیں وہ مرجوع عنہ ہے، قول مرجوح پر افتاوقضا جہل وخرق اجماع ہے نہ کہ مرجوع عنہ کہ سرے سے قول ہی نہ رہا، لاجرم ایسے فیصلے کو منسوخ کردینے کا حکم فرمایا،

 ردالمحتار میں ہے :
قدصرحوابان العمل بما علیہ الاکثر۲؎۔
فقہاء نے تصریح فرمائی ہے کہ اکثریت کے قول پر عمل ہوگا(ت)
(۲؎ ردالمحتار   فصل فی البئر     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱/ ۱۵۱)
بحرالرائق میں ہے :
یجب علینا الافتاء بقول الامام ۳؎۔
  ہم پر امام اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے قول پر فتوٰی ضروری ہے۔(ت)
 (۳؎ بحرالرائق     کتاب القضاء     فصل فی التقلید    ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی    ۲/ ۷۰۔ ۲۶۹)
خیریہ میں ہے :
المقرر ایضا عندنا انہ لایفتی ولایعمل الابقول الامام الاعظم اھ ۱؎۔
ہمارے ہاں یہ بھی مسلم ہے کہ فتوٰی اور عمل صرف امام اعظم رضی اﷲ تعالٰی کے قول پر ہوگا اھ (ت)
 (۱؎ فتاوٰی خیریہ    کتاب الشہادات    دارالفکربیروت    ۲ /۳۳)
ردالمحتار میں ہے :
ماخٰالف ظاہرالروایۃ لیس مذہبا لاصحابنا۲؎۔
جو ظاہرروایت کے خلاف ہو وہ ہمارے اصحاب کا مذہب نہیں ہے(ت)
(۲؎ ردالمحتار         کتاب احیاء الموات    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵ /۲۷۸)
بحرالرائق میں ہے :
ماخرج عن ظاہر الروایۃ فھو مرجوع عنہ والمرجوع عنہ لم یبق قولالہ۳؎۔
جو قول ظاہر روایت سے خارج ہو وہ مرجوع عنہ ہوتا ہے اور جو مرجوع عنہ ہو وہ امام صاحب کا قول نہیں رہتا۔(ت)
 (۳؎ بحرالرائق    کتاب القضاء    فصل فی التقلید    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ۶ /۲۷۰)
تصحیح القدوری ودرمختار میں ہے :
الحکم والفتیابالقول المرجوح جھل وخرق للاجماع۴؎۔
فتوٰی اور حکم مرجوح قول پر جہالت اور اجماع کے خلاف ہے۔(ت)
 (۴؎ درمختار    مقدمۃ الکتاب     مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۱۵)
حواشی ثلثہ سادات ثلثہ ابراہیم حلبی واحمد مصری ومحمد شامی میں ہے:
اولی من ھذابالبطلان الافتاء بخلاف ظاہرالروایۃ اذالم یصحح والافتاء بالقول المرجوع عنہ۵؎۔
ظاہرروایت جس کی تصحیح نہ ہوئی ہو کے خلاف فتوی دینااور مرجوع عنہ پر فتوٰی دینا اس سے بھی زیادہ باطل ہے(ت)
(۵؎ ردالمحتار     خطبۃ الکتاب        داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱ /۵۱)
تنویر وشرح علائی میں ہے :
لایخیر الااذاکان مجتہدا، بل المقلد (لایخیر اذالم یکن مجتہدا کذافی بعض النسخ) متی خالف معتمد مذہبہ لاینفذ حکمہ وینقض ھوا لمختار للفتوٰی۱؎۔
خیار نہیں ہوگا مگر جبکہ وہ مجتہد ہو بلکہ قاضی مقلد بھی جب اپنے قابل اعتماد مذہب کے خلاف کرے تو جائز نہیں اس کا حکم نافذ نہ ہوگا اور کالعدم قرار پائے گا،یہی فتوٰی کےلئے مختار ہے۔(ت)
 (۱؎ درمختار    کتاب القضاء    مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۷۲)
ردالمحتار میں ہے :
القاضی مامور بالحکم باصح اقوال الامام فاذاحکم بغیرہ لم یصح۲؎۔
قاضی، امام صاحب کے اصح اقوال پر حکم کاپابند ہے اگر غیراصح پر حکم دیا تو صحیح نہ ہوگا۔(ت)
 (۲؎ ردالمحتار     کتاب القضاء    فصل فی الحبس    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴ /۳۴۶)
 (۴) تفصیلی اختلافات کی طرف چلئے، جلال خاں کے بیان سے اس کا وقت آنے بوستاں خاں کے کھڑا ہونا بیرونی دروازہ میں پہلے سے اور مسماتوں کے بیان سے جلال خاں وکالے خاں کا ان کے پیچھے پیچھے آنا ثابت ہے یہاں اظہاروں کی عبارات پر قدرے بے غوری واقع ہوئی، جلال خاں کا بیان یہ ہے جب بوستاں خاں اندر مکان کے چبوترے پر گئے ہیں تو میں دروازہ اندرونی میں مکان کے اندر کھڑاتھا مجھ میں اور بوستاں خاں میں تخمیناً فاصلہ ۴ گز کا تھا اور امجدی بیگم سروری بیگم کہتی ہیں پھر محمد رضا خاں اور بوستاں خاں گھر میں آئے اور پیچھے پیچھے کالے خاں و جلال خاں بھی آئے، عورتیں ان گواہوں کے گھر میں آتے وقت کا حال بیان کرتی ہیں کہ آگے آگے بوستاں خاں اور پیچھے پیچھے جلال خاں گھر میں آئے اور جلال خاں گھر میں داخل ہونے کے بعد اس وقت کا حال کہتا ہے جب بوستاں اندر مکان کے چبوترے پر گیا تھا، ان میں کیا اختلاف ہوا بوستاں خاں اور اس کے پیچھے جلال خاں گھر میں آئے جلال خاں دروازہ اندرونی پر رک رہا بوستاں خاں چبوترہ پر گیادونوں بیان صادق ہیں،ذی علم مجوز کی نظر نے اس لفظ میں لغزش فرمائی ہے کہ جلال خاں کے بیان سے وقت آنے بوستاں خاں کے، حالانکہ اس کا یہ بیان مکان کے اندر چبوترہ پر بوستاں خاں کے جانے کے وقت کا ہے، کہاں بوستاں خاں کا مکان میں آنا اور کہاں اس کا اندرونی مکان چبوترہ پر جانا۔

(۵) جلال خاں نے بیان کیا میں نے اس عورت سے دریافت کیا کہ تم کیا کہتی ہو تو اس نے کہا کہ میں نے اپنے نفس کا اختیار حسن رضاخاں کے ساتھ نکاح پڑھوانے کے لئے بوستاں خاں کو دیا، مسماتان مذکور دریافت کرنا جلال خاں کا عصمت جہاں بیگم سے، بیان نہیں کرتیں، سروری بیگم و امجدی بیگم نے اگر عصمت جہاں بیگم سے جلال خاں کا دریافت کرنا بیان نہ کیا تو یہ بھی تو نہ کہا کہ جلال خاں نے دریافت نہ کیا، بے اس کے پوچھے خود ہی عصمت جہاں بیگم نے بتایا تھا، پھر یہ اختلاف کیا ہوا کیا عدم ذکرذکر عدم ہوتا ہے، بھلا یہ تو لغو وفضول بات ہے خاص متعلق اصل معاملہ میں تصریح علماء ہے کہ شاہدین میں جب ایک ایک بات بیان کرے دوسرا نہ بیان کرے تو جتنی بات میں دونوں متفق ہیں شہادت مقبول ہوگی اور جتنی بات صرف ایک کے بیان میں ہے وہ بوجہ عدم نصاب شہادت ثابت نہ ہوگی مثلاً زید و عمرو نے گواہی دی کہ بکر نے خالد کو وکیل کیا زید نے اپنی شہادت میں اتنا اور بڑھایا کہ پھر معزول کردیا عمرو نے عزل کا ذکر نہ کیا تو وکالت ثابت ہوجائے گی اور معزولی ثابت نہ ہوگی، 

فصول عمادیہ وفتاوٰی عالمگیریہ وغیرہما میں ہے:
لو شھدابالوکالۃ وزاد احد ھما انہ عزلہ جازت شھادتھما علی الوکالۃ ولم تجز علی العزل۱؎۔
اگر گواہوں نے وکالت کی گواہی دی اور ایک نے یہ بات زائد کہی کہ وہ معزول ہوچکا ہے تو نفس وکالت پر دونوں کی شہادت مقبول ہوگی، معزول کی زائد بات معتبر نہ ہوگی۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ     بحوالہ الفصول العمادیۃ    کتاب الشہادات     الباب الثامن     نورانی کتب خانہ پشاور    ۳ /۵۰۷)
Flag Counter