مسئلہ۷: ازبیلپور مرسلہ قاضی فراست علی صاحب ۲۳/جمادی الاولٰی ۱۳۱۴ھ
مسماۃ کا بیان ہے کہ میرے نکاح کو تخمیناً اٹھارہ برس ہوئے مسمی عبدالرحیم کے ساتھ ہوا، عرصہ دو ڈھائی ماہ کا ہوا کہ میرے خاوند نے یہ دو مرتبہ کہا کہ تجھ کو طلاق ہے کہ جو تو اس بات کوصحیح نہ کرادے بعد اس کے چند شخصوں نے طرفین کو سمجھا کر جھگڑا دور کرادیا پھر دوبارہ کہ عرصہ بارہ روز کاہوا صندوق مجھ سے میرے خاوند نے مانگا میں نے ان کو منع کیا وہ صندوق مجھ سے لیتے تھے اور میں نہیں دیتی تھی میرے شوہر نے یہ لفظ کہا کہ تجھ کو طلاق جو تو کچھ کر نہ گزارے، پھر مجھ سے کہا کہ تجھ کو طلاق ہے تجھ کو طلاق ہے تجھ کو طلاق ہے، اس وقت میاں محمد امین اور میری والدہ موجود تھیں اور زوجہ حسین بخش کہ میرے اور ان کے درمیان میں ایک دیوار ہے اس پرکھڑی ہوئی تھیں سوائے اسکے اور کوئی موجود نہ تھا محمد امین میرے ماموں کا لڑکا ہے اور یہ جھگڑا میری والدہ کے مکان میں ہوا فقط۔
بیان مسمی عبدالرحیم شوہر مسماۃ کا یہ ہے کہ میرے نکاح کو عرصہ تخمیناً سترہ اٹھارہ برس کاہوا، دس گیارہ ماہ سے میں اپنی خسرال میں ہوں میری خوشدامن نے کئی مرتبہ کہا کہ تم علیحدہ چلے جاؤ، پھر عرصہ بارہ روز کا ہوا میں نے کہا کہ میری چیز بست نکال کر باہر رکھ دو، میں نے صدوق کوہاتھ لگایا تو ساس ہماری بولی کہ تجھ کو صندوق سے کیا تعلق ہے وہ تو اس کے باپ نے اس کو دیاہے میرے کوئی نہیں ہے جو تمہارا مقابلہ کرے اتنے میں محمد امین دوڑ آیا اس نے کہا ہٹ جاؤ صندوق کو مت چھوؤ اچھا نہیں ہے تمہارے لئے میں نے کہا کہ کیا تم مجھے ماروگے تو کہا پٹ کر ذلیل ہوکر یہاں سے جاؤگے، پھر میں نے گھر میں اپنے کہا کہ تو ہٹ جا، ماں ان کی بولی تو ہٹ جا تیرے چوٹ نہ لگ جائے، وہ ہٹ گئی اور چار پائی پر علیحدہ جا بیٹھی، پھر میں نے امین سے کہا کہ کھایا پیا تم کو حرام ہے اور طلاق ہے کہ جو تم اب مجھ کو نہ مارو، امین نے کہا کہ یہی بات ہے، پھر میں نے کہا یہی بات ہے کہ تجھ کو کھایا پیاحرام ہے اور طلاق کہ تم مجھ کو نہ مارو، چچی سے میں نے کہا کہ اب جو کچھ تم کو کرانا ہے کرواؤ، پھر انھوں نے کہا کہ ان کے بہنوئی قادر بخش کو اور بھائی محمد بخش کو اور بھائی محمد ظہور کو بلاوانہوں نے طلاق دی ہے میں کھڑا رہا اتنے میں کلن اپنے گھر میں سے آئے انہوں نے کہا کہ میں نے بھی سنا ہے یہاں تک آواز آرہا تھا کہ تم نے طلاق دی پھر میں نے کہا کہ اور کوئی الزام پکڑو کہ میں کھڑا ہوا ہوں لوگوں کو آنے دو، پھر میں نے کہا کہ کس کے سامنے طلاق دی مقابلہ میرا اور تمہارا اور چچی کا ہو رہا تھا یہ طوفان باندھنا اچھا نہیں ہے، اتنے میں قادر بخش پہلے آئے انہوں نے مجھ سے کہا کہ کیا واہیات مچائی ہے، میں نے کہاکچھ واہیات نہیں میں اپنی چیز علیحدہ کررہا تھا، امین میرے مقابلہ کو آیا تو میں اس سے یہ لفظ کہہ رہا تھا انہوں نے اس کا طومار باندھا ہے اور لڑائی کے وقت حبوبہشتی دروازہ پرکھڑے تھے اور حسین بخش مجھ کوبلانے کو گئے تھے اور حبو بھی بلاتے رہے میں نے اس کے جواب میں یہ کہا کہ میری کوئی لڑائی اور جھگڑا نہیں ہے آتاہوں کلن مجھ سے عداوت رکھتے ہیں اس کو چار آدمیوں سے دریافت کر لو فقط۔
بیان والدہ مسماۃ کایہ ہے کہ میں اپنا کام کرتی تھی دونوں میاں بی بی میں صندوق پر جھگڑا ہورہا تھا اس کے شوہر نے کہا کہ تجھ کو طلاق جوتو کچھ کر نگزار ے، بعد اس کے اسی وقت تین مرتبہ یہ کہاکہ تجھے طلاق ہے تجھے طلاق ہے تجھے طلاق ہے، اس وقت یہاں محمد امین موجود تھا اور حسین بخش کی زوجہ کومیں نے دیوار پر کھڑے ہوئے نہیں دیکھا وہ کہتی تھی کہ میں دیوار پر کھڑی تھی اور میرے بھائی کلن کی زوجہ ایک لفظ سن کر آئیں فقط طلاق کا۔
بیان زوجہ حسین بخش کایہ ہے کہ ان کے گھر میں دونوں میں بہت دیر سے رنج ہورہا تھا مجھ کو یہ نہیں معلوم کہ کس بات پرہورہا تھا میں اس وقت دیوار پر کھڑی تھی صندوق دونوں کے ہاتھ میں تھا زوجہ یہ کہتی کہ صندوق نہ لے جاؤ یہیں کیونکر کھول کر دیکھ لو، اور خاوند اس کا یہ کہتا تھا کہ میں صندوق لیجاؤں گا، اسی پر اس کے خاوند نے کہا کہ میں نے طلاق دی میں نے طلاق دی میں نے طلاق دی، اور اس وقت محمد امین اور والدہ مسماۃ کی موجودتھی فقط بقلم محمدیعقوب علی۔
العبد قاضی فراست علی بقلم خود یہ بیان کیا اور دوبارہ پوچھا گیا تولفظ "میں" کی جگہ "تجھ" کو بیان کیا، میں نے زوجہ حسین بخش کو اول ہی مرتبہ جب سوال کیا کہ بیان کرو تو بجواب اس کے کہاکہ میں نے سنا اور یہ کہا کہ میں کم سنتی ہوں بقلم خود قاضی محمدفراست علی بقلم محمد یعقوب علی، تحریر تاریخ۷/ماہ جمادی الاولٰی ۱۳۱۴ھ
بیان محمد امین کا یہ ہے کہ عرصہ آٹھ روز کا ہواکہ دونوں میں لڑائی ہونے لگی میں نے جاکر ان سے کہا آہستگی سے بات کرو جو تم کہو میں دلوادوں بعد اسکے صندوق پر چھینا جھپٹی ہونے لگی انہوں نے مارا اس کی ناک میں سے خون نکلا تو صندوق انکو دیدیا گیا پھر لوٹ پھیر ہونے لگی اسی صندوق پر انہوں نے یہ کہا کہ جو کچھ کر نہ گزارے تجھ کو طلاق ہے ایک زبان میں تین دفعہ کہا تجھ کو طلاق ہے ایک زبان میں تین دفعہ کہا تجھ کو طلاق ہے اس کے بعد میرے والد آگئے ان سے کہا کہ باہر جاؤ، وہاں پر میں تھا اور جو اس وقت کوئی موجود نہ تھا میری پھوپھی تھی اور پھوپھی کی لڑکی تھی فقط۔
بیان کلن پڑوسی کا یہ ہے کہ عرصہ آٹھ روز کا ہوا کہ میں باہر سے اپنے گھر میں سنا کہ شوروغوغا بہت سے مچا ہوا تھا میرے گھر میں ذکرکیا کہ آج عبدالرحیم نے اپنے گھر میں بہت مارا میں نے کہا اس سے مجھے کیا ہے میں روٹی کھانے کو بیٹھ گیا صندوق کے لئے دونوں میں کھینچاتانی ہورہی تھی میں نے اپنے گھر میں سنا کہ تجھے طلاق ہے کر نہ گزارے بعد کو تین مرتبہ کہا تجھے طلاق تجھے طلاق تجھے طلاق بعد کو میں گیا میں نے کہا کہ اب نکلو باہر ہو، انہوں نے کہا کہ مجھے مارو گے، میں نے کہا کہ مجھے کیا مطلب ہے۔
بیان محمد بخش میرے مکان پر امین گئے اور کہا کہ پھوپھی نے تجھ کو بلایاہے کہ عبدالرحیم نے اپنے گھر میں طلاق دی دریافت کیا آن کرکے تو زبانی محمدامین کے اور ان کی والدہ یعنی مسماۃ کے، اور مسماۃ سے معلوم ہو ا کہ طلاق د ی اور کسی کی زبانی نہیں معلوم ہوا۔
بیان ظہورالدین میرے پاس پہلے پہلے واسطے بلانے کے امین آئے دوبارہ حسین بخش بلانے کو آئے بعد کو پھر امین آئے اور بیان کیا کہ وہاں سب لوگ جمع ہیں میں گیا تو یہ سب لوگ وہاں موجود تھے وہ دونوں ماں بیٹے مجھے کچھ کہنے لگے لیکن میں نے ان کوجھڑک دیا ان کا حال کچھ سنانہیں یہ کہہ دیا کہ جو کچھ ہوا وہ ہوا دوچار روز میں اورمکان لے کر جارہیں گے لیکن یہ لوگ جو اول میں مجھ کو بلانے آئے تھے انہوں نے مجھ سے کہا کہ طلاق دی ہے۔
بیان قادر بخش میں مسماۃ کے مکان پر گیا تو وہاں پر محمد امین نے اورعبدالرحیم کی خوشدامن نے کہا کہ عبدالرحیم نے طلاق د ے دی میں وہاں خاموش بیٹھا رہا جس وقت کہ بھائی محمد بخش وظہورالدین آئے تو انہوں نے کہا طلاق کاقصہ اچھانہیں ہے تم اپنا کنارہ کرلو اور عرصہ چہار روز میں مکان لے لو یہاں سے سب چیز خوشی بخوشی اٹھالو۔
بیان شیخ ننھے یہ سب صاحب بیٹھے تھے محمد بخش وقادر بخش وظہور الدین ان کے بھائی صاحب محمد بخش کہہ رہے تھے کہ اپنا مکان لے لو اور اپنی چیز بست نکال کر لے جاؤ۔
بیان حسین بخش گواہ عبدالرحیم میں یہاں شیخ ظہور الدین کے مکان میں کام کررہا تھا حبو بہشتی نے مجھے آن کر کہا کہ عبدالرحیم نے اپنے گھرمیں مارا ہے تم جاکر بچادو، میں گیا کہا بھائی!یہاں آؤ بات سن جاؤ، یہ نہیں آئے میں لوٹ آیا، اس کے تھوڑی دیر میں نے یہ سنا کہ عبدالرحیم نے طلاق دی، میں نے طلاق کا لفظ اپنے بڑے لڑکے سے سنا اور راستہ میں امین مجھ کو ملے کہا بھائی شیخ ظہور الدین کو بلانے جاتا ہوں عبدالرحیم نے اپنے گھرمیں طلاق دی ہے۔
بیان حبو بہشتی عبدالرحیم میں اور گھر میں لڑائی ہوتی تھی میں عبدالرحیم کو بلاتا رہا کہ عورتوں سے کیا لڑائی لڑتے ہو عبدالرحیم میرے بلانے سے نہیں آئے اور نہ میں نے کوئی لفظ طلاق کا سنا فقط۔
یہ بیانات میرے رو برو تحریرہوئے العبد قاضی فراست علی بقلم خود
بعد سلان مسنون التماس ہے کاغذ ہذا واسطے طلب فتوٰی کے ارسال خدمت ہوتا ہے تصدیع خدمت ہے کہ کل مراتب مندرجہ بالا ملاحظہ فرماکر فتوٰی طلاق خواہ عدم طلاق کا تحریر فرماکر ابلاغ فرمائیے،عنداﷲ ماجور وعندالناس مشکور ہوں گے فقط۔ راقم قاضی محمد فراست علی از بیلپور