Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
6 - 151
مسئلہ۷: ازبیلپور مرسلہ قاضی فراست علی صاحب    ۲۳/جمادی الاولٰی ۱۳۱۴ھ

مسماۃ کا بیان ہے کہ میرے نکاح کو تخمیناً اٹھارہ برس ہوئے مسمی عبدالرحیم کے ساتھ ہوا، عرصہ دو ڈھائی ماہ کا ہوا کہ میرے خاوند نے یہ دو مرتبہ کہا کہ تجھ کو طلاق ہے کہ جو تو اس بات کوصحیح نہ کرادے بعد اس کے چند شخصوں نے طرفین کو سمجھا کر جھگڑا دور کرادیا پھر دوبارہ کہ عرصہ بارہ روز کاہوا صندوق مجھ سے میرے خاوند نے مانگا میں نے ان کو منع کیا وہ صندوق مجھ سے لیتے تھے اور میں نہیں دیتی تھی میرے شوہر نے یہ لفظ کہا کہ تجھ کو طلاق جو تو کچھ کر نہ گزارے، پھر مجھ سے کہا کہ تجھ کو طلاق ہے تجھ کو طلاق ہے تجھ کو طلاق ہے، اس وقت میاں محمد امین اور میری والدہ موجود تھیں اور زوجہ حسین بخش کہ میرے اور ان کے درمیان میں ایک دیوار ہے اس پرکھڑی ہوئی تھیں سوائے اسکے اور کوئی موجود نہ تھا محمد امین میرے ماموں کا لڑکا ہے اور یہ جھگڑا میری والدہ کے مکان میں ہوا فقط۔

بیان مسمی عبدالرحیم شوہر مسماۃ کا یہ ہے کہ میرے نکاح کو عرصہ تخمیناً سترہ اٹھارہ برس کاہوا، دس گیارہ ماہ سے میں اپنی خسرال میں ہوں میری خوشدامن نے کئی مرتبہ کہا کہ تم علیحدہ چلے جاؤ، پھر عرصہ بارہ روز کا ہوا میں نے کہا کہ میری چیز بست نکال کر باہر رکھ دو، میں نے صدوق کوہاتھ لگایا تو ساس ہماری بولی کہ تجھ کو صندوق سے کیا تعلق ہے وہ تو اس کے باپ نے اس کو دیاہے میرے کوئی نہیں ہے جو تمہارا مقابلہ کرے اتنے میں محمد امین دوڑ آیا اس نے کہا ہٹ جاؤ صندوق کو مت چھوؤ اچھا نہیں ہے تمہارے لئے میں نے کہا کہ کیا تم مجھے ماروگے تو کہا پٹ کر ذلیل ہوکر یہاں سے جاؤگے، پھر میں نے گھر میں اپنے کہا کہ تو ہٹ جا، ماں ان کی بولی تو ہٹ جا تیرے چوٹ نہ لگ جائے، وہ ہٹ گئی اور چار پائی پر علیحدہ جا بیٹھی، پھر میں نے امین سے کہا کہ کھایا پیا تم کو حرام ہے اور طلاق ہے کہ جو تم اب مجھ کو نہ مارو، امین نے کہا کہ یہی بات ہے، پھر میں نے کہا یہی بات ہے کہ تجھ کو کھایا  پیاحرام ہے اور طلاق کہ تم مجھ کو نہ مارو، چچی سے میں نے کہا کہ اب جو کچھ تم کو کرانا ہے کرواؤ، پھر انھوں نے کہا کہ ان کے بہنوئی قادر بخش کو اور بھائی محمد بخش کو اور بھائی محمد ظہور کو بلاوانہوں نے طلاق دی ہے میں کھڑا رہا اتنے میں کلن اپنے گھر میں سے آئے انہوں نے کہا کہ میں نے بھی سنا ہے یہاں تک آواز آرہا تھا کہ تم نے طلاق دی پھر میں نے کہا کہ اور کوئی الزام پکڑو کہ میں کھڑا ہوا ہوں لوگوں کو آنے دو، پھر میں نے کہا کہ کس کے سامنے طلاق دی مقابلہ میرا اور تمہارا اور چچی کا ہو رہا تھا یہ طوفان باندھنا اچھا نہیں ہے، اتنے میں قادر بخش پہلے آئے انہوں نے مجھ سے کہا کہ کیا واہیات مچائی ہے، میں نے کہاکچھ واہیات نہیں میں اپنی چیز علیحدہ کررہا تھا، امین میرے مقابلہ کو آیا تو میں اس سے یہ لفظ کہہ رہا تھا انہوں نے اس کا طومار باندھا ہے اور لڑائی کے وقت حبوبہشتی دروازہ پرکھڑے تھے اور حسین بخش مجھ کوبلانے کو گئے تھے اور حبو بھی بلاتے رہے میں نے اس کے جواب میں یہ کہا کہ میری کوئی لڑائی اور جھگڑا نہیں  ہے آتاہوں کلن مجھ سے عداوت رکھتے ہیں اس کو چار آدمیوں سے دریافت کر لو فقط۔

بیان والدہ مسماۃ کایہ ہے کہ میں اپنا کام کرتی تھی دونوں میاں بی بی میں صندوق پر جھگڑا ہورہا تھا اس کے شوہر نے کہا کہ تجھ کو طلاق جوتو کچھ کر نگزار ے، بعد اس کے اسی وقت تین مرتبہ یہ کہاکہ تجھے طلاق ہے تجھے طلاق ہے تجھے طلاق ہے، اس وقت یہاں محمد امین موجود تھا اور حسین بخش کی زوجہ کومیں نے دیوار پر کھڑے ہوئے نہیں دیکھا وہ کہتی تھی کہ میں دیوار پر کھڑی تھی اور میرے بھائی کلن کی زوجہ ایک لفظ سن کر آئیں فقط طلاق کا۔

بیان زوجہ حسین بخش کایہ ہے کہ ان کے گھر میں دونوں میں بہت دیر سے رنج ہورہا تھا مجھ کو یہ نہیں معلوم کہ کس بات پرہورہا تھا میں اس وقت دیوار پر کھڑی تھی صندوق دونوں کے ہاتھ میں تھا زوجہ یہ کہتی کہ صندوق نہ لے جاؤ یہیں کیونکر کھول کر دیکھ لو، اور خاوند اس کا یہ کہتا تھا کہ میں صندوق لیجاؤں گا، اسی پر اس کے خاوند نے کہا کہ میں نے طلاق دی میں نے طلاق دی میں نے طلاق دی، اور اس وقت محمد امین اور والدہ مسماۃ کی موجودتھی فقط بقلم محمدیعقوب علی۔

العبد قاضی فراست علی بقلم خود یہ بیان کیا اور دوبارہ پوچھا گیا تولفظ "میں" کی جگہ "تجھ" کو بیان کیا، میں نے زوجہ حسین بخش کو اول ہی مرتبہ جب سوال کیا کہ بیان کرو تو بجواب اس کے کہاکہ میں نے سنا اور یہ کہا کہ میں کم سنتی ہوں بقلم خود قاضی محمدفراست علی بقلم محمد یعقوب علی، تحریر تاریخ۷/ماہ جمادی الاولٰی ۱۳۱۴ھ

بیان محمد امین کا یہ ہے کہ عرصہ آٹھ روز کا ہواکہ دونوں میں لڑائی ہونے لگی میں نے جاکر ان سے کہا آہستگی سے بات کرو جو تم کہو میں دلوادوں بعد اسکے صندوق پر چھینا جھپٹی ہونے لگی انہوں نے مارا اس کی ناک میں سے خون نکلا تو صندوق انکو دیدیا گیا پھر لوٹ پھیر ہونے لگی اسی صندوق پر انہوں نے یہ کہا کہ جو کچھ کر نہ گزارے تجھ کو طلاق ہے ایک زبان میں تین دفعہ کہا تجھ کو طلاق ہے ایک زبان میں تین دفعہ کہا تجھ کو طلاق ہے اس کے بعد میرے والد آگئے ان سے کہا کہ باہر جاؤ، وہاں پر میں تھا اور جو اس وقت کوئی موجود نہ تھا میری پھوپھی تھی اور پھوپھی کی لڑکی تھی فقط۔

بیان کلن پڑوسی کا یہ ہے کہ عرصہ آٹھ روز کا ہوا کہ میں باہر سے اپنے گھر میں سنا کہ شوروغوغا بہت سے مچا ہوا تھا میرے گھر میں ذکرکیا کہ آج عبدالرحیم نے اپنے گھر میں بہت مارا میں نے کہا اس سے مجھے کیا ہے میں روٹی کھانے کو بیٹھ گیا صندوق کے لئے دونوں میں کھینچاتانی ہورہی تھی میں نے اپنے گھر میں سنا کہ تجھے طلاق ہے کر نہ گزارے بعد کو تین مرتبہ کہا تجھے طلاق تجھے طلاق تجھے طلاق بعد کو میں گیا میں نے کہا کہ اب نکلو باہر ہو، انہوں نے کہا کہ مجھے مارو گے، میں نے کہا کہ مجھے کیا مطلب ہے۔

بیان محمد بخش میرے مکان پر امین گئے اور کہا کہ پھوپھی نے تجھ کو بلایاہے کہ عبدالرحیم نے اپنے گھر میں طلاق دی دریافت کیا آن کرکے تو زبانی محمدامین کے اور ان کی والدہ یعنی مسماۃ کے، اور مسماۃ سے معلوم ہو ا کہ طلاق د ی اور کسی کی زبانی نہیں معلوم ہوا۔

بیان ظہورالدین میرے پاس پہلے پہلے واسطے بلانے کے امین آئے دوبارہ حسین بخش بلانے کو آئے بعد کو پھر امین آئے اور بیان کیا کہ وہاں سب لوگ جمع ہیں میں گیا تو یہ سب لوگ وہاں موجود تھے وہ دونوں ماں بیٹے مجھے کچھ کہنے لگے لیکن میں نے ان کوجھڑک دیا ان کا حال کچھ سنانہیں یہ کہہ دیا کہ جو کچھ ہوا وہ ہوا دوچار روز میں اورمکان لے کر جارہیں گے لیکن یہ لوگ جو اول میں مجھ کو بلانے آئے تھے انہوں نے مجھ سے کہا کہ طلاق دی ہے۔

بیان قادر بخش میں مسماۃ کے مکان پر گیا تو وہاں پر محمد امین نے اورعبدالرحیم کی خوشدامن نے کہا کہ عبدالرحیم نے طلاق د ے دی میں وہاں خاموش بیٹھا رہا جس وقت کہ بھائی محمد بخش وظہورالدین آئے تو انہوں نے کہا طلاق کاقصہ اچھانہیں ہے تم اپنا کنارہ کرلو اور عرصہ چہار روز میں مکان لے لو یہاں سے سب چیز خوشی بخوشی اٹھالو۔

بیان شیخ ننھے یہ سب صاحب بیٹھے تھے محمد بخش وقادر بخش وظہور الدین ان کے بھائی صاحب محمد بخش کہہ رہے تھے کہ اپنا مکان لے لو اور اپنی چیز بست نکال کر لے جاؤ۔

بیان حسین بخش گواہ عبدالرحیم میں یہاں شیخ ظہور الدین کے مکان میں کام کررہا تھا حبو  بہشتی نے مجھے آن کر کہا کہ عبدالرحیم نے اپنے گھرمیں مارا ہے تم جاکر بچادو، میں گیا کہا بھائی!یہاں آؤ بات سن جاؤ، یہ نہیں آئے میں لوٹ آیا، اس کے تھوڑی دیر میں نے یہ سنا کہ عبدالرحیم نے طلاق دی، میں نے طلاق کا لفظ اپنے بڑے لڑکے سے سنا اور راستہ میں امین مجھ کو ملے کہا بھائی شیخ ظہور الدین کو بلانے جاتا ہوں عبدالرحیم نے اپنے گھرمیں طلاق دی ہے۔

بیان حبو بہشتی عبدالرحیم میں اور گھر میں لڑائی ہوتی تھی میں عبدالرحیم کو بلاتا رہا کہ عورتوں سے کیا لڑائی لڑتے ہو عبدالرحیم میرے بلانے سے نہیں آئے اور نہ میں نے کوئی لفظ طلاق کا سنا فقط۔

یہ بیانات میرے رو برو تحریرہوئے العبد قاضی فراست علی بقلم خود

بعد سلان مسنون التماس ہے کاغذ ہذا واسطے طلب فتوٰی کے ارسال خدمت ہوتا ہے تصدیع خدمت ہے کہ کل مراتب مندرجہ بالا ملاحظہ فرماکر فتوٰی طلاق خواہ عدم طلاق کا تحریر فرماکر ابلاغ فرمائیے،عنداﷲ ماجور وعندالناس مشکور ہوں گے فقط۔     راقم قاضی محمد فراست علی از بیلپور
الجواب :  صورت مستفسرہ میں گواہیاں محض ناکافی ہیں ان سے طلاق ہر گز ثابت نہیں ہوسکتی ننھے وحبو کے بیان میں تو طلاق سننے کا ذکر ہی نہیں اور محمد بخش وظہور الدین وقادر بخش وحسین بخش اوروں کی زبانی سننا بیان کرتے ہیں اور طلاق ان چیزوں سے نہیں جن میں سنی سنائی پر گواہی مقبول ہوسکے۔ 

درمختارمیں ہے:
لایشھد احدبمالم یعاینہ بالاجماع الا فی اعشرۃ منہا العتق والولاء عند الثانی والمھر علی الاصح والنسب والموت والنکاح والدخول وولایۃ القاضی واصل الوقف، وقیل وشرائطہ علی المختار کمامر، فلہ الشہادۃ اذااخبرہ بھذہ الاشیاء من یثق الشاہد بہ من خبر جماعۃ لایتصور تواطؤھم علی الکذب بلا شرط عدالۃ او شہادۃ عدلین الافی الموت فیکفی العدل ولو انثی وھو المختار، ومن فی یدہ شیئ سوی رقیق یعبر عن نفسہ فلک ان تشھد انہ لہ ان وقع فی قلبک انہ ملکہ والا لا۱؎(ملتقطا)۔
اور بغیر معائنہ کے کوئی شخص بالاجماع گواہی نہیں دے سکتا سوائے ان چیزوں کے عتق، امام ابویوسف کے نزدیک ولاء، اصح قول کے مطابق مہر، نسب، موت، نکاح، دخول، ولایت قاضی، اصل وقف اور کہا گیا کہ قول مختار کے مطابق شرائط وقف جیسا کہ گزرچکا ہے، توان دس اشیاء مذکورہ کی گواہی سن کردینا بھی جائزہے جبکہ شاہد کو ایساشخص خبر دے جس پر شاہد اعتماد کرتا ہو، یعنی ایسی جماعت کی خبر سے شاہد کو تسامع حاصل ہو جس جماعت کا جھوٹ پر متفق ہونا متصور نہیں یہاں مخبرین کی عدالت شرط نہیں، یا دو عادل مردوں کی شہادت سے سوائے موت کے اس میں ایک ہی عادل کی خبر کافی ہے اگرچہ خبر دینے والی عورت ہو اور یہی مختار ہے اور جس شخص کے قبضہ میں کوئی شیئ ہو سوائے اپناحال بیان کرسکنے والے غلام کے تو تجھے اختیار ہے کہ تو قابض کے لئے اس مقبوض شیئ کی ملکیت کی گواہی دے بشرطیکہ تیرے دل میں یہ بات واقع ہو کہ یہ قابض کی ملک ہے ورنہ نہیں(ملتقطاً)۔(ت)
(۱؎ درمختار    کتاب الشہادات    مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۹۲)
اور والدہ مسماۃ کی گواہی یوں مردود ہے کہ وہ مدعیہ کی ماں ہے اور ماں باپ، دادادادی، نانانانی کی گواہی بیٹے بیٹی، پوتے پوتی، نواسے نواسی کے لئے اور ان کی ان کے لئے مقبول نہیں۔ 

درمختار میں ہے:
لا تقبل من الفرع لاصلہ وان علاوبالعکس للتھمۃ۱؎(ملخصاً)
تہمت کی وجہ سے فرع کی گواہی اصل کے حق میں مقبول نہیں اگرچہ اصول اوپر تک چلے جائیں اور یونہی اس کے برعکس(یعنی اصل کی گواہی فرع کے حق میں قبول نہ ہوگی)(ملخصاً)۔(ت)
 (۱ ؎ درمختار    کتاب الشہادات     باب القبول وعدمہ     مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۹۴)
کلن کی گواہی یوں مردود ہے کہ وہ صاف کہہ رہا ہے کہ میں نے اپنے گھر میں سے عبدالرحیم کو طلاق دیتے سنا اور آڑ میں سے سننے پر گواہی بعض صورتوں کے سوا ہر گز مقبول نہیں کہ آواز آواز سے مشابہ ہوتی ہے خصوصاً جب گواہ بیان کردے کہ میں نے آڑ میں سے سناتو مطلقاً مردود ہے، 

درمختارمیں ہے:
لا یشھد علی محجب بسماعہ منہ الا اذا تبین القائل بان لم یکن فی البیت غیرہ لکن لو فسر لاتقبل درر ۲؂الخ ۔
نہ گواہی دے اس شخص پر جو آڑ کے پیچھے پوشیدہ ہے اس کی آواز کو سن کر سوائے اس کے کہ ظاہر وواضح ہو جائے کہ اس مکان میں قائل کے علاوہ کوئی دوسراموجود نہیں ، لیکن اگر شاہد آڑ کی سماعت کوبیان کردے تو اس کی گواہی نہ ہوگی درر الخ (ت)
(۲؎ درمختار    کتاب الشہادات     باب القبول وعدمہ     مطبع مجتبائی دہلی   ۲/ ۹۲۔۹۱)
اب نہ رہے مگر محمد امین وزوجہ حسین بخش قطع نظر اس سے کہ ان کی شہادتوں میں کتنے خلل شرعی ہیں خصوصا زوجہ حسین بخش کا بیان مضطرب ہے اگر کوئی خلل نہ بھی ہوتا تو صرف ایک مرد اورایک عورت کی گواہی سے طلاق ثابت نہیں ہو سکتی ، دو مردعادل یا ایک مرد ودو عورتیں ثقہ درکار ہیں۔

درمختار میں ہے :
نصابھا لغیرہ من الحقوق کنکاح وطلاق رجلان اورجل وامرأتان ۳؎۔(ملتقطاً)
امور مذکور ہ کے سوا دیگر حقوق میں نصاب شہادت دو مرد یا ایک مرد اوردو عورتیں ہے جیسے نکاح و طلاق وغیرہ میں(ملتقطا)۔(ت)
(۳؎ درمختار    کتاب الشہادات     باب القبول وعدمہ     مطبع مجتبائی دہلی    ۲/ ۹۱)
مگر یہ ثبوت وعدم ثبوت قاضی ودیگر خلائق کے نزدیک واقع میں اگر عورت سچی ہے اس کے سامنے اسے تین طلاق دی ہیں تو عورت پر فرض ہے کہ جس طرح جانے اس سے جدا ہوجائے پھر اگر جدا نہ ہوسکے تو وبال مرد پر ہے یہ الزام سے بری رہے گی جب تک اس کے پاس رہے ہاتھ لگانے پر سچے دل سے ناراض ہو اور اپنی حد قدرت تک اس سے بچنے میں ہمیشہ کوشش کرتی رہے
والمسئلۃ منصوص علیہا فی الدرالمختار وردالمحتار وغیرھما من الاسفار
 (اس مسئلہ پر درمختار اور ردالمحتار وغیرہ ضخیم کتابوں میں نص کی گئی ہے۔ت) اور اگرواقع میں بھی عورت جھوٹی ہے اور یہ حیلہ کرکے اس سے جدا ہوجائے گی تو عمر بھر گرفتار گناہ عظیم رہے گی اور معاذاﷲ لعنت الٰہی ولعنت ملائکہ کی مستحق ہوگی
کما تفیدہ صحاح الاحادیث
(جیسا کہ احادیث صحیحہ اس کا فائدہ دیتی ہیں۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter