Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
59 - 151
 (۳) اختلافات: ہمارے ائمہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم کے مذہب میں اختلاف وہ مضر ہے جو اصل معاملہ پر اثر انداز ہے زائد وفضول باتیں کہ یوں ہوں تو ضرر نہیں محض نظر انداز ہیں ان میں اختلافات ہزار ہوں اصلاً قابل لحاظ نہیں یہاں دعوٰی صرف اس قدر ہے کہ عصمت جہاں بیگم سے میرا نکاح ہوا ہے وہ مجھے دلادی جائے مہر وغیرہ کچھ زیر بحث نہیں تو شاہدوں یا شہود ودعوٰی میں مقدار مہر یا جنس مہر کا اختلاف اصل دعوٰی میں کچھ مخل نہیں، کیا اگر مہر میں دس اشرفیاں ٹھہری ہوں تونکاح ہوگا بیس ٹھہری ہوں تونہ ہوگا اور جب مہر دربارہ نکاح ایک امر زائد ہے تو محض بالائی لغو باتیں کہ بوستاں خاں کے جاتے وقت جلال خاں دروازہ میں کھڑا تھا یا اس کے پیچھے پیچھے گیا تھا، عصمت جہاں بیگم نے تین بار اجازت دی یا ایک بار کہا تھا، جلال خاں نے عصمت جہاں بیگم سے سوال کیا یا اس نے خود بے سوال کہا تھا، عصمت جہاں بیگم نے شمسن بیگم کے کہنے پر بوستان خاں سے خطاب کیا یا وہ کہنے نہ پائی تھی کہ اس نے کہہ دیا، نکاح میں بتاشے بٹے تھے یا چھوہارے یا مٹھائی۔ محمد حسین خاں اپنے بیٹے کے ساتھ آیا یا بعد وغیروغیرہ لغویات کا کیا ذکر، میں بعونہ تعالٰی ان تمام امور پر تفصیلاً بحث کیا چاہتا ہوں یہاں اس عام وجامع مہم ونافع قاعدہ کو خوب سمجھ لیا جائے کہ فیصلوں میں باربار ایسی بیکار بحثیں پیش آتی ہیں اور ان کے سبب مسلمانوں کے حقو ق پر برااثر پڑتا ہے،بہت ادب سے تاکیدی گزارش کی جاتی ہے کہ اسلامی عدالتیں تو جہ تام سے ان احکام شرعیہ کو سنیں اور ان پر کار بندرہیں کہ حقوق مسلمین ضائع نہ ہوں صفر۱۳۱۶ھ

میں اسی ریاست سے مقدمہ بگابیگم بنام عباس علی خاں کافیصلہ بغرض استصواب یہاں آیا تھا اس میں بھی ایسے ہی زائد و لغو اختلافات کی بنا پر ذی علم مجوز نے دعوی مدعیہ رد فرمایا تھا جس کا جواب مظہر صواب بہ تفصیل تام یہاں سے بھیج دیا گیا انہیں جواہر زواہر چند کلمات کا التقاط پھر کیا جاتا ہے زائد و فضول وبیکار باتوں میں تفاوت اصلاً لائق التفات نہیں۔

 وجیز امام کردری میں ہے:
التناقض فیما لایحتاج الیہ لایضر، اصلہ فی الجامع الصغیراھ۱؎۔
غیر ضروری چیزمیں تناقض ہو تو اصل واقعہ کے ثبوت میں مضر نہیں ہے اس کی اصل جامع صغیر میں ہے اھ (ت)
 (۱؎ فتاوٰی بزازیہ علی ہامش    الفتاوٰی الہندیہ    کتاب الشہادات     نورانی کتب خانہ پشاور     ۵ /۲۵۱)
جامع الفصولین کی فصل ۱۱میں ہے :
القاضی لوسأل الشھود قبل الدعوی عن لون الدابۃ فقالواکذاثم عندالدعوٰی شھدابخلاف ذٰلک اللون تقبل لانہ سأل عما لایکلف الشاھد بیانہ فاستوٰی ذکرہ وترکہ ویخرج منہ مسائل کثیرۃ۲؎۔
قاضی نے اگر دعوٰی سے قبل گواہوں سے جانور کا رنگ پوچھا تو انہوں نے کوئی رنگ بتایا اوردعوی کے ساتھ گواہوں نے کوئی دوسرا رنگ بتایا تو ان کی گواہی مقبول ہوگی کیونکہ اس نے ایسی چیز وں کا سوال کیا جن کے بیان کا شاہد پابند نہیں تھا تو ان چیزوں کا ذکر اور عدم ذکر برابر ہے اور اس قاعدہ سے بہت سے مسائل کی تخریج ہے۔(ت)
 (۲؎ جامع الفصولین    الفصل الحادی عشر    اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۱۶۰)
خلاصہ اور ہندیہ میں ہے :
لو سأل القاضی الشھود عن لون الدابۃ و ذکر وا ثم شھد واعند الدعوی وذکرواالصفۃ علی خلافہ تقبل والتناقض فیما لایحتاج الیہ لایضر۳؎، کذافی الخلاصۃ۔
اگر قاضی نے دعوٰی سے قبل گواہوں سے جانور کا رنگ پوچھا انہوں نے کوئی بتایا اور دعوٰی کے ساتھ انہوں نے کوئی دوسرا رنگ بتایا تو دعوٰی مقبول ہوگا اور یہ تناقض غیر ضروری چیزوں میں ہے لہذا مضر نہ ہوگا جیسا کہ خلاصہ میں ہے۔(ت)
(۳؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الشہادات     باب الثالث        نورانی کتب خانہ پشاور     ۳ /۴۶۰)
خانیہ وبحرالرائق وظہیریہ وعالمگیریہ میں ہے:
لواختلفا فی الثیاب التی کانت الطالب اوالمطلوب او المرکب اوقال احدھما کان معنا فلان وقال الاخر لم یکن معنا ذکر فی الاصل انہ یجوز ولاتبطل ھذہ الشہادۃ۱؎۔
اگر گواہوں نے ان کپڑوں میں جو طالب، مطلوب یاسواری پر تھے کہ متعلق مختلف بیان دیا، یا ایک نے کہا ہمارے ساتھ فلاں تھا اور دوسرے نے کہا نہیں تھا تو امام محمد نے اصل (مبسوط) میں فرمایا کہ یہ شہات جائز ہوگی باطل نہ ہوگی(ت)
(۱؎ بحرالرائق     کتاب الشہادات     باب الاختلاف فی الشہادۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۷ /۱۱۳)
فتاوٰی قاعدیہ وفتاوٰی انقرویہ میں ہے :
قال الشہادۃ لو خالفت الدعوٰی بزیادۃ لایحتاج الی اثباتھا او بنقصان کذالک فان ذالک لایمنع قبولھا مثالہ لو شھدا علی اقرارہ بمال فقال اقرفی یوم کذا والمدعی لم یذکر الیوم او شھداولم یؤرخا والمدعی ارخ اوشھدا انہ اقر فی بلد کذاوقد اطلق المدعی اوذکر المدعی المکان ولم یذکراہ او ذکر المدعی مکانا وھما سمیا غیر ذٰلک المکان او قال المدعی اقروھو راکب فرس او لابس عمامۃ وقال اقروھو راجل او راکب حما را و لا بس قلنسوۃ واشباہ ذٰلک فانہ لایمنع القبول لان ہذہ الاشیاء لایحتاج الی اثباتھا فذکرہا والسکوت عنہا سواء کذا لو وقع مثلا ھذا التفوت فی الشھادتین لایضر۲؎۔
انہوں نے فرمایا اگردعوٰی سے زائد کسی ایسے امر میں جو دعوٰی کے اثبات میں ضروری نہیں یا یوں ہی کسی کمی جس سے دعوٰی میں کوئی اثر نہیں پڑتا، میں گواہوں نے اختلاف کیا تو اس سے دعوٰی کو قبول کرنے میں کوئی ممانعت نہیں، مثلاً گواہوں نے بیان دیا کہ فلاں نے میرے پاس مال کا اقرار کیا گواہوں نے کہا فلاں روز اس نے اقرار کیا حالانکہ مدعی نے دعوٰی میں کسی دن کو ذکر نہ کیا، یوں ہی گواہوں نے اقرار کی تاریخ بیان نہ کی جبکہ دعوٰی میں تاریخ کا ذکر ہے، یایوں کہ گواہوں نے کہافلاں شہر میں اقرار کیا جبکہ مدعی نے کسی شہر کو ذکر نہ کیا ہو یا مدعی نے جگہ ذکرکی اور گواہوں نے جگہ کو ذکر نہ کیا، یا مدعی نے دعوٰی میں ایک جگہ ذکر کی گواہوں نے دوسری جگہ کو ذکر کیا، یا مدعی نے کہا اس نے گھوڑے پر سواری یا عمامہ پہنے ہوئے اقرار کیا جبکہ گواہوں نے پیدل یا گدھے پر سواری یا ٹوپی پہنے اقرار کا ذکرکیا،تو ایسے اختلاف سے دعوٰی کے مقبول ہونے میں ممانعت نہ ہوگی کیونکہ مذکورہ اشیاء دعوٰی کے اثبات کےلئے ضروری نہیں ہیں اسلے ان کاذکر اورعدم ذکر برابر ہے یونہی ان چیزوں میں اگر گواہوں نے بھی اپنے بیانوں میں اختلاف کیا تو دعوٰی کے لئے مضر نہیں ہے(ت)
 (۲؎ فتاوٰی انقرویہ   کتاب الشہادات   الثامن فی الاختلاف الخ    دارالاشاعۃ العربیہ قندھار افغانستان     ۱ /۹۵۔۳۹۴)
اصل شہادت میں اتفاق شافی ووافی کے بعدبعض فضولیات میں ایسے نامؤثر ہلکے آسان اختلافوں کو دستاویز بناکر شہادات متفقہ کو رد کردینے کا اگر فتح باب ہو تو عامہ حقوق ضائع ہوجائیں ظالمین اموال و فروج پر دسترس پائیں مظلوم اپنے حق سے محروم رہ جائیں، کچہریاں صرف اعانت ظلم کے صیغے نظرآئیں، کہ انسان نسیان کےلئے ہے اور زوائد ضائعہ کی طرف نہ ذہن ابتداءً التفات تام کرتا ہے نہ حافظہ انتہاءً ان کا اہتمام، ایسی کسی بات میں اختلاف ہوجانا درست نہیں بلکہ غالب ہے خصوصاًا س بدعت شنیعہ کے ہاتھوں جو آج کل کے وکلا نے اتلاف حقوق وتکذیب صدوق کے لئے تراشی اورقضات نے اس پر تقریر کی کہ محض براہ مغالطہ شہود کا بیان متزلزل کردینے کے لئے صدہا سوالات فضول ومہملات سوسو طرح کے پیچ دے کرکرتے اور شرع نے جن کے اکرام کا حکم دیا جنہیں ذریعہ دادرسی مظلوم بنایا ان کے اغواء وتضلیل وازلال وتذلیل میں کوئی دقیقہ نامرعی نہیں رکھتے اس بیہودہ بے معنی کشاکش پریشان کن میں آدمی کے آئے حواس جاتے ہیں خصوصاً نساء وضعفاء وارباب سلامت صدور اور وہ لوگ جنہیں کچہریوں کااتفاق کم ہو یہ تو ان حضرت کے سخرہ ودستمال ہیں، جب فہرست شہود میں ایسوں کا نام پاتےہیں برائے تفاخر فرماتے ہیں وہ بہت سیدھے مسلمان ہیں دیکھنا دو سوالوں میں بول جائیں گے جس کا ثمرہ یہ ہوتا ہے کہ بھولا راست باز جھوٹا ٹھہرتا ہے اور جھوٹا فسوں ساز سچا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
المؤمن غرکریم والفاجر خب لئیم۱؎، رواہ ابوداؤد والترمذی والحاکم بسند جید عن ابی ھریرۃ رضی اﷲتعالٰی عنہ
مومن کریم ہونے پر دھوکہ کھاتا ہے اور فاجر شخص شاطر ہونے کی بناء پر دھوکہ ساز ہوتا ہے۔ اس کو ابوداؤد ترمذی اور حاکم نے ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے جید سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔(ت)
 (۱؎ سنن ابی داؤد    کتاب الادب     باب فی حسن المعاشرۃ     آفتاب عالم پریس لاہور    ۲ /۳۰۴)
وہاں ایسے کسی اختلاف یسیر کا بھی اصلاً واقع نہ ہونا ہی تعجب ہے تو ان پر نظرکاحاصل سوااضاعت حقوق واعانت عقوق کے اور کیا قرار پاسکتا ہے والعیاذ باﷲ تعالٰی پرظاہر کہ اس میں حرج صریح ہے اور حرج بنص قطعی مدفوع، 

جامع الفصولین میں ہے :
عدم القبول فی امثالہ یفضی الی الحرج و التضییق وتضییع کثیر من الحقوق وامرنا بیسر لا بعسر والحرج مدفوع شرعا۱؎۔
ایسی صورتوں میں دعوٰی کا غیر مقبول ہونا، حرج اور تنگی اور کثیر حقوق کے ضیاع کا باعث ہوسکتا ہے حالانکہ ہمیں آسانی کا حکم ہے مشکل کا نہیں حالانکہ حرج شرعاً مدفوع ہے۔(ت)
 (۱؎اجامع الفصولین    الفصل الحادی عشر فی الاختلاف بین الدعوٰی     اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱ /۱۶۶)
Flag Counter