Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
58 - 151
مسئلہ۸۳: ازریاست رام پور محلہ متصل دروازہ انگوری باغ مرسلہ علی رضاخان ۱۱محرم الحرام ۱۳۲۳ھ

علمائے دین ومفتیان شرع متین کی خدمت میں بعد ادائے آداب بزرگاں گزارش ہے کہ ہندہ شب کو اپنے باپ کے مکان سے نکل کر زید کے مکان پر آئی اور زید سے برضائے خود نکاح کرلیا، ہندہ کے باپ نے استغاثہ فراری دخترکاکیا، اور ہندہ بحکم سرکار اپنے باپ کے سپرد کردی گئی اور زید نے نالش مفتی کے یہاں کی، مفتی صاحب نے دعوٰی فسخ کردیا، عرضی دعوی اور جواب دعوٰی اور جواب وتنقیح عدالت وثبوت مدعی وصفائی مدعا علیہاواظہارات گواہان وفیصلہ عدالت سب کی نقلیں حاضر ملاحظہ ہیں اس ثبوت پر دعوٰی مفتی نے خارج کردیا ہے، اب علمائے دین کی خدمت میں عرض ہے کہ بعد ملاحظہ کاغذات حکم شرعی سے معزز فرمائیں۔ عرضی علی رضاخاں برادر حسن رضاخاں ساکن رام پور۔
الجواب: اللھم ھدایۃ الحق والصواب اﷲ عزوجل تبارک وتعالٰی احکم الحاکمین عزجلالہ نے خادمان علم سے عہد لیا ہے کہ جب تم سے کسی مسئہ شرعیہ کا استفسار ہوبے رورعایت حق کا اظہار ہو ورنہ معاذاﷲ مستحق لجام نار ہو، فیصلہ مع جملہ کا غذات مرسلہ نظر سے گزرا بنگاہ اولین واضح ہوا کہ معزز ذی علم مجوز کی نظر کو یہاں بوجوہ کثیر سخت لغزشوں کا سامنا ہوامحض نامکمل مقدمہ پر فیصلہ دے دیا گیا جو کسی طرح جائز نہ تھا، ذی علم مجوز نے بناء فیصلہ چند امور پر رکھی ہے:

(۱) ابطال مبنائے ثبوت دعوٰی

(۲) قرائن سے ظہور غلطی دعوٰی 

مگر افسوس کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ ان میں کوئی وجہ قوانین شرع مطہر کی معیار مبارک پر صحیح نہ اتری تفصیل موجب تطویل لہذا مختصروجوہ غلطی فیصلہ پر اقتصار کریں وباﷲ التوفیق۔
بنائے دعوٰی
 (۱) ذی علم مجوز نے اس دعوٰی کا اصلی مبنٰی اس امر کاثابت ہونا قرار دیا ہے کہ عصمت جہاں بیگم نے حسن رضاخاں کے ساتھ اپنے نکاح کا وکیل بوستاں خاں کو کیا ہے کیونکہ بذریعہ ولی جائز کے نکاح ہونے کا دعوٰی نہیں ہے بلکہ بوستاں خاں شخص اجنب کے اور مدعا علیہا بوستاں خاں کی توکیل سے منکر ہے یہاں تک کہ فرمایا صحت نکاح موقوف توکیل ہے جب توکیل غیر ثابت ہے تو اگر نکاح ہو بھی گیا توبوجہ عدم صحت توکیل کے نکاح ثابت نہیں، یہاں تمام کتب مذہب کی روشن تصریحوں سے سخت ذہول واقع ہوا، صحت نکاح ہر گز تقدم توکیل پر موقوف نہیں، نہ ثبوت نکاح ثبوت توکیل سابق علی النکاح پر۔ اگر کوئی فضولی راہ چلتا محض بلا اجازت وبلا اطلاع ہندہ کا نکاح زید سے خواہ زید کی طرف سے فضولی ہو کر اس کا نکاح ہندہ سے کردے اور طرف ثانی یعنی پہلی صورت میں زید اور دوسری صورت میں ہندہ خود یا اس کا وکیل یا ولی یا اس کی طرف سے بھی کوئی راہ چلتا اسی مجلس میں دو گواہوں کے سامنے کے سنتے سمجھتے ہوں قبول کرلے نکاح ضرور صحیح و منعقد ہوجائے گا جبکہ کوئی اس قابل ہو کہ اسے خبر پہنچے اور وہ اس فعل فضول کو روا رکھے تو جائز ہوسکے گا ہاں اس کا نفاذ خود منکوحہ یا ناکح یا دونوں یا ان کے اولیا کی اجازت پر موقوف رہے گا یعنی منکوحہ یا ناکح صرف ایک کی طرف سے کوئی فضولی تھا تو اس کی اپنی اجازت چاہئے اگر بالغ ہو ورنہ ولی کی اور دونوں کی طرف سے فضولیوں نے ایجاب و قبول کیا تو دونوں کی اپنی اجازت پر توقف ہوگا اگر بالغ ہوں  یا اولیا کی اگر نابالغ ہوں یا ایک کی اپنی اور دوسرے کے ولی کی اگر ایک بالغ دوسرا نابالغ ہو بہر حال صحت نکاح میں شبہہ نہیں، ایسا نکاح اگر حاکم کے سامنے ثابت ہو تو ہر گزاس بناء پر رد نہ کرے گا کہ توکیل تو ہوئی ہی نہ تھی لہذانکاح ثابت نہیں بلکہ اس وقت تنقیح اس کی لازم ہوگی کہ آیا اجازت پائی گئی یا نہیں، اگر بعد نکاح اجازت قولاًخواہ فعلاً کسی طرح ثابت ہو ضرور ثبوت نکاح کاحکم کرے گا ورنہ نہیں۔

درمختار فصل فضولی میں ہے:
کل تصرف صدر منہ کبیع وتزویج وطلاق واعتاق ولہ مجیز حال وقوعہ العقد موقوفا۱؎۔
فضولی شخص کا ایسا تصرف کہ اس کے تصرف کے وقت کوئی جائز کرنے والا موجود ہو مثلاً بیع، نکاح کرنا، طلاق واعتقاق، تو یہ تصرفات موقوف طور پر منعقد ہوں گے(ت)
(۱؎ درمختار    کتاب البیوع    فصل فی الفضولی     مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۳۱)
ردالمحتار میں ہے :
الموقوف من قسم الصحیح وھو احد طریقین للمشائخ وھو الحق۲؎۔
موقوف تصرف صحیح اقسام میں سے ہے، یہ مشائخ کے دو طریقوں میں سے ایک ہے اور یہی حق ہے(ت)
 (۲؎ ردالمحتار    کتاب البیوع    فصل فی الفضولی    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴/ ۳)
فتاوٰی خیریہ وبحرالرائق وردالمحتار وغیرہا عامہ اسفار میں ہے :
الاجازۃ اللاحقۃ کالوکالۃ السابقۃ۱؎۔
بعد کی اجازت سابق وکالت کی طرح ہے۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار    کتاب البیوع    فصل فی الفضولی   داراحیاء التراث العربی بیروت  ۴ /۱۳۹)
تو وکالت بوستاں خاں کو صحت نکاح کا موقوف علیہ اور ثبوت توکیل بوستاں خاں کو ثبوت دعوٰی کا اصل مبنی ماننا دونوں باتیں ناقابل قبول ہیں۔
 (۲) جلال خاں وامجدی بیگم وسروری بیگم گواہان توکیل ہیں، ذی علم مجوز نے صحت دعوٰی کا دوسرا مبنی گواہوں کا مقرہ کو پہچاننا قرار دیا اورا س پر اعتراض کیا کہ جلال خاں کو عدم شناخت مقرہ کی تسلیم ہے اپنے اظہارمیں لکھایا ہے کہ عصمت جہاں بیگم پردہ نشین ہے جس وقت گواہی دریافت کرنے کے لئے میں گیا تھا اس وقت کے علاوہ میں نے عصمت جہاں بیگم کو نہیں دیکھا تھا میں نے عصمت جہاں بیگم کو ایسے پہچانا کہ اس نے اپنا نام مجھے بتایا اور عورات نے بھی مجھ کو بتایا یہ شناخت کافی نہیں اول تو وہ عورات غیر معین ان کا نام گواہ نے نہ لیا کہ ان کی حیثیت کا اندازہ ہوتا نہ صراحت کی کہ کس طرح اس کو بتایا ان سے قطع نظر تعریف اناث بلا شمول مردے نیک اصلاًقابل قبول نہیں پس بوجہ عدم شناخت مقرہ شہادت جلال خاں کی کالعد م ہے، سروری بیگم وامجدی بیگم کی شہادتوں میں نقصان نہ بھی ہوں تو بلا شمول شہادت مردحجت نہیں پس شناخت و توکیل دونوں مفقود ہیں، ذی علم معزز مجوز نے لحاظ نہ فرمایا کہ جلال خاں کو فی الحال عصمت جہاں بیگم کی شناخت نہ ہونی تسلیم ہے یا یہ کہ اس وقت سے پہلے نہ پہچانتا تھا گواہ کو وقت شہادت مشہود علیہ کا پہچاننا چاہئے یا پہلے سے جان پہچان ہونا ضروری ہے، جلال خاں نے یہ کہا کہ اس وقت کے علاوہ میں نے عصمت جہاں بیگم کو نہ دیکھا تھا یا یہ کہ اس وقت بھی میں نے عصمت جہاں بیگم کو نہ دیکھا تھا اور جب صراحۃً وہ اس وقت عصمت جہاں بیگم کو دیکھنا بیان کررہا ہے تو کسی مرد یا عورت کی تعریف کی کیا ضرورت تھی اگر کوئی عورت بھی اس سے نہ کہتی کہ یہ عصمت جہاں بیگم ہے جب وقت اقرار اس نے خود اپنی آنکھ سے اسے دیکھا اور اس کا منہ دیکھ کر پہچانی ہوئی عورت کے اقرار پر گواہ ہوا تو اس قدر صحت شہادت کے لئے یقینا کافی ووافی تھالاکھوں مردوں پر ایسی ہی شہادتیں تحمل کی جاتی ہیں کہ شاہدین نے اس وقت سے پہلے انہیں کبھی نہ دیکھا تھا کیا یہ شہادتیں مردود ہیں یا شاہدوں کو لازم ہے کہ کہیں سے اپنی جان پہچان سے دو مرد یا ایک مرددوعورتیں پکڑ کرلائیں اور پہلے انہیں دکھا کر مشہود علیہ کی تعریف کرالیں اس کے بعد تحمل شہادت کریں کوئی عاقل اس کا قائل نہیں خود وہ عبارات کہ ذی علم مجوز نے فیصلہ کے ساتھ اپنی تجویز کی سند میں پیش کیں تجویز کی رد پر گواہ عادل ہیں کیا ذی علم مجوز نے درمختار کی یہ عبارت نقل نہ کی:
اویری شخصھا ای القائلۃ مع شہادۃ اثنتین بانھا فلانۃ بنت فلان بن فلان۱؎۔
یا یہ کہنے والی عورت کہ میں فلانی بنت فلاں بن فلاں ہوں اس پر اس کے ساتھ دو گواہ بھی ہوں، کے تشخص کو دیکھا جارہا ہو۔(ت)
(۱؎ درمختار     کتاب الشہادات     مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۹۲)
کیا اسکی شرح میں ردالمحتار کی یہ عبارت نقل نہ کی :
احترزبرؤیۃ شخصہا عن رؤیۃ وجھھا قال فی جامع الفصولین حسرت عن وجہہا وقالت انا فلانۃ بنت فلاں بن فلاں وھبت لزوجی مھری فلایحتاج الشہود الی شہادۃ عدلین انہا فلانۃ بنت فلاں مادامت حیۃ اذیمکن للشاھد ان یشیر الیہا۲؎۔
شخصیت کو دیکھنے کے قول نے چہرے کو دیکھنے سے بچادیا، جامع الفصولین میں فرمایا: عورت نے چہرے سے پردہ اٹھایا اور کہا کہ میں فلانہ بنت فلاں بن فلاں نے اپنا مہر اپنے خاوند کو دیا تو گواہوں کو یہ کہنے والے دو عادل  گواہوں کی ضرورت نہیں کہ وہ فلا نہ بنت فلاں بن فلاں ہے کیونکہ اس کی زندگی میں گواہ کو اشارہ سے بتانا ممکن ہے(ت)
(۲؎ ردالمحتار    کتاب الشہادات    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴ /۳۷۳)
کیاشامی کی یہ عبارت نقل نہ کی :
کذااذا وکلت بالتزویج فھو علی ھذااھ ای ان رأوھااوکانت وحدھا فی البیت یجوز ان یشھدواعلیہا بالتوکیل۳؎۔
یوں ہی جب عورت نے اپنے نکاح کےلئے وکیل بنایا اور عورت کو گواہ دیکھ سکتے ہوں یا وہ مکان میں اکیلی ہو تو گواہوں کو اس کی وکالت پر شہادت جائز ہے۔(ت)
(۴؎ردالمحتار   کتاب النکاح    داراحیاء التراث العربی بیروت     ۲ /۲۷۲)
کیاان عبارتوں میں صاف تصریح نہ تھی کہ دو مرد یا ایک مرد دو عورات کی تعریف اس وقت ضرور ہے جب مقرہ شاہد کے سامنے نقاب یا برقع میں ہوکہ اس کے قدوقامت و بدن و جسامت کا اندازہ کپڑوں میں چھپا نظر آتا ہے چہرہ نہیں دکھائی دیتا او اگرمنہ کھول کر کہے کہ میں فلانہ بنت فلاں بن فلاں ہوں، تو جب تک عورت زندہ ہے گواہ کو اصلاً تعریف کی حاجت نہیں، غرض بربنائے عدم تعریف شہادت جلال خاں کا کالعدم قرار پانا اور اس کی بناء پر سروری بیگم و امجدی بیگم کی گواہیوں کا شہادت مرد سے خالی رہ جانا اور اس کی بناء پر توکیل بوستاں خاں کا ثابت نہ ہونا اور اسکی بناء پر دعوٰی نکاح کا بے ثبوت رہنا یہ سب بنائے فاسد علی الفاسد ہے، ہاں یہاں ضرورقصور رہا کہ شاہد جبکہ عصمت جہاں بیگم کو پہلے سے نہ پہچانتا تھا کہ وقت توکیل اسے دیکھ کر خود ہی پہچان لیتا اور وقت شہادت اپنے علم ذاتی سے گواہی دیتا کہ وہ عورت جس نے میرے سامنے توکیل کی عصمت جہاں بیگم ہی تھی بلکہ اس نے اسی وقت مقرہ کو دیکھا اور اسی کی زبانی یا اور عورات کے بیان سے بھی جانا تھا کہ یہ عصمت جہاں بیگم ہے تو احتمال تھا کہ واقع میں وہ کوئی اور عورت تھی جس نے بفریب اپنے آپ کو عصمت جہاں بیگم ظاہر کیا اس شبہ کے رفع کو حاکم پر لازم تھا کہ عصمت جہاں بیگم کو وقت شہادت جلال خاں کے سامنے کرتا اور اس کا منہ کھلواکر شاہد سے گواہی لیتا کہ یہ وہی عورت ہے جسے تونے وقت توکیل دیکھا تھا اگر جلال خاں شناخت کرتا تو اس کی گواہی کامل تھی ورنہ باطل، مگر یہ قصور شاہد کا نہیں، شاہد کا کیا زور تھا کہ عصمت جہاں بیگم کو جو اس وقت اپنی توکیل سے منکر اور برسرخلاف ہے بالجبر حاضر لاتا اور اس کا منہ کھول کر دیکھ کر گواہی دیتا یہ کام تو حاکم کا تھا جو متروک رہا اور محض بے ترتیب و نامکمل مقدمہ پر فیصلہ دے دیا گیا مجوزکا فرمانا کہ شناخت کرانا مقرہ کا گواہ مذکور کو شرط تھا جو متروک ہے نہایت حق وبجا ہے واقعی شناخت کرنا گواہ کاکام تھا وہ اس نے متروک نہ کیا کہ نہ وہ اس کے اختیار میں تھا نہ اس سے چاہا گیاہاں شناخت کرنا حاکم کاکام تھا وہ ضرور متروک رہا مگر ترتیب مقدمہ میں مجوز کا خود قصور رکھنا اور اپنے فعل کا الزام گواہ کو دے کر بلاوجہ شہادت ودعوٰی رد فرمادینا ایک سخت تعجب انگیز بات ہے۔
Flag Counter