Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
57 - 151
ردالمحتار میں ہے :
سیاتی قریبا لو انفق الابوان ماعندھما للغائب من مالہ علی انفسھما وھو من جنس النفقۃ لایضمنان لوجوب نفقۃ الابوین والزوجۃ قبل القضاء حتی لو ظفر بجنس حقہ فلہ اخذہ ولذافرضت فی مال الغائب بخلاف بقیۃ الاقارب ونحوہ فی المنح والزیلعی وفی زکاۃ الجوھرۃ الدائن اذاظفر بجنس حقہ لہ اخذہ بلا قضاء ولارضاء وفی الفتح عند قولہ ویحلفھا باﷲ مااعطاھا النفقۃ وفی کل موضع جازا القضاء بالدفع کان لھا ان تأخذ بغیر قضاء من مالہ  شرعا اھ فیقول المبتغی ولا قاضی ثمۃ محمول علی مااذاکان یاخذہ من خلاف جنس النفقۃ، فلاحاجۃ فیہا الی القاضی وتمامہ فی حاشیۃ الرحمتی وقد اطال واطاب۱؎۔
عنقریب آئے گا کہ اگر غائب بیٹے کا مال پاس ہو تو والدین ضرورت نفقہ کے لئے اسے صرف کرلیں در انحالیکہ وہ مال جنس نفقہ ہو تو والدین ضامن نہ ہوں گے کیونکہ والدین اور بیوی کا نفقہ قضاء کے بغیر بھی واجب ہے لہذا وہ اپنے حق والی جنس پر قابو پالیں تو قبضہ کرسکتے ہیں، اسی وجہ سے غائب کے مال میں ان کا نفقہ بقدر ضرورت نافذ ہوتا ہے بخلاف باقی اقارب کے۔ اسی طرح کا بیان منح، زیلعی اور جوہرہ کے باب زکوٰۃ میں ہے، قرض خواہ اپنے حق والی جنس پر قابو پا نے پر لے سکتا ہے خواہ رضا اور قضانہ ہو۔ اورفتح میں اس کے قول کہ''بیوی سے قاضی قسم لے گا کہ خاوند نے مجھے نفقہ نہیں دیا'' کے تحت ہے جہاں قاضی کو بیوی کے لئے نفقہ نافذکرنے کا اختیار ہے وہاں بیوی کو یہ جائز ہے کہ شرعاً وہ بغیر قضاء خاوند کے مال سے حاصل کرلےاھ، تو مبتغی کا یہ قول کہ''وہاں قاضی نہ ہو''یہ اس صورت پر محمول ہے جبکہ غیر جنس نفقہ سے لے، تو جنس نفقہ کی صورت میں قاضی کی ضرورت نہیں، یہ تمام بیان رحمتی کے حاشیہ میں ہے انہوں نے اچھی طوالت سے بیان کیا ہے۔(ت)
 (۱؎ ردالمحتار    کتاب الطلاق    باب النفقۃ     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۲/ ۷۸۔۶۷۷)
یہاں کہ شوہر ہندہ نے کل متروکہ اپنے پسر کے نام جانب ہندہ سے ہبہ بتایا اور اسی پر کارروائی کی وہ شرعاً اپنے اقرار پر مواخذ ہے اور اس کا دعوٰی کہ اس وقت اپنی چہارم بچانے کےلئے ایسا مصلحۃً محض غلط کہہ دیا تھا ہرگز یوں مسموع نہیں جب وہ خود اتنی مدت تک چہارم کے لئے جھوٹ ظاہر کرتے رہنے کا مقر ہے تو کیا اعتبار ہے کہ اس کے وہی بیانات ممتدہ سچے ہوں اور اب بیٹے کی حرکات کے باعث ناراض ہوکر اس کے اضرار کے لئے یہ اظہار کرتا ہو، غرض کوئی مقر صرف اپنے اقرار سے پھر کر نفع نہیں پاسکتا، مرض الموت کا ہبہ جبکہ وارث کے نام ہواگرچہ تمام وکمال اجازت دے کر ورثہ پر موقوف رہتا ہے اور بعض نہ مانیں تو ان کے حق میں باطل ہوجاتا ہے مگر ماننے والے کے حق پر ضرور نافذرہتا ہے اور یہ شیوع کہ بعد کو عارض ہوا تمامی ہبہ کومضر نہیں ہوتا، 

تنویر میں ہے :
المانع شیوع مقارن لاطارئ۲؎۔
غیر منقسم حصہ ہونا ابتداءً مانع ہے بعد والا طاری ہوتو مانع نہیں ہے۔(ت)
 (۲ ؎ درمختار     کتاب الہبۃ        مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۱۶۰)
ہندیہ میں ہے :
لایمنع الشیوع صحۃ لاجازۃ۳؎۔
غیر منقسم ہوناصحۃ اجازت کےلئے مانع نہیں ہے۔(ت)
(۳؎ فتاوٰی ہندیۃ)
تو وہ اجازت شوہر ہندہ اس کے اپنے حق چہارم پر ضرور اثر انداز ہوئی اور اسے محض دعوٰی چہارم پانے کا کوئی حق نہ ہوگا۔ رہا نانی کا ششم کہ اس کے عدم تسلیم کے باعث محفوظ رہا تھا جبکہ اسے اپنے پسر کے نام خریدا وہ بھی اس کا ہوگیا اگر اصل خریداری اسی کی طرف سے اسی کے نام سے ہوئی جب توظاہر ہے کہ ابتداء لڑکا ہی اس کا مالک ہوا اور اگر خود خریدا اور بیعنامے میں لڑکے کا نام لکھا دیا تو اب یہ نہ ٹھہرائیں گے کہ خریداری سے اصل مالک یہ خود ہوا،
لان الشراء متی وجد نفاذا علی المشتری نفذ۱؎کما فی الدر وغیرہ۔
کیونکہ خریداری کا جب نفاذ مشتری(خریدار) پر ہو تو بیع نافذ ہوجائے گی، جیسا کہ درو غیرہ میں ہے۔(ت)
 (۱؎ ردالمحتار    کتاب البیوع     باب المتفرقات     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴ /۲۲۰)
اورپھر لڑکے کے نام بیعنامہ لکھا نا اس کی طرف سے پسر کو ہبہ ہوا
لانہ دلالۃ التملیک وقد بیناہ فی فتاوٰنا
 (کیونکہ یہ مالک بنانے پر دلالت ہے، اس کو ہم نے اپنے فتاوٰی میں بیان کیاہے۔ت) تاکہ وہم گزرے کہ جب ماورائے ششم کا بوجہ ہبہ ہندہ حسب اقرار شوہر ہوچکا اور یہ ششم بذریعہ شراء اس شخص کی ملک ہوا اور ہنوز منقسم ہے تو بیٹے کے نام لکھا دینا شیئ مشاع کا اپنے شریک کو ہبہ کرنا ہوااور وہ علی المذہب المعتمد جائز نہیں۔ 

درمختار میں ہے:
تم بالقبض فی مقسوم ومشاع لایقسم الافی مایقسم ولو لشریکہ کما فی عامۃ الکتب فکان ھو المذہب ۲؎الخ مختصرا۔
تقسیم شدہ اور ناقابل تقسیم کے قبضہ سے ہبہ تام ہوجاتا ہے مگر اس غیر منقسم کا ہبہ جو قابل تقسیم ہو قبضہ سے تام نہ ہوگا اگر چہ یہ ہبہ شریک کو ہی کیوں نہ ہو، جیساکہ عام کتب میں ہے تو وہی مذہب ہے الخ مختصراً(ت)
 (۲؎ درمختار    کتاب الہبہ         مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۱۵۹)
بلکہ جب وہ مال اس کے قبضہ میں پہنچا اور یہ اقرار کرچکا تھا کہ وہ تمام وکمال بذریعہ ہبہ ملک پسر ہے تو اپنے اسی اقرار پر مواخذ ہو کر یہ ششم بھی سپرد پسر کرنا ہوگا اور وہ بیعنامہ میں اس کا نام لکھانا اس کی تکمیل ٹھہرے گا، بالجملہ اقرارکے باعث اب یہ دعوٰی ایسا نہ رہا جیسا کہ ایک وارث ثابت الوراثت کا دعوی صاف وآسان ہوتا۔ اب حکم یہ ہے کہ صورت مستفسرہ میں اگر مہر ہندہ واقعی معاف ہوگیا او راس کے بھائی اسے ناحق دباتے تھے اور اس کے کوئی ذریعہ تحفظ سوائے اس اقرار کے نہ تھا جسے اب وہ غلط و بربنائے مصلحت بتاتا ہے تو اولاً اس سے گواہ مانگے جائیں گے اگر گواہان شرعی سے ثبوت دے دے کہ یہ اقرار محض کا ذب وفرضی تھا فبہا ورنہ بیٹے سے حلف لیاجائے کہ واﷲ میرے باپ کا اقرار مذکورسچا تھا اور فرضی نہ تھا اگر وہ حلف سے انکار کرے تو اس کے باپ کا دعوٰی ثابت مانا جائے گا اور حلف کرلے تو ر د ہوجائے گا۔

 درمختار میں ہے :
اقررجل بمال فی صک واشھد علیہ بہ ثم ادعی ان بعض ھذاالمال المقربہ قرض وبعضہ ربا علیہ فان اقام علی ذٰلک بینۃ تقبل وان کان متناقضا لانانعلم انہ مضطر الٰی ھذاالاقرار شرح وھبانیہ۱؎۔
ایک شخص نے رسید میں درج مال کا دوسرے کیلئے اقرار کیا اور مدعی نے اس پر شہادت پیش کی پھر مقر نے کہا کہ اس مال میں سے کچھ قرض ہے اور کچھ سود ہے اس پر مقر نے گواہ پیش کردئے تو یہ گواہی قبول کی جائے گی اگرچہ یہ بات پہلے اقرار کے مناقض ہے کیونکہ ہمیں علم ہے کہ وہ اس اقرار پر مجبور تھا، شرح وہبانیہ۔(ت)
 (۱؎ درمختار    کتاب الاقرار    فصل مسائل شتی    مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۱۴۰)
اسی میں ہے :
اقر ثم ادعی المقرانہ کاذب فی الاقرار یحلف المقرلہ ان المقر لم یکن کاذبا فی اقرارہ عند الثانی وبہ یفتی درر۲؎۔
اقرار کرکے پھر کہتا ہے میں نے جھوٹا اقرار کیا ہے تو مقرلہ(جس کے حق میں اقرار کیا) سے قسم لی جائیگی کہ اقرار کرنیوالے نے سچا اقرار کیا ہے نہ کہ جھوٹا، یہ امام ابویوسف رحمہ اﷲ تعالٰی کے نزدیک ہے، اور اسی پر فتوی دیا جائے گا، درر۔(ت)
(۲؎ درمختار    کتاب الاقرار    فصل مسائل شتی    مطبع مجتبائی دہلی   ۲ /۱۳۳)
یہ فیصلہ قضا ہے اور فیصلہ سعادت وہ تھا
انت ومالک لابیک۳؎
تواور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔
 (۳؎ مسند امام احمد بن حنبل    ترجمہ عمرو بن شعیب     دارالفکر بیروت    ۲/ ۲۰۴)
اپنے دونوں جہان کی بھلائی چاہتا ہے تو اسی فیصلہ پر سر رکھ دے کہ یہ فیصلہ اس کے نبی محمد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا ہے، اور مسلمان وہی ہے جوان کافیصلہ دل سے مان لے، اﷲ عزوجل فرماتا ہے تیرے رب کی قسم مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے باہمی جھگڑوں میں تجھے حکم نہ بنائیں پھر تیرے فیصلہ سے اپنے دلوں میں اصلاً تنگی نہ پائیں گے اور قبول کرلیں مان کر۴؎۔ اﷲ عزوجل توفیق عطا فرمائے، آمین!واﷲ تعالٰی اعلم۔
 (۴؎ القرآن الکریم    ۴ /۶۵)
Flag Counter