Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
56 - 151
الجواب

اولاد کو حقوق پدر ی کا خیال نہ کرنا اس کے ساتھ تمردو مخالفت سے پیش آنا اپنے لئے عذاب شدید ناروغضب رب قہار کا واجب کرتا ہے، اﷲ عزوجل نے قرآن عظیم میں فرض کیا کہ والدین کے ساتھ احسان کرو، انہیں ہُوں نہ کہو، ان سے اعزاز واکرام کا کلام کرو، ان کے لئے خاص محبت سے تذلل کا بازوبچھاؤ، ان کےلئے دعا کرو کہ الٰہی !ان پر رحم فرما جیسا انہوں نے مجھے چھٹپن میں پالا۔ 

رسول اﷲصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
ثلثۃ لایدخلون الجنۃ العاق لوالدیہ والدیوث والرجلۃ من النساء۱؎۔ رواہ النسائی والبزار باسنا دین نظیفین والحاکم فی صحیحہ المستدرک عن ابن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما۔
تین شخص ہیں کہ جنت میں نہ جائیں گے، ماں باپ کو ستانے والا اور دیوث اور مردانی وضع بنانے والی عورت(اس کو نسائی اور بزار نے صاف سندوں سے اور حاکم نے صحیح سند کے ساتھ مستدرک میں حضرت ابن عمرو رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ت)
 (۱؎ سنن النسائی    کتاب الزکوٰۃ    نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ۱ /۳۵۷)

(کشف الاستار عن زوائد البزار    کتاب البروالصلہ    باب العقوق    مطبع موسسۃ الرسالۃ بیروت    ۲ /۳۷۲)
نیز فرماتے ہیں صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم :
ثلثۃ لایقبل اﷲ عزوجل منھم صرفا و لاعد لا عاق ومنان ومکذب بقدر۱؎۔ رواہ ابن ابی عاصم فی کتاب السنۃ باسناد حسن عن ابی امامۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
تین شخص ہیں کہ اﷲ تعالٰی نہ ان کے نفل قبول کرے نہ فرض: ماں باپ کو ایذا دینے والا اور صدقہ دے کر فقیر پر احسان رکھنے والا اور تقدیر کا جھٹلانے والا(اس کو ابن ابی عاصم نے سند حسن کے ساتھ کتاب السنۃ میں حضرت ابی امامہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ت)
 (۱ ؎ العلل المتناہیہ    حدیث ۲۳۹        دارنشر الکتب الاسلامیہ لاہور    ۱ /۱۵۱)

(مجمع الزوائد        باب ماجاء فیمن یکذب بالقدر الخ    دارالکتاب بیروت    ۷ /۲۰۶)
نیز حدیث میں ہے رسول اﷲ صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
ملعون من عق والدیہ ملعون من عق والدیہ ملعون من عق والدیہ۲؎۔ رواہ الطبرانی والحاکم عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
ملعون ہے جو اپنے ماں باپ کو ستائے، ملعون ہے جو اپنے ماں باپ کو ستائے۔ ملعون ہے جواپنے ماں باپ کو ستائے(اس کو طبرانی اور  حاکم نے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ت)
 (۲؎ المعجم الاوسط        حدیث ۸۴۹۲    مکتبہ المعارف ریاض        ۹ /۲۲۶)

(الترغیب والترہیب    بحوالہ الطبرانی والحاکم     الحدیث ۴    مصطفی البابی مصر    ۳ /۲۸۷)

(۳؎ المستدرک للحاکم    کتاب البروالصلۃ    دارالفکربیروت    ۴ /۱۵۲)
نیز حدیث میں ہے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
رضااﷲ فی رضاالوالد وسخط اﷲ فی سخط الوالد۳؎۔رواہ الترمذی و الحاکم بسند صحیح عن عبداﷲ بن عمرو والبزار عن عبداﷲ بن عمر رضی اﷲتعالٰی عنہما۔
اﷲ کی رضاوالد کی رضامیں ہےاور اﷲ ناراضی والد کی ناراضی میں(اس کو ترمذی اور حاکم نے صحیح سند کے ساتھ عبداﷲ بن عمرو اور بزار نے حضرت عبداﷲ بن عمرو رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے روایت کیا ہے۔ت)
 (جامع الترمذی ابواب البر والصلۃ    باب ماجاء من الفضل فی رضا الوالدین     امین کمپنی دہلی     ۲ / ۱۲)
نیز حدیث میں ہے رسول اﷲصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
کل الذنوب یوخر اﷲ تعالٰی منھا ماشاء الٰی یوم القٰیمۃ الاعقوق الوالدین فان اﷲ یعجلہ لصاحبہ فی الحیات قبل الممات۱؎ رواہ الحاکم والا صبھا نی والطبرانی فی الکبیر عن ابی بکرۃ رضی اﷲتعالٰی عنہ۔
سب گناہوں کی سزا اﷲ تعالٰی چاہے تو قیامت کیلئے اٹھارکھتا ہے مگر ماں باپ کو ستاناکہ اس کی سزا مرنے سے پہلے زندگی میں پہنچاتا ہے(اس کو حاکم، اصبہانی اور طبرانی نے کبیر میں حضرت ابوبکرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔(ت)
(۱؎ المستدرک للحاکم    کتاب البروالصلۃ    دارالفکر بیروت    ۴ /۱۵۶)
ماں کے لئے ماں باپ سے مخاصمت کتنی بے حیائی یبیاکی کافر نعمتی ناپاکی ہے رسول اﷲصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
لاتعقن والدیک وان امراک ان یخرج من اھلک ومالک۲؎۔ رواہ الامام احمد بسند صحیح علی اصولنا والطبرانی فی الکبیر۔
خبردار ماں باپ کی نافرمانی نہ کہ اگر چہ وہ تجھے حکم دیں کہ اپنے جوروبچوں مال و متاع سب سے نکل جا (اس کو امام احمد نے ہمارے اصول پر صحیح سند کے ساتھ اور طبرانی نے کبیر میں روایت کیا۔ت)
 (۲؎ مسند امام احمد بن حنبل    حدیث حضرت معاذ رضی اﷲ عنہ     المکتب الاسلامی بیروت    ۵ /۲۳۸)
دوسری روایت میں ہے :
اطع والدیک وان اخرجاک من مالک ومن کل شیئ ھولک۳؎۔
  رواہ الطبرانی فی الاوسط بسند صالح کلاھما عن معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
اپنے ماں باپ کا حکم مان اگر چہ وہ تجھے تیرے مال اور تیری سب چیزوں سے تجھے باہر کردیں(اسے طبرانی نے اوسط میں، اسے اور مذکورہ بالاحدیث (دونوں)کو معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ت)
 (۳؎ المعجم الاوسط للطبرانی     حدیث ۷۹۵۲    مکتبۃ المعارف ریاض    ۸ /۴۶۰)
اوناشکر،خدا ناترس ! مال لایا کہاں سے، تیرا گوشت پوست استخوان سب تیرے ماں باپ کا ہے۔ 

رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
انت ومالک لابیک
(تو اور تیر ا مال سب تیرے باپ کا)

یہ اس وقت ارشاد ہوا کہ ایک صاحب حاضر ہوئے اور عرض کی: یارسول اﷲ!مال وعیال رکھتا ہوں اور میرے ماں باپ میرا سب مال لینا چاہتے ہیں یعنی پھر میں اور میرے بال بچے کیا کھائیں گے، فرمایا:

''تو اور تیرامال سب تیرے باپ کا ہے تجھے اس سے انکار نہیں پہنچتا''
رواہ ابن ماجۃ۱؎بسند صحیح عن جابر والطبرانی فی الکبیر عن سمرۃ بن جندب وعبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہم۔
اس کو ابن ماجہ نے صحیح سند کے ساتھ حضرت جابر اور طبرانی نے کبیر میں حضرت سمرہ بن جندب اور حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے روایت کیا۔(ت)
 (۱؎ سنن ابن ماجہ     ابواب التجارات    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۱۶۷)

(المعجم الکبیر للطبرانی     حدیث ۶۹۶۱        المکتبۃ الفیصلیہ بیروت    ۷ /۲۳۰)
حدیث میں ہے ایک شخص حاضر خدمت ہوکر عرض رساں ہوئے:

ان ابیہ یرید ان یاخذ مالہ۔ یا رسول اﷲ!میرے ماں باپ میرا مال لے لینا چاہتے ہیں۔

حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:
ادعہ لی
انہیں ہمارے حضور میں حاضر لاؤ۔ جب حاضر ہوئے ان سے ارشاد ہوا تمہارا بیٹا کیا کہتا ہے تم اس کا مال لینا چاہتے ہو، عرض کی حضور اس سے پوچھ دیکھیں کہ میں وہ مال لے کر کیا کرتا ہوں، یہی اس کی مہمانی اور اس کی قرابتی میں، یا میرا اور میرے بال بچوں کا خرچ، اتنے میں جبریل امین علیہ الصلوٰۃ و التسلیم حاضر ہوئے اور عرض کی:یارسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم !اس مرد پیر نے اپنے دل میں کچھ اشعار تصنیف کئے ہیں جو ابھی خو داس کے کان نے نہیں سنے یعنی ہنوز زبان تک نہ لایا، حضور پر نور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اپنے دل میں کچھ اشعار تصنیف کئے ہیں جو ابھی تمہارے کان نے بھی نہ سنے وہ سناؤ۔ ان صاحب نے عرض کی: اﷲ ہمیشہ حضور کے معجزات سے ہمارے دل کی نگاہ ہمارا یقین بڑھاتا ہے، 

پھر یہ اشعار عرض کرنے لگے :

غذوتک مولودا و منتک یافعا    تعل بما اجنی علیک وتنھل

اذالیلۃ ضاقتک بالسقم لم ابت    لسقمک الاساھر اَتَمَلْمَلُ

تخاف الردی نفسی علیک وانھا    لتعلم ان الموت حتم موکل

کانی اناالمطروق دونک بالذی      طرقت بہ دونی فعینی تھمل

فلما بلغت السن والغایۃ التی        الیک مدی ماکنت فیک اومل

جعلت جزائی غلظۃ وفظاظۃ        کانک انت المنعم المتفضل

فلیتک اذلم ترع حق ابوتی         فعلت کما الجار المجاور یفعل

واولیتنی حق الجوار ولم تکن        علی بمالی دون مالک تبخل
میں نے تجھے غذاپہنچائی جب سے تو پیدا ہوا اور تیرا بار اٹھایا جب سے تو ننھا ہوا میری کمائی سے تو بار بار مکررسیراب کیا جاتا، جب کوئی رات بیماری کا غم لے کر تجھ پر اترتی میں تیری ناسازی کے باعث جاگ کرلوٹ کر صبح کرتا میرا جی تیرے مرنے سےڈرتا حالانکہ اسے خوب معلوم تھا کہ موت یقینی ہے اور سب پر مسلط کی گئی ہے میری آنکھیں یوں بہتیں کہ گویا وہ مرض جو شب کو تجھے ہوا تھا نہ مجھے، مجھے ہوا تھا نہ تجھے، میں نے تجھے یوں پالا اور جب تو پروان چڑھا اور اس حد کو پہنچا جس میں مجھے امید لگی ہوئی تھی کہ اس عمر  کا ہوکر تو میرے کام آئے گا تو تونے میرا بدلہ سختی ودرشت خوئی کیاگویا  تیرا ہی مجھ پر فضل واحسان ہے، اے کاش جب تونے حق پدری کا لحاظ نہ کیا تھا تو ایسا ہی کرتا جیسا پاس کا ہمسایہ کرتا ہے ہمسایہ میں کا حق تومجھے دیا ہوتا اور  مجھ پر اس مال سے کہ اصل میں تیرا نہیں میر اہی تھا بخل نہ کرتا۔
ان اشعار کو استماع فرماکر حضور پر نور رحمت عالم صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم نے گریہ کیا اور بیٹے کا گریبان پکڑ کر ارشاد فرمایا :
اذھب انت ومالک لابیک۱؎۔ رواہ الطبرانی فی المعجم الصغیر والبیہقی فی دلائل النبوۃ عن جابر بن عبداﷲ رضی اﷲتعالٰی عنھما۔
جاتو اور تیرا مال سب تیرے باپ کا ہے(اس کو طبرانی نے معجم صغیر اور بیہقی نے دلائل النبوۃ میں حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲتعالٰی عنہا سے روایت کیا۔(ت)
 (۱؎ المعجم الصغیر للطبرانی    باب من اسمہ محمد   ترجمہ حضرت جابر بن عبداﷲرضی اﷲعنہ  دارالکتب العلمیہ بیروت ۲ /۶۳)

(دلائل النبوۃ للبیہقی    باب ماجاء فی اخبارہ من قال فی نفسہ شعراً الخ       دارالکتب العلمیہ بیروت    ۶ /۵۔۳۰۴)
حکم سعادت تو یہ ہے مگر باینہمہ قضاءً باپ بیٹے کی ملک جدا ہے۔ باپ اگر محتاج ہو تو بقدر حاجت بیٹے کے فاضل مال سے بے اس کی رضا واجازت کے لے سکتا ہے زیادہ نہیں اور یہ لینا بھی کھانے پینے، پہننے، رہنے کے لئے، اور حاجت ہوتو خادم کے واسطے بھی، بیٹے کے روپے پیسے سونے چاندی ناج کپڑے یاقابل سکونت پدر مکان سے ہو، ہاں یہ اشیاء نہ ملیں توانہیں اغراض ضروریہ کے لئے اس کے اور اموال سے جو خلاف جنس حاجت ہوں بحکم حاکم یا حاکم نہ ہو تو علی المفتی بہ بطور خود بھی لے سکتا ہے مثلاً کھانے کی ضرورت ہے اناج یا روپیہ نہ پایا تو کپڑے برتن لے سکتا ہے یا کپڑوں کی ضرورت ہے اور دام یاکپڑے نہ ملے تو ناج وغیرہ بیچ کر بناسکتا ہے نہ یہ کہ اس کی جائداد ہی سرے سے اپنی ٹھہرالے۔ 

درمختار میں ہے:
فی المبتغی للفقیران یسرق من ابنہ الموسر مایکفیہ ان ابی ولاقاضی ثمۃ والا اثم۱؎۔
مبتغی للفقیر میں ہے کہ باپ اپنے بیٹے کے انکار پر اس کااتنا مال چوری کرلے جتنا اس کونفقہ کےلئے ضرورت ہے جبکہ وہاں قاضی نہ ہو ورنہ گنہگار ہوگا۔(ت)
(۱ ؎ درمختار    کتاب الطلاق    باب النفقہ    مطبع مجتبائی دہلی     ۱ /۲۷۴)
Flag Counter