Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
55 - 151
مسئلہ۸۱: ازشہر    مسئولہ غلام رسول    ۲۷/ ربیع الآخر ۱۳۳۶ھ

ایک پنچایت قائم ہوئی اور ایک شخص پر ایک امر میں حلف قائم کیا اور سب پنچوں نے اسے منظور کیا اس شخص نے حلف سے بیان کیا وہ معاملہ فیصل ہوگیا بعد کو چند اشخاص نے پنچ سے علیحدہ ہوکریہ کہا کہ حلف کو نہیں جانتے اور ہمارے یہاں حلف نہیں ہے ہم حلف کو نہیں جانتے۔بینواتوجروا۔
الجواب: صورت مسئولہ میں یہ قول قائل کا کہ ہم حلف کو نہیں جانتے ہمارے یہاں حلف نہیں ہے اگر وہ شخص اہل اسلام سے ہے اور بوجہ جہالت و نادانی یہ قول کرتا ہے تو گنہگار ہے توبہ چاہئے اور اگر جانتا ہے کہ یہ حکم شرع ہے اور تکذیب کرتا ہے یا اہانت کرتا ہے تو حکم کفر عائد ہوتا ہے اس لئے کہ یہ حکم حدیث مشہور
البینۃ للمدعی والیمین علی من انکر۲؎
 (گواہی مدعی کو لازم اور قسم مدعی علیہ منکر پر ہے۔ت) سے ثابت ہےاوراجماع تمام امت مرحومہ کا اس پر ہے،
 (۲؎ صحیح البخاری    کتاب الرہن     باب اذااختلف الراہن والمرتہن     قدیمی کتب کراچی    ۱/ ۲۴۲)

(جامع الترمذی     ابواب الاحکام     باب ماجاء ان البینۃ علی المدعی    امین کمپنی دہلی         ۱/ ۱۶۰)

(سنن الدار قطنی     باب فی المرأۃ تقتل اذاارتدت    نشر السنۃ ملتان    ۴/ ۲۱۸)

(السنن الکبرٰی    کتاب الدعوی     باب البینۃ علی المدعی الخ    دارصادربیروت    ۱۰/ ۲۵۲)
ھذاصورت  الجواب واﷲ اعلم بالصواب فقط
بیشک حلف حدیث مشہور سے ثابت ہے۔         الجواب صحیح                    العبد المجیب محمد عبدالغفار خاں عفی عنہ 

العبد محمد ہدایت  اﷲ عفی عنہ                  محمد عبدالجبار خاں عفی عنہ            		 مہر
الجواب : سائل غلام رسول ترہ فروش پوری نے واقعہ بیان کیا کہ ان کی برادری کا کوئی شخص بدایوں سے آیا تھا حسب رواج قوم اسے دعوت دینی تھی، ایک برادر اسے دعوت دینے گیا وہ نہ ملا پھر پنچایت میں دعوت نہ دئے جانے کا شاکی ہوا اس پر اس برادر سے کہا گیا تم حلف سے کہہ دو کہ تم دعوت دینے گئے تھے اس نے حلف سے کہہ دیا اس پر چند اشخاص نے وہ لفظ کہے، نیز غلام رسول نے بیان کیا کہ وہ اور حافظ علاء الدین اورجماتین شخص مجیب کے پاس گئے اور واقعہ مذکورہ ہمارے سامنے حافظ مذکور نے مجیب سے کہا
اور نشان انگوٹھا غلام رسول
فتوٰی طلب کیا جس پر یہ جواب لکھا،  اگر یہ بیان واقعی ہے تو یہاں ہر گز نہ کوئی شرعی دعوٰی تھا نہ کوئی مدعی نہ مدعا علیہ نہ کسی پر حلف عائد، اسے حدیث
البینۃ للمدعی والیمین علی من انکر۱؎
 (گواہی مدعی کو لازم اور قسم مدعی علیہ منکر پر ہے۔ت) کے تحت میں داخل کرنا صریح جہل وظلم ہے،
 (۱؎ صحیح البخاری    کتاب الرہن     باب اذااختلف الراہن والمرتہن    قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۲۴۲)

(جامع الترمذی     ابواب الاحکام     باب ماجاء ان البینۃ علی المدعی    امین کمپنی دہلی         ۱ /۱۶۰)

(سنن الدار قطنی     باب فی المرأۃ تقتل اذاارتدت    نشر السنۃ ملتان    ۴/ ۲۱۸)

(السنن الکبری للبیہقی    کتاب الدعوٰی والبینات        دارصادر بیروت    ۱۰ /۲۵۲)
اوربفرض باطل اگر اس کا کہنا کہ میں دعوت دینے گیا تھا دعوٰی ہوتا تو منکر تو بدایوں والا تھا اس پر حلف آتا نہ کہ مدعی پر، یہ دوسری جہالت شدیدہ ہے، بلا شبہہ ایسا حلف شریعت میں نہیں اور اس نے ٹھیک کہا تو اس پر حکم گناہگاری و توبہ تیسری جہالت ہے اور سب سے سخت تراشد وہ کہ اس باطل محض کو معاذ اﷲ حکم شرع ٹھہرا کر اس کی تکذیب کے سبب مسلمان پر حکم کفر عائد کرنا، حالانکہ اگر عقل سے کام لینا ہو تو باطل محض کو حکم شرع قرار دینے ہی پر یہ کہنا لازم کہ یہ قرار دینے والا اگر چہ بوجہ جہالت و نادانی یہ قول کرتا ہے تو گنہگار ہے توبہ چاہئے اور اگر جانتا ہے کہ یہ حکم شرع نہیں اور قصدا اﷲ ورسول پرجھوٹی شریعت کا افتراء کرتا ہے تو حکم کفر عائد ہوتا ہے اس لئے کہ قرآن عظیم میں ہے :
انما یفتری الکذب الذین لایؤمنون ۱؎
جھوٹ کا افتراء وہ لوگ کرتے ہیں جو مومن نہ ہوں(ت)
(۱؎ القرآن الکریم    ۱۶ /۱۰۵)
اورفرماتا ہے :
ان الذین یفترون علی اﷲ الکذب لایفلحون۲؎۔
جولوگ اﷲ تعالٰی پر جھوٹ افتراء باندھتے ہیں وہ فلاح نہ پائیں گے۔(ت)
    (۲؎ القرآن الکریم     ۱۶ /۱۱۶)
ظاہر صورت اولٰی ہے کہ بوجوہ جہالت ایسا کہا ہے جس پر ''ھذا صورت الجواب''بتائے کشیدہ قرینہ ہے مگر یہ فقط اس قول باطل ہی کا گناہ نہیں جاہل کو فتوٰی دینا کس نے حلال کیا، 

حدیث میں ہے:
من افتی بغیر علم لعنتہ ملٰئکۃ السٰمٰوت والارض۳؎ اوکما قال صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم۔
جو بے علم فتوٰی دے آسمانوں اور زمین کے فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں(یا جس طرح حضور اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا۔ت) والعیاذ باﷲ تعالٰی،
(۳؎ کنز العمال     بحوالہ ابن عساکر    حدیث ۲۹۰۱۸    موسسۃ الرسالۃ بیروت    ۱۰ /۱۹۳)

(الفقیہ والمتفقہ     باب ماجاء من الوعید لمن افتی بغیر علم    حدیث ۱۰۴۳    دارابن جوزی ریاض     ۲ /۳۲۷)
اور بالفرض اگر سائل کا بیان غلط ہے اور مجیب سے واقعہ بیان نہ کیا گیا جب بھی اتنے بیان سوال سے مجیب کا یہ ٹھہرالیناکہ ترہ فروشوں کی قومی پنچایت میں کوئی شرعی دعوٰی پیش ہوااور یہ کہ انہوں نے منکر پر حلف رکھا جہالت ہے قومی پنچائتوں کو کون نہیں جانتا
ومن لم یعرف اھل زمانہ فھو جاہل۴؎
 (جو اہل زمانہ کونہیں جانتا وہ جاہل ہے۔ت)
 (۴؎ درمختار         باب الوتر والنوافل    مطبع مجتبائی دہلی     ۱ /۹۹)
اور مدعی و منکر کی شناخت ہزاروں جگہ علماء کو تو سخت دشوار ہوتی ہے نہ کہ جہال، مگر مجیب نے اپنے شہر کے ترہ فروشوں کو شاید امام مجتہد فرض کرلیا،مسلمان پر حکم معصیت بلکہ ایک وجہ پر حکم کفر لگانے کےلئے تنقیح ضرورتھی کہ کیا معاملہ کیسا حلف، مگر اسے تو وہ جانے جسے علم و دین سے حصہ عطا ہوا، بہر حال جواب رام پور جہل وظلم ضرور، ولاحول ولاقوۃ الاباﷲالعلی العظیم۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۸۲: ازعظیم آباد پٹنہ    مرسلہ قاضی محمد عبدالوحید صاحب     ذی الحجہ ۱۳۲۲ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہندہ نے انتقال کیا اور شوہر اورایک شیر خوار بچہ اور ایک نانی اور دو بھائی حقیقی چھوڑے، بعد وفات ہندہ آپس میں من حیث ترکہ پانے کے نزاع واقع ہوئی، ہندہ کے بھائیوں نے ہندہ کے شوہرسے دین مہر خالدہ اخت ہندہ کا جو قبل شوہر ہندہ کے نکاح میں تھی اور بعد لاولد فوت ہونے اس کے ہندہ نکاح میں آئی تھی اداکاری کا مطالبہ کیا اور چونکہ خالدہ اخت ہندہ کا دین مہر واقعی واجب الادا تھا تو جو حصہ ۸/ متروکہ کہ شوہرنے پایا وہ شوہر ہندہ نے محض دیانتداری سے بعوض دین مہر چھوڑدیا، مگر ازانجا کہ برادراں ہندہ کی جس نے اپنا دین مہر معاف کردیا تھا نیت صاف نہ تھی چہارم حصہ متروکہ ہندہ کو ابھی اسی دین مہر سابق میں ملاکر ہضم کرنا چاہا اور ہندہ کی نانی کو بھی نالش پر ابھارا تو شوہر ہندہ نے محض بغرض استحفاظ حصہ چہارم اپنے مصلحۃً یہ بیان کرنا شروع کیا کہ ہندہ نے مرض الموت مں اپنی کل جائداد اپنے شیر خوار بچہ کو ہبہ کردی جس کا کوئی گواہ بجز شوہر ہندہ کے نہ تھااور بعض مقامات میں بذریعہ تحریری شوہر ہندہ نے اس وقت تک ہبہ کا اقرار کیا کہ وہ ششم حصہ بھی خود اپنے مال سے اسم فرضی اپنے پسر کے خرید لیا اور رمن بعد برابر کا غذات وغیرہ پر خود اپنے اور اپنے شیر خوار لڑکے کی طرف سے بحیثیت ولایت کے دستخط کرتا رہا اور برابر وہ جائداد پسر ہندہ کے قبضہ میں حسب حصہ رسد کے رہی تااینکہ وہ لڑکا عاقل و بالغ ہوا پھر اس کی شادی بھی ہوئی تو اب وہ لڑکا کل متروکہ اپنے مادر متوفیہ ہندہ پر دعوٰی کرتا ہے اور چہارم حصہ پدری اور اس حصہ پر جواس کے باپ شوہر ہندہ نے اپنے پسر کے نام سے اسم فرضی ہندہ کی نانی  سے خریدا تھا دونوں کو ہضم کرنا چاہتا ہے اور کچہری میں مقدمہ دائر کیا ہے اور اپنے پدر کے اقرار ہبہ کو جو مثل خریداری ششم حصہ کو وہ مصلحۃً بیان کرتا رہا استدلال میں پیش کرتا ہے اور کسی حال میں باوجود فہمائش بلیغ منازعت سے باز نہیں آتا اور باپ کی تعظیم و تکریم تو درکنار ماں وپدر کو غلط اور لغو جانتا ہے اور حقوق پدر کا مطلق خیال نہیں کرتا تو ایسی صورت میں علمائے دین کا اس مصلحتی اقرار پدر متعلق ہبہ کے کیا ارشاد ہے اور اس پسر کے اس تکرار وفساد کو صحیح ودرست جانتے ہیں یا بالعکس؟ بینواتوجروا۔
Flag Counter