Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
54 - 151
مسئلہ۷۸: ازریاست رام پور تھانہ حجیانے متصل زیارت نعیم شاہ صاحب مرسلہ سید چھٹن میاں صاحب غرہ جمادی الاولٰی۱۳۱۷ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہندہ نے ایک منزل مکان اپنا وقف کرکے زید کو متولی اس کا کردیا، زید قابض مکان مذکورہے، اب زید پر بکر نے دعوٰی ایک دیوار پچھیت وپاکھے مکان اپنے کا دائر کچہری کیا، زید نے بکر کی دیوار پچھیت وپاکھے سے انکار کیا، بکر نے حصر دعوی اپنے کا حلف زید پر کیا، زید کہتا ہےکہ میں مالک مکان موقوفہ نہیں ہوں مجھ پر شرعاً حلف متوجہ نہیں ہوتا ہے، پس دریافت کیا جاتا ہے کہ زید پرحلف شرعاً نسبت دعوٰی بکر آتا ہے یا بوجہ متولی اور غیر مالک مکان ہونے کے حلف متوجہ نہیں ہوتا۔بینواتوجروا۔
الجواب: فی الواقع صورت مستفسرہ میں زید متولی پر حلف متوجہ نہیں متولی پر حلف صرف اس وقت میں آتا ہے جب خود اس پر کسی عقد کا دعوٰی کیاجائے مثلاً کوئی مدعی ہو کہ فلاں زمین وقفی ا س نے میرے اجارے میں دی عقد تمام ہوگیا اور اب قبضہ نہیں دیتا یا اس کے مثل اور دعوٰی۔ 

تنویر الابصار میں ہے :
الوصی والمتولی وابوالصغیر یملک الاستحلاف ولایحلف۱؎۔
وصی، متولی، نابالغ کا باپ قسم لے سکتے ہیں اور ان سے قسم نہیں لی جاسکتی۔(ت)
 (۱؎ درمختار شرح تنویر الابصار    کتاب الدعوٰی     مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۱۱۸)
درمختار و تنویر الابصار وبحرالرائق میں ہے :
لایستحلف الاب فی مال الصبی ولا الوصی فی مال الیتیم ولا المتولی للمسجد والاوقاف الااذاادعی علیہم العقد۲؎۔
والد سے نابالغ بیٹے کے مال سے متعلق ولی سے یتیم کے مال اور متولی سے مسجد واوقاف کے متعلق قسم نہ لی جائے گی ان سے قسم صرف اس صورت میں لی جائیگی جب ان پر کسی عقد کا دعوٰی ہو۔(ت)
(۲؎درمختار شرح تنویر الابصار کتاب الوقف   مطبع مجتبائی دہلی    ۱ /۴۰۱)

(بحرالرائق         کتاب الدعوٰی    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۷/ ۲۰۹)
ردالمحتار میں ہے :
قولہ لایستحلف الاب اھ ای لوجنی الصبی جنایۃ فانکر ابوہ اووصیہ او ادعی احد جدارالمسجد اوالدار الموقوفۃ اوانہ انفق علی الوقف شیئا باذن المتولی السابق۳؎۔ واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
ماتن کا قول کہ''باپ سے قسم نہ لی جائے گی الخ'' یعنی بچے کی جنایت کا دعوٰی ہو اور باپ اس کا انکار کرے یا اس بچے کے لئے وصی ہو وہ انکار کرے یا کوئی متولی پر مسجد یا وقف شدہ مکان اور اس کی دیوار کا دعوٰی کرے یا یہ کہ اس نے پہلے متولی کی اجازت سے وقف پر اپنا مال خرچ کرنے کا دعوٰی کیا ہو تو ان پر قسم نہ ہوگی۔ واﷲسبحانہ وتعالٰی اعلم(ت)
(۳؎ ردالمحتار         کتاب الوقف    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۳ /۴۴۹)
مسئلہ۷۹: ازشہر مدرسہ اہل سنت  مسئولہ مولوی عبدالرحیم متعلم مدرسہ مذکور    جمادی الآخر۱۳۳۰ھ

ماقولکم رحمکم اﷲ(اﷲ تعالٰی آپ پر رحم فرمائے آپ کا کیافرمان ہے۔ت) کہ زید کا نکاح ہندہ سے ہو ااور اس سے ایک لڑکا عمرو پیدا ہوابقضائے الٰہی زید فوت ہوا والد زید خالد موجود ہے جو دادا عمرو کا ہوتا ہے اب بوجہ نزاع جائداد کے خالد دادا عمرو کا یہ قول ہے کہ زید کانکاح ہندہ سے نہیں ہوا تھا اور نیز قاضی جس نے نکاح پڑھایا تھا اس سے اس امر میں جھوٹ بلوانا چاہتا ہے کہ جھوٹی گواہی دے دو کہ میں نے نکاح نہیں پڑھایا کفارہ ادا کردیاجائے گا، آیا جائز ہے کہ قاضی نکاح کچہری میں کہہ دے کہ میں نے نکاح نہیں پڑھایا یا سچ بولے اور شہادت کا ذبہ میں کفارہ ہوگا یا نہیں؟
الجواب: جھوٹی قسم جو آئندہ کی بابت کھائی جائے اس کا کفارہ ہے اور جھوٹی گواہی کا کچھ کفارہ نہیں۔حدیث میں ہے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:

''جھوٹ گواہی دینے والا گواہی دینے کی جگہ سے اپنے پاؤں ہٹانے نہیں پاتا کہ اﷲ تعالٰی اس کے لئے جہنم واجب کردیتا ہے''۔ واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۸۰: ازنباہٹرہ علاقہ ریاست ٹونگ مرسلہ خدابخش ابراہیم ۳۰/رمضان ۱۳۳۲ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص نے بحکم شرع شریف میں دعوٰی کیا مبلغ (للعم ہما للع للعہ) کا مدعا علیہ نے (ماللع ؂) کا اقرار کیا باقی رقم مذکور سے انکار کیا تو عدالت شریعت نے مدعی کے پاس سے ثبوت طلب کیا اس میں مدعی نے پانچ گواہ پیش کئے گواہ مذکورعدالت شریعت میں قابل التفات کےنہیں اس وجہ سےکہ گواہوں میں اختلاف بہت اورمجہول گواہی دینےسےعدالت شریعت نےگواہی نامنظورفرمائی اورازروئےحدیث شریف کے مدعا علیہ پر قسم کا حکم دیا 

وہ حدیث شریف یہ ہے :
البینۃ علی المدعی والیمین علی من انکر ۱؎۔
گواہی مدعی پر اور قسم منکر پر لازم ہے(ت)
 (۱؎ السنن الکبرٰی للبیہقی    کتاب الدعوٰی     باب البینۃ علی المدعی الخ    دارصادر بیروت    ۱۰ /۲۵۲)

(صحیح البخاری     کتاب الرہن     باب اذااختلف الراہن والمرتہن     قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۲۴۲)

(جامع الترمذی     ابواب الاحکام    باب ما جاء ان البینۃ علی المدعی    امین کمپنی دہلی         ۱ /۱۶۰)
آیا اس صورت میں حدیث شریف کا مطلب یہی ہے کہ گواہ پیش ہونے پر بھی مدعا علیہ پر بھی قسم عائد ہوتی ہے یانہیں، جواب استفتاء بحوالہ کتب وعبارت عنایت فرمائیں اس لئے کہ میرے مقدمہ کی پیشی ۴/ شوال ۱۳۳۸ھ ہے براہ کرم جواب جلد عنایت ہو۔
الجواب :  شہادت کے موجود ہوتے مدعی مدعا علیہ کا حلف طلب نہیں کرسکتا مگرشہادت وہ ہےکہ مفید مدعا ہے ورنہ نام شہادت ہے حقیقۃً شہادت معدوم ہے ایسی صورت میں مدعا علیہ پر حلف عائد ہوسکتا ہے مگر حاکم بطور خود اس پر حلف نہیں رکھ سکتا بلکہ مدعی کا طلب کرنا شرط ہے وہ چاہے کہ مدعا علیہ سے حلف لیاجائےتو قاضی اس سے حلف لے اس لئے کہ حلف حق مدعی ہے جس طرح حلف لینا حق قاضی ہے بالجملہ جب مدعی شہادت اصلاً نہ دے یا جو گواہ پیش کرے ان سے ثبوت دعوٰی نہ ہو تو اگر مدعی مدعا علیہ کا حلف نہ مانگے مقدمہ خارج کردیاجائے،
لانہ ادعی ولم ینورد عواہ بالبینۃ والمدعی علیہ منکر وھذا لایطلب حلفہ فانسدت طرق القضاء۔
کیونکہ دعوٰی کرکے گواہی پیش نہ کرے اور مدعی علیہ منکر ہے مدعی اس سے قسم بھی طلب نہ کرے تو فیصلہ کے راستے بند ہوگئے۔(ت)

اور اگر مدعی حلف مانگے تو بطور خودمدعاعلیہ پر قسم نہیں رکھ سکتا اگر رکھے گا اور وہ حلف سے انکار کردے یہ انکار معتبر نہ ہوگا کہ حلف لینا حق قاضی ہے حاکم بر طلب مدعی مدعا علیہ پر حلف رکھے اب اگر مدعا علیہ حلف سے انکار کردے تو دعوٰی ڈگری کیا جائے اور حلف کرلے تو ڈسمس۔

 ہدایہ میں ہے:
اذاصحت الدعوٰی سأل القاضی المدعی علیہ عنہا لینکشف وجہ الحکم فان اعترف قضی علیہ بھا، وان انکر سأل المدعی البینۃ لقولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الک بینۃ فقال لافقال لک یمینہ سأل و رتب الیمین عما فقد البینۃ فلا بد من السوال لیمکنہ الاستحلاف وان احضرھا قضی بھا لانتفاء التھمۃ عنہا، وان عجز عن ذلک وطلب یمین خصمہ استحلفہ علیہا لماروینا ولا بد من طلبہ لان الیمین حقہ الا تری انہ کیف اضیف الیہ بحرف اللام فلابد من طلبہ ۱؎ اھ فانظر الی قولہ ان احضرھا قضی بھا فانما ارادالبینۃ المثبتۃ للدعوی والیہا الاشارۃ فی قولہ و ان عجز عن ذٰلک، فمن اتی ببینۃ لم تفت فقد عجز عن اقامتہا علی دعواہ۔
جب دعوٰی صحیح ہو تو قاضی مدعا علیہا سے دعوٰی کے متعلق سوال کرے تاکہ فیصلہ کا طریقہ واضح ہوسکے تو اگر مدعٰی علیہ دعوٰی کو مان لے تو ا س کے خلاف دعوٰی کا فیصلہ کردے اور اگر وہ انکارکرے تو اب قاضی مدعی سے گواہ طلب کرے کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مدعی کو فرمایا کیا تیرے پس گواہی ہے تو اس نے کہا نہیں ہے، تو آپ نے فرمایا اب تجھے مدعی علیہ کی قسم کا حق ہے پس حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مدعی سے پوچھا اور قسم کو گواہی نہ ہونے پر مرتب فرمایا تو گواہی کا سوال ضروری ہے تاکہ موجود نہ ہونے پر قسم لی جاسکے، اور اگر مدعی نے گواہی پیش کردی تو قاضی اس پر فیصلہ کردے کیونکہ کوئی اعتراض نہ رہا اور اگر گواہی پیش کرنے سے معذور ہے اور وہ مدعی علیہ سے قسم طلب کرے تو قاضی قسم لے جیساکہ ہم نے روایت کیا مدعی کا قسم طلب کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ اس کا حق ہے، دیکھا نہیں کہ حدیث کے الفاظ میں قسم کو مدعی کی طرف حرف لام سے مضاف کیا ہے تو مدعی کا طلب کرنا ضروری ہے، اھ مصنف کے قول''اگرگواہی پیش کردے تو فیصلہ دے دے''پر غور کرو، تو یہ گواہی صرف وہی ہوسکتی ہے جو دعوٰی کےلئے مثبت ہو اور ایسی ہی گواہی کے متعلق اشارہ فرمایا، اگر اس سے عاجز ہو، تو اگر مدعی گواہی پیش کرے جو مفید نہ ہو تو وہ اپنے دعوٰی پر گواہی سے عاجز ہوا(ت)
(۱؎ الہدایۃ     کتاب الدعوٰی     مطبع یوسفی لکھنؤ    ۳ /۲۰۱)
غایۃ البیان میں ہے :
اذاقال المدعی لی بینۃ حاضرۃ وطلب الیمین لم یستحلف عند ابی حنیفۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ احتج بماروی عن رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم انہ قال للمدعی الک بینۃ قال لا قال لک یمینہ فالنبی صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم رتب الیمین علی البینۃ فدل علی ان الیمین انما تکون حجۃ عندعدم البینۃ ولان الیمین الکاذبۃ مھلکۃ فالمدعی علیہ متی اتوی حق المدعی فالشرع جعل الیمین الکاذبۃ حقالہ حتی تصیر مھلکۃ ایاہ بازاء ما اھلک من المال اھلاکا بازاء اھلاک وانما یستحق اتواء الحق علی المدعی اذالم تکن بینۃ فاما اذاکان لہ بینۃ لایتوی حقہ بل یمکنہ اثبات حقہ بالبینۃ فلا یجعل الیمین المھلکۃ حقالہ فی ھذہ الحال لانہ فی غیر وقتہ۱؎ اھ ومعلوم ان الاتواء حاصل مع بینۃ لم تثبت دعواہ فکانت کلابینۃ بناءً علی ان البینۃ اذالم توافق الدعوی ومنہ الشہادۃ بالمجھول بقیت بلا دعوی والدعوی شرط الشہادۃ فی حقوق العباد وانتفاء الشرط انتفاء المشروط فظہرانہ عجز من البینۃ فلہ طلب حلف المدعی علیہ۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
جب مدعی نے بتایا کہ میرے گواہ موجود ہیں،اس کے باوجود قسم کا مطالبہ کرے تو امام ابوحنیفہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے نزدیک قاضی قسم نہ لے گا، ان کی دلیل، نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا مدعی سے یہ استفسار کہ کیا تیری گواہی ہے اس نے جواب میں عرض کیا نہیں ہے، تو اس کو فرمایا تجھے قسم کا حق ہے، تو نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے قسم کو گواہی پر مرتب فرمایا تو اس سے معلوم ہوا کہ قسم تب حجت ہوگی جب گواہی نہ ہو، اور اس لئے بھی کہ جھوٹی قسم ہلاکت ہے مدعٰی علیہ جب مدعی کا مال ضائع کرے تو شریعت نے مدعی کو اس کی جھوٹی قسم کا حق دیا ہے تاکہ جھوٹی قسم مدعی علیہ کے لئے ہلاکت بن جائے تاکہ مدعی کا مال ہلاک کرنے کے بدلے اس کو ہلاکت ملے، تو اس وجہ میں مدعٰی علیہ مدعی کے حق کو نقصان تب پہنچاسکے گا جب مدعی کے پاس گواہی نہ ہوتو جب تک گواہی ہےاس کا حق ضائع نہ کرسکے گا بلکہ مدعی اپنے حق کو گواہی کے ذریعے ثابت کرلے گا لہذا اس حال میں ہلاک کرنیوالی قسم مدعی کا حق نہ بنے گی کیونکہ وہ وقت نہیں ہے اھ اور یہ بات واضح ہے کہ ایسی گواہی جو دعوٰی کوثابت نہ کرسکے تو وہ کالعدم قرار پائے گی اس بناء پر کہ وہ گواہی دعوٰی کے موافق نہ ہوئی، اس کی ایک صورت یہ ہے کہ شہادت مجہول ہوتوگویا دعوٰی ثابت نہ ہوا، حالانکہ شہادت کے لئے دعوٰی ضروری شرط ہے تو جب شرط نہ ہوئی تو مشروط نہ ہوا، توظاہر ہوگیا کہ دعوٰی پر گواہی سے عاجز ہے تو اسے قسم طلب کرنے کا حق ہے، واﷲتعالٰی اعلم(ت)
 (۱؎ غایۃ البیان )
Flag Counter