Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
53 - 151
حلف دینا مدعی یا وکیل مدعی کا حق نہیں حق حاکم ہے حق مدعی حلف لینا یعنی طلب حلف ہے وبس، ولہذا اگر مدعی خودحاکم کے سامنے دارالقضاء میں بطور خود مدعا علیہ کو حلف دے لے مقبول نہیں اگر چہ وہ حلف بروجہ کافی ہی دیا گیا ہو۔

عالمگیریہ میں ہے :
لوحلف بطلب المدعی یمینہ بین یدی القاضی من غیر استحالف القاضی فھذالیس بتحلیف لان التحلیف حق القاضی کذافی القنیۃ وھکذافی البحرالرائق۲؎۔
اگر مدعی از خود قاضی کی موجودگی میں مدعی علیہ سے قسم طلب کرے تو قاضی کی طلب کے بغیر قسم کھلانا جائز نہیں کیونکہ قسم کا مطالبہ اور قسم کھلانا قاضی کا حق ہے قنیہ اور بحرالرائق میں یوں ہے۔(ت)
 (۲؎ فتاوٰی ہندیہ    کتاب الدعوٰی    الباب الثالث    نورانی کتب خانہ پشاور    ۴ /۱۳)
در مختا رمیں ہے :
المدعی لواسقطہ ای الیمین قصدا بان قال برئت من الحلف اوترکتہ علیہ اووھبتہ لایصح ولہ التحلیف بخلاف البرائۃ عن المال لان التحلیف للحاکم، بزازیۃ۳؎۔
مدعی نے اگر مدعی علیہ سے قسم کو ساقط کرتے ہوئے کہا میں نے تجھے قسم سے بری کیا، یا، تجھ سے قسم لینا میں نے ترک کیا یا میں نے تجھے یہ حق ہبہ کردیا تو مدعی کا قصدا قسم کو ساقط کرنا صحیح نہ ہوگا کیونکہ قسم کھلانا قاضی وحاکم کا حق ہے، اس کے برخلاف اگر مدعی اس کو مال سے بری کردے تو جائز ہے بزازیہ۔(ت)
 (۳؎ درمختار     کتاب الدعوٰی    مطبع مجتبائی دہلی   ۲ /۱۲۰)
اسی میں ہے :
الیمین حق القاضی مع طلب الخصم۱؎۔
فریق مخالف کے مطالبہ پر قسم قاضی کا حق ہے(ت)
 (۱؎ درمختار    کتاب الدعوٰی    مطبع مجتبائی دہلی    ۲ /۱۱۶)
اسی میں ہے :
ونقل المصنف عن القنیۃ ان التحلیف حق القاضی فما لم یکن باستحلافہ لم یعتبر۲؎۔
مصنف نے قنیہ سے نقل کیا ہے کہ قسم کھلانا قاضی کا حق ہے تو جو قسم قاضی کی جانب سے نہ ہو وہ معتبر نہیں۔(ت)
(۲؎درمختار    کتاب الدعوٰی    مطبع مجتبائی دہلی  ۲ /۱۱۶)
تو ہدایت صاحب حق یعنی حاکم کے خلاف جو نا کافی و ناتمام حلف رکھا گیا اگرچہ خود وکیل مدعیہ یا مدعیہ نے آپ ہی رکھا ہو کیا معتبر ہوسکتا ہے بلکہ ناکافی حلف تو خود حاکم کا رکھا ہوا بھی مقبول نہیں اسے بیکار ٹھہراکردوبارہ حلف دینا ہوگا۔ 

محیط وجامع الفصولین و تبیین الحقائق وعالمگیریہ ودررالحکام ودرمختار وغیرہا عامہ اسفار میں ہے:
فی کل موضع وجبت الیمین فیہ علی البتات فحلف علی العلم (ولفظ جامع الفصولین عن المحیط فحلفہ القاضی علی العلم) لاتکون معتبرۃ حتی لایقضی علیہ بالنکول ولاتسقط الیمین عنہ۳؎۔
جس مقام پر قطعیت پر قسم چاہئے تو وہاں علم کی قسم کھائی، (اور جامع الفصولین میں محیط سے منقول الفا ظ یہ ہیں) تو قاضی نے وہاں اس سے علم کی قسم لی، تو یہ معتبر نہ ہوگی حتی کہ ایسی قسم کے انکار پر فیصلہ نہ کرسکے گا اور نہ ہی قسم ساقط ہوگی(ت)
 (۳؎ فتاوٰی ہندیہ    بحوالہ التبیین     کتاب الدعوٰی   الباب الثالث     الفصل الثانی     نورانی کتب خانہ پشاور   ۴ /۲۴)

(جامع الفصولین    الفصل الخامس عشر    اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۱۹۴)
وجیز امام کردری نوع ثالث فصل سابع کتاب القضاء میں ہے :
من لہ حق الحلف علی البتات اذاحلف القاضی خصمہ علی العلم یبقی لخصمہ حق البتات۴؎۔
جہاں پر صاحب حق کو قطعیت پر قسم مطلوب ہو وہاں قاضی مدعی علیہ سے علم کی قسم لے تو دوسرے فریق یعنی مدعی کو قطعیت پر قسم کا حق باقی ہے۔(ت)
 (۴؎ فتاوٰی بزازیہ علی ہامش الفتاوٰی الہندیہ   کتاب القضاء     فصل سابع نوع ثالث     اسلامی کتب خانہ کراچی ۵ /۲۰۵)
ان عبارات سے واضح کہ حلف جب فی نفسہٖ ناکافی ہو تو اگرچہ دونوں صاحب حق اعنی مدعی و قاضی کی مرضی مجتمع ہوجائے جب بھی مقبول و مسقط حلف نہ ہوگا اور بہ طلب مدعی دوبارہ حلف دینا لازم آئے گا۔
فافھم رتبواعدم اعتبارہ علی وقوعہ لاعلی الوجہ الذی وجب لوکان بلا تحلیف القاضی لم یعتبر قط وان وقع علی الوجہ الواجب کما سلف وکذا لوکان بلا طلب المدعی۔ فی جامع الفصولین اواخرالفصل الخامس عشر عن فتاوی رشید الدین القاضی لو حلف بغیر طلب المدعی ثم طلب المدعی تحلیفہ فلہ ان یحلفہ ثانیا۱؎اھ فعلم ان وقوعہ لا علی الوجہ الواجب مستقل بالرد وان وقع بطلب المدعی وتحلیف القاضی۔
جس طور قسم واجب تھی اس کے خلاف قسم پر فقہاء نےعدم اعتبار کو مرتب کیا ہے کہ قاضی کی طرف سے قسم طلب کئے بغیر صحیح طور بھی قسم ہوئی تو ہر گز معتبر نہ ہوگی جیساکہ گزرا ہے اور یونہی اگر وہ قسم مدعی کے مطالبہ کے بغیر ہوئی ہو، جامع الفصولین کی پندرہویں فصل میں فتاوٰی رشید الدین سے منقول ہے کہ قاضی نے اگر مدعی کے مطالبہ کے بغیر قسم لے لی، اور اس کے بعد مدعی نے قسم کا مطالبہ کیا ہو تو اس کو دوبارہ قسم کھلانے کا حق ہوگا اھ، تو معلوم ہوا کہ واجبی طور کے خلاف ہونا یہ نا اعتباری کی مستقل وجہ ہے اگرچہ یہ مدعی کے مطالبہ اور قاضی کے قسم لینے پر ہو۔(ت)
 (۱؎ جامع الفصولین    الفصل الخامس عشر    اسلامی کتب خانہ پشاور    ۱ /۲۰۵)
پس صورت مستفسرہ میں لازم کہ حاکم امیر النساء بیگم سے دوبارہ حلف تام شرعیہ بروجہ صحیح وکافی لے۔
 واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ وجل مجدہ اتم واحکم۔
Flag Counter