Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
52 - 151
وجیز امام کردری نوع اخیر فصل خامس عشر من الدعوٰی میں ہے:
فی دعوی الدیباج والجوہر یشترط ذکرالوزن اذالم یکن حاضرا وان حاضرا فلا لتفوت القیمۃ بتفاوت الوزن۲؎۔
ریشمی کپڑے اور جواہر میں وزن کا ذکر شرط ہے جب حاضر نہ ہو اور اگر حاضر ہوتوضروری نہیں کیونکہ وزن کے اختلاف سے قیمت میں اختلاف ہوتا ہے(ت)
(۲؎ فتاوٰی بزازیہ علی ہامش الفتاوٰی الہندیہ     کتاب الدعوی    نوع من الفصل الخامس عشر نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۴۲۵)
اسی کی نوع مذکور میں ہے:
ذکر الوتار، ادعی زندنیجا طولہ بذرعان خوارزم کذاوشھد وابذلک کذٰلک بحضرۃ الزندنیجی فذرع فاذاھو ازید اوانقص بطلت الشہادۃ والدعوی کما اذاخالف سن الدابۃ الدعوی او الشہادۃ وقولھم الذرع وصف فیلغوفی الحاضر ذٰلک فی الایمان والبیع لافی الدعوٰی والشہادۃ فانھما اذاشھدابوصف فظھرخلافہ لایقبل وذکر ایضا ادعی حدیدامشاراالیہ وذکرانہ عشرۃ امناء فاذاھو عشرون او ثمانیۃ تقبل الدعوی والشھادۃ لان الوزن فی مشار الیہ لغوا۳؎ اھ قلت وقولاہ علی اختلافھما مجمعان علی اعتبار الوزن فی الغائب اما الاول فظاہر فانہ اذااعتبر الوصف فی الحاضر فا عتبار العین فی الغیب اولی بدرجتین اماعرف فی موضعہ ان الذراع وصف والقدر عین واما الثانی فلان الالغاء للاشارۃ فاذاانتفی انتفی۔
زندنیجا کا دعوی کیا اس کی پیمائش خوارزمی گزوں سے بتائی کہ اتنی  ہے اور گواہوں نے بھی یہی گواہی دی زندنیجی حاضر کی گئی اور پیمائش کرنے پر مذکورہ پیمائش سے کم یا زیادہ ہوئی تو دعوٰی اور شہادت دونوں باطل ہوجائیں گی جیسا کہ دعوٰی اور شہادت میں جانورکی عمرو کا معاملہ ہے، باقی رہا فقہاء کا یہ ارشاد کہ پیمائش وصف ہے تو حاضر میں اس کاذکر لغو ہوتا ہے تو یہ ضابطہ قسم اور بیع میں ہے دعوٰی اور شہادت میں نہیں کیونکہ ان دونوں میں جب وصف کو ذکر کیا تو اس کاخلاف ظاہر ہونے پر مقبول نہ ہونگے، اور یہ بھی ذکر کیا کہ موجود لو ہے پر اشارہ کرتے ہوئے دعوٰی کیا اور بتایا کہ اس کا وزن دس من ہے تو وہ بیس یاآٹھ من نکلا تو دعوٰی اور شہادت مقبول ہوگی کیونکہ مشار الیہ میں وزن کاذکر لغو ہے اھ قلت(میں کہتا ہوں) اس کے دونوں متخالف قول غائب چیز میں وزن کے اعتبار میں جمع ہوسکتے ہیں پس اول ظاہر ہے اس لئے کہ جب حاضر میں وصف کا اعتبار ہوگا تو غائب میں بطریق اولٰی دو درجہ ہوگا کیا معلوم نہیں کہ ذراع وصف اور قدر عینی چیز ہے اور دوسرا اس لئے کہ لغو ہونا اشارہ کی وجہ سے ہے تو جب اشارہ معدوم ہوجائے تو لغو ہونا معدوم ہوجائیگا(ت)
(۳؎فتاوٰی بزازیہ علی ہامش الفتاوٰی الہندیہ     کتاب الدعوی    نوع من الفصل الخامس عشر نورانی کتب خانہ پشاور    ۵ /۴۲۱)
غرض وکیل مدعیہ کا یہ عذر مسموع نہیں اب باقی امور کی طرف چلئے پیش از حلف جو مکالمہ محکمہ حلف گیرندہ وحالفہ میں آیا وہ نہ یا دداشت میں مسطور نہ سوال میں مذکور جس پر بالخصوص رائے قائم کی جائے مگر ملاحظہ یادداشت محکمہ حلف سے ایساظاہر ہوتا ہے کہ فرد اشیائے مدعی بہا بابت متروکہ ضیاء النساء بیگم امیر النساء بیگم کو سنا کر اسے متوجہ حلف کیا گیا یعنی اس سے کہا گیا کہ ان اشیاء کی نسبت بحلف بیان کرو اس نے کلام مذکور یا دداشت کہا جو ہر طرح سخن مستقل ہے اور اس میں ترکہ ضیاء النساء بیگم کا کہیں ذکر نہیں ہوسکتا تو عبارت حلف سے پیشترکسی کلام میں ذکر متروکہ آجانا نفس حلف میں ذکر نہیں ہوسکتا جس نے ان معاملات میں علمائے کرام کی احتیاطیں دیکھی ہیں وہ اس کا ناکافی ہونا جانے گا جہاں آہستہ سے کسی لفظ کے بڑھالینے کا احتمال پاتے ہیں وہاں اس کے قطع کی ہدایت فرماتے ہیں مثلاً شاہد کہے یہ چیز اس مدعی کی ملک ہے اور اس کا حق یوں نہ مانیں گے کہ شاید حق کے بعد آہستہ سے نہیں کہہ لے بلکہ یوں کہلوائیں گے کہ اور اس کا حق ہے، یوں ہی مدعی سے'تو جہاں کچھ بڑھانے کی بھی حاجت نہیں صرف قطع نیت و صرف ارادت سے کام چلتا ہے وہاں کیونکر پسند کریں گے،
ہندیہ میں ہے:
فی فتاوٰی النسفی ینبغی للشاہد ان یقول فی شہادتہ  ایں عین ملک ایں مدعی است وحق وی است حتی لایمکن ان یلحق بہ وحق وے نے بنفی وکان الشیخ الامام فخر الاسلام علی البزدوی یقول اذا قال المدعی فلاں چیز ملک من ست وحق من لایکتفی بہ وینبغی ان یقول وحق من ست ویقول فی قولہ وبدست فلاں بنا حق بدست فلاں بناحق است وکذٰلک فی نظائرہ حتی لایلحق بہ کلمۃ النفی قال الاحتیاط فی ھذا ولکن ھذا الاحتیاط فی موضع یطالب بالتسلیم کذافی الذخیرۃ۱؎۔
فتاوٰی نسفی میں ہے گواہ کو چاہئے کہ و ہ اپنی شہادت میں یوں کہے یہ عین چیز اس مدعی کی ملک ہے اور اس کا حق ہے تاکہ نفی کے لاحق ہونے کا احتمال نہ رہے اور امام شیخ فخر الاسلام علی بزدوی فرماتے ہیں جب مدعی کہے یہ چیز میری ملک ہے اور میر ا حق، تو کافی نہ ہوگا، بلکہ یوں کہے اور میرا حق ہے، اور اپنے قول میں، فلاں کے قبضہ میں ناحق، کی بجائے، فلاں کا قبضہ ناحق ہے، اور اس قسم کے بیان میں، ایساچاہئے تاکہ نفی کے احق ہونے کا احتمال نہ رہے،اور فرمایا احتیاط یہی ہے، لیکن یہ احتیاط وہاں ضروری ہے جہاں قبضہ لینے کا مطالبہ ہو، جیسا کہ ذخیرہ میں ہے۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الشہادات     الباب الثالث    نورانی کتب خانہ پشاور    ۳/ ۴۶۰و۴۶۱)
اور اگر پیشتر بابت متروکہ ضیاء النساء بیگم سوال کرکے حلف لئے جانے کے یہ معنی ہوں کہ اول امیرالنساء بیگم سے کہلوالیا گیا کہ وہ دربارہ متروکہ ضیاء النساء بیگم حلف سے کہے گی یا واﷲ اس باب میں جو کہے گی حق کہے گی
کما ھو رائج فی زماننا
 (جیسا کہ ہمارے زمانہ میں رائج ہے۔ت) تو یہ محض مردود و باطل ہے جو حلف شرع مطہر نے مدعا علیہ پر لازم کیا ہے اس سے کچھ علاقہ نہیں رکھتا کہ یہ دربارہ مستقل یمین منعقدہ ہے جس کا کفارہ بہت آسان اور یہاں مقصود وہ یمین ہے کہ اگر کاذب ہو تو غمو س ہو جس کا انجام معاذاﷲ ہلاکت ہے اور اس کے لئے کوئی کفارہ ہی نہیں،     شرح ہدایہ للعلامۃ الاتقانی صدر باب الاستحلاف میں ہے :
الیمین الکاذبۃ مھلکۃ فالمدعی علیہ متی اتوی حق المدعی فالشرع جعل الیمین الکاذبۃ حقالہ حتی تصیر مھلکۃ ایاہ بازاء مااھلک من المال اھلا کا بازاء اھلاک۲؎۔
جھوٹی قسم ہلاکت ہے، تو مدعی علیہ جب مدعی کے حق کو ضائع کرتا ہے تو شریعت نے مدعی کے لئے جھوٹی قسم کو حق قرار دیا ہے تاکہ وہ مدعٰی علیہ کے لئے مال کو ہلاک کے عوض ہلاکت بن جائے (ت)
(۲؎ غایۃ البیان )
اسی طرح کافی ونتائج الافکار وغیرہا اسفار میں ہے کلام مذکور امیرالنساء بیگم کا اولاً نفی مطلق ہونا محل نظر ہے پاس بمعنی ملک بھی مستعمل ہے کسی سے کوئی کتاب عاریۃً مانگے اور وہ اس کے کتب خانہ میں نہ ہو تو کہہ سکتا ہے کہ میرے پاس نہیں اگرچہ دور رکھی ہے اول متروکہ ضیاء النساء بیگم سے مباین ہے اور دوم خاص من وجہ بہر حال اس کی نفی اس کی نفی کو مستلزم نہیں اور عموم ہی مانئے تاہم بے ضابطگی واضح، یہ استلزام نکتہ بعد الوقوع سہی مگر شرعاً یمین اس طور پر لینی چاہئے کہ نکول کرے تو دعوی کا بذل یا اقرار ظاہر ہویہاں ہر گز ایسا نہیں اگر بے تقید متروکہ مطلقاً قسم لیتے کہ فلاں فلاں اشیاء اس قیمت ووزن کی تیرے پاس نہیں وہ قسم کھانے سے انکار کرتی تو مطلق کا اقرار ہوتا جو مقید کا اقرار قرار نہ دیا جاسکتا تو نکول مہمل و فضول رہتا، 

جامع الفصولین میں ہے :
لایفید تحلیفہ لانہ لنکول ھو کاقرار۱؎۔
اس کو قسم دینا مفیدنہیں کیونکہ اس کے انکار پر وہ اقرار قرار پائے گا۔(ت)
(۱؎ جامع الفصولین     الفصل الخامس عشر  اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱ /۲۰۲)
عقود الدریہ میں ہے :
فائدۃ التحلیف القضاء بالنکول فاذالم یجز القضاء بالنکول عما ذکر فکیف یجوز التحلیف بہ لان التحلیف انما یقصد لنتیجتہ واذا لم یقضی بالنکول فلا ینبغی الاشتغال بہ وکلام العقلاء یصان عن اللغو کما اشار لذلک فی البحر المنح اھ۲؎باختصار
قسم کھلانے کا فائدہ انکار قسم پر فیصلہ کرنا مقصود ہے تو جہاں قسم کے انکار پر فیصلہ جائز نہ ہو قسم کھلانا کیونکر جائز ہوگا، کیونکہ مقصود نتیجہ خیز قسم ہے اور جب قسم کے انکار پر فیصلہ نہ کیا جاسکے تو قسم کا شغل نہ کیا جائے حالانکہ عقلاء کے کلام کو لغو ہونے سے بچایا جاتا ہے جیسا کہ اسکی طرف بحر اور منح میں اشارہ ہے اھ باختصار (ت)
 (۲؎ العقود الدریۃ     تنقیح فتاوٰی حامدیہ     کتاب الدعوٰی     ارگ بازار قندھار افغانستان     ۲/ ۳۹)
ان امور میں زیادہ نظر کی حاجت نہیں جبکہ بالبداہۃ آشکارا ہے کہ حلف مذکور محض ناکافی و مہمل واقع ہوا اور حکم حاکم دیوانی کی اصلاً تعمیل نہ ہوئی حاکم نے یادداشت میں صراحۃً یہ الفاظ لکھے تھے کہ کوئی چیز اس فہرست میں کے بابت متروکہ ضیاء النساء بیگم پاس مدعا علیہا کے نہیں ہے نہ ضیاء النساء بیگم کے مرنے کے بعد مدعا علیہا کے قبضے میں آئی اس دوسرے فقرے پر مطلق لحاظ نہ ہوا صرف پاس نہیں موجود نہیں پر حلف لیا گیا جس نے حلف کو محض ناقص و ناقابل قبول کردیا ممکن کہ بعدانتقال ضیاء النساء بیگم اشیائے دعوٰی کل یا بعض قبضہ امیر النساء بیگم میں آئی ہوں اور اب موجود نہ ہوں اب اس کے قبضے میں نہ ہوں صرف کردی ہوں تلف کردی ہوں ہبہ کردی ہوں تو قبضہ موجودہ ووجود فی الحال کی نفی سے کیا کام نکلا لاجرم حلف میں مدعیہ کے لئے نظر یکسر متروک ہوئی اور اس کے حق تلفی صاف محتمل رہی۔              جامع الفصولین میں ہے :
ذکرالخصاف فی دعوٰی الودیعۃ اذا لم تکن حاضرۃ یحلفہ باﷲ مالہ ھذا المال الذی ادعاہ فی یدک ودیعۃ ولاشیئ منہ ولالہ قبلک حق منہ لانہ متی اتلفہ اودل انسانا علیہ لم یکن فی یدہ فیکون علیہ قیمتہ فلایکتفی بقولہ فی یدک بل یضم الیہ ولالہ قبلک حق منہ احتیاطا۱؎۔
خصا ف نے ذکر کیا ہے کہ امانت کے دعوٰی میں اگر چیز حاضر نہ ہوتو مدعٰی علیہ سے یوں قسم لی جائے کہ خدا کی قسم وہ مال جو تیرے قبضہ میں بطور امانت ہونے کا دعوٰی کرتا ہے وہ اس کا حق نہیں اور نہ اس میں سے کچھ اس کا حق ہے اور نہ ہی تیری طرف اس کا کوئی حق ہے کیونکہ جب اس نے امانت کو تلف کردیا ہو یا کسی اور کو دے دی اور اپنے قبضہ میں نہ ہو، تو اس صورت میں اس پر قیمت لازم ہوگی، توتیرے قبضہ والی بات کافی نہ ہوگی بلکہ اس کے ساتھ، اور تیری طرف کوئی حق اس کے لئے نہیں ہے، شامل کرنا بطور احتیاط ضروری ہے۔(ت)
 (۱؎ جامع الفصولین  الفصل الخامس عشر  اسلامی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۹۵)
Flag Counter