Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
51 - 151
مسئلہ۷۷:  ازریاست رامپور مکان حافظ محمد عنایت اﷲ خاں صاحب متصل مرزا شاہ ولی اﷲ صاحب صاحبزادہ امجد علی خان صاحب ۱۸  ربیع الآخر شریف ۱۳۱۶ھ

کیافرما تے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک مقدمہ میں عدالت سے جانب مدعا علیہ حسب درخواست مدعی حلف متوجہ ہو ااور حلف لینے کے لئے دوسرے محکمہ کے نام عدالت نے حکم دیا جس مضمون کے ساتھ واسطے لینے حلف کے ہدایت اور ایما ہوا وہ حسب یادداشت عدالت دیوانی معطوفہ سوال ہذا ہے محکمہ حلف گیرندہ نے ہر ہر چیز انکاری واقراری کی بابت جدا جدا حلف لیا لیکن عدالت دیوانی کی یادداشت کے جواب میں جو یاد داشت جوابی لکھی ہے وہ معطوفہ سوال ہذا ہے اور یہ امر بھی لائق اظہار ہے کہ جن الفاظ اور مضمون کے ساتھ حلف لیاگیا وہ حسب منشاء وکیل مدعی لیا گیا اب مدعی کو یہ عذر ہے کہ حسب منشاء تحریر عدالت حلف نہیں لیا گیا کیونکہ منشاء حکم عدالت کا یہ تھا کہ مدعا علیہا سے اس طرح پرحلف لیا جائے تاکہ اشیائے مندرجہ فرد میں سے کل یا جز و یعنی کوئی چیز اس فہرست میں کی اس قیمت اور اس وزن کی یا اس سے کم قیمت اور کم وزن کی بابت متروکہ ضیا النساء بیگم کے مدعٰی علیہا کے پاس نہیں ہے نہ ضیاء النساء بیگم کے مرنے کے بعد مدعا علیہا کے قبضہ میں آئے اور عدالت گیرندہ حلف نے مضمون انکاری کے ساتھ نہ قید متروکہ ضیاء النساء بیگم کی لگائی نہ حلف کل یا جز و یعنی اس قیمت اور وزن کے اشیاء پر جو مندرجہ فرد ہیں یا اس سے کم قیمت اورکم وزن پر لیا گیا لہذا امور ذیل کے بابت جواب مطلوب ہے:

اول جو یادداشت عدالت گیرندہ حلف نے بجواب یادداشت عدالت دیوانی تحریر کی ہے اس سے پورے طور پر تعمیل حکم عدالت دیوانی ہوگئی یانہیں۔

دوم یا دداشت عدالت دیوانی میں جو یہ مضمون تحریر ہے(کہ اشیائے مندرجہ فرد منسلکہ حسب وزن وقیمت مندرجہ فرد متروکہ ضیاء النساء بیگم سے کل یا جز و یعنی کوئی چیز اس فہرست میں کی بابت متروکہ ضیاء النساء بیگم کے پاس مدعا علیہا کے نہیں ہے اھ) اس کا منشایہ ہے کہ اشیائے مندرجہ فردحسب وزن وقیمت مندرجہ فرد میں کل چیزیں یا بعض چیزیں اس قیمت اور وزن کی جو مندرجہ فرد ہیں مدعا علیہا کے پاس نہیں ہیں نہ ضیاء النساء بیگم کے مرنے کے بعد مدعٰی علیہا کے قبضہ میں آئیں یا منشاء حکم عدالت یہ ہے کہ کل یا جز واشیائے مندرجہ بہ تعداد قیمت مندرجہ یعنی اسی قیمت اور وزن کے اشیاء یا اس سے کم وزن اور قیمت کے اشیاء بابت متروکہ ضیاء النساء بیگم مدعا علیہا کے پاس نہیں ہیں نہ مسماۃ مذکور کے مرنے کے بعد مدعا علیہا کے قبضہ میں آئیں یعنی لفظ کل اور جزوکا اطلاق تعداد اشیاء پر ہے یعنی کل اور جزواشیاء کا مراد ہے۔

سوم یا دداشت میں محکمہ گیرندہ حلف نے جو لفط متروکہ ضیاء النساء بیگم تحریر نہیں کیا اس سے حلف کی تعمیل میں کوئی نقصان تو پیدا نہیں ہو ااس لئے کہ پیشتر مدعا علیہا سے بابت متروکہ ضیاء النساء بیگم سوال کرکے حلف لیا گیا ہے دوسرے اس محل پر نفی مطلق سے نفی مقید ہوگئی یانہیں۔

چہارم ایک مرتبہ جن الفاظ کے ساتھ وکیل مدعی نے جس کوحق حلف لینے کاحاصل تھا چاہا اسکے موافق حلف لیا گیا اب دوبارہ مدعی کو یاعدالت کو دوسرے طور پر پھر حق حلف لینے کا حاصل ہے یانہیں۔

پنجم اشیاء متدعویہ کے انکار پر حلف لیا جاتا ہے نہ غیر متدعویہ پر، پس یہ بات لائق دریافت ہے کہ جب مدعی نے ایک عدد زیور وغیرہ کے وزن اور قیمت کے ساتھ مقید کرکے دعوٰی کیا تو اس وزن اور قیمت سے کم مقدار اور وزن کے وہ شے متدعویہ قرار پائے گی یانہیں۔

نقل یادداشت عدالت دیوانی بمقدمہ خیرالنساء بیگم مدعیہ بنام امیر النساء بیگم بنت صاحبزادہ محمد باقر علی خاں زوجہ صاحبزادہ محمد ہادی علی خاں صاحب مرحوم مدعا علیہا ساکن محلہ قریب گھیر عثمان خاں دعوٰی دہایندگی حصہ فرائض از جائداد متروکہ مسماۃ ضیاء النساء بیگم مدعا علیہا نے نسبت جائداد مدعا علیہا اکثر کی نسبت انکار ترکہ ضیاء النساء بیگم سے کیا ہے اور مدعیہ نے نسبت جائداد منقولہ بحالت انکار حلف مدعا علیہا پر کیا ہے اور مدعا علیہا کوادائے حلف میں انکار نہیں ہے اور فریقین اہل خاندان سے ہیں اس لئےتعمیل حلف کونسل خاندان کے ذرعیہ سے ہونا مناسب ہے لہذا بذریعہ یا دداشت ہذانقل حکم و نقل فرد اشیاء مرسل ہوکر گزارش ہے کہ کاغذات ہذ ابنابر تعمیل حلف کونسل خاندان میں ارسال  فرمائے جائیں کہ مدعا علیہا سے اسی طرح حلف لیا جائے کہ اشیائے مندرجہ فرد منسلکہ حسب وزن وقیمت مندرجہ فرد متروکہ ضیاء النساء بیگم سے کل یا جز و یعنی کوئی چیز اس فہرست میں کی بابت متروکہ ضیاء النساء بیگم کے پاس مدعا علیہا کے نہیں ہے نہ ضیاء النساء کے مرنے کے بعد مدعا علیہا کے قبضہ میں آئی اشیاء مندرجہ کی قیمت اور وز ن او ر تعداد اول مدعا علیہا کو سنا کر بمواجہہ وکلاء فریقین حلف لیا جائے۔ دستخط حاکم نقل یادداشت محکمہ گیرندہ حلف حسب صدور حکم اجلاس اعلٰی مثبتہ ناصیہ یا دداشت حاکم عدالت دیوانی ضلع بمقدمہ خیرالنساء بیگم مدعیہ موسومہ امیر النساء بیگم مدعا علیہا بدعوی دہایندگی سہ سہام منجملہ۱۸سہام مالیتی مبلغ(ما ع صما) روپیہ از کل جائداد منقولہ متروکہ مسماۃ ضیاء النسا بیگم واقع شہر رام پور قیمتی(صہ ع؎ً) روپیہ فہرست منسلکہ زیور و ظروف وغیر ہ حرفاً حرفاً مدعا علیہا کو بمواجھہ وکلاء فریقین بشناخت صاحبزادہ فرخ طور خاں بہادر مدعیہ سنائے گئے اور قرآن شریف ہاتھ میں دیگر بموجب منشاء مضمون یا دداشت عدالت دیوانی متوجہ بحلف کیاگیا مدعاعلیہا نے ہر ایک عدد زیور طلائی و نقرئی و دیگر سامان نقرئی مندرجہ فہرست معہ تعداد وزن وقیمت سن کر بحلف بیان کیا کہ کل اشیائے زیور طلائی ونقرئی و دیگر سامان نقرئی اس قیمت اور اس تعداد اور اس وزن کا میرے پاس نہیں ہے اور کل پارچہائے پوشیدنی قسم گوٹہ وغیرہ ہر ایک تفصیل وار سن کر بحلف کہا کہ میرے پاس اس تعدد اور اس قیمت کے نہیں ہیں جملہ سامان فروش تفصیل وار سن کر دو غلیچہ رنگ سیاہ قیمتی(؂عہ) روپیہ کی نسبت حلفاً کہا کہ میرے پاس ہیں لیکن اس قیمت کے نہیں ہیں باقی کل قسم فرش کے بابت حلف مذہبی نسبت عدم موجودگی کیا سامان چوبی مفصلاً مدعاعلیہا کوسنایا گیا منجملہ کل سامان کے بیس عدد چوکیاں چوب سار قیمتی مبلغ تیس روپے کی نسبت حلف سے انکار کیااور دو پلنگ نواڑ کلاں قیمتی مبلغ بیس روپے کی نسبت مدعا علیہا نے بحلف کہا کہ میرے پاس ہیں لیکن قیمت کا حال معلوم نہیں مابقی کل سامان چوبی کی عدم موجودگی پر حلف لیا چونکہ کارروائی حلف کی بہ تعمیل حکم اجلاس اعلٰی حسب منشاء عدالت دیوانی ہوگئی لہذا جملہ کاغذات ذریعہ یادداشت ہذا باجلاس اعلٰی نواب مدارالمہارم صاحب بہادر مرسل ہیں فقط دستخط حاکم بینواتوجروا۔
الجواب: کل یا جز سے مراد یہی ہے کہ اشیائے مدعی بہا جمیع یا بعض نہ یہ کہ خود وہ اشیاء یا ان سے کم وزن و قیمت کی چیزیں خود عبارت حاکم دیوانی میں تفسیر موجود تھی کہ اشیائے مندرجہ فرد حسب وزن وقیمت مندرجہ فرد سے کل یا جز یعنی کوئی چیز اس فہرست میں کی اور یہی طریقہ مقررہ استحلاف ہے کہ احتیاط بعض دعوٰی بھی شامل حلف کرلیتے ہیں۔

ہندیہ میں ہے:
یحلف باﷲ ماھذا العین لفلان بن فلان ولاشیئ منہ یجمع بین الکل والبعض احتیاطاکذافی المحیط۱؎۔
حلف یوں دے گا خدا کی قسم یہ خاص چیز یا اس کا کچھ حصہ فلاں بن فلاں کا نہیں ہے قسم میں اس چیز کے کل اور بعض کوذکر کرے احتیاطاً، محیط میں ایسے ہے۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیۃ     کتاب الدعوٰی    الباب الثالث الفصل الثانی         نورانی کتب خانہ پشاور    ۴ /۱۷)
عامہ کتب میں تمام امثلہ دیکھی جائیں یہی بڑھاتے ہیں کہ
ولاشیئ اٰخراقل منہ قیمۃ و وزنا
(نہ کسی اور چیز کو جو اس سے قیمت اور وزن میں کم ہے۔ت) اس میں یہ ہے کہ حلف دعوٰی پر لیا جاتا ہے نہ کہ امر خارج عن الدعوٰی پر۔
ہدایہ میں ہے :
وان عجز عن ذٰلک وطلب یمین خصمہ استحلفہ علیہا۲؎۔
مدعی اگر گواہ پیش کرنے سے عاجز ہو اور مخالف کی قسم کا مطالبہ کرے تو قسم لی جائے (ت)
 (۲؎ ہدایہ     کتاب الدعوٰی     مطبع یوسفی لکھنؤ    ۳ /۲۰۱)
غایۃ البیان میں ہے :
ای ان عجز المدعی عن اقامۃ البینۃ وطلب یمین المدعی علیہ استحلفہ القاضی حینئذ علی دعواہ۳؎۔
یعنی اگر مدعی گواہی پیش کرنے سے عاجز ہو اور مدعی علیہ سے قسم کا مطالبہ کرے تو اس پر قاضی مدعی علیہ سے دعوی کے متعلق قسم لے (ت)
(۳؎ غایۃ البیان)
یمین دعوٰی صحیحہ کے سوا فاسدہ پر مترتب ہوتی نہیں، معدومہ پر کیونکر مترتب ہوسکتی ہے۔

 عالمگیریہ میں ہے :
الاستحلاف یجری فی الدعاوی الصحیحۃ دون فاسد تھا کذافی الفصول العمادیۃ۴؎۔
قسم صحیح دعووں پر جاری ہوگی فاسد دعووں پر نہ ہوگی، فصول العمادیہ میں یونہی ہے۔(ت)
 (۴؎ فتاوٰی ہندیۃ     کتاب الدعوٰی     الباب الثالث الفصل الاول    نورانی کتب خانہ پشاور    ۴ /۱۳)
اور بعض دعوٰی داخل دعوٰی ہے ولہذااگر شاہدین یا ایک بعض دعوی پر شہادت دیں قد ر بعض میں قبول کرلیں گے۔ خانیہ میں ہے :
اذا ادعی کل الدار فشہد والہ بنصف الدار جازت شہادتھم ویقضی بالنصف من غیر توفیق۱؎۔
مدعی نے کل مکان کا دعوٰی کیا تو گواہوں نے نصف مکان کی شہادت دی فیصلہ نصف مکان پر ہوگا بغیر موافقت پیدا کئے(ت)
 (۱؎ فتاوٰی قاضیخان     کتاب الشہادات    باب من الشہادۃ التی یکذب المدعی  مطبع نولکشور لکھنؤ ۳/ ۵۴۶)
بخلاف دیگر اشیاء مخالفۃ الوزن والقیمۃ کہ وہ غیر مدعی بہا ہیں اور وزن وقیمت میں کم ہونا بعضیت نہیں ہر عاقل جانتا ہے کہ مثلاً دو تولے سونے کے دوبالے قیمتی ساٹھ روپے اور دو بالے ایک تولے سونے کے تیس روپے قیمت کے ہوں، یہ بالے ان کے بعض و جز نہیں بلکہ غیر وجدا چیز ہیں، شیئ غیر حاضر میں ذکر وزن و قیمت اس کی تعریف و تعیین ہی کے لئے ہے تو اس کا غیر معین کاغیر ہے نہ جز۔ 

ہدایہ میں ہے:
لایقبل الدعوٰی حتی یذکر شیئا معلوما فی جنسہ وقد رہ لان فائدۃ الدعوی الالزام، بواسطۃ اقامۃ الحجۃ والالزام فی المجہول لایتحقق فان کان عینا فی یدالمدعی علیہ کلف احضارھا لیشیر الیہا بالدعوی وکذا فی الشہادۃ والاستحلاف لان الاعلام باقصی مایمکن شرط وذٰلک بالاشارۃ فی المنقول، وان لم تکن حاضرۃ ذکرقیمتہا لیصیر المدعی معلوما لان العین لاتعرف بالوصف والقیمۃ تعرف بہ۲؎۔
جنس اور قد رمیں معلوم چیز کے ذکرکے بغیر دعوٰی قبول نہ ہوگا کیونکہ دعوٰی کا فائدہ حجت کے ذریعہ الزام قائم کرنا ہے اور مجہول کا الزام متحقق نہیں ہوسکتا اور اگر وہ چیز مدعٰی علیہ کے قبضہ میں ہوتو اس کو حاضر کرنے کا پابند بنایا جائے گا تاکہ مدعی اس کی طرف دعوٰی کرتے ہوئے اشارہ  کرسکے، اور شہادت اور قسم میں بھی ایسے کیا جائے کیونکہ تمام مراحل میں ہرممکن حد تک تعارف ضروری ہے اوریہ منقول چیزمیں اشارہ سےہی حاصل ہوسکتا  ہے اگر وہ چیز حاضر نہ ہو تو اس کی قیمت ذکر کرے تاکہ مدعا واضح ہوسکے کیونکہ خاص چیز کا تعارف اس کے وصف سے نہیں بلکہ اس کی قیمت سے ہوتا ہے (ت)
 (۲؎ الہدایہ   کتاب الدعوٰی  مطبع یوسفی لکھنؤ ۳ /۲۰۰)
ہندیہ میں ہے :
اذاادعی جوھرا لابد من ذکر الوزن اذاکان غائبا وکان المدعی علیہ منکرا کون ذٰلک فی یدہ کذافی السراجیۃ وفی اللؤلؤ یذکردورہ وضوء ہ ووزنہ کذافی خزانۃ المفتین۱؎۔
اگر کسی جوہری چیز کا دعوٰی ہوتو اس کے وزن کا ذکر ضروری ہے اگر وہ غائب ہواور مدعا علیہ اس کے قبضہ سے انکار ی ہو، سراجیہ میں یوں ہے اور موتیوں کے دعوٰی میں اس کی گولائی، چمک اور وزن کو ذکر کرے جیساکہ خزانۃ المفتین میں ہے(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الدعوٰی    الباب الثانی     الفصل الثانی  نورانی کتب خانہ پشاور  ۴ /۷)
Flag Counter