Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
50 - 151
مسئلہ۷۴: ۱۰/ذیقعدہ۱۳۱۲ھ

زید نے عمرو سے ایک شے ایک روپے کو خریدی، زید نے پوچھا یہ شیئ کتنے کو دوگے، اس نے کہاایک روپے کو، مشتری اس کو خرید کے گھر لے آیابطور قرض، دوسرے روز جب دام دینے گیا تو بائع نے کہا میاں!میں نے تو اس کے دو روپے کہے تھے، مشتری کو اس امر میں کہ بائع نے اس کے دریافت پر وقت بیع کے ایک روپیہ کہا ذرا بھی شک نہیں، اب شے مبیعہ یا ہلاک ہوگئی ہے بلکہ نہیں معیب بعیب فاحش ہے زرثمن یا اصل مبیعہ کا کس طرح فیصلہ ہے بائع ومشتری دونوں نمازی اور ایکدوسرے کے نزدیک موتمن بھی ہیں۔
بینواتوجروابالروایۃ الصحیحۃ وھی لکم عندالحساب اجر وذخیرۃ
 (بیان کرو اجر پاؤ، صحیح روایت سے ہو اور وہ تمہارے لئے روز حساب اجر اور ذخیرہ ہے۔ت)
الجواب

صورت مستفسرہ میں جبکہ مبیع ہلاک یا معیب بعیب فاحش ہوگئی ہے تحالف نہیں بلکہ بائع سے گواہ لئے جائیں گے اگر اس نے بینہ شرعیہ سے ثابت کردیا کہ دو روپے ثمن ٹھہرے تھے تو وہی دینے ہوں گے اور اگر نہ دے سکا تو مشتری سے قسم لی جائیگی، اگر اس نے حلف کرلیا کہ ایک ہی روپیہ قرار پایا تھا تو ایک ہی دینا آئے گا اور حلف سے نکول و انکار کیا تو دو روپے کی ڈگری کی جائیگی،
فی الدرالمختار لاتحالف اذااختلفا بعد ھلاک المبیع اوخروجہ عن ملکہ او تعیبہ بما لایرد بہ وحلف المشتری۱؎۔ واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
درمختار میں ہے مبیع کے ہلاک ہوجانے یا مشتری کی ملکیت سے نکل جانے کے بعد یا ایسے عیب پید اہونے کے بعد جس کی وجہ سے واپس نہ ہوسکے اختلاف ہوتو دونوں سے قسم جائز نہیں اور مشتری سے قسم لی جائے۔واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
(۱؎ درمختار    کتاب الدعوی    باب التحالف    مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۱۲۱)
مسئلہ ۷۵: از ہلدوانی مرسلہ منشی ولایت حسین صاحب ٹھیکہ دار ۶جمادی الآخرہ ۱۳۱۳ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع اس امر میں کہ زید نے اپنا مال بکر کے پاس امانت رکھا،جب بکر سے طلب کیا تو بکر نے مال دینے سے انکار کیا بوجہ مال نقد اور زیور ہونے سے زید نے حاکم وقت کے یہاں دعوٰی دائر کیا اور گواہان ثبوت حاکم کے روبرو حاضر کئے بکربوجہ کرنے انکار کے قسم شرعی کھانے کو موجود ہے، جب ثبوت مدعی موجود ہووے تو بموجب حکم شرع شریف کے بکر قسم کھاسکتا ہے یانہیں یا موجودگی شہادت مدعی کے فقط۔
الجواب

صورت مذکورہ میں اگر بکر بطور خود قسم کھانا چاہتا ہے تو محض نامسموع، اگر کھابھی لے گا دعوی مدعی کو نقصان نہ پہنچے گا، اور اگر بکر سے زید قسم لیتا ہے تو اسے بھی اس کااختیار نہیں اور اس حالت میں بھی یہ قسم ناقابل سماعت، قسم مدعا علیہ کا وقت جب ہے کہ مدعی نے شہادت مقبولہ نہ پیش کی ہو۔ 

درمختار میں ہے:
اصطلحا علی ان یحلف عند غیر قاض ویکون بریئاً فھو باطل لان الیمین حق القاضی مع طلب الخصم ولاعبرۃ لیمین ولانکول عند غیر القاضی۱؎۔
مقدمہ کے فریقین نے اتفاق کرلیا کہ کسی غیر قاضی کے سامنے قسم کھاکر بری ہوجائے تو یہ باطل ہے کہ فریق مخالف کے مطالبہ پر قسم صرف قاضی کا حق ہے غیر قاضی کے پاس قسم یا قسم سے انکار کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔(ت)
(۱؎ درمختار     کتاب الدعوٰی     مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۱۱۶)
اسی میں ہے:
الیمین کالخلف عن البینۃ فاذاجاء الاصل انتہی حکم الخلف ۲؎۔و اﷲ تعالٰی اعلم۔
قسم گویا گواہی کا خلف ہے تو جب اصل آجائے تو خلیفہ کا حکم ختم ہوجاتا ہے۔ واﷲتعالٰی اعلم (ت)
 (۲؎درمختار     کتاب الدعوٰی     مطبع مجتبائی دہلی    ۲/ ۱۱۸)
مسئلہ۷۶: ازریاست رامپور مرسلہ سید نصیرالدین صاحب ۱۴/شوال مکرم ۱۳۱۵ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین ا س مسئلہ میں کہ زید نے عمرو پر بلاتحریر دستاویز بربنائے شہادت گواہان دس روپے کی نالش دائر کی اور تاریخ موعود پر گواہان ثبوت دعوٰی کو بذریعہ کچہری کے طلب کرایا اس تاریخ پر کسی وجہ سے سماعت بیان گواہان کی نہ ہوئی اور تاریخ دوسری کچہری نے واسطے حاضر کرنے انہیں گواہان ثبوت کے مقرر کئے اور عمرو مدعاعلیہ کو دعوٰی مدعی سے قطعی انکار ہے جب کہ تاریخ ثانی ادخال شہادت کے واسطے مقرر ہوئی تو مدعی نے اس تاریخ پر ایک درخواست کچہری میں پیش کی کہ مدعاعلیہ کا حلف لیاجائے گواہ اپنے سنوانا نہیں چاہتا، تو اب دریافت طلب یہ امر ہے کہ ایسی صورت میں مدعاعلیہ حلف اٹھانے پر مجبور کیاجاسکتا ہے یانہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب

اگر گواہ شہر میں موجود ہیں تو مدعاعلیہ سے حلف نہیں لے سکتا بلکہ مدعی ہی سے گواہ لئے جائیں گے اور اگر دور ہیں تو حلف مانگ سکتا ہے،
فی الدرالمختار قال المدعی لی بینۃ حاضرۃ فی المصروطلب یمین خصمہ لم یحلف ولو غائبۃ عن المصر حلف وقدر فی المجتبٰی الغیبۃ بمدۃالسفر ۱؎ اھ اقول :  عبارۃ المجتبی علی مافی قرۃ العیون قال بینتی غائبۃ عن المصر حلف عندابی حنیفۃ وقیل قدر الغیبۃ بمسیرۃ سفراھ۲؎ وقد قالواکمافی البحر وغیرہ ان لو بعد مکان القاضی بحیث ان حضر للشہادہ لم یؤوہ اللیل الی اھلہ لم یلزمہ الحضور، فافھم، واﷲ تعالٰی اعلم۔
درمختار میں ہے مدعی نے کہا میرے گواہ شہر میں ہیں، اس کے بعد اس نے مدعٰی علیہ سے قسم کا مطالبہ کیا تو قسم نہ لی جائیگی، ہاں اگرشہرمیں موجود نہ ہوں تو قسم لے لی جائیگی امام ابوحنیفہ رحمہ اﷲ تعالٰی کے قول پر، بعض نے فرمایا کہ گواہوں کا مسافت سفر تک غائب ہونا معیار ہے جیسا کہ مجتبٰی میں ہے۔ میں کہتا ہوں قرۃ العیون میں مجتبٰی کی عبارت یوں ہے مدعی نے کہا میرے گواہ شہر سے غائب ہیں امام ابوحنفیہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے نزدیک قسم لی جائیگی، بعض نے فرمایا مسافت سفر پر ہونا گواہوں کا غائب ہونا مراد ہے اھ، حالانکہ فقہاء کرام نے فرمایا جیسا کہ بحروغیرہ میں ہے کہ اگر قاضی کا مقام اتنی دور ہے کہ گواہ شہادت کیلئے حاضر ہوں تو واپس رات گھر نہیں پہنچ سکتے تو ایسی صورت میں مدعی کو گواہوں کا حاضر کرنا لازم نہ ہوگا، اس کو سمجھو۔ واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
(۱؎ درمختار    کتاب الدعوٰی    مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۱۱۹)

(۲؎ قرۃ عیون الاخیار    کتاب الدعوٰی    مصطفی البابی مصر    ۱ /۳۵۰)
Flag Counter