فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی) |
مسئلہ۶: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ جو عورت قوم طوائف بوجہ آشنائی کسی مرد کے پاس عرصہ دراز تک بغیرہونے نکاح کے ہمخانہ اور ہم صحبت رہی اور پھر اس مرد نے بوجہ مذکور جو ہبہ نامہ جائداد مشترک کا بنام ہذا عوض دین مہر کے اس عورت کے نام لکھ دیا اور اس میں لکھاہو کہ نکاح میراساتھ اس کے ہوگیا ہے تویہ اقرار مرد کا بمقابلہ حقدار شرعی شخص ثالث کے شرعاً ثبوت ہونے نکاح کا کافی ہے یانہیں؟اور شہادت سماعی یا کسی شخص واحد کی کافی ہوسکتی ہے یانہیں؟ اور شرعاً شہادت کیسی اور کن آدمیوں کے واسطے ثابت ہونے نکاح کے جائز اور معتبر ہوگی؟ اور ایسا ہبہ نامہ بھی جائداد مشترک کا شرعاً جائز ہے یانہیں؟بینواتوجروا
الجواب: شہادت شخص واحد کی ثبوت نکاح کے لئے کافی نہیں، دو مرد یا ایک مرد و دو عورت عادل ہونا چاہئے
فی الدر المختار ونصابھا لغیر ھا من الحقوق سواء کان الحق مالااو غیرہ کنکاح وطلاق ووکالۃ ووصیۃ واستلال صبی ولو للارث رجلان او رجل وامرأتان ولزم فی الکل لفظ اشھد لقبولہا والعدالۃ لوجوبہ۱؎ اھ ملخصاً۔
درمختا رمیں ہے: امور مذکورکے سوا دیگرحقوق میں نصاب شہادت دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں ہےچاہے وہ حق مال ہو یا غیر مال جیسے نکاح، طلاق، وکالت، وصیت اور بچے کا آواز نکالنا اگرچہ گواہی وراثت کے لئے ہو، اور تمام مراتب میں قبول شہادت کے لئے لفظ اشھد (میں گواہی دیتا ہوں) لازم ہے اور وجوب قبول کے لئے شاہد کا عادل ہونا ضروری ہےاھ تلخیص(ت)
(۱؎ درمختار کتاب الشہادات مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۹۱)
اور شہادت سماعی ثبوت نکاح کے لئے کافی ہے جب گواہ یہ کہیں کہ یہ امر ہمارے نزدیک مشہورہے
فیہ ایضابل فی العزمیۃ عن الخانیۃ معنی التفسیر ان یقولا شھدنا لانا سمعنا من الناس اما لو قالالم نعاین ذٰلک، ولکنہ اشتھر عندنا جازت فی الکل وصححہ شارح الوھبانیۃ وغیرہ واﷲ تعالٰی اعلم۲؎۔
یہ بھی اسی میں ہے بلکہ عزمیہ(حاشیہ درر) میں خانیہ سے منقول ہے کہ تفسیر شہادت(بالتسامع) کا معنی یہ ہے کہ گواہ یوں کہیں ہم اس لئے شہادت دیتے ہیں کہ ہم نے لوگوں سے سنا ہے، لیکن اگر وہ یوں کہیں کہ ہم نے اس کا معائنہ نہیں کیا لیکن وہ ہمارے نزدیک مشہور ہے تو سب میں شہادت جائز ہے۔شارح وہبانیہ وغیرہ نے اس کو صحیح قرار دیا۔واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
(۲؎درمختار کتاب الشہادات مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۹۳)
اور مردوزن کا عرصہ دراز تک مـثل زن و شو ہمخانہ وہم صحبت رہنا عمدہ علامات مثبتہ نکاح سے ہے
فی فتاوی قاضی خان ولوراٰی رجلا وامرأۃ یسکنان فی منزل وینبسط کل واحدمنہما علی صاحبہ کما یکون بین الازواج حل لہ ان یشھد علی نکاحھما۳؎،
فتاوٰی قاضیخان میں ہے اگر کسی نے ایک مرد اور عورت کو ایک گھر میں رہائش پذیر اور ایک دوسرے سے میاں بیوی کی طرح بے تکلف ہوتے دیکھا تو اس کے لئے حلال ہے کہ وہ ان دونوں کے نکاح کی گواہی دے۔
(۳ ؎ فتاوٰی قاضیخان کتاب النکاح فصل فی دعوٰی النکاح نولکشور لکھنو ۱/ ۱۸۵)
وفی الھدایۃ وکذالوراٰی انسانا جلس مجلس القضاء یدخل علیہ الخصوم حل لہ ان یشھد علی کونہ قاضیا وکذاذاراٰی رجلا وامرأۃ یسکنان بیتا وینبسط کل واحد الی الاٰخر انبساط الازواج۱؎۔
اور ہدایہ میں ہے کہ یوں اگرکسی نے ایک شخص کو مسند قضاپر بیٹھے ہوئے دیکھا کہ لوگ اس کے پاس مقدمات لارہے ہیں تو حلال ہے کہ وہ اس کے قاضی ہونے کی گواہی دے یوں اگر مرد اور عورت کو ایک گھر میں رہائش پذیر اور ایک دوسرے سے میاں بیوی کی طرح بے تکلفی کرتے دیکھا تو ان کے نکاح کی گواہی د ے سکتا ہے(ت)
(۱ ؎ الہدایۃ کتاب الشہادت مطبع یوسفی لکھنؤ ۳/ ۱۵۸)
اورصرف اقرار مرد بھی ثبوت نکاح کے لئے کافی ہے بلکہ بعد اقرار کے منکر ہو اور عورت اس کی حیات میں یا بعد موت کے تصدیق نکاح کرے تاہم نکاح ثابت اور زن مستحق ارث ومہر ہے،
فی العالمگیریۃ رجل اقرانہ تزوج فلانۃ بالف درہم فی صحۃ او مرض ثم جحدہ وصدقتہ فی حیاتہ او بعد موتہ فہو جائز ولہا المیراث والمھر۲؎الخ۔
عالمگیریہ میں ہے: اگر کسی مرد نے حالت مرض یا صحت میں اقرار کیا کہ اس نے فلاں عورت سے ہزار درہم کے عوض نکاح کیا ہے پھر اس اقرار سے انکار کیا حالانکہ عورت نے اس مرد کی زندگی میں یا اس کی موت کے بعد اس کی تصدیق کی تو نکاح جائز ہوگااور عورت میراث اور مہر کی مستحق ہوگی الخ(ت)
(۲؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الاقرار الباب السادس عشر نورانی کتب خانہ پشاور ۴/ ۲۰۶)
اور ہبہ بالعوض حکم بیع میں ہے مشاع ومشترک ہونا موہوب کا اس کی صحت کو مضر نہیں بلکہ حصہ واہب میں ہبہ صحیح ونافذ رہے گا،
فی الدرالمختار اما لو قال وھبتک بکذا فھو بیع ابتداء وانتہاء ۳؎ وفیہ ایضا وبطل بیع قن ضم الی حربخلاف قن ضم الی قن غیرہ فیصح بحصتہ فی عبدہ اھ۴؎ ملتقطا، واﷲ تعالٰی اعلم۔
درمختارمیں ہے کہ اگر کسی نے کہا میں نے یہ چیز اتنے کے بدلے تجھے ہبہ کی تویہ ابتداءً اور انتہاءً بیع ہے اور یہ بھی اسی میں ہے کہ اس غلام کی بیع باطل ہے جس کو آزاد کے ساتھ ملا کر فروخت کیاجائے بخلاف اس غلام کے جس کو دوسرے کے غلام کے ساتھ ملاکر بیچا جائے کیونکہ یہاں بائع کے حصہ کی بیع اس کے غلام میں صحیح ہوگی اھ التقاط، واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
(۳؎ درمختار کتاب الھبہ مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۱۶۴) (۴؎درمختار کتاب البیوع باب البیع الفاسد مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۳)