Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
49 - 151
مسئلہ ۷۱: مرسلہ لال محمد صاحب احسن منزل مرزاپور    ۲۶/صفر ۱۳۲۳ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید کے پاس اس کے مکان میں ہندہ عرصہ چالیس سال سے ہے زید نے لاولد ہندہ کو اپنے مکان میں چھوڑ کر وفات پائی اور اپنے زمانہ حیات میں زید نے بذریعہ چنددستاویزات کے ہندہ کو اپنی زوجہ منکوحہ لکھا ہے اور اپنے جملہ جائداد میں سے بعض جائداد ایک جزودین مہر کے دیا بھی ہے اب ہندہ کے دعوٰی زوجیت کےلئے بمقابلہ زید متوفی کے دوسرے شرعی ورثاکے جو منکر زوجیت ہندہ کے ہیں زید کی تحریر وتسلیم زوجیت ہندہ جو بذریعہ اس کے دستاویزات رجسٹری شدہ کے ہوئے، اگر ہندہ کو اپنے نکاح کے شہود وغیرہ نہ ملیں شرعاً ثبوت کافی ہے یانہیں، اور ہندہ اس جائداد کے پانے کی جو زید نے اس کو بعوض ایک جزودین مہر کے دی اور باقی حصہ دین مہر کے پانے کی باقی متروکہ زید سے مستحق ہے یانہیں، اور زید کے متروکہ سے وراثتاً کس قدر حصہ ہندہ کا ہے؟بحوالہ کتب جواب تحریر فرمائیں۔
الجواب 

اگر ان دستاویزات پر گواہ شرعی موجود ہیں کہ ہمارے سامنے زید نے لکھوائیں اور ہندہ کو اپنی زوجہ بتایا کہ ہمارے سامنے جز جائداد ہندہ کو مہر میں دیا تھا اقرار زید کے گواہ ہوں کہ وہ ہندہ کو اپنی زوجہ کہتا تھا یا کچھ نہ سہی وہ لوگ جو اس مدت مدید تک زید و ہندہ کو باہم ایک مکان میں مثل زن و شو رہتے دیکھا کئے اور وہ اس بناء پر شہادت شرعیہ دیں کہ ہندہ زوجہ زید ہے یا عام طور پر ہندہ کا زوجہ زید ہونا مشہور ہو بعض شاہدان شرعی اسی شہرت کے اعتماد پر زوجیت ہندہ کی گواہی دیں تو زوجیت ثابت ہوجائیگی اور خاص گواہان نکاح پیش ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہندہ اپنا مہر وحصہ پانے کی مستحق ہوگی اور اس کا حصہ بعد ادائے مہر ودیگر دیون ووصایا چہارم متروکہ ہے اور اگر ان صورتوں میں کچھ نہ پائی جائے تو نری دستاویزیں اگرچہ ہزار رجسٹری شدہ ہوں بے شہادت معتبرہ کے کوئی چیز نہیں۔ 

جامع الفصولین میں ہے:
ادعت نکاحہ فشھد احدھما انہا امرأتہ والاخرانھا کانت امرأتہ تقبل وکذالوشھد احدھما انہ اقر انہا امرأتہ والاخرانہ اقرانہا کانت امرأتہ لان الشہادۃ باقرارہ بنکاح کان شہادۃ باقرارہ بنکاح حالی۱؎۔
عورت نے ایک مرد پر اپنے نکاح کا دعوٰی کیا، ایک گواہ نے کہا کہ یہ اس کی بیوی ہے، دوسرے نے کہا یہ اس کی بیوی تھی، تو یہ گواہی مقبول ہوگی، اسی طرح شہادت میں ایک گواہ کہے کہ مرد نے اقرار کیا ہے کہ یہ اس کی بیوی ہے، دوسرا گواہ کہے کہ اس نے اقرار کیا کہ یہ اس کی بیوی تھی، یہ گواہی مقبول ہوگی، کیونکہ گزشتہ نکاح کی شہادت یہ موجودہ نکاح کی شہادت ہے۔(ت)
(۱؎ جامع الفصولین     الفصل الحادی عشر  اسلامی کتب خانہ کراچی ۱/ ۱۶۲)
عالمگیریہ میں ہے:
الشہادۃ بالشھرۃ والتسامع تقبل فی اربعۃ  اشیاء بالاجماع وھی النکاح والنسب والموت والقضاء کذافی محیط السرخسی۲؎۔
شہرت اور سماع کی بناء پر چارچیزوں میں بالاجماع شہادت مقبول ہے وہ چار، نکاح، نسب، موت اورقضاء ہیں، جیسا کہ محیط سرخسی میں ہے(ت)
(۲ ؎ فتاوٰی ہندیہ    کتاب الشہادات     الباب الثانی     نورانی کتب خانہ پشاور    ۳/ ۴۵۷)
فتاوٰی خیریہ میں ہے:
لایعمل بمجرد الدفتر ولابمجرد الحجۃ لما صرح بہ علماؤنا من عدم الاعتماد علی الخط وعدم العمل بہ ۱؎ اھ واﷲ تعالٰی اعلم۔
محض خط اور محض رجسٹرپر بغیر حجت عمل نہ ہوگا کیونکہ ہمارے علماء نے فرمایا ہے کہ نہ خط پر اعتماد ہے نہ اس پر عمل کیا جائے اھ، واﷲ تعالٰی اعلم۔(ت)
(۱ ؎ فتاوٰی خیریہ     کتاب الوقف    دارالمعرفۃ بیروت    ۱/ ۱۱۸)
مسئلہ۷۲: ازپیلی بھیت     محلہ پنجا بیاں    مرسلہ جناب شیخ عبدالعزیز صاحب ۱۳۲۴ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اگر ورثاء میں سے شوہر دعوٰی کرے کہ فلاں زیور میں نے اس کو کل یا جز بنواکر استعمال کے واسطے دیا تھا اور اسی طرح سے اس کے والدین وغیرہ دعوٰی کریں کہ فلاں فلاں زیور اور دیگر اشیاء ہم نے اس کے جہیز میں دی تھیں اس کے استعمال کے واسطے، وہ ہم کو واپس ملنی چاہئیں، کیا یہ دعویدار اپنے دعوے کے موافق مستوجب واپسی کے ہوسکتے ہیں اور عنداﷲ استحقاق واپسی ان کو حاصل ہے یانہیں؟ بیان فرمائیے ثواب پائیے۔
الجواب

والدین کا دعوٰی کہ ہم نے فلاں شیئ جہیز میں عاریۃً دی تھی بے شہادت عادلہ مسموع نہیں کہ خلاف عرف ظاہر وناشی ہے، شوہر کا قول سن لیاجائیگا، جو زیور اس نے بنواکر دیا جب وہ تملیک کردینے کا مقر نہیں تو بغیر شہادت عادلہ ملک ہندہ ثابت نہ ہوگی،
لان الدافع ادری بجھۃ الدفع ولاعرف قاضیا ھٰھنا۔
کیونکہ دینے والا بہتر جانتا ہے کہ اس نے کس طرح دیا ہے جبکہ یہاں واضح عرف نہیں جس پر فیصلہ دیا جائے۔(ت)
درمختار میں ہے:
جھزابنتہ بجھاز وسلمھا ذٰلک لیس لہ الاسترد اد منھا وبہ یفتی والحیلۃ ان یشھد عندالتسلیم الیہا انہ انما سلمہ عاریۃ۲؎۔واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
بیٹی کو جہیز دیا اور اس کو سونپ دیا تو اب والد کو واپسی کا حق نہیں ہے، فتوی اسی پر ہے، اور واپسی کا حیلہ یہ ہے جہیز دیتے ہوئے گواہ بنالے کہ میں نے یہ عاریتاً دیاہے۔ واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔(ت)
 (۲؎ درمختار     کتاب النکاح     باب المہر     مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۲۰۳)
مسئلہ۷۳: مرسلہ صفدر علی صاحب ۱۴/شوال ۱۳۱۲ھ

کیافرماتے ہیں علماء ومفتیان دین اس مسئلہ میں کہ ایک موضع شراکت زید اور عمرو چلا آتا تھا اور زید بوجہ نمبرداری اس پر قابض اور دخیل تھا زید نے بلا اجازت عمرو کے ایک باغ جو واقعہ موضع مذکور تھا فروخت کرکے قیمت اپنے تصر ف میں لایا اور عمرو کو بابت حصہ اس کے کچھ نہ دیا جواب عمرو نے تقسیم موضع مذکور کی کرائی تو یہ امر معلوم ہوا جب عمرو نے اپنے حصہ کا مطالبہ زید سے طلب کیا تو زید نے عذر تمادی کا پیش کیا، صورت ہذا میں حقوق عمرو کا عنداﷲ ذمہ زید کے ہے یانہیں؟بینواتوجروا(بیان فرمائے ثواب پائے۔ت)
الجواب

بیشک ہے اور عذر تمادی محض باطل و مہمل ،
فی الاشباہ الحق لایسقط بتقادم الزمان۱؎۔
اشباہ میں ہے کہ زمانہ قدیم ہوجانے پر حق ساقط نہ ہوگا۔(ت)
(۱؎ الاشباہ والنظائر    الفن الثانی    کتاب القضاء    ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی    ۱/ ۳۵۳)
زید سخت گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا کہ عمرو کا حصہ بے اس کی اجازت کے بیچ کر کھاگیا،
قال اﷲ تعالٰی لاتاکلوااموالکم بینکم بالباطل۲؎۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا:آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے نہ کھاؤ۔(ت)
 (۲؎ القرآن الکریم ۲/ ۱۸۸)
اب دوسر اگناہ عظیم یہ جھوٹا عذر مردود پیش کرتا ہے اﷲعزوجل سے ڈرے اور روز قیامت کی سخت شدتیں ناردوزخ کے قہر عذاب اپنے سر نہ لے۔
Flag Counter