Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
48 - 151
مسئلہ ۶۹: ازجالندھر محلہ راستہ دروازہ پھگواڑہ مرسلہ محمد احمد صاحب ۱۴/جمادی الاولٰی ۱۳۲۲ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کی آبادی سے سالہا پہلے عمرو کے گھر کا تمام برساتی پانی اور روز مرہ کا پانی چلاآیا ہے جب زید نے اس حویلی کو خریدا اور از سر نو بنائی تو زید نے اپنے گھر میں سے عمرو کے پانی گزرنے کا حق ثابت کرکے اپنی دیوار میں ایک بدرو رکھ کر اپنے گھر کے صحن میں ایک پختہ نالی بناکر اس میں اپنا تمام پانی اور عمرو کے گھر کا تمام پانی ڈال کر باہر کو نکال دی جس کو عرصہ ۳۴ سال کا ہوچکا ہے کہ عمرو کے گھر کا ہر ایک قسم کا پانی مثل دستور سابقہ زید کے گھر سے گزر کر شارع عام میں جاگرتا ہے، زید کی وفات کے بارہ سال بعدماشکیوں کے بے وقت پانی دینے کی وجہ سے عمرو نے اپنے گھر میں ایک کنواں لگوالیاہے اب زید متوفی کی زوجہ سوائے برساتی پانی کے روز مرہ کے پانی کو بندکرتی ہے اور عمرو کی طرف سے پانی نکلنے کو کوئی راستہ نہیں بجز زید کی طرف سے، اور یہ بھی واضح ہو کہ زید نے حسن سلوک کی وجہ سے عمرو کاپانی اپنے گھر میں جاری نہیں کیا بلکہ استحقاق پچھلا ثابت کرکے عمرو کا پانی اپنے گھر میں جاری رکھا ہے، اب علمائے کرام سے دریافت کیاجاتا ہے کہ حسب شریعت صورت مندرجہ بالا میں عمرو کو اپنے گھر کا پانی گزارنا زید متوفی کے گھر سے بلا رضامندی زوجہ زید متوفی کے جائز ہے یانہیں؟ اور زید متوفی کی زوجہ بوجوہات بالا عمروکے پانی کو شریعۃً بند کرسکتی ہے یانہیں؟بینوابالصواب جزاکم اﷲ تعالٰی یوم الحساب۔
الجواب

اگر صورت واقعہ یہی ہے کہ عمرو کا ہر قسم کا پانی بارانی وغیر بارانی بالاستحقاق مکان زید سے گزر کر جاتا ہے تو زوجہ زید کو عمرو کے کسی پانی کو روکنے کا ہر گز اختیار نہیں
لان الحق لایرد والمسیل لایسد
 (کیونکہ حق رد نہیں ہوسکتا اور پانی کے بہاؤ کو روکا نہیں جاسکتا۔ت) یہاں زوجہ زید کو بھی عمرو کے مطلق استحقاق سے انکار نہیں، نزاع اس میں ہے کہ برسات کے سوا  روز مرہ کے پانی بہانے کا بھی عمرو کو حق ہے یا نہیں، اس کے لئے زمین عمرو کا ڈھال مکان زید کی طرف ہونا مکان زید میں عمرو کی طرف سے آنے والے پانی کے لئے بدروہونا اس کے ثبوت کو کافی نہیں کہ یہ استحقاق ہر قسم کے پانی کو عام ہے بلکہ اس کاثبوت صرف تین طور پر ہے یا تو وارثان زید اقرار کریں کہ واقعی عمرو کو استحقاق عام حاصل ہے یا عمرو گواہان عادل سے اپنا عموم استحقاق ثابت کرادے یعنی گواہ شہادت دیں کہ عمرو کو ہر قسم کے پانی بہانے کا حق اس مکان میں حاصل ہے یا گواہی دیں کہ زید یا وارثان زید نے اس کے عموم استحقاق کا ہمارے سامنے اقرار کیا اور اگر فقط اتنی ہی گواہی دیں گے کہ ہم نے مدتوں سے عمرو کا ہر قسم کا مکان زیدمیں جاتے دیکھا تو اس سے کچھ ثابت نہ ہوگا۔
لانہ لایدل علی الاستحقاق لجواز ان یکون برضازید ان یتصرف عمرو فی حق زید من دون ان یکون لعمروفیہ حق یجبر علیہ۔
یہ استحقاق پر دلالت نہیں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ زید کی مرضی سے عمرو نے اس کے حق میں تصرف کیا ہوا اور وہ عمرو کی ملک نہ ہو جس پر مجبور کیا جاسکے۔(ت)
اور اگر یہ دونوں صورتیں نہ ہوں تو زوجہ زید سے قسم لی جائے کہ عمرو کوغیر بارانی پانی اس مکان زید میں بہانے کا حق نہیں اگر وہ قسم کھانے سے حاکم کے حضور انکار کرے گی عمرو کا حق ثابت ہوجائے گا۔
فی الھندیۃ ادعی علی اٰخر حق المرور ورقبۃ الطریق فی دارہ فالقول قول صاحب الدار ولو اقام المدعی البینۃ انہ کان یمر فی ھذہ الدار لم یستحق بھذا شیئاکذافی الخلاصۃ۱؎فان اقام البینۃ علی ان لہ حق المسیل وبینواانہ لماء المطر من ھذاالمیزاب فہو لماء المطر و لیس لہ ان یسیل ماء الاغتسال والوضوء فیہ وان بینواانہ لماء الاغتسال والوضوء فھو کذٰلک ولیس لہ ان یسیل ماء المطرفیہ وان قالوالہ فیہا حق مسیل ماء ولم یبینو الماء المطر او غیرہ صح والقول لرب الدار مع یمینہ انہ لماء المطراولماء الوضوء  والغسالۃ کذافی محیط السرخسی۲؎، ولو لم تکن للمدعی بینۃ اصلا استحلف صاحب الدار ویقضی فیہ بالنکول کذافی الحاوی۳؎ ولواراداھل الداران یبنواحائطالیسد وا مسیلہ لم یکن لھم ذلک کذافی البدائع ۴؎اھ ملتقطا واﷲ تعالٰی اعلم۔
ہندیہ میں ہے ایک شخص نے دوسرے پر دعوٰی کیا کہ مجھے یہاں سے گزرنے کا حق ہے حالانکہ راستہ مدعی علیہ کی حویلی میں ہے تو حویلی والے کی بات معتبر ہوگی اور اگر مدعی یہ گواہی بھی پیش کردے کہ وہ یہاں سے گزرتا تھا تو اس کا حق ثابت نہ ہوگاخلاصہ میں یوں ہے اگر وہ گواہی پیش کردے کہ مجھے یہاں سے پانی بہالیجانے کا حق ہے تو گواہوں نے اگر کہا کہ اس پر نالہ سے بارش کا پانی یہاں بہتا ہے تو صرف بارش کا ثابت ہوگا اس کوغسل ووضو کا پانی وہاں بہا لیجانے کا حق نہ ہوگا اور اگر گواہوں نے غسل ووضو کے پانی کے متعلق بیان کیا تو بارش کا پانی گزارنے کا حق نہ ہوگا اور اگر انہوں نے مطلقاً پانی بہنے کی بات کی ہو بارش یا غسل وغیرہ کا ذکر نہ کیا تو بیان صحیح ہوگا جبکہ اس صورت میں حویلی والے کی بات قسم کے ساتھ معتبر ہوگی کہ وہ پانی بارش کا ہے یا غسالہ کا پانی ہے جیسا کہ محیط سرخسی میں ہے،اگر مدعی کے پاس کوئی گواہ نہ ہوتو حویلی والے سے قسم لی جائیگی اور اگر وہ قسم سے انکار کرے تو اس پر فیصلہ دیاجائیگا، حاوی میں یوں ہے، اگر حویلی والے چاہیں کہ پانی روکنے کے لئے دیوار بنادیں تو ان کو یہ اختیار نہ ہوگا، بدائع میں یوں ہے اھ ملتقطاًواﷲ تعالٰی اعلم(ت)
 (۱؎ تا ۳؎ فتاوٰی ہندیہ    کتاب الدعوٰی    الباب الحادی عشر     نورانی کتب خانہ پشاور    ۴/ ۱۰۴)

(۴؎فتاوٰی ہندیہ    کتاب الدعوٰی    الباب الحادی عشر     نورانی کتب خانہ پشاور    ۴/ ۱۰۶)
مسئلہ۷۰: ازریاست رام پور متصل مسجد جامع مرسلہ بیچے خان ۱۴ذی القعدہ ۱۳۲۲ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ عرصہ تخمیناً تین سال کا ہوا کہ مسمی زید نے چند قطعہ مکانات واقع شہر رام پور بنام مسماۃ ہندہ زوجہ خود بعوض دین مہر بیع کرکے بیعنامہ بنام ہندہ تحریر کردیا اور حسب قاعدہ رجسٹری کرادی اور قبضہ بھی مکانات پر ہندہ کا کرادیا اور زید خود ایک موضع میں رہنے لگا بعد ازاں زید کی زوجہ متوفیہ اولٰی کے بطن سے جواولاد ہے اس نے بابت حق وحصہ شرعی منجملہ دین مہر یا فتنی والدہ خود ذمگی زید کے زید پر کچہری میں نالش کرکے کچہری سے ڈگری حاصل کی اور ڈگری مذکور جاری کراکے صیغہ اجرائے ڈگری میں مکانات مذکورہ کو قرق کرایا، قاعدہ مروجہ کچہری یہ ہے کہ اگر کوئی جائداد صیغہ اجراء ڈگری میں قرق کی جائے اور کوئی شخص بربنائے قبضہ مستقلاً نہ اس کی بابت عذر کرے تو بشرط ثبوت قبضہ مستقلاً نہ عذر دار کی وہ جائداد قرقی سے واگزاشت ہوجاتی ہے، اب مسماۃ ہندہ نے نسبت قرقی مکانات اپنے کے کچہری میں عذر داری کی کہ یہ مکانات مملوکہ و مقبوضہ میرے ہیں، قرقی سے واگزاشت فرمائے جائیں ثبوت میں بیعنامہ اقراری زید اور بہت سے گواہان پیش کئے کہ جن کی شہادت سے مالک وقابض ہونا ہندہ کا بموجب بیعنامہ بذریعہ سکونت ومرمت مکانات ووصول کرایہ اور حسب اقرار زید کے ثابت ہے، سوالات جرح میں گواہوں نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ زید گاؤں میں رہتا ہے، کبھی کبھی رامپور میں آتا ہے تو اپنی زوجہ مسماۃ ہندہ اور اپنی اولاد کے پاس انہیں مکانات میں ٹھہرتا ہے دوچار روز رہ کرپھر گاؤں کو چلاجاتا ہے ڈگری داران حجت پیش کرتے ہیں کہ حسب روایات فقہ مندرجہ ذیل قبضہ ہندہ کا نہیں ہے شرعاً زوجہ مع متاع خود بقبضہ شوہر ہے لہذا مکانات بھی مقبوضہ شوہر ہیں
روایات:
لان المرأۃ ومافی یدھا فی یدالزوج۱ ؂۱۲ بحرالرائق۔ وفی الاشباہ ھبۃ المشغول لایجوز الااذا وھب الاب لطفلہ۲؎ قلت وکذا الدارالمعارۃ والتی وھبتھا لزوجہا علی المذہب لان المرأۃ ومتاعھا فی یدالزوج فصحت التسلیم اذاوھب لرجل دارا والواھب ساکن فیہا لاتصح الھبۃ بخلاف مااذا وھبت الزوجۃ لزوجہاوھی ساکنۃ فیہا لانہا ومافی یدھا فی یدہ۱؎۱۲خزانۃ۔
کیونکہ عورت اور اس کے زیر قبضہ تمام خاوند کے قبضہ میں ہے، بحرالرائق۔ اور اشباہ میں ہے کہ مشغول چیز کا ہبہ ناجائز ہے مگر وہ کہ والد نے نابالغ لڑکے کے لئے کیا ہو، اور میں کہتا ہوں یوں ہی جب مکان عاریتاً ہو اور وہ مکان جو بیوی نے خاوند کو ہبہ کیا ہو، یہ مذہب ہے کیونکہ عورت اور سامان خاوند کے قبضہ میں ہے تو ہبہ پر قبضہ صحیح ہوجائیگا،اور جب ایک شخص نے اپنامکان دوسرے کو ہبہ کیا حالانکہ واہب خود اس میں رہائش پذیر ہے تو یہ ہبہ صحیح نہ ہوگا بخلاف جبکہ عورت اپنا رہائشی مکان خاوند کو ہبہ کرے تو صحیح ہے کیونکہ خود عورت اور اس کا سامان خاوند کے قبضہ میں ہے۱۲خزانہ(ت)
 (۱؎ بحرالرائق     کتاب الدعوٰی     باب التحالف    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۷/ ۲۲۶)

(۲؎ الاشباہ والنظائر    الفن الثانی کتاب الھبۃ    ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی    ۲/ ۴۰)

(۱ ؎ خزانۃ المفتین     کتاب الہبہ    قلمی نسخہ    ۲/ ۱۵۳)
کیاروایات مذکورہ صورت مقدمہ مذکورہ سے متعلق ہیں اورازروئے روایات مذکورہ مکانات مقبوضہ ہندہ نہیں متصور ہوں گے؟ یا روایات مذکورہ معاملہ ہبہ سے متعلق ہیں جس میں قبضہ ضرور ہے اور اسی صورت سے متعلق ہیں کہ جہاں کوئی شہادت قبضہ کی نہ گزرے اس مقدمہ میں بیعنامہ اقرار شوہر اور شہادت قبضہ زوجہ زید کی موجود ہے، تو روایات مذکورہ  اس مقدمہ سے غیر متعلق ہیں یا کیا؟جوابات بحوالہ روایات معتبرہ تحریر فرمائیے؟بینواتوجروا۔
الجواب

صورت مستفسرہ میں مکانات مملوکہ ہندہ کا واگزاشت کرنا حاکم پر واجب ہے اور ان کا نیلام سخت حرام ڈگری داروں کی حجت محض با طل وصریح جہالت،

اولاً جب بیع بنام ہندہ گواہوں سے ثابت  ہے تو ملک ہندہ ثابت ہے اور قبضے کی بحث سرے سے لغو وبے معنی کہ بیع صحیح  میں قبضہ شرط ملک نہیں نفس عقد سے شے ملک بائع سے نکل کر ملک مشتری میں داخل ہوجاتی ہے
اذالم یکن توقف ولاخیار
 (جب بیع میں اختیار اور وقف نہ ہو۔ت) یہ تو صراحۃً بیعنامہ بعوض مہر تھا اگر ہبہ نامہ بعوض مہر ہوتا جب بھی قبضے کی اصلاً حاجت نہ تھی حالانکہ ہبہ بے قبضہ تمام نہیں ہوتا اور وجہ یہ کہ ہبہ بالعوض (نہ بشرط العوض) اگرچہ صورۃً واسماً ہبہ ہے مگر نظراً بمعنی حقیقۃً وحکماً ہے تو محتاج قبضہ نہیں۔
درمختار میں ہے:
الھبۃ بشرط العوض المعین ھبۃ ابتداء فیشترط التقابض فی العوضین و یبطل بالشیوع بیع انتہاء فترد بالعیب وخیار الرؤیۃ وتوخذ بالشفعۃ ھذااذاقال وھبتک علی ان تعوضنی کذاامالو قال وھبتک بکذا فھو بیع ابتداء وانتہاء ۱؎ اھ اختصار۔
معین چیز کے عوض ہبہ ابتداءً ہبہ ہے اس لئے عوضین میں قبضہ شرط ہے اور غیر منقسم ہوجانے پر باطل ہوجائے گا اور یہ بشرط العوض ہبہ انتہاءً بیع ہے اس لئے عیب اور خیار الرؤیۃ کی بناء پر واپس ہوسکتا ہے اور شفعہ کے دعوٰی پر لیا جاسکتا ہے یہ حکم اس صورت میں ہے کہ ہبہ دینے والا،کہے یہ چیز میں تمہیں فلاں چیز کے عوض ہبہ کرتا ہوں اور اس نے اگر یوں کہا ہو کہ میں تجھے ہبہ کرتا ہوں، تو یہ ابتداءً وانتہاءً بیع ہے اھ اختصار(ت)
 (۱؎ درمختار    کتاب الھبۃ    باب الرجوع فی الہبۃ مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۱۶۴)
ثانیاً اگر بفرض باطل قبضہ کی حاجت بھی ہو تو جبکہ شہادت شرعیہ کافیہ سے قبضہ ہندہ رنگ ثبوت پائے اس پر ان عبارات سے ایراد محض جہل وعناد، مستدلوں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ علماء مافی یدھا فی یدہ فرمارہے ہیں یعنی جو کچھ عورت کے قبضے میں ہے وہ ازانجا کہ عورت خود قبضہ شوہر میں ہے بالواسطہ قبضہ شوہر میں ہے کہ "مقبوض المقبوض مقبوض" اس میں صراحۃً قبضہ زن کا اثبات اورا س کے ذریعہ سے قبضہ شوہر کاقرار داد ہے نہ کہ قبضہ زن کی راساً نفی۔ علماء نے
"مافی یدھا"
فرمایا ہے نہ کہ
"لیس فی یدھا"۔
ثالثاً ایسا ہو تو خود قبضہ شوہر بھی منتفی ہوجائے گا اور کلام اپنے مقصود پر نقص کرتا پلٹ آئے گاکہ قبضہ شوہر بواسطہ قبضہ زن مانا تھا بقیاس مساوات کے "قابض القابض قابض" جب سرے سے قبضہ زن منفی ہوجائیگا قبضہ شوہر کہ اس کے واسطے سے تھا کہا ں سے آئیگا
ھل ھذا الاجھل مبین
(یہ کھلی جہالت ہے۔ت) تو خودیہی روایات کہ ڈگری داروں نے پیش کیں ان کا صریح رد ہیں۔

رابعاً کلام علماء باب حدیث
انت ومالک لابیک۲؎
سے ہے جیسے بیٹے کےلئے ارشاد ہوا کہ وہ اور اس کا مال سب اس کے باپ کا ہے کوئی عاقل اس سے یہ وہم نہیں کرسکتا کہ بیٹے کی ملک کی نفی فرمائی ہے ایسا ہوتو باپ بیٹے کا وارث نہ ہوسکے،
 (۲؎ مسند امام احمد بن حنبل    حدیث عمرو بن شعیب رضی اﷲ تعالٰی عنہ     دارالفکر بیروت    ۲/ ۲۰۴)
اورآیہ کریمہ
لابویہ لکل منھما السدس۳؎
 (ور میت کے ماں باپ ہر ایک کو اس کے ترکہ سے چھٹا۔ت)کا معاذاﷲ صاف انکارلازم آئے کہ ارث ترکہ مورث میں جاری ہوگی اور ترکہ مثبت ملک جب ملک منتفی توارث کہاں ،یونہی علماء کے اس کلام سے کہ زن ومقبوضات زن سب مقبوض شوہر ہیں قبضہ زن  کے نفی کی طرف کسی ذی عقل کا گمان نہیں جاسکتا بلکہ وہ حقیقی بالذات ہے اور یہ حکمی بالواسطہ ۔
 (۳؎ القرآن الکریم     ۴/ ۱۱)
خامساً اگر ان عبارات کا یہی مطلب باطل قرار دیاجائےکہ عورت کا قبضہ سرے سے معدوم ہے اس کا ہاتھ شرعاً ہاتھ نہیں جیسے صبی لایعقل کا ہاتھ، تو تمام کتب مذہب متون وشروح وفتاوٰی سب  کے اجماعی مسائل مردود و باطل ہوجائیں، کتب مذہب کاا جماع قطعی ہے کہ ہبہ بے قبضہ تمام نہیں ہوسکتا نیزاجماع قطعی ہے کہ زوجیت مانع رجوع ہے شوہر نے اگر اپنی زوجہ کو کوئی شیئ ہبہ کی اور قبضہ کرادیاکہ تکمیل ہوگئی، اب اسے رجوع کا اختیار نہیں، مذہب کی جو کتاب اٹھالیجئے اس میں ان دونوں مسئلوں کی تصریح پائیے، مگر اس مطلب باطل کی تقدیر پر ان دونوں میں ایک مسئلہ ضرور باطل ہے کہ جب عورت کا قبضہ شرعاً قبضہ ہی نہیں بلکہ اس کے شوہر ہی کا قبضہ ہے تواب وہ چیز جو شوہر نے ہبہ کرکے اس کے قبضہ میں دی ہبہ تمام اور عورت مالک ہوئی یا نہیں، اگر کہئے ہوئی تو پہلا مسئلہ باطل ہوا کہ یہ ہبہ بے قبضہ تمام وکامل ہوگیا، اور اگر کہئے نہ، تو دوسرا مسئلہ باطل ہوگیا کہ جب عورت کے لئے ہبہ ہوہی نہیں سکتاتو رجوع ناجائز ماننا کیا معنی، غرض یہ ایسی بدیہی البطلان بات ہے جسے کوئی جاہل بھی گوارا نہ کرسکے، اور یہیں سے واضح ہوا کہ عبارات مذکورہ سوال کو صورت بیع سے متعلق ہونا درکنار وہ مطلقاً ہر صورت ہبہ سے بھی متعلق نہیں، آخر نہ دیکھا کہ ہبہ شوہر برائے زن میں ان کا اجراء محض باطل ہے بلکہ وہ صرف ہبہ زن برائے شوہر میں ہیں کہ یہاں موہوب کا متاع زن سے مشغول ہونا مانع تمام نہیں ہے کہ یہ شغل مانع قبضہ شوہر نہیں کہ زن و متاع زن سب مقبوض شوہر ہیں۔واﷲ تعالٰی اعلم
Flag Counter