Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
47 - 151
مسئلہ۶۷: ازپیلی بھیت محلہ بھورے خاں مرسلہ امیر حسن خان صاحب ۲۲/ ربیع الاول شریف ۱۳۲۲ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اسلام و شرع متین اہلسنت وجماعت اس مسئلہ میں کہ مسمی حافظ محمد میر خان نے منجملہ ۱۰بسوہ ۱۳بسوانسی ۶کچوانسی۱۳  انوانسی۷ننوانسی کے ۵بسوہ حقیت زمینداری موضع منڈریا پر گنہ پیلی بھیت وایک منزل مکان مسکونہ واقع پیلی بھیت قیمتی (معمہ۷۰۰۰ /) اپنی زوجہ مسماہ اشرف بیگم کو بالعوض دین مہر تعدادی (٭۵۰۰۰ ّ) روپے کے دے کر داخل خارج کراکر قبضہ مستقل دے دیا اس کے بعد محمد میر خاں ساڑھے چار برس زندہ رہے بعد انتقال محمد میر خاں کے جو ۵بسوہ۱۳بسوانسی۶کچوانسی۱۳ انسوانسی۷ننوانسی ودیگر جائداد معافیات وغیرہا بنام محمد میر خان کے تھی اس میں سے حق چہارم مسماۃ اشرف بیگم کو ملا اور بقیہ ورثائے محمد میر خان پر تقسیم ہوگئی مسماۃ اشرف بیگم کل جائداد مذکورہ بالا پر ساڑھے انیس برس مالکانہ قابض ودخیل رہی بعد اس کے جائداد مذکورکو مسماۃ مذکور نے مختلف ایام میں اپنی حیات میں بدست امیر حسن خان بالعوض مبلغ (معہ۷۰۰۰) روپے کے فروخت کرکے داخل خارج وغیرہ اپنی موجودگی میں بنام امیر حسن خان کرادیا وقت بیع سے اس وقت تک امیر حسن خان مشتری برابر قابص ودخیل ہے تحریر بیعنامہ سے ایک سال تک مسماۃ زندہ رہی اب انتقال مسماۃ کو عرصہ ڈیڑھ برس کا ہو اجس وقت مسماۃ نے جائداد بیع کی تھی اس وقت وارثان محمد میر خان عاقل وبالغ تھے اور اسی محلہ کے ساکن بلکہ قریب مکان مبیعہ کے سکونت رکھتے تھے اور رکھتے ہیں اور جس وقت داخل خارج بنام امیر حسن خان مسماۃ نے کرایا تو اس کے اشتہار وغیرہ موضع میں آویزاں کئے گئے اوراسی موضع میں وارثان محمد میر خاں کی حقیت علیحدہ تھی اور اب ہے کوئی عذر کسی قسم کا نہیں کیا بعد اس کے امیر حسن خان نے ۵بسوانسی منجملہ ۵بسوہ خرید کردہ اپنے کے ایک مسجد کے نام وقف کردیں، کسی نے کوئی عذر نہیں کیا ان سب کارروائیوں سے وارثان محمد میر خاں بخوبی آگاہ اور واقف تھے اب وارثان محمد میر خاں نے دعوٰی کیا ہے کہ یہ جائداد بالعوض دین مہر کے دی گئی مگر حین حیات یعنی مسماۃ اپنی حیات تک اس کی مالک تھی اور بعد وفات مسماۃ کے جائداد مذکور بالا وارثان محمد میر خاں کو پہنچی، آیا اس حالت میں یہ جائداد ورثائے شوہر مسماۃ کو شرعاً واپس ہوسکتی ہے یا نہیں؟ بینواتوجروا۔
الجواب

صورت مسئولہ میں وہ جائداد ہر گز ورثائے شوہر کو واپس نہیں ہوسکتی، نہ ان کا دعوٰی اصلاً سنا جائے گا کہ وہ صریح حیلہ و فریب ہے اور بعوض دین مہر جو کچھ جائداد دی جائے وہ بیع ہے اور بیع کا مشتری کے حین حیات تک ہونا کیا معنی، یہ محض مہمل و بیہودہ عذر ہے، 

فتاوٰی خیریہ میں ہے:
قال صاحب المنظومۃ اتفق اساتیذناعلی انہ لاتسمع دعواہ ویجعل سکوتہ رضی للبیع قطعا للتزویر والاطماع والحیل والتلبیس وجعل الحضور وترک المنازعۃ اقرار بانہ ملک البائع، وقال فی جامع الفتاوٰی وذکر فی منیۃ الفقہاء رأی غیرہ یبیع عروضا فقبضہا المشتری وھو ساکت وترک منازعتہ فھو اقرار منہ بانہ ملک البائع انتھی۱؎۔واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
صاحب منظومہ نے فرمایا ہمارے اساتذہ کا اتفاق ہے کہ اس کا دعوٰی مسموع نہ ہوگا اور اس کے سکوت کو بیع پر رضامندی قرار دیا جائے گا تاکہ جعل سازی اور لالچ، دھوکہ دہی اور حیلے ختم کئے جاسکیں اور اس کی موجودگی اور منازعت نہ کرنا اس بات کا اقرار قراردیا جائے گا کہ یہ بائع کی ملکیت تھا، اور جامع الفتاوٰی میں فرمایا اور منیۃ الفقہاء میں مذکور ہے کہ ایک شخص دوسرے کو سامان فروخت کرتے ہوئے دیکھ رہا ہو تو مشتری کے قبضہ کرنے پر وہ خاموش رہااور منازعت نہ کی تو وہ اس بات کا اقرار ہے کہ یہ بائع کی ملکیت ہے اھ۔ واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم(ت)
 (۱؎ فتاوٰی خیریہ     کتاب الدعوٰی    دارالمعرفۃ بیروت    ۲/ ۸۸۔۸۷)
مسئلہ۶۸: ۱۳ جمادی الاولٰی ۱۳۲۲ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید وعمرو میں باہم نزاع تھی دونوں نے برضائے خود پنچایت کی پنچوں نے فیصلہ کردیا مگر انگریزی طور پر اس کا نفاذ نہ ہوا فریقین پھر متنازعہ کرتے رہے دوبارہ پھر پنچایت برضائے فریقین ہوئی نفاذ اس کا بھی قانونی طور پر نہ ہوا تھا لہذا فریقین کو گنجائش انحراف رہی یہاں تک کہ نوبت کچہری میں نالش کی پہنچی اب پھر سہ بار پنچایت قرار پائی اس صورت میں ان پنچوں کو اگلے فیصلوں کی نسبت کیاکرنا چاہئے انہیں بحال رکھیں یا وہ منسوخ ہوگئے۔بینواتوجروا۔
الجواب

کسی کو پنچ کرکے جب تک وہ فیصلہ نہ کرے ہر فریق کو اس کی پنچایت سے عدول کا اختیار ہوتا ہے مگر جب اس نے حکم کردیا اب وہ فریقین کو لازم ہوگیا اس سے پھر نے کادونوں میں سے کسی کواختیار نہیں ہوتا قانونی نفاذ ہونا کچھ ضرور نہیں تو صرف بربنائے انحراف فریقین وہ فیصلے منسوخ نہیں ہوسکتے ان پنچوں کو چاہئے ان فیصلوں کو دیکھیں ان میں جو فیصلہ مطابق شریعت موافق مذہب حنفی ہو، پنچوں پر لازم ہے کہ اسے نافذ کریں بحال رکھیں کہ موافق شرع کا خلاف مخالف شرع ہوگا اور مخالف شرع فیصلہ دینے کا کسی کو اختیار نہیں، اور اگر دونوں فیصلے خلاف مذہب تھے تو پنچوں پر لازم ہے کہ انہیں کرکے موافق شرع فیصلہ کریں،
فی تنویر الابصار والدرالمختار وردالمحتار ینفرد احدھما بنقض التحکیم بعد وقوعہ (قبل الحکم) فان حکم لزمھما ولا یبطل حکمہ بعزلھما لصدورہ عن ولایۃ شرعیۃ۱؎اھ ملتقطا وفی ردالمحتار عن بحرالرائق لو رفع حکمہ الی حکم اخرحکماہ بعد فالثانی کالقاضی یمضیہ ان وافق رأیہ والاابطلہ ۲؎اھ واﷲ تعالٰی اعلم۔
تنویر الابصار، درمختار اور ردالمحتار میں ہے کہ ثالث کے فیصلہ سے قبل فریقین میں سے ہر ایک کو ثالثی ختم کرنے کا اختیار ہے اور ثالث نے فیصلہ سنادیا تو دونوں فریقوں پر لازم ہوجائیگا اور اب وہ حکم فریقین کے کالعدم کرنے سے باطل نہ ہوگا کیونکہ وہ فیصلہ شرعی ولایت کی بنیاد پر صادر ہوا ہے اھ ملتقطاً، اور ردالمحتار میں بحرالرائق سے منقول ہے کہ اگر فریقین ثالثی فیصلہ کو بعد میں اپنے بنائے ہوئے کسی دوسرے ثالث کے پاس پیش کریں تو وہ اس فیصلہ کو نافذ کرنے میں قاضی کی طرح ہوگا اگر اس کی رائے کے موافق ہو تو نافذ کردے ورنہ باطل کردے اھ۔واﷲتعالٰی اعلم (ت)
 (۱؎ درمختار    کتاب القضاء     باب التحکیم    مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۸۲)

(ردالمحتار   کتاب القضاء     باب التحکیم    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴/ ۳۴۸)

(۲؎ردالمحتار   کتاب القضاء     باب التحکیم    داراحیاء التراث العربی بیروت   ۴/ ۵۰۔۳۴۹)
Flag Counter