Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
46 - 151
(۹) (صما/) قرض دامودرداس کو سید محمد احسن صاحب نے اپنے بیان تحریری میں بکمال نیک نیتی صاف تسلیم فرمالیا کہ یہ قرضہ ان پر اور سید محمد افضل صاحب مشترکاً ہے، باقی قرضہ کی نسبت تحقیقات درپیش تھی کہ ۶ / مئی ۱۹۰۳ء کو جناب سید محمد احسن صاحب مدعا علیہ نے ایک درخواست بدیں مضمون پیش کی کہ مبلغ (٭٭۹/ ۵)  پائی جو سید محمد افضل صاحب کی بھی ہیں ان کے قلم کی تحریر کی ہوئی ان کے تحویل میں باقی ہیں مجھ کو مجرا دلائی جائیں عریضہ شامل مسل فرمایا جائے، یہ دعوٰی جدید کئی مہینے بعد جناب سید محمد احسن صاحب کو یاد بیان تحریری مورخہ۱۶/ ذی الحجہ ۱۳۴۰ھ مطابق ۱۶مارچ ۱۹۰۳ء میں ان کا کوئی تذکرہ نہیں تھا ولہذا اس کی نسبت کوئی تنقیح قائم نہ ہوئی تھی نہ ایسے جدید دعوٰی کا کسی فریق کو اختیار تھا مگر جناب سید محمد احسن صاحب کے اصرار پر درخواست شامل مسل کی گئی اور سید محمد افضل صاحب سے جواب طلب ہوا انہوں نے اس رقم کے اپنے پاس رہنے سے صاف انکار کیا سید محمد احسن صاحب نے شہادتیں پیش کیں جن میں اس رقم کی نسبت سید محمد افضل صاحب کے پاس رہنا کسی شاہد نے اصلاً بیان نہ کیا بلکہ سید محمد حسین صاحب برادر عمہ زاد فریقین نے اتنا کہا یہ میں نے نہ سنا کہ محمد افضل اپنے ساتھ کچھ نہ لے گئے نہ میں نے سنا کہ کچھ روپیہ تحویل میں ہے یا محمد افضل لے گئے ہیں بلکہ یہ سنا کہ پیلی بھیت میں محمدافضل نے کچھ زیو ر گرو رکھا کچھ روپیہ مقبول حسین خاں نے دیا، مرزاہدایت بیگ نے بیان کیا میں نے کبھی نہ سنا کہ کچھ روپیہ محمد افضل پیلی بھیت لے گئے نہ محمد احسن نے بیان کیا نہ کسی نے، یہ تو نا اتفاقی بیان کیا، باقی گواہوں کے بیان میں اصلاً کچھ تذکرہ نہیں، سید محمد احسن صاحب نے یہ شہادتیں اس غرض سے پیش کیں کہ تمام آمدنی کی تحویل سید محمد افضل صاحب کے پاس ہونا ثابت کریں یہ شہادتیں اس امر کے اثبات میں بھی ناتمام ہیں سید مہدی حسن صاحب و سید ممتاز علی صاحب ومرزاہدایت بیگ صرف شیرے کی آمدنی سید محمد افضل صاحب کے پاس آنا بیان کرتے ہیں، سید محمد احسن صاحب صاف کہتے ہیں کہ یہ میرے علم میں کچھ نہیں کہ تحویل ان دونوں بھائیوں میں کس کے پاس ہوتی تھی سید محمد افضل صاحب کے بھی دیکھنے سے معلوم ہوا کہ وہ اوپر سے دادنی و یافتنی کی رقمیں جدا جدا لکھتے آئے ہیں اور یا فتنی کی مجموع رقوم کو تتمہ قرار دیتے ہیں اگرچہ بعد مجرائی دادنی و تتمہ جو تحویل میں باقی نہیں قرار پاسکتا بارہ سو سے قدرے زائد ایک رقم اختر حسین خاں کے دادنی اور بارہ سو ان سے یافتنی دونوں مدوں میں تھی یہ یافتنی ملا کر رقم تتمہ (٭٭) لکھی گئی تھی اس کے بعد کے حساب میں وہ رقم دادنی ویافتنی دونوں میں سے چھوڑدی ہے او ریوں (٭٭) دادنی اور  (٭٭۰۹/) یافتنی لکھے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ حساب برابر ہے تتمہ کچھ نہیں ایسی رقم وتحویل میں باقی ٹھہرانا سخت عجیبہ ہے ولہذا آج تک سید محمد احسن صاحب نے اس کا کوئی ذکر نہ فرمایا نہ وہ ان کے خیال میں تھا بلکہ بیان تحریر میں صراحۃً اس کے خلاف تحریر تھا کہ سید محمدافضل صاحب کو شاید بیس پچیس روپے گئے ہوں گے اگر یہ پندرہ سولہ سو کی رقم بھی پیلی بھیت جانے کے وقت ان کے پاس ہی ہوتی تو اتنی بڑی رقم کثیر چھوڑ کر صرف بیس پچیس روپے کے ذکر پر کیوں قناعت فرمائی جاتی اور وہ بھی لفظ شاید کے ساتھ، پھر اس درخواست کے دو روز بعد یعنی ۸/  مئی کو جو تفصیل قرضہ سید محمد احسن صاحب مدعا علیہ نے پیش کی اس میں تو اس نزاع کو یک سرطے فرمادیا اور یہی ان کی نیک نیتی سے متوقع تھا اس کے آخر میں صراحۃًتحریر فرمایا کہ اس کے سوا کوئی مطالبہ  سید محمد احسن صاحب وغیرہ کا ذمہ سید محمد افضل صاحب نہیں ہے سوائے (٭٭٭) کے کہ معرفت شیخ تصدق حسین صاحب وسید فرحت علی صاحب کے سید محمد افضل صاحب کو پہنچے ہیں، الحمدﷲ کہ حق واضح فرمادیا، اس دعوٰی کے جواب میں ۱۱مئی کو سید محمد افضل صاحب نے بھی ایک جدید دعوٰی (٭٭٭) کا پیش کیا محاسبات میں سید افضال حسین صاحب مختار عام نے یہ رقم نقد آمدنی کھنڈ سار کی بتائی تھی کہ آسامیوں سے علاوہ اسکے آئی تھی مگر شرائط پیش کردہ میں اس کا کچھ ذکر نہ تھا، سید افضال حسین صاحب نے بعد استفسار بیان کیا کہ یہ رقم ادھر سے آئی ادھر گئی یعنی یا فتنی میں آئی دادنی میں گئی لہذا قائم نہ کی گئی اس پر سید محمد افضل صاحب نے استفسار کیا کہ کس دادنی میں گئی انہوں نے خالص اپنے قرضے میں دی یا مشترک میں اس کا جواب ۱۲ / مئی کو سید محمداحسن صاحب نے لکھا کہ یہ رقم تحویل میں نہیں رہی بلکہ قرضے میں الٹ پھیر میں گئی صرف میرے ذمے پر تنہا قرضہ کوئی نہ تھابلکہ مشترک قرضہ متعلق کھنڈسار کے تھا اس میں گئی، شرعاً شریک کا حلفی بیان ایسے امور میں مقبول ہے اگرچہ اصلاً تفصیل نہ بتائے۔

درمختار صفحہ۳۳۴:
سئل قاری الھدایۃ عمن طلب محاسبۃ شریکہ فاجاب لانلزمہ بالتفصیل ومثلہ المضارب والوصی والمتولی،نھر۱؎۔
قاری الہدایہ سے سوال ہوا کہ کوئی شخص اپنے شریک سے حساب کا مطالبہ کرے تو جواب دیا کہ ہم تفصیلی حساب لازم نہیں کریں گے۔ اسی طرح مضارب، وصی اور متولی کا معاملہ ہے، نہر۔(ت)
 (۱؎ درمختار     کتاب الشرکۃ     مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۳۷۳)
توان سولہ سو کی طرح یہ دو ہزار بھی ناقابل سماعت ہیں، اس جملہ معترضہ کے بعد اصل تنقیح بقیہ قرضہ کی طرف عطف عنان کریں(٭٭٭) کہ قرضے کے دکھائے گئے اور سید محمد احسن صاحب نے اپنے بیان تحریری میں فرمایا کہ وہی قرضہ اب تک چلاآتا ہے اس میں سے (٭صما)  قرضہ دستاویز واقعہ دامودرداس تو یقینا اب تک چلاآتا ہے باقی رقوم کی تفصیل جو سید محمد احسن صاحب نے بابت ۱۳۰۶ھ فصلی جبکہ سید محمد افضل صاحب پیلی بھیت گئے تھے اور اب بابت شرع ۱۳۱۰ھ فصلی اپنی بہی سے لکھائی اور وہ شامل مسل ہے، اس کے ملاحظہ سے واضح ہے کہ اس قرضے میں ایک حبہ قرضہ سید فرحت علی صاحب کے کچھ باقی نہیں۱۳۱۰ھ میں سب رقوم جدید ہیں سید فرحت علی صاحب کے ۱۳۰۶ھ میں (٭٭٭) لکھے تھے اور بابت ۱۳۱۰ھ میں (صمالہ) تحریر ہیں سید محمد احسن صاحب نے اپنی اخیر تحریر میں ذکرفرمایا ہے کہ اب یہ (لہ ٭) بھی ادا ہوگئے ان کے فقط (صما) باقی ہیں تو دامودر داس کے (٭٭) اور سید فرحت علی صاحب کے (صما) جملہ (٭٭) نکال کر (٭٭٭۰۹/) سید محمد احسن صاحب نے ادا کئے اور یہ قرضہ مشترک تھا تو سید محمدا حسن صاحب کا حاصل دعوٰی یہ ہوا کہ اس کا نصف یعنی (٭٭٭۰۴/) کہ سید محمداحسن صاحب نے از جانب سید محمدافضل صاحب اداکئے ہیں سید محمدافضل صاحب سے ان کو دلائے جائیں قرضہ اگر بابت کھنڈسار مشترک ہوتا تو یہ امر دیکھنا کہ قرضہ مذکور سید محمداحسن صاحب نے کس مال سے ادا کیااگر آمدنی مشترک کھنڈسار سے ادا ہوا تو کوئی وجہ مطالبہ نہیں کہ مشترک مال سے ادا ہو ا اور اب سید محمد احسن صاحب کا وہ بیان مورخہ ۱۲/مئی وارد ہوتا کہ (٭٭٭۰۱۳/) نقد آمدنی کھنڈ سار اور ہوئے تھے جو قرضہ مشترکہ کے ادا میں گئے مگر سید محمداحسن صاحب اپنے بیان تحریری میں صاف لکھ چکے ہیں کہ یہ قرضہ سابق میں جبکہ خرچ ان کے یعنی سید محمد افضل صاحب کے تعلق تھا ہوا تھا بابت خرچ خانگی کے جوان کے بہی سے ثابت ہے اور اخیر تحریر مورخہ ۸/جون۱۹۰۳ء میں لکھا قرضہ(٭٭٭) میں(٭٭) قرضہ دامودرد اس کے ہیں اور (٭٭۰۹/) جو دیگر صاحبان کا متفر ق چاہئے یہ بات خرچ خانگی ہے کھنڈسار جگت پور میں کبھی نقصان نہ ہوا نہ اس کو اس سے کچھ تعلق ہے ان دونوں بیانوں سے صاف روشن ہوا کہ اس قرضہ کو عقد شرکت کے مال یعنی کھنڈسار سے کچھ علاقہ نہیں بلکہ خانگی ہیں جو قرضہ دونوں صاحبوں پر تھا وہ سید محمد احسن صاحب نے ادا کیا ہے اب اگر اس کی ادا مال مشترک سے ہوئی(جیسا کہ اس بیان اخیر سے پتاچلتا ہے کہ کھنڈسار کسی وقت محتاج قرضہ نہ ہوئی تھی اور یہیں سے ثابت ہوتا ہے کہ اس (٭٭٭) کا قرضہ کھنڈسار کے ادا میں صرف ہونا غالباً سہو بیان تھا) جب تو ظاہر ہے کہ سید محمد احسن صاحب کو اس قرضہ کی بابت کوئی دعوٰی نہیں پہنچتا اور اگر فرض ہی کرلیا جائے کہ یہ قرض سید محمد احسن صاحب نے خاص اپنے مال سے خواہ کسی سے قرض لے کر ادا کیا تو یہ ایک قرض ہے کہ ایک بھائی پر آتا تھا دوسرے نے بطور خود ادا کردیا بھائی کے ساتھ حسن سلوک ہوا اور نیک سلوک پر ثواب کی امید ہے مگر معاوضہ ملنے کا استحقاق نہیں کہ کوئی شخص نیک سلوک واحسان کرکے عوض جبراً نہیں مانگ سکتا ولہذا کتابوں میں تصریح ہے کہ جو شخص دوسرے کا قرضہ بے اس کے امر کے ادا کردے وہ اس سے واپس نہ پائے گا۔ 

عقود الدریہ جلد ۲ص۲۰۷:
المتبرع لایرجع بما تبرع بہ علی غیرہ کما لوقضی دین غیرہ بغیرہ امرہ۱؎۔
غیر پر نیکی کرنے والا نیکی میں دی ہوئی چیز واپس نہ پائیگا جیسے غیر کی طرف سے اس کے امر کے بغیر قرض ادا کردے۔(ت)
(۱؎ العقود الدریہ     کتاب المداینات    ارگ بازار قندھار افغانستان    ۲/ ۲۴۸)
اسی طرح جامع الفصولین وغیرہ میں ہے، تو ثابت ہوا کہ سید محمد احسن صاحب کو کوئی مطالبہ بابت قرضہ سیدمحمد افضل پر نہیں پہنچتا دستاویز ورقعہ کا مطالبہ ہے تو دامود رداس کا ہے کا اور ان (صما/) کا نصب ہے تو سید فرحت علی صاحب کا ہے اس میں سید محمد افضل صاحب کو عذر بھی ہے کہ سید فرحت علی صاحب کے پانسو باقی ہیں کہ مجموع اڑھائی سو ہوں گے مگر اس کی تحقیقات کی یہاں ضرورت نہیں یہ دعوٰی سید محمد احسن صاحب کا نہیں اس میں مدعی ہوں تو سید فرحت علی صاحب ہونگے جن کو اس مقدمہ سے تعلق نہیں۔
 (۱۰) سید محمد احسن صاحب نے بقایا ذمہ آسامیان(٭٭) لکھی ہے جو پہلے براہ سہو (٭٭) لکھی گئی اور بعد کو اس کی تصحیح فرمادی ہے اس رقم میں بقایا بابت مکان عبدالکریم خاں والا اور بقایا رس جگت پور ذمہ آسامیاں اوربقایا توفیر ذمہ آسامیاں دیہ شامل ہے اور اس کی اور تفصیل وہی ہے کہ اس میں اس قدر وصولی یعنی متوقع الوصول اور اس قدر غیر وصولی ہے جس کے وصول کی امید  نہیں اوراپنے رقعہ مورخہ ۲۲/ذی الحجہ ۱۳۲۰ھ میں اقرار فرمایا کہ بقایا رس سے تخمیناً (٭٭) کارس اور وصول ہوگیا اور اس تخمینہ کو ان کے مختار عام سید افضال حسین صاحب نے بعد بہت محاسبات کے یوں ظاہر فرمایاکہ(٭٭) کا رس حقیقتاً وصول ہوا ہے تو اس قدر تو بقایا میں نہ رہا اور ا سکا نصف (صما٭٭) ذمہ سید محمد احسن صاحب یافتنی سید محمد افضل صاحب اور واجب الادا ہو کر اس وقت تک مجموع رقم ان کے ذمے (٭٭٭۷/ ۳-۳/ ۸) پائی ہوئی بقایارقم(٭٭٭) کی نسبت اگرچہ محمد احسن صاحب کی یہ خواہش ہو کہ کمی وصولی کا کچھ کم کرکے باقی کی تنصیف کردی جائے خواہ دستاویز میں بانٹ دی جائیں خواہ ایک سے دوسرے کو ان کا معاوضہ دلاکر جملہ بقایا ایک فریق کی کردی جائے کہ اب کھنڈسار میں شرکت رکھنامنظور نہیں اور سید محمد افضل صاحب بھی قطعی شرکت پر راضی نہیں مگر تحصیل بقایا سے اپنے آپ کو معذور محض بتاتے ہیں کہ میں اسامیوں کو جانتا بھی نہیں ہمیشہ کام سید محمداحسن صاحب نے کیا اور اسامیان انہیں کے قبضے میں ہیں مجھے کچھ وصول نہ ہوسکے گا مگر شرعاً دودائن مدیون کو تقسیم نہیں کرسکتے نہ غیر مدیون سے دین وتبادلہ ممکن، لہذا اس بقایا کو خواہ وصولی ہو یا غیر وصولی بدستور اس کے حال پر چھوڑنا لازم اور جس فریق کو جس قدر ان میں سے وصول ہوتا جائے اس کا نصف دوسرے کو ادا کرنا واجب، البتہ اگر کسی مد میں بقایا اس قدر سے کم ثابت ہو جو سید محمدا حسن صاحب نے بتائی ہے تو ظاہر ہوگا کہ اس قدر او ر ان کو وصولی ہوگیاتھا لہذا اس کمی کا نصف بحق سید محمد افضل صاحب ادا کرنا ان کے ذمے لازم ہوگا سید محمد احسن صاحب نے بقایا بابت رس  ذمہ اسامیان جگت پور (٭٭۰۲/)لکھائی ہے کہ (٭٭) بعد کو وصول ہوکر(سما٭٭) رہے بعد کو یہ عذر کہ اس میں سہو ہو اان میں (لہ٭٭) بابت خرید جائداد نیلام ہیں باقی اس جگت پور کے ہیں قابل رقم نہیں کہ وہ کاغذحلفی تھاا ور یہ رقم خرید نیلام ایک غیر وصولی رقم ہے جسے سید محمد احسن صاحب غیر وصولی نقصان میں ڈال چکے ہیں اور کوئی اقرار کنندہ آئندہ اپنے اقرار میں اپنی مفید غلطی و سہو بتانے کا مجاز نہیں خصوصاً اس حالت میں کہ یہ غلطی انہوں نے تقریباً دو مہینے بعد ظاہر کی حلفی کاغذ۱۶/ذی الحجہ کو پیش کیا تھا اور یہ غلطی ۸/صفر کو بتائی ہے مع ہذاخواہ ان کی بہی  کے ملاحظہ سے ظاہر ہواکہ یہ رقم اس میں بھی سہو ہوتی رہی بعد کو بڑھائی گئی ہے جو اوپر لکھے ہوئے جوڑ سے بڑھتی ہے اور اس کی تحریر بھی صاف جدا قلم و سیاہی سے نظر آتی ہے ۱۳۰۸؁ف اور ۱۳۰۹؁ف کا جمع خرچ بھی سید محمد احسن صاحب کے ملاحظہ سے یہ امر ظاہر ہے لہذا کسی طرح یہ استثناء قابل قبول نہیں اسی قطع شرکت کی غرض سے فریقین نے یہ بھی چاہا کہ کھنڈسار جگت پور کے کڑھاؤ(جس میں سید محمد افضل صاحب نے نو بیان کیاتھا اور سید محمد احسن صاحب نے سات تسلیم کئے) قیمت لگا کر ایک فریق کو دلادئے جائیں سید محمد احسن صاحب نے ان کی مجموعی قیمت(٭٭٭) تجویز کی اور لکھا کہ سید محمد افضل صاحب اس قدر قیمت میں خود لے لیں یا ہم کو دے دیں۔ سید محمد افضل صاحب نے خود لینا پسند کیا پس حصہ سید محمد احسن صاحب کے (٭٭) ان کی یافتنی مذکور سے کم ہو کر (٭٭٭۲ / ۳-۳/ ۸) پائی ان کے لئے محمد احسن صاحب پر رہے اور کڑھاؤ ساتوں سید محمد افضل صاحب کے ہوئے لہذا حسب ذیل حکم ہوا:

(۱) جملہ مکانات متنازعہ میں سید افضال حسین صاحب کا دعوٰی نہیں۔

(۲)  مکان مسکونہ نمبر۱ میں سید محمد افضل صاحب کا کوئی حق نہیں۔

(۳) مکان نمبر ۳ کے تین ربع مبیع سے نصف ملک سید محمدافضل صاحب اور ایک ربع مرہون سے نصف ان کا مرہون ہے۔

(۴) مکان نمبر ۴ عبدالکریم خاں والا بالمناصفہ سید محمد افضل ومحمد احسن صاحبان کے مرتہنی میں ہے۔

(۵) مکان نمبر ۵احمد حسین خاں والا خالص ملک سید محمد احسن صاحب قرار پایا اس میں سید محمد افضل صاحب کا کوئی حق نہ رہا۔

(۶) مکان نمبر ۲محمد بخش والا خالص ملک سید محمد افضل صاحب قرار پایا اس میں سید محمد احسن صاحب کا کوئی حق نہ رہا۔

(۷) اثاث میں کسی فریق کا دوسرے پر دعوٰی نہ رہا۔

(۸) بقایا بدیں تفصیل بابت رس ذمہ اسامیان جگت پور (سما ٭٭)، بابت توفیر ذمہ اسامیان دیہہ لغایۃ (۰ ۹ ؁ف٭٭،) بقایا بابت مان پور و پر ساکھیڑا (٭٭۰۱۲/) مطالبہ مرتہنان بابت مکان مرہون عبدالکریم خان والا(٭٭) مجموع (٭٭) آخر ۱۳۰۹؁ ف تک سید محمد افضل صاحب وسید محمد احسن صاحب کے بالمناصفہ ہیں ان میں جوکچھ جس فریق کو وصول ہوا اس کا نصف دوسرے کو اداکرے اگر کسی مد میں اس مقدار سے کمی ظاہر ہو تو سید محمد احسن صاحب پر لازم ہوگا کہ اس کمی کا نصف سید محمد افضل صاحب کو ادا کریں۔

(۹)کھنڈسار جگت پور میں شروع ۰ ۱ ؁ سے سید محمد افضل صاحب کی شرکت رہی اس کے ساتوں کڑھاؤ سید محمد افضل صاحب کے قرار پائے سید محمد احسن صاحب وہ ساتوں کڑھاؤ سید محمد افضل صاحب کے مکان پر پہنچوادیں، سید محمد افضل صاحب کرایہ وباربرداری اد اکرینگے۔

(۱۰) قرضہ دامودرداس بابت دستاویز (٭٭واقعہ صما /) دونوں فریق سید محمد افضل وسید محمد احسن صاحبان پر نصف نصف ہے اس کی وجہ سے جو کچھ باریا مطالبہ آئے گا دونوں فریق پر بحصہ مساوی

ہوگا شروع ۱۳۰۶؁ھ ف تک جبکہ سید محمد افضل صاحب پیلی بھیت گئے ہیں جو رقم سید فرحت علی صاحب کی یافتنی ذمہ فریقین تھی اس میں سے بعد ادا آخر ۱۳۰۹؁ھ ف تک جو کچھ باقی رہا جو حسب بیان سید محمد احسن صاحب مجموع (صماء)  روپے اور حسب بیان سید محمد افضل صاحب مجموعی دو سو (مال) یا ڈھائی سو (مال ٭) یہ قرضہ بھی پانسوکی مقدار تک جتنا ثابت ہو سید محمد افضل وسید محمد احسن صاحبان پر نصفا نصف ہے ان تینوں مدات مذکور ہ کے سو باقی قرضے سے فریقین بری ہیں۔

(۱۱) آخر ۱۳۰۹؁ھ ف تک بابت جملہ حساب کتاب فریقین میں ایک کے دوسرے پر یا فتنی محسوب ومجرا ہوکر ایک ہزار سات سواٹھانوے روپے د وآنے تین پائی اور ایک پائی کے آٹھ حصوں سے تین حصے سید محمد احسن صاحب پر سید محمد افضل کے یافتنی نکلے یہ سید محمد احسن صاحب رقم مذکور ان سید محمد افضل صاحب کو ادا کریں ۱۳۱۰ھ فصلی کا حساب بابت توفیر دیہہ علیحدہ ہے فقط 

۹/ربیع الاول شریف ۱۳۲۱ھ مطابق ۱۶/جون ۱۹۰۳ء
Flag Counter