Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
45 - 151
 (۵) سید محمد احسن صاحب نے بکمال نیک نیتی اپنے بیان واظہار میں جابجا صاف تسلیم کرلیا کہ کھنڈ سار جگت پور ان کی اور سید محمد افضل صاحب کی مشترک ہے خود ابتدائی بیان جس میں اس کھنڈ سار کو تنہا اپنی فرمایا ہے اسی کے آخر میں آمد و خرچ پیش کردہ سید افضال حسین کو صراحۃً لکھ دیا کہ میراا ور سید محمد افضل صاحب کا بشرکت ہے اس آمد میں آمدنی کھنڈ سار مذکور شامل ہے بلکہ حساب طلب بھی اس آمدنی کا ہوا تھا جو فریقین کی مشترک ہے تو اس میں آمدنی کھنڈ سار مذکور کا درج فرمانا ہے صراحۃً دلیل شرکت تھا نہ کہ جب بیان شرکت کی تصریح بھی کردی نہ کہ جب تحریر میں صاف لکھ دیا کہ یہ کھنڈ سار میری اور سید محمد افضل صاحب کی شرکت میں ہے،لہذا مجموعہ آمدنی (ہمہ سالہ عہِ/) سے نصف یعنی(ال۰۱ ِ لہ صہ عہ) حق افضل صاحب ہیں۔

(۶) مدات خرچ میں اراضی محمد ولی جان فریقین کا مشترک ہونا اور اس کی قیمت کی (صہ یعہ/) فریقین کے ذمے بالمناصفہ ہونا فریقین کو تسلیم ہے اور (ال لہ عہ)کہ قرضخواہ کو رقم خلاف شرع یعنی سود میں سید احسن صاحب کے ہاتھ سے گئی ان کے حلف کے بعد سید محمد افضل صاحب نے مشترک ہونا قبول کرلئے مرمت مکانات کی (للعہ ۳ ِلعہ) جن کی تفصیل فریقین سے کوئی نہ بتا سکا نہ ان کے معلوم ہونے کا کوئی ذریعہ کہ کس قدر کس مکان کی مرمت میں صرف ہوا مکان نمبر ۴ کے سوا باقی چاروں مکانوں پر بحصہ مساوی قابل انقسام وہی مکان نمبر۱ میں جب کہ سید محمد افضل صاحب کا کوئی حق ثابت نہ ہوا اور سید محمد احسن صاحب اسے تنہا اپنی ملک بتاتے ہیں تو اس رقم کا ایک ربع (۸ ِ ہہ عہ ) پائی خاص سید محمد احسن صاحب پر اور باقی ربع کا نصف (یعہ۱۳ ِ ۲ ۔۵/ ۸ پائی عہ۲۷) پائی ذمہ سید محمد افضل صاحب ہو اعیدین و خیرات و نیاز وخوراک خانہ وغیرہ سب کی نسبت سید محمد احسن صاحب کو اپنے بیان تحریری(عہ۱) میں اقرار ہے کہ یہ بعد جانے سید محمد افضل صاحب کے خود سید محمد احسن صاحب نے صرف کئے البتہ کنبے داری کے خرچ شادی وغمی کو فریقین نے مشترک تسلیم کیااس پر ہم مجوز نے سید محمد احسن صاحب سے اس رقم کی فہرست طلب کی مگر سید محمد احسن صاحب مدعاعلیہ نے اس رقم کاحصہ ذمہ سید محمد افضل صاحب ڈالنے سے دستبرداری کی اور قبول فرمایاکہ یہ خفیف رقم بھی میرے ہی ذمے رکھی جائے کھنڈ سارا بھی پوڑنودیا کی نسبت خود محمد احسن صاحب اپنے تحریری (عہ۲) بیان میں اقرار فرماتےہیں کہ وہ میں نے خود کی تھی محمد افضل کی کوئی شرکت نہیں تھی فقط نیزاپنے اظہار (عہ۳) میں اس کھنڈسار بالی بور کمال پور سب کی نسبت تحریرفرماتے ہیں کہ سید محمد افضل صاحب کے پیلی بھیت جانے کے ایک دو سال بعد میں نے سید محمد افضل صاحب سے کوئی اجازت نہیں لی تھی تو یہاں سے ظاہر ہواکہ ان میں سے کسی کھنڈسار میں سید محمد افضل صاحب کی شرکت نہ تھی نہ سید محمد افضل صاحب کو ان میں شرکت تسلیم ہے
عہ۱:  تحریر نمبر۲ شامل مسل ۱۲  

 عہ۲:  تحریر نمبر۳شامل مسل ۱۲      

عہ۳:  تحریر نمبر ۱۹ شامل مسل ۱۲
اور سید محمد احسن صاحب کا لکھنا کہ نہ سید محمد افضل صاحب نے مجھ سے کہا کہ میں ان کھنڈساروں میں شریک نہیں ہوں ان کو علم تھا کہ یہ کھنڈ ساریں کی گئی ہیں اور کسی کام کی بابت بھی کوئی خاص اجازت نہ لی جاتی تھی ہمیشہ ان کے شریک پیلی بھیت سے آیا کرتے اور یہ بھی آتے وہ سب خرچ اس کھنڈ ساری آمدنی سے ہوتا تھا فقط کچھ انہیں مفیدنہیں سید محمد افضل صاحب نے انہیں شرکت کی نفی نہ کی تو اقرار بھی نہ کیا اور علم ہونا شریک ہونے کو مستلزم نہیں کھنڈساروں کی مخلوط آمدنی جن میں مشترک کھنڈسار جگت پور بھی تھی مہمانداری سے سید محمد افضل صاحب وغیرہ میں خرچ ہونا بھی ان کھنڈساروں میں دلیل شرکت نہیں جوان کے جانے کے سال دو سال بعد سید محمد احسن صاحب نے بطور خود بے اجازت لئے کیں، آخر خود سید محمد احسن صاحب صراحۃً لکھ چکے ہیں(عہ۱) کہ ابھی پوڑ ونودیا کی کھنڈساروں میں سید محمد افضل صاحب کی شرکت نہیں اگرچہ دلائل موجب شرکت ہوتے تو ان میں بھی شرکت ثابت ہوئی جس سے خود مدعا علیہ کو انکار ہے توثابت ہوا کہ ان سب کھنڈساروں میں نقصانات سیدمحمد افضل صاحب پر ڈالنے کی کوئی وجہ نہیں پس مدات خرچ میں صرف تین مدیں ذمہ سید محمد افضل صاحب ہوئیں، نصف قیمت اراضی ولی محمد خان و نصف رقم ناجائز سود کہ قرض خواہ کو گئی وبابت مرمت مکان کل (٭٭ ۱۳/ ۲-۵/۸کل صمالہ معہ ۲-۵/۸ ) پائی کہ نصف آمدنی ان کی یافتنی (٭٭٭۱۰/ ۶)  پائی سے منہا ہوکر (٭٭۳/۳-۸ ) پائی رہے لیکن سید محمود حسن صاحب نے دعوٰی کیا کہ مبلغ (٭/) معرفت شیخ تصدق حسین اور( ٭٭) معرفت سید فرصت علی اور تخمیناً دس پندرہ روپے متفرق سیدمحمد افضل صاحب کے پاس پہنچے جواسی گوشوارہ خرچ میں مندرج ہیں پہلی دو رقموں کا سید محمد افضل صاحب نے اقرار کیا تو یہ (٭٭) اور مجرا ہوکر (٭٭٭) پائی سید محمد افضل کی یافتنی ذمہ سید محمد احسن صاحب پر رہے یہ حساب ظاہراً سید افضال حسین صاحب مختار عام سید محمد احسن صاحب بہت جلدی میں تحریر فرمایا ہے رقم خرچ رقم آمدنی کے برابر (٭٭٭) قائم کی اور تتمہ ندارد لکھ دیا اور مدات خرچ کی جو تفصیل فرمائی ان کا جوڑ صرف (٭٭) آتا ہے اسی روپے کا فرق ہے اور ایسی ہی سوروپے کی غلطی رقم بقایا میں ہے جس کا خود اقرار تحریر فرمایا مگر ازانجا کہ ذمہ مدعی ان تین مدوں کے سوا باقی سے بری ہے اس تحقیقات کی کچھ حاجت نہیں کہ یہ اسی (٭/) کی غلطی کہاں گئی۔
عہ۱:  تحریر نمبر۲شامل مسل ۱۲
 (۷) اثاث البیت کے دعوٰی سے فریقین نے دست (عہ۲) برداری لکھ دی۔
عہ۲:  تحریر نمبر۱۵ونمبر۱۶شامل مسل۱۲
 (۸) مکان نمبر۱ میں تو کوئی سید محمد افضل صاحب کا ثابت نہ ہوا اور مکان نمبر ۴ فریقین کے پاس رہن ہے نمبر ۳ کے بھی تین ربع فریقین کے پاس رہن ہیں رہن مملوک مرتہن نہیں ہوتا اس مکان کا ربع اگرچہ مملوک ہے مگر بوجہ اختلاط رہن وہ یکجائی نہ ہوسکے گا تو صرف دومکان قابل تقسیم یکجائی ہے مکان نمبر ۲جس کا نصفاً نصف ہونا ابتداء سے مسلم(عہ۳) فریقین تھا اور مکان نمبر ۵ کے اب نصفا نصف ثابت ہوا ان دونوں مکانوں کا مفصل تخمینہ معتبر راجوں نے بمواجہ سید محمد احسن صاحب کیا مکان نمبر۲کی قیمت(عہ۱) (٭۱۹۰ /) قرار پائی اور مکان نمبر ۵کی (عہ۲) (٭٭۴۴۹)  یہاں اتفاقاً قرعہ برداری درکارتھی مگر سید محمد احسن صاحب نے کہا کہ مکان نمبر ۵ میرے والد کو بہت پسند تھا وہ اس میں سوتے تھے یہ مجھے مل جائے اور زیادت کا معاوضہ مجھ سے دلایا جائے سید محمد افضل صاحب پہلے فرماچکے تھے کہ جو مکان وہ پسند کرلیں لے لیں اور کمی بیشی کا معاوضہ ہوجائے بعد اس پسند کے بھی سید محمد افضل صاحب نے اسے منظور رکھا لہذا مکان نمبر ۲ خالص سید محمد افضل صاحب اور مکان نمبر۵ خالص سید محمد احسن صاحب کا قرار پایا اور بابت کمی حصہ سید محمد افضل صاحب میں آئی (٭٭۸/) سید محمد احسن صاحب پر سید محمد افضل صاحب کی واجب الادا ہوئی کہ رقم سابق سے مل کر مجموع (٭٭ ۲/۳/۸) پائی ہوئی۔
عہ۳:  تحریر نمبر۲شامل مسل۱۲۔    

  عہ۱:  تحریر نمبر۱۲شال مسل ۱۲۔

   عہ۲:  تحریر نمبر۱۱شامل مسل ۱۲
Flag Counter