Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
44 - 151

 (۴) مکان نمبر ۳ کی نسبت بالاتفاق اظہارات (عہ) ہرسہ فریق ثابت ہوا کہ اس کی بیع و رہن نامہ سب حقیقۃً بنام سید امیر علی صاحب مرحوم تھی اندراج نام دیگراں اسی قاعدہ معہودہ بزرگان کی بناء پر تھا بالخصوص مدعا علیہ کا بیان کہ یہ تمام و کمال مکان سید امیر علی صاحب مرحوم نے فریقین کے خالہ زاد ہمشیر قادری بیگم کو ہبہ کردیا صراحۃًاس کے متروکہ امیر علی صاحب  ہونے کا اقرار ہے۔ سید امیرعلی نے انتقال فرمایا اور ان کے وارث یہی دو صاحبزادے سیدمحمد افضل صاحب وسید محمد احسن صاحب ہوئے تو مکان کے متروکہ مورث ہونے کا اقرار نصف مکان بذریعہ وراثت ملک سید محمد افضل صاحب ہونے کا اقرار ہوا لیکن یہ اقرار حق راہن پر کہ نہ حاضر ہے نہ فریق مقدمہ ہے مؤثر نہ ہوگا تو ایک ربع مکان مذکور باقرار سید محمد احسن متروکہ سید امیر علی صاحب تین ربع مرہونہ سید امیر علی صاحب قرار پائیں گے یہ رہن اگرچہ بوجہ مشاع ہونے کے فاسد اور بوجہ دخلی ہونے کے شرعاً حرام ہے مگر تاوصول دین اس پر قبضہ رکھنے کا اختیار ضرور حاصل، اس بارے میں رہن صحیح وفاسد کا حکم ایک ہی ہے۔
عہ:  تحریر نمبر ۱ و نمبر۱۴شامل مسل ۱۲۔

درمختار صفحہ۶۱۶:
لایصح رہن مشاع مطلقا ثم الصحیح انہ فاسد۱؎۔
غیر منقسم چیز کا رہن مطلقاً صحیح نہیں ہے بلکہ صحیح یہ ہے کہ وہ رہن فاسد ہوگا۔(ت)
 (۱؎ درمختار    کتاب الرہن     باب مایجوز ارتہانہ ومالایجوز    مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۲۶۸)
اسی میں ہے ص۶۲۸:
کل حکم عرف فی الرہن الصحیح فھو الحکم فی الرھن الفاسد کرھن المشاع(ملخصاً)
جو حکم صحیح رہن کا ہے وہ حکم فاسد رہن، مثلاً غیر منقسم رہن چیز، کا ہے۔(ت)
 (۲؎درمختار    کتاب الرہن    فصل فی مسائل متفرقہ    مطبع مجتبائی دہلی    ۲/ ۲۷۹)
اور بعد انتقال مرتہن اس کے ورثہ اس کی جگہ مرتہن ہوجاتے ہیں،

 درمختار ص۶۲۳:
لایبطل الرہن بموت الراھن ولا بموت المرتھن ولا بموتھما ویبقی الرھن رھنا عند الورثۃ۳؎۔
راہن یا مرتہن یا دونوں کی موت سے رہن باطل نہیں ہوتا بلکہ ان کے ورثاء میں رہن باقی رہے گا۔(ت)
 (۳؎درمختار    کتاب الرہن    باب التصرف فی الرہن     مطبع مجتبائی دہلی   ۲/ ۲۷۷)
تو اس مکان کے تین ربع کی مرتہنی بنام فریقین اگرچہ حسب اقرار فریقین بطور اسم فرضی تھی مگر بعد انتقال مرتہن اصلی واقعی وحقیقی ہوگئی اور اس میں کسی فریق کو نزاع بھی نہیں ایک ربع باقی کے بیعنامہ میں تین نام مندرج ہوئے سیدامیر حسن مرحوم وسید افضال حسین پسران مدعی واحمدی بیگم زوجہ سید محمد احسن صاحب مدعاعلیہ ان میں سید افضال حسین صاحب تو اپنے اقرار مذکور تنقیح سوم کے رو سے جدا ہوگئے لیکن ہر سہ فریق کا اتفاق سید امیر حسن واحمدی بیگم پر اثر نہیں ڈال سکتا کہ اقرار حجت قاصرہ ہے اثر صرف مقر کی اپنی ذات تک محدود رہتا ہے ہم صدرتنقیح سوم میں بیان کر آئے کہ دستاویزات مصدقہ مسلمہ ہر سہ فریق میں ان کاموں کا اندراج دفع دعوٰی دیگران کےلئے بس ہے جب تک وہ بینہ سے ان اسماء کا فرضی ہونا ثابت کریں جس کا ثبوت اصلاً فریقین سے کسی نے نہ دیا تو اس ربع میں اقرارات کا اثر صرف ایک ثلث موسوم سید افضال حسین پر پڑے گا، اور وہ باقرار ہر سہ فریق متروکہ سید امیر علی صاحب قرار پاکر سید محمد افضل صاحب سید محمد احسن صاحب میں نصف نصف ہوا سید امیر حسن مرحوم و احمدی بیگم نہ فریق مقدمہ ہیں نہ ان کے ابطال حق پر فریقین سے کسی نے کوئی ثبوت دیا لہذا اس قدر میں کسی کا دعوٰی مسموع نہیں سید امیر حسن مرحوم کے وارث صرف ان کے والد سید محمد افضل صاحب مدعی ہیں تو اس ربع کا ایک ثلث کہ شرعاً ملک سید امیر حسن مرحوم تھا وراثۃً ملک سید محمد افضل صاحب ہواسید محمد افضل صاحب کو بھی اگرچہ اقرار تھا کہ یہ مکان متروکہ پدری ہے جس کے رو سے اگرچہ اقرارات ہر سہ فریق حق سید امیر حسن مرحوم پر مؤثر نہ ہوا مگر جب ثلث بدعوٰی ارث سید محمد افضل صاحب کو پہنچے سید محمد احسن صاحب ان کے اقرار پر مواخذہ کرکے اس ثلث میں نصف کے مدعی ہوسکتے تھے لیکن سید محمد احسن صاحب بعد اقرار مذکور ہر سہ فریق کے صراحۃً تحریر کرچکے کہ امیر حسن کے حق کی بابت گزارش ہے کہ روپیہ والد صاحب کا تھا اور اس سے بیع ورہن کیا گیا اگر شرعاً اس میں میرا حق ہے تو مجھ کو دعوٰی ہے اور نہیں ہے تودعوٰی نہیں ہے فقط اور اوپر معلوم ہوتا ہے کہ شرعاً سید امیر حسن مرحوم کے حق میں سید محمد احسن کا کوئی حق نہیں، نہ خریداری میں روپیہ والد کا ہونا، ملک والد کو مستلزم۔ 

فتاوٰی خیریہ ص۲۰۱:
لایلزم من الشراء من مال الاب ان یکون المبیع للاب۱؎۔
والد کے مال سے خرید کر دہ چیز ضروری نہیں کہ والد کے لئے ہو۔(ت)
 (۱؎ فتاوی خیریہ     کتاب البیوع    دارالمعرفۃ بیروت    ۱/ ۲۱۹)
او رلادعوٰی کسی شرط واقعی پر معلق کرنا بلا شرط لادعوٰی ہے، 

درمختار ص۴۰۷ :
علقہ بامرکائن کان اعطیتہ شریکی(عہ) فقدابرأتک وقد اعطاہ صح۲؎۔
برأت کو معلق کیا کسی امر ماضی محقق پر جیسے طالب کا مدیون سے کہنا کہ اگرتونے فلاں چیز میرے شریک کو دی تو میں نے تجھ کو بری الذمہ کیا حالانکہ مدیون وہ چیز اس کے شریک کو دے چکا تو یہ تعلیق صحیح ہوگی۔(ت)
عہ:  شریکی کی جگہ اصل میں بیاض ہے۔
(۲؎ درمختار    کتاب البیوع    باب مایبطل بالشرط الفاسد الخ    مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۵۳)
ردالمحتار جلد ۲ ص۳۴۹:
لانہ علقہ بشرط کائن فتنجز۔۳؎
کیونکہ اس نے پائی جانیوالی شرط پر معلق کیا ہے تو فوراً نافذ ہوگیا۔(ت)
 (۳ ردالمحتار   کتاب البیوع    باب مایبطل بالشرط الفاسد الخ   مکتبہ داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴/ ۲۲۵)
تو سید محمد افضل صاحب کا اقرار حصہ سید امیر حسن مرحوم کے بارے میں سید محمد احسن صاحب کے لادعوے سے رد ہوگیا،

 اشباہ ص۲۵۵ :
المقرلہ اذا ردالاقرار ثم عادالی التصدیق فلاشیئ لہ۱؎۔
مقرلہ نے جب اقرارکو رد کردیا اور بعد میں اقرار کی تصدیق کردی تو بھی محروم رہے گا(ت)
 (۱؎ الاشباہ والنظائر    الفن الثانی     کتاب الاقرار     ادارۃ القرآن کراچی    ۲/ ۲۲)
ایضاً صفحہ۲۵۳ :
المقرلہ اذاکذب المقر بطل اقرارہ ۲؎الخ۔
مقرلہ نے جب اقرار کرنے والے کو جھوٹا قرار دیا تو اقرار باطل ہوجائے گا الخ (ت)
 (۲؎الاشباہ والنظائر    الفن الثانی     کتاب الاقرار     ادارۃ القرآن کراچی   ۲/ ۱۹)
تو یہ ثلث کہ ملک سید امیر حسن مرحوم تھا خاص ملک سید محمد افضل صاحب ہو ااور نصف اس ثلث اسمی سید افضال حسین صاحب کا ان کی ملک قرار پایا تھا مجموع ڈیڑھ ثلث یعنی اس رابع مبیع کا نصف مملوکہ سید محمد افضل صاحب ہوا مکان نمبر۴ کی اگرچہ سید محمد احسن صاحب مدعاعلیہ کا اپنے اظہار میں بیان کہ وہ میرا خرید کیا ہوا ہے صریح سہو ہے وہ مکان بیع نہیں رہن ہے مگر سید محمد احسن صاحب مذکور نے اپنے اظہار میں نیک نیتی سے تسلیم فرمالیا کہ اس مکان میں نصف ان کا حصہ ہےجو انہوں نے خواجہ محمد حسن صاحب کے قبضہ میں مع نصف مکان نمبر ۵ مستغرق کیا ہے انھوں نے اپنی تحریر (عہ۱) میں صراحتاً اقرار کرلیا کہ یہ رہن کھنڈ سار مشترک کی آمدنی سے لیا گیا اور تحریر کردیا کہ جب سید محمد افضل صاحب شریک کھنڈسار ہیں تو نصف ان کاا ور نصف میرا ہے فقط، لاجرم یہ نصف بحق سید محمد افضل صاحب ہے، یہی حالت ہے اس کی نسبت اگرچہ بیان واظہار سید محمد احسن صاحب بہت مختلف واقع ہوئے مگر ہر شخص کا بیان اس قدر کہ اس کی ذات کےلئے نافع ہو بلاد لیل قابل قبول نہیں ہوسکتا اور جس قدر فریق دیگر کے لیے نافع ہے اس کے حق میں حجت ہوجاتا ہے سید محمد احسن صاحب نے اپنے اظہار میں صاف فرمایا ہے کہ نصف مکان نمبر۴ کے ساتھ مکان نمبر۵ پھاٹک والا احمد حسین والا کہ اس کا بھی نصف میرا ہے اسی قرضہ خواجہ (عہ۲ ) صاحب میں مستغرق ہے نیز سید محمد احسن صاحب کے مختار عام سید افضال حسین صاحب نے اپنے اظہار (عہ۳) اور اپنے بیان (عہ۴) دونوں میں صاف فرمایا ہے کہ مکان نمبر ۴ کے سوا کہ وہ تو سید امیر علی صاحب مرحوم کے بعد رہن لیا گیا باقی سب مکانات ان کے دادا سید امیر علی صاحب مرحوم نے اپنے روپے سے بیع ورہن لئے ہیں اور اپنی طرف سے جس جس کو جتنا دینا منظور تھا اس اس کا نام بیعنامہ اور رہن نامہ میں درج کرادیا،

عہ۱:  خط کشیدہ عبارت اندازہ سے بنائی گئی ہے۔ 

   عہ۲: تحریر نمبر۱۹ شامل مسل ۱۲۔

عہ۳:  تحریر نمبر۳ شامل مسل ۱۲۔ 

   عہ۴:  تحریر نمبر۱۴ شامل مسل ۱۲۔
اور سید محمد احسن صاحب نے اپنے اظہار میں فرمایا ہے کہ سید افضال حسین میرا مختارعام ہے اس مقدمہ دائرہ میں جو بیان سید محمد افضال حسین صاحب نے کئے مجھ کو قبول ومنظور ہیں اور سید محمد احسن صاحب نے اپنی اخیر تحریر (عہ۱) میں خود صاف لکھا کہ یہ بیع ورہن والد صاحب کے روپے سے تھے تو اپنے اگلے بیانوں کو صراحۃً رد فرمایا بالجملہ باقرار مدعا علیہا ثابت ہوا، نیز اس کی تعمیر کی نسبت سید محمد احسن صاحب مجوز سے زبانی فرمادیاگیا گیا تھا کہ کھنڈ سار جگت پور کے روپے سے ہوئی اور یہ کہ اس وقت سوا اس کے ہماری کوئی آمدنی نہ تھی بعدہ اظہار میں اس عمارت کی نسبت بہت تفصیل بیان فرمائی ہے جس سے اس کی کچھ متفرق ہے مشرک کچھ خاص ان کے ثابت ہوتے ہیں اور تحریر فرمایا ہے پہلے جو میں نے مکان نمبر ۵ کی نسبت تعمیر عملہ کی مجوز صاحب سے عرض کیا تھا کہ کھنڈ سار جگت پور کی آمدنی سے کہ وہ میرا سہو تھا صحیح یہ(عہ۲) ہے جو میں نے مفصل لکھا مگر کوئی مقر اپنے اقرار سے بدعوی سہو ولغزش پھر نہیں سکتا،

عہ۱:  تحریر نمبر۲۲شامل مسل ۱۲  

عہ۲:  تحریر نمبر۱۹شامل مسل۱۲
اشباہ ص۲۵۴:
اذا اقربشیئ ثم ادعی الخطاء لم تقبل۱؎۔
جب کسی چیز کا اقرار کرکے پھر خطا کا دعوٰی کرے تو یہ دعوٰی قبول نہ ہوگا۔(ت)
 (۱؎ الاشباہ والنظائر    الفن الثانی    کتاب الاقرار     ادارۃ القرآن کراچی    ۲/ ۲۰)
تو میں اس امر میں شک کی کوئی وجہ نہیں پاتا کہ تمام و کمال مکان نمبر۵ بھی نصف ملک سید محمدافضل صاحب ہے اور اس پر ایک قرینہ واضحہ یہ بھی ہے کہ سید محمد احسن صاحب اپنے اظہار (عہ۳) میں فرماتے ہیں کہ یہ مکان نمبر۵ تمام وکمال میں نے اور سید محمد افضل نے بالمناصفہ دامودرداس کی دستاویز میں ہزار والی میں مستغر ق کیا ہے۔
عہ۳:  تحریر نمبر۱۹شامل مسل ۱۲
Flag Counter