Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
43 - 151
تنقیحات ذیل قائم
 (۱) آیا مکان نمبر ۱ میں بذریعہ ترکہ مادری یا تعمیر پدری یا ہبہ نامہ سید نثار الدین حسین بنام فریقین سید محمد افضل صاحب مدعی کا کون حق ہے؟

(۲) آیا مکان نمبر ۳ سید امیر علی صاحب مرحوم نے قادری بیگم مذکور کو ہبہ کیا اور اگر کیا تو اس کا کیااثر ہے؟

(۳) آیا مکان نمبر۳ونمبر۴ونمبر۵ میں سید افضال حسین ایک فریق مقدمہ کاکوئی حق ہے ؟

(۴) ان تینوں مکانوں میں سید محمد افضل صاحب کوحق مرتہنی حاصل ہے، اگر ہے تو کس قدر؟

(۵) آیا کھنڈسار جگت پور خالس سیدمحمد احسن صاحب کی ہے سیدمحمد افضل صاحب کی اس میں شرکت نہیں؟

(۶) مدات خرچ پیش کردہ مدعا علیہما کیا کیا رقم ذمہ سید محمد افضل صاحب ہونا چاہئے؟

(۷) اثاث البیت متروکہ سید امیر علی صاحب مرحوم فریقین کے قبضہ میں کیا کیا ہے اور اس کی تقسیم کیونکر چاہئے؟

(۸) مکانات کی تقسیم یکجائی کس طرح ہونا مناسب ہے؟

(۹) آیا (صما۵۰۰/) قرضہ دامودرد اس بابت رقعہ محررہ سید محمد افضل تنہا ذمہ سید محمد افضل صاحب ہے اور باقی قرضہ فریقین پر کس قدر ہے؟

(۱۰) بقایا مندرجہ گوشوارہ مذکورہ میں سید محمد افضل صاحب کا حصہ کس قدر ہے؟
تجویز
(۱) مکان نمبر۱کی نسبت سید محمد افضل صاحب مدعی کا دعوٰی قطع نظر اس سے کہ محض غیر معین تھا مدعی مذکور نے کوئی شہادت خواہ کوئی دستاویز اپنے مفید پیش نہ کی سید محمد احسن صاحب مدعا علیہ کو کوئی ہبہ نامہ اس مکان کے کسی جز کا از جانب ولایتی بیگم بنام سردار بیگم والدہ فریقین یا از جانب سید نثار الدین حسین بنام فریقین لکھا جانا تسلیم ہے مدعی مذکور نے صرف اپنے ماموں سید محمد شاہ صاحب خلف سید میر بادشاہ صاحب کے بیان پر(کہ سید محمد احسن صاحب مدعا علیہ کے ماموں اور خسر بھی ہیں)حصر رکھا۔ سید محمد شاہ صاحب مذکور بوجہ امراض معذور ہیں اور اس مکان نمبر ۱ میں اپنی دختر و داماد سید محمد احسن صاحب مدعا علیہ کے پاس رہتے ہیں مجوز نے مکان مذکور میں جاکر ان کا اظہار لیا، سید محمدشاہ(عہ:  تحریر نمبر۸شامل مسل ہے۱۲) صاحب مذکور نے بیان کیا کہ یہ مکان جس میں اس وقت موجودہوں میرے نانا میر سید محمد صاحب کا تھا ان کے صرف تین وارث ہوئے: میری والدہ ولایتی بیگم اور خالہ لالہ بیگم اور ماموں سید نثار الدین حسین، ان ماموں صاحب نے اپنا حصہ یعنی نصف مکان مذکور اپنی دونوں بہنوں میری والدہ وخالہ کو ہبہ بلا تقسیم کردیا ان ماموں صاحب کے بیٹوں سید غازی الدین حسین وسید احمد حسین نے اب تک کوئی تعرض نہ کیا میری تینوں بہنوں سردار بیگم والدہ سید محمد افضل وسید محمد احسن اور برکاتی بیگم و آبادی بیگم نے اپنی والدہ ولایتی بیگم سے پہلے وفات پائی، ولایتی بیگم مذکور کا میں تنہا وارث ہوں، بعد انتقال والدہ میں اور میر ی خالہ لالہ بیگم نصف نصف اس تمام مکان کے مالک ہوئے ہم دونوں مالکان مکان مذکور نے یہ مکان تمام وکمال ان سید محمد احسن کو ہبہ کردیا تعمیر کی نسبت کہا میں اس وقت یہاں نہ تھا میری والدہ زندہ تھیں یہ میرے علم میں نہیں کہ میری والدہ کے روپے سے بنا، یا سید امیر علی کے روپے سے تعمیر ہوا، ظاہر ہے کہ ان گواہ کے بیان میں کوئی لفظ مفید مدعی نہیں البتہ دستاویز مذکورہ کے تینوں فریق مقدمہ کے مصدقہ ومسلمہ ہیں اس میں سے دستاویز نمبر ۲میں مکان نمبر۲ کی حد غربی میں کہ یہی مکان نمبر ایک ہے سردار بیگم زوجہ سید امیر علی کا نام لکھا ہے اور دستاویز نمبر۶میں مکان نمبر۴ کی حد شرقی میں کہ یہی مکان نمبر۱ ہے مکان محمد احسن مرتہن ومحمد افضل بیگ پر ایک قرینہ ہے جس سے مستفاد ہوتا ہے کہ ۱۸۶۷ء تک یہ مکان نمبر۱ سردار بیگم والدہ فریقین کی طرف منسوب تھا اور ۱۸۹۴ء میں فریقین کی طرف مضاف ہوا مگر قطع نظر اس سے کہ مجرد نسبت واضافت خواہی نخواہی دلیل ملک نہیں اور وہ بھی ایسی کہ مدعی کے ثبوت استحقاق میں بکار آمد ہو خود سید افضل صاحب مدعی نے اپنی نیک نیتی سے صاف اقرار کیا کہ ولایتی بیگم کا سردار بیگم یا سید نثار الدین حسین صاحب کا فریقین کو اپنے اپنے حصص واقعہ مکان مذکور ہبہ کرنا بلا تقسیم تھاا ور اب تک کہ سردار بیگم و سید نثار الدین حسین کی وفات ہوچکی مکان بدستور نامقسم ہے غالباً بیان مدعی نسبت ہبہ نامجات مذکورہ صحیح ہے اور انہیں کی بناء پر ۶۷ء تک مکان ملک سردار بیگم اور ۱۸۹۴ء میں مکان ملک فریقین تصور کیا جاتا ہو لیکن قابل قسمت شے میں ہبہ شرعاً ناجائز ہے اور جبکہ تقسیم سے پہلے موہوب لہ یا وارث انتقال کر جائے جیسا کہ بیان ہو اوہ ہبہ محض باطل وکالعدم ہوجاتا ہے 

عالمگیری جلد ۴ص۱۳۱:
لاتصح فی مشاع یقسم۱؎۔
تقسیم سے قبل مشاع چیز کا ہبہ صحیح نہیں۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الہبۃ   الباب الثانی     نورانی کتب خانہ پشاور    ۴/ ۳۷۶)
درمختار صفحہ ۵۱۲:
المیم موت احد العاقدین بعد التسلیم فلو قبلہ بطل۱؎۔
ہبہ کے فریقین میں سے ایک کی موت قبضہ دینے کے بعد میم سے مراد ہے اگر قبضہ سے پہلے ہو تو ہبہ باطل ہوجائے گا۔(ت)
 (۱؎ درمختار    کتاب الہبۃ     باب الرجوع فی الہبہ     مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۱۶۱)
تو ان دونوں ہبہ کی نسبت کسی بحث وتفتش کی حاجت نہیں کہ خود باقرار مدعی ان کا باطل ہونا ثابت ہے اور اگرچہ بعینہٖ یہی وجہ اس مکان میں سید محمد احسن صاحب مدعا علیہ کے حق کو بھی باطل کرے گی کہ جب مکان بالاتفاق موروثی اور ہنوز نامقسم ہے تو سید نثار الدین حسین صاحب کا اپنا حصہ اپنی بہنوں  ولایتی بیگم و لالہ بیگم کو ہبہ کرنا باطل ہوا اور نصف میں ان کے بیٹوں سید غازی الدین حسین وسید احمد حسین کا حق ملک رہا ور اب جو سید محمد شاہ صاحب ولالہ بیگم نے اپنی مشاع ونامقسم حصے سید محمد احسن صاحب کو بذریعہ ہبہ نامہ نمبر ایک ہبہ کئے یہ ہبہ بھی ناجائز ہوا اور لالہ بیگم کی وفات سے ان کے حصہ کا ہبہ محض باطل ہوکر ان کے بھتیجوں سید غازی الدین حسین وسید احمد حسین کا حق قرار پایا سید محمد شاہ صاحب زندہ ہیں اگر اپنا حصہ کہ ترکہ ولایتی بیگم سے انہیں پہنچا جدا تقسیم کراکر سید محمد احسن صاحب کو قبضہ دے دیں ہبہ صحیح ہوجائیگا ورنہ باطل، مگر ان وجوہ کا نفع ان اشخاص کی طرف راجع ہے جو فریقین مقدمہ نہیں اور اس ہبہ کے بطلان سے مدعی کو کوئی فائدہ نہیں کہ سردار بیگم والدہ مدعی کا اپنی والدہ ولایتی بیگم سے پہلے انتقال کرنا بالاتفاق ویقین ثابت ہے لہذا سید محمد افضل صاحب مدعی مذکور کا دعوٰی اس مکان نمبر۱پر کسی وجہ سے قابل سماعت نہیں۔

(۲) تنقیح دوم کی نسبت اس قدر کہنا بس ہے کہ یہ ہبہ اگر ثابت بھی ہو تو محض بے معنی ہے سید محمد احسن صاحب مدعا علیہ نے اولاً اپنے بیان میں (عہ) صاف تسلیم کیا کہ سید محمدافضل صاحب مدعی مکان نمبر۳ میں بقدر اپنے حصہ کے شریک میں بعدہ اظہار میں مدعا علیہما نے اس تمام مکان کا بنام قادری  بیگم ہبہ ہونا ظاہر ہوکیا حسب طلب مدعا علیہما سید محمد افضل صاحب مدعی سے بھی اس ہبہ کی نسبت سوال ہوا انہوں نے اتنا اقرار کیا کہ سید امیر علی صاحب مرحوم نے قادری بیگم سے کہا تھا کہ اگر تم یہاں رہو تو یہ مکان تمہیں دیتا ہوں مگر وہ نہ رہیں ان سب سے قطع نظر کیجئے بالفرض سید امیر علی صاحب مرحوم نے تمام مکان کے تین ربع نامنقسم ہنوز رہن ہیں اور رہن ملک مرتہن نہیں ہوتا کہ اسے ہبہ کردینے کا اختیار ہو ایک ربع باقی اگر ملک سید امیر علی صاحب ہو بھی تو رہن مشاع ہے کہ بعد انتقال سید امیر علی اور کا ہبہ باطل ہوگیا۔
عہ:  تحریر نمبر۲شامل مسل۱۲
 (۳) تنقیح سوم ایک ظاہر بات تھی دستاویزات نمبر۵و نمبر۶ونمبر۷میں سید افضال حسین کا نام زمرہ  مشتریان ومرتہنان میں موجود ہے دستاویز سب فریقوں کے مصدقہ مسلمہ ہیں سید محمد افضال حسین صاحب یا سید محمد احسن صاحب کا باوجود تسلیم صحت دستاویزات یہ ادعا کہ سید افضال حسین صاحب کا نام فرضی ہے بے ثبوت کافی ہر گز مسموع نہ ہوگا نہ دونوں فریق مذکور نے اس کا کوئی ثبوت پیش کیا مگر سید افضال حسین صاحب نے نیک نیتی سے اپنے اظہاروں میں صاف اقرار کردیا (عہ) کہ مکان نمبر ۴ عبدالکریم خان والا میرے چچا صاحب نے رہن لیا میرا اس میں کچھ روپیہ نہ تھا تو صاف ظاہر ہوا کہ رہن نامہ میں سید افضال کا نام محض فرضی ہے اگر یہ کہئے کہ اصل دائن نے اپنا روپیہ راہن کو قرض دے کر سید افضال حسین کا نام اس غرض سے درج دستاویز کرایا کہ وہ دین ان کا قرار پائے اور ضرور عرف ورواج سے یہی ظاہر ہے بزرگ اپنے روپے سے کوئی عقد کرتے اور اپنے کسی خورد کا نام اسی غرض سے درج دستاویز کراتے ہیں کہ وہ ملک یا حق ان کے لئے قرار پائے مگر شرعاً یہ ارادہ رہن میں محض بے اثر ہے کہ یہ غیر مدیون کو دین کا ملک کرنا ہو گا اور وہ صحیح نہیں۔
عہ:  تحریر نمبر۱۴شامل مسل ۱۲
درمختار ص۵۱۵:
تملیک الدین ممن لیس علیہ باطل۱؎۔
غیر مدیون کو دین کا مالک بنانا باطل ہے۔(ت)
 (۱؎ درمختار     کتاب العلم     فصل فی التخارج     مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۱۴۵)

(کتاب الھبۃ     الفصل فی مسائل متفرقہ    مطبع مجتبائی دہلی    ۲/ ۱۶۵)
نیز سید افضال حسین صاحب نے اپنے اس اظہار میں کہ اپنی طرف سے اصالۃً اور اپنے چچا سید محمد احسن صاحب کی طرف سے بذریعہ مختار نامہ عام ہے صاف اقرار فرمایا کہ مکان نمبر۴ کی تمام بیع ورہن حقیقۃً سید امیر علی صاحب مرحوم نے اپنے روپے سے اپنے لئے بیع ورہن لئے اور اپنی طرف سے جس جس کو جس جس قدر کا مالک یا مستحق کرنا چاہا ان کانام بیعنامہ و رہن نامہ میں درج کرا دیا، اور واقعی عادات ناس سے معہود یہی ہے بائع سے گفتگوئے بیع و شراء خود کرتے ہیں ایجاب وقبول میں یہ لفظ نہیں ہوتے کہ بائع کہے کہ میں نے فلاں شے تیرے فلاں فلاں عزیز کے ہاتھ بیچی یہ کہے میں نے اپنے فلاں فلاں عزیزوں کی طرف سے قبول کی بلکہ گفتگو باہم ختم ہو جاتی ہے اس کے بعد دستاویز میں اپنے جس عزیز کا نام چاہتے ہیں لکھوا دیتے ہیں یہ بیع حقیقۃً خود انہیں اشخاص عاقدین کے لئے منعقد ہوکر دستاویز میں اندراج نام عزیزاں ان عزیزوں کے نام ہبہ ہوتا ہے۔

ردالمحتار میں ہے :
الاب اشترٰی لھا فی صغرھا او بعد ما کبرت وسلم الیہا وذٰلک فی صحتہ ولا سبیل للورثۃ علیہ ویکون للبنت خاصۃاھ۱؎منح۔
باپ نے اپنی صحت وتندرستی میں بیٹی کےلئے کوئی چیز خرید کر اس کے قبضہ میں دے دی وہ چیز خاص بیٹی کےلئے ہوگی خوہ بالغہ ہو یا نابالغہ ہو دیگر ورثاء کا اس چیز پر کوئی حق نہ ہوگا۔اھ منح(ت)
 (۱؎ ردالمحتار    کتاب العاریۃ    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴/ ۵۰۶)
عقود الدریہ جلد ۲ص۲۸۱:
امرأۃ اشترت لو لدھا الصغیر بما لھا علی ان لا ترجع بالثمن علی الولد جاز استحساناوتکون مشتریۃ لنفسہا ثم تصیر ھبۃ منھا للصغیر۲؎۔
کسی عورت نے اپنے نابالغ بیٹے کےلئے اپنے مال سے کوئی چیز خریدی اس عہد پر کہ بیٹے سے رقم نہ لوں گی تو استحساناً جائز ہے اور وہ خریداری عورت کی اپنے لئے ہوگی پھر عورت کی طرف سے بیٹے کو ہبہ قرار پائے گی۔(ت)
 (۲ ؎ العقود الدریہ     کتاب الوصایا     باب الوصی    ارگ بازار قندھار افغانستان    ۲/ ۳۳۷)
اور جب حسب اقرار سید افضال حسین صاحب بیع مکان نمبر۵میں ان کانام بذریعہ ہے اور ہبہ مشاع بعد انتقال واہب باطل ہوجاتا ہے توثابت ہوا کہ ہر سہ مکانات مذکور نمبر ۳ و ۴ و ۵ میں سید افضال حسین صاحب کا کوئی حق ملک ورہن اصلاًنہیں۔
Flag Counter