Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
42 - 151
انصح الحکومۃ فی فصل الخصومۃ(۱۳۲۱ھ)

(جھگڑا ختم کرنے کےلئے خالص ترین فیصلہ)
مسئلہ۶۶: فیصلہ نالش تجویز حکیم عبدالعزیز بیگ پنچ مقبول متخاصمین ازروئے اقرار نامہ مورخہ ۵/ذی القعدہ ۱۳۲۰ھ مطابق ۴/فروری۱۹۰۳ء

سید محمد افضل صاحب ولد سید محمد امیر علی صاحب مختار مرحوم ساکن بریلی متصل جامع مسجد بریلی مدعی سید محمد احسن صاحب ولد سید محمد امیر علی صاحب مختار مرحوم وسید افضال حسین صاحب ولد سید محمد افضل صاحب مذکور ساکنان محلہ مذکورہ مدعا علیہما دعوی تو فیر موضع جگت پور پر گنہ تحصیل وضلع بریلی محال زردو معافی واقع جگت پورمذکور محال سبز وسفید ومفروقہ واقعہ جگت پور محال سفید وکہنڈ سار موضع جگت پور مذکورمع منافع کہنڈ سار مذکور از اپریل ۱۸۹۸ء لغایت دسمبر ۱۹۰۲ء وبقایائے توفیر مذکور و کہنڈسار مذکور  ذمہ اسامیان بابت مدت مذکور لغایت مارچ ۱۹۰۳ء بصیغہ قرض دادنی دامود رداس وغیرہ وتقسیم پنج قطعہ مکانات محدودہ ذیل واقعہ محلہ مذکوروسرمایہ مکان محدود ذیل نمبر۱ بابت مدت مذکور واثاث البیت متروکہ پدری،
18_2.jpg
ہر سہ فریق مذکورین نے بروئے اقرار نامہ مورخہ ۵/ذی القعدہ ۱۳۲۰ھ مطابق ۴/فروری ۱۹۰۳ء کو واسطے تصفیہ نزاعات مسطورہ بالا کے برضائے خودہا پنج مجاز وماذون مقرر کیا مقدمہ بحاضری ہر سہ فریق مذکورین ہمارے سامنے پیش ہواسید محمد افضل صاحب مدعی مذکور نے سید محمد احسن صاحب مدعا علیہ مسطور پر دعوی کیا کہ موضع جگت پور ومعافی ومفروقہ مذکوران اور کہنڈ سار موضع جگت پور مع جملہ اسباب بیل وغیرہ مثل کرہا آہنی وغیرہ میرے اور ان سید محمداحسن مدعا علیہ کے شرکت بالمناصفہ میں ہے اوائل ۱۸۹۸ء تک میں اور مدعا علیہ مذکور بشرکت اکجائی کام کرتے رہے اپریل ۱۸۹۸ء سے میں پیلی بھیت چلاگیا جب سے مجھے توفیرات مذکورہ ومنافع کہنڈ سار مذکور نہ ملی بروئے حساب مجھے ان سید محمد احسن مدعا علیہ سے دلائی جائے اور جو بقایا ذمہ اسامیان وغیرہ ہے بابت توفیر جگت پور معافی و مقروضہ کہنڈ سار جگت پور مذکورات ہو ااس کے نصف میں میرے استقرار حق کاحکم کیا جائے اور اثاث البیت متروکہ والد جس کی فہرست پیش کرتا ہوں ان سید محمد احسن کے قبضہ میں ہے نصف اس سے مجھ کو دلایا جائے مکانات محدودہ بالا میں بذریعہ وراثت پدری ومادری وبیع ورہن میرا اور ان سید محمد احسن کا بالمناصفہ چاہئے دستاویزوں میں سید افضال حسین وسید امیر حسن مرحوم پسران مدعی واختری بیگم زوجہ محمداحسن مذکور کا نام فرضی ہے سوامکان نمبر ۱کے کہ اس میں اراضی کا کچھ حصہ خرید کردہ والدہے اور زیادہ حصہ میری نانی صاحبہ ولایتی بیگم کے والد میرسید محمد صاحب کاخرید کردہ ہے ان کے تین وارث ہوئے: سید نثار الدین حسین پسر اور ولایتی بیگم ولالہ بیگم دختران، اس میں سے نانی صاحبہ ولایتی بیگم نے اپنے حصہ کا ہبہ نامہ میری والدہ سردار بیگم کے نام لکھ دیا اور سید نثار الدین حسن صاحب نے اپنے حصہ کا ہبہ نامہ میرے اور سید محمد احسن کے نام لکھا لالہ بیگم دختران کا جس قدر حصہ اراضی میں تھا اس کا ہبہ نامہ سید محمد احسن کے نام لکھا گیا اور تعمیر اس کی کل والد صاحب مرحوم نے اپنے روپیہ سے کی ہے مکانات مذکورہ تقسیم یکجائی کردی جائیں کہ نزاع نہ رہے کمی بیشی بجائے قسمت روپیہ سے پوری کردی جائے مکان نمبر۵کرایہ پر رہا جس قدر زر کرایہ حاصل ہوا اس کا حساب ان سید محمداحسن سے لے کر میرا نصف ان سید محمد احسن سے مجھے دلایا جائے، سید محمد احسن صاحب مدعا علیہ مذکور نے بیان کیا کہ کہنڈ سار جگت پور تنہا میں نے کی ان سید محمد افضل کی اس میں کوئی شرکت نہیں مکان نمبر ۱ کا ہبہ نامہ میرے نام ہے اس کا تنہا مالک میں ہوں، مکان نمبر۲میں ان سید محمد افضل صاحب کی شرکت تسلیم ہے نیز یہ مکان نمبر۳میں بقدر اپنے حصہ کے شریک ہیں مکان نمبر۴ وہ میری خرید کئے اور بنائے ہوئے ہیں مگر نام افضال حسین وامیر حسن کا بھی درج ہے تقسیم مکانات یکجائی بروئے معاوضہ کمی بیشی جس طرح مجوز کی رائے میں مناسب ہو مجھے منظور ہے اثاث البیت متروکہ پدری جو میرے پاس ہے اس کا نصف ان سید محمد افضل صاحب کودے دیا جائے اور جو کچھ ان سید محمد افضل صاحب کے پاس ہے اس کا نصف مجھے دلایا جائے، سید افضال حسین مدعاعلیہ مذکور نے بیان کیا کہ مکان نمبر۴کے سوا کل مکانات متنازعہ میرے دادا سید اکبر علی صاحب مرحوم نے اپنے روپیہ سے خریدے ہیں اور رہن لئے ہیں اور جس جس کو جتنا دینا منظور تھا اس کانام بیعنامہ و رہن نامہ میں درج کرادیا، مکان نمبر۴میرے حصہ کے قدر میرا مرہونہ ہے کہ بعد انتقال سید امیر علی صاحب رہن لیا ، مکان نمبدر ۳ کی نسبت دونوں مدعا علیہما نے بیان کیا کہ یہ مکان سید امیر علی صاحب نے ہماری خالہ زاد بہن، پھوپھی قادری بیگم بنت سید نجم الدین احمد زوجہ سید وارث علی کو ہبہ کردیا تھا اس میں جگت پور کی کہنڈ سار ہوتی تھی اور اب بھی مکان خالی کرکے قبضہ نہ دلایامگر چالیس روپیہ مجھ سید محمد احسن نے قادری بیگم مذکورہ کو دئے سید محمد احسن صاحب مذکور نے توفیر ومنافع کہنڈ سار وکرایہ مکان وبقایان مذکور ان کا حساب مطلوب من ابتدائے یکم نومبر ۱۸۹۸ء لغایت ۳۰/نومبر۱۹۰۲ء جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اور قرضہ دامود رد اس ہم فریقین پر تمام وکمال بالمناصفہ تھا اور ہے اگرچہ پانچسو روپیہ کا رقعہ بنام دامودرداس تنہا میرے نام سے تحریر ہوا سید محمد احسن اب اس سے انکار کرکے مجھے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، انصافاً بعد تحقیقات اس کا نصف بھی  ان سید محمد احسن صاحب پر ڈالا جائے۔
18_3.jpg
نیز سید محمد احسن صاحب نے بیان کیا کہ مبلغ (صہ/) معرفت شیخ تصدق حسین صاحب اور( صہ عہ/) معرفت سید فرحت علی صاحب اور تخمیناً دس پندرہ متفرق اس پانچ سال میں میرے پاس سے ان سید محمد افضل صاحب کو پہنچے ہیں جواسی گوشوارہ خرچ میں کہ پیش کیا گیا ہے مندرج ہیں فقط ہر حساب سید محمد افضل صاحب کو دکھایا گیا انہوں نے ( صہ/) معرفت شیخ تصدق حسین صاحب اور (صہ عہ/) معرفت سید فرحت علی صاحب پاناقبول کیا اور باقی متفرق کو فرمایا مجھ کو یاد نہیں اور گوشوارہ مذکورہ کے رقوم کی نسبت سیدمحمد احسن صاحب سے حلف چاہا اور وجوہ خرچ میں عذر کیا کہ انصافاً جو اس میں میرے ذمہ ہونا چاہئے میرے یا فتی سے مجرا ہوجائے باقی سے میں بری کیا جاؤں ان سید محمد احسن صاحب حسب الطلب جملہ رقوم آمد وخرچ گوشوارہ  پر حلف کرلیا سید محمد احسن صاحب وسید افضال حسین صاحب مدعا علیہما مذکورین نے دفع دعوٰی سید محمد افضل صاحب مدعی مذکور میں نسبت مکانات سات دستاویز یں مفصلہ ذیل سنداً پیش کیں:
18_4.jpg
یہ سب دستاویزیں سید محمدافضل مدعی کو دکھائی گئیں سید محمد افضل سید محمد مدعی نے ان کی تصدیق فرمائی مگر دستاویز نمبر۵ونمبر۶ونمبر۷متعلقہ مکان نمبر۳ونمبر۴ونمبر۵میں سید امیر حسین وسید افضال حسین واحمدی بیگم کے نام فرضی بتائے اور کہا کہ ایک ربع مکان نمبر۳واراضی مکان نمبر۵ سید امیر علی صاحب والد فریقین نے خریدکیں اور مکان نمبر۵ کی تعمیر بھی انہیں کی دستاویزوں میں اور ناموں کے اندراج سے ان کا مقصود ایک نہیں دونوں بھائیوں کو دینا تھا جسے مختلف صورتوں میں ظاہر کیا کبھی ہم دونوں بھائیوں کے نام درج فرمائے جیسے دستاویز نمبر۳ونمبر ۴ میں کبھی میری جگہ میرے بیٹوں کے جیسے دستاویز نمبر۷میں ولہذا نصف میں سید محمد احسن کا نام ہوا اور نصف میں میرے دونوں بیٹوں کا کہ حقیقتاً ہم دونوں بھائیوں کو بالمناصفہ کرنا مقصود تھا کبھی میری جگہ میرے بیٹوں سے اور سید محمد احسن کی جگہ ان کی زوجہ احمدی بیگم کا جیسا دستاویز نمبر۵ میں دستاویز نمبر۶بعدانتقال والد صاحب مرحوم تحریر ہوئی اور اسی طریقہ جاریہ پر میری جگہ میرے بیٹوں کے نام لکھے گئے زر رہن خالص میرا اور سید محمد احسن کا تھا امیر حسن اور افضال حسین کا اس میں کچھ نہ تھا اس کی تعمیر میرے اور محمد احسن کے مشترک روپیہ سے ہوئی۔ مکان نمبر ۱ کی دستاویز ہبہ نامہ کل مکان مذکور سے متعلق نہیں لہذا واہبان نے خود حقوق کا لفظ لکھا ہے اس کے متعلق دو ہبہ نامہ اور ہیں ایک از جانب ولایتی بیگم بنام سردار بیگم والدہ فریقین دوسرا از جانب سید نثار الدین حسین بنام فریقین یہ دونوں کاغذ سید محمد احسن کے پاس ہیں اس مکان کی عمارت بھی والد صاحب مرحوم نے اپنے روپیہ سے بنوائی ہے۔
Flag Counter