Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
41 - 151
مسئلہ۶۴:ازرامپورمرسلہ نظام علی خان ۱۹ذی القعدہ ۱۳۱۹ھ

فردوس بیگم مدعیہ کا دعوی ہے کہ مکان محدودہ مندرجہ عرضی دعوی سعیدی بیگم نے بدست مدعیہ عوضی ۱ماصہ/کے بتاریخ یکم فروری ۱۹۰۰ء بیع قطعی کیا مدعیہ نے بہ قبول بیع صہ / بیعانے کے مدعا علیہا مذکور کو دئے اور باقی روپے کا دینا یکم مارچ ۱۹۰۰ء کو وقت تصدیق وتکمیل بیعنامہ ٹھہرابعدہ مہ عہ۲/ مدعی علیہا نے بعد کو مدعیہ سے لے کر مطالبہ سرکاری میں۲۰/فروری ۱۹۰۰ء کوداخل عدالت کئے، مدعی علیہا نے حسب وعدہ تکمیل بیعنامہ نہیں کرایا اوربایزادی قیمت مکان مذکور بدست عباسی عباسی بیگم وغلام محمد خاں فروخت کرڈالا بدہانیداما صہ عہ۱۴/بقیہ زرثمن تکمیل وتصدیق بیعنامہ مدعا علیہا سے کرادی جائے اور دخل مدعیہ کا مکان متنازعہ پر کرادیا جائے سعیدی بیگم مدعا علیہاکو بیع کرنے مکان اور لینے صہ /بیعنامہ اور مہ عہ ۲/ مندرجہ دعوی سے قطعی انکار ہے منجانب مدعیہ جو گواہ ثبوت دعوی میں گزرے ہیں ان میں سے نظام علی خاں گواہ نے بیان کیا کہ عرصہ تخمیناً ڈیڑھ سال کا ہوا بوقت چار گھڑی دن رہے سعیدی بیگم زوجہ عبدالرشید خاں مدعا علیہا نے مکان متنازعہ کہ متصل مکان مظہر کے ہے بدست فردوس بیگم مدعیہ ائما صہ/ کا بیع کیا مدعاعلیہا نے کہامیں نے اماصہ/ کوفردوس بیگم کے ہاتھ مکان بیچا اور مدعیہ نے کہا کہ میں نے قبول کیا اسی وقت صہ /بیعانہ کے بذریعہ بھورے میاں مدعیہ نے مدعاعلیہا کودئیے اور باقی روپے کے نسبت وقت رجسٹری دستاویز بمدت یک ماہ دینا قرار پایا تھا یہ واقعہ پہلی تاریخ انگریزی مہینے کے ہوا تھا اس کے کوئی ۲۵دن کے بعد مدعا علیہا مذکور نے اپنے ماموں مسمی ابراہیم خاں کو بمکان مظہر بھیجا مدعیہ اس وقت میرے مکان پر مہمان تھی ابراہیم خان نے مدعیہ سے میری معرفت کہلابھیجا کہ سعیدی بیگم نے تم کو بلایا ہے چلو اور (٭٭۲/) بھی لے چلو کہ وہ عدالت میں بابت کورس داخل کرینگی چار پانچ دن میں بیعنامہ تصدیق ہوگا تو یہ (٭٭۲/صہ/ ) بیعانہ زر ثمن میں محسوب ہونگے چنانچہ فردوس بیگم گئی اور (٭٭۲/) لے گئی تھی مجھ کو اپنے بھانجے احمد ینی عرف پیارے کے ہمراہ لے  گئی تھیں چنانچہ بمواجہہ پیارے مدعیہ نے وہ (٭٭۲/) حسب الطلب سعیدی بیگم کودے دئے اورمدعا علیہا نے داخل عدالت کردئے نشان دہی مکان متنازعہ کی کردوں گا، مولوی ارشد علی گواہ عرف بھورے میاں کا بیان ہے کہ مجھے تخمیناً یاد ہے کہ عرصہ تخمیناًڈیڑھ سال کا ہوا ہے کہ صبح کے وقت نظام علی خان میرے پاس آئے تھے کہ فردوسی بیگم کی طرف سے یا ہاجرہ فردوسی بیگم دونوں کی طرف سے اس قدر بھول گیا ہوں بیعنامہ مکان کا دینا چاہتا ہوں مظہر کو اول سے علم تھا کہ مکان کی یعنی مکان متنازعہ کی بیع ہوتی ہے چنانچہ بمکان سعیدی بیگم مظہر نظام علی خان علی احمد خاں گئے عورتیں اندر مکان کوٹھے میں ہوگئیں ہم جاکر چارپائیوں پر بیٹھ گئے مظہر نے آواز دے کر کہا کہ نظام علی خاں فردوسی بیگم کی طرف سے بیعنامہ دیا چاہتے ہیں چونکہ سعیدی بیگم اندر کوٹھے کے تھیں اور سعیدی بیگم کی بہن اور ماں بھی تھیں اس وجہ سے میں نے اپنے ذہن میں سعیدی بیگم سے مخاطب ہوکر کہا کہ مکان بیچتی ہو اندر سے آواز آئی بیچتی ہوں،یہ نہیں یاد کہ کس نے جواب دیا، میں نے اندر ہاتھ بڑھا کہ صہ دے دئے، نہیں معلوم کس نے اپنے ہاتھ میں بیعانہ لیا اور عورات اندر تھیں مگر مجھے معلوم نہیں کون تھیں، علی احمد خاں جس کی موجودگی وقت ایجاب وقبول نظام علی خاں گواہ نے بیان کی ہے وہ اپنے مکان میں  نسبت ایجاب وقبول یا بیع مکان متنازعہ کچھ بیان نہیں کرتا، احمدنبی خاں گواہ مدعیہ لکھتا ہے کہ عرصہ ڈیڑھ سال کا ہوا کہ سعیدی بیگم زوجہ عبدالرشید خاں نے مکان متنازعہ بدست فردوس بیگم مدعیہ بقیمت( ائما٭) بیچا تھا اور مدعا علیہا مذکور نے کہا تھا کہ میں نے اپنا مکان (ائما٭/)کو فردوس بیگم کے ہاتھ بیچا اور مدعیہ نے کہا کہ میں نے قبول کیا اور پانچ روپے بیعانہ کے بھورے میاں کے ہاتھ سے سعیدی بیگم کو مدعیہ نے دئے تھے اور جس وقت علی احمد خاں وبھورے میاں آئے تھے تو سعیدی بیگم دالان میں بیٹھی رہی تھیں اور مدعیہ کوٹھری میں ہوگئی تھیں بھورے میاں کے سامنے گفتگو بیع وشراء کی ہو کر (صہ/) بیعانہ کے دئے گئے اور دو مرتبہ گفتگو بیع وشراء ہوئی تھی مدعیہ نے کہا تھا کہ بھورے میاں کے ہاتھ میں بیعانہ دلوادوں گی اور گفتگو نہیں ہوئی تھی۔ سوال علمائے دین و مفتیان شرع متین سے یہ ہے کہ بیانات گواہان مندرجہ بالا سے بموجودگی اپنے وقت بیع وشراء کے درمیں متعاقدین ظاہرکرتے ہیں آیا بیع وشرامکان متنازعہ کی باہم متعاقدین شرعاً واقع ہوگئی کہ قابل نفاذ ہے یانہیں ہوئی، موافق مسائل شرعی کے حسبۃًﷲ جواب عنایت فرمائیں۔ بینواتوجروا۔
الجواب

صورت مستفسرہ میں نظام علی خاں واحمد نبی خاں عرف پیارے خاں گواہان مدعیہ کا بیان ذکر ایجاب وقبول متعاقدین پربھی شامل ہے اور سعیدی بیگم کے اقرا ر بالبیع پر بھی ان دونوں سے جو بات ہوئی شہادت میں لئے جانے کے لئے کافی ہے بیعانہ وغیرہ امر فضول ہے جسے بیع سے کچھ تعلق نہیں،بھورے میاں گواہ مدعا علیہا کا بیان محض مختل مہمل ہے، دونوں گواہان مدعیہ اگر جامع شرائط شہادت ہیں ان کا بیان حاکم مجوز کے سامنے حسب شرائط ہولیا ہے تو بیع بنام فردوس بیگم ضرور ثابت ہے، باقی روداد مقدمہ مذکورہ سوال بھی مدعیہ کی مؤید ہے، میری رائے میں بصورت مذکورہ فیصلہ بحق مدعیہ ہونا لازم ہے۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۶۵: ازرام پور بازار نصراﷲ خاں مرسلہ فداعلی خان صاحب     ۱۳/ذی القعدہ ۱۳۲۱ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے اپنے مکان کے کوچہ غیر نافذہ میں دروازہ جدید دوسرا عمرو کے حق مرور کی طرف منجانب اسفل جس طرف زید کے واسطے شرعاً حق مرور نہ تھا برآمد کیا ہے اور عمرو اس فتح باب کامانع ہے پس وہ احداث شرعاً جائز ہے یانہیں؟اور عمرو کو منع کرنا پہنچتا ہے یانہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب

صورت مستفسرہ میں قول معتمدہ و ظاہر الروایۃ مفتی بہا واجب العمل یہی ہے کہ زید کو اس دروازہ جدید کا احداث جائز نہیں عمرو کو حق منع حاصل ہے،
فی ردالمحتار لواراد فتح باب اسفل من بابہ والسکۃ غیر نافذۃ

یمنع منہ وقیل لا، وفی کل من القولین اختلاف التصحیح والفتوی قال فی الخیریۃ والمتون علی المنع فلیکن المعول علیہ۱؎اھ ورأیتنی کتبت علی ھامشہ مانصہ فقدنقل فی جامع الفصولین ان لہ ذلک مطلقا  وعلیہ الفتوی ونقل فی الخیریۃ عن التتارخانیۃ عن العتابیۃ انہ لیس لہ ذٰلک وعلیہ الفتوی وھو الذی صححہ فی الخانیۃ قال فی الخیریۃ ومثلہ فی کثیر من کتب المذہب قال وھو ظاہر الروایۃ کما صرح بہ فی جامع الفصولین فلیکن المعول علیہ اھ قلت کیف لاوقد نصواان الفتوی متی اختلف رجح ظاہر الروایۃ کما فی البحرالرائق وغیرہا وصرحواان قاضی خان فقیہ النفس لایعدل عن تصحیحہ کما فی غمز العیون وغیرہ واطبقواان التقدیم للمتون لانہا الموضوعۃ لنقل المذھب کما فی الدر وغیرہ فقد ترجح بوجوہ،واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔
ردالمحتار میں ہے کہ اگر کوئی شخص بندگلی میں اپنے دروازہ سے نچلی جانب دروازہ یا کھڑکی کھولناچاہے تو اس کو منع کیا جائے اور بعض نے کہا منع نہ کیا جائے اور دونوں اقوال میں فتوٰی اور تصحیح کا اختلاف ہے، خیریہ میں کہا کہ متون منع پروارد ہیں اور اس پر ہی اعتماد چاہئے اھ مجھے اس پر اپنا حاشیہ یاد ہے کہ جس کی عبارت یہ ہے کہ جامع الفصولین میں منقول ہے کہ اس کو مطلقاً یہ اختیار ہے اور اسی پر فتوٰی ہے، اور خیریہ میں تاتارخانیہ سے اور وہاں عتابیہ سے منقول ہے کہ اس کو اختیارنہیں ہے اور اس پر فتوٰی ہے اور اسی خانیہ میں ترجیح ہے خیریہ میں فرمایا کہ اکثر کتب میں اسی طرح ہے اور کہا یہ ظاہرالروایۃ ہے جیسا کہ جامع الفصولین میں ہے تو اس پر اعتماد چاہئے، میں کہتا ہوں یہ کیونکر نہ ہو کہ فقہاء نے تصریح کی ہے کہ جب فتوٰی میں اختلاف ہوتو ظاہرالروایہ کو ترجیح ہوتی ہے جیساکہ بحرالرائق وغیرہ میں ہے، اور یہ بھی انہوں نے تصریح فرمائی ہے کہ چونکہ قاضی خان فقیہ النفس ہیں لہذا اس کی تصحیح سے عدول نہ کیا جائےگا جیساکہ غمز العیون وغیرہ میں ہے، اور سب کا اتفاق ہے کہ متون کو اولیت ہے کیونکہ وہ مذہب کو بیان کرنے کے لئے وضع کئے گئے ہیں جیسا کہ در وغیرہ میں ہے تو یہ کئی وجوہ سے ترجیح یافتہ ہے، واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم(ت)
 (۱؎ ردالمحتار     کتاب القضاء     مسائل شتی    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴/ ۳۶۰)

(۲؎ جدالممتار علی ردالمحتار)
Flag Counter