Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
40 - 151
مسئلہ۶۳:ازرامپور راج دوارہ     مرسلہ عبدالرحمٰن خاں    ۱۸/ذی القعدہ ۱۳۱۹ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس صورت میں کہ زید وعمرو نے دعوی حصہ موروثی مکانات کا باستثنائے بعض عملہ مکانات کے دائر کیا اور گواہان نے بلا استثنائے عملہ کے مکانات بحیثیت موجودہ کو مملوکہ مورث قرار دیا پس یہ شہادت شہادت علی الزیادۃ ہے یانہیں۔ دوم یہ کہ جب مدعی نے استثناء کیا اورلکھ دیا کہ فلاں عملہ فلاں کا ہے پس اس کا دعوٰی مدعی کرسکتا ہے یانہیں۔ سوم یہ کہ شہادت شاہد کی جب بعض مدعا بہا میں مردود عندالقاضی قرار پائے تو باقی میں قابل قبول ہے یانہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب

اظہار سائل وملاحظہ فیصلہ متعلقہ مقدمہ سے واضح ہوا کہ مدعیان نے حصہ مکان مدعابہا بذریعہ وراثت سے بعض عملہ اس لئے استثناء کیا کہ وہ خود بناکردہ مدعیان ہے اور بعض اسلئے کہ بعض مدعا علیہم نے بعد موت مورث بنوایا ہے اور اس کے ایک قطعہ سے ۱۲گز زمین کو بھی ا ستثناء کیا اس لئے کہ وہ خاص احد المدعیین ہے باقی بعد الاستثناء ملک مورثان قرار دے کر اس میں سے اپنے سہام کا دعوٰی کیا شہود نے جملۃ  بلا استثناء مجموع مکان ملک مورثان ہونے کی شہادت دی یہ شہادت ضرور شہادت علی الزیادۃ ہے اور اصلاً قابل قبول نہیں، مدعیان بعض عملہ میں اپنا حق نہیں بتاتے کہ وہ معمول مدعا علیہم ہے اور شہود بلا استثناء جمیع اجزائے مکان میں ان کا حق ثابت کرتے ہیں شہادۃ علی الزیادۃ ہمیشہ مردود ہوتی ہے مگر جبکہ مدعی اپنے دعوٰی اور شہود کے بیان میں توفیق وتطبیق کردے مثلاً مدعی نے مکان سے ایک کوٹھری کا استثناء کیا تھا شہود نے بلا استثناء شہادت دی مدعی نے تطبیق کی کہ وہ کوٹھری بھی پہلے میری ہی تھی شاہدوں کو اسی وقت کا حال معلوم تھا بعد کو میں نے وہ کوٹھری بیچ ڈالی لہذا دعوٰی سے استثناء کردیا، یہاں بھی اگرچہ توفیق ممکن تھی کہ بعد موت مورث وہ مکان گرگیا اور بعض مدعا علیہم نے اپنے روپے سے تعمیر کیا مگر استحساناً مکان توفیق کافی نہیں بالفعل توفیق کردینا ضرور ہے اور وہ مدعیوں سے واقع نہ ہوا لہذا شہادت ناقابل قبول رہی بلکہ یہاں صرف زبانی دعوی توفیق بھی کافی نہ ہوتا اس پر گواہ دینے ضرور تھے کہ یہ توفیق ایسے امر سے تھی جو صرف ان کی زبان سے ادا ہوسکتا لہذا جب شہادت شرعیہ سے توفیق کا ثبوت نہ دیتے مقبول نہ ہوتی اور وہ اصلاً نہ ہوا تو شہادت مذکورہ ضرور مردود ہے، 

درمختار میں ہے:
الشہادۃ باکثر من المدعی باطلۃ بخلاف الاقل للاتفاق فیہ۱؎۔
دعوٰی سے زائد شہادت باطل ہے جبکہ بالاتفاق دعوٰی سے کم ہوجائز ہے۔(ت)
(۱؎ درمختار    باب الاختلاف فی الشہادۃ    مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۹۸)
فتح القدیر وبحرالرائق میں ہے:
المراد بالموافقۃ المطالبۃ اوکون المشہود بہ اقل من المدعی بہ بخلاف مااذاکان اکثر۲؎۔
موافق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ شہادت مطابق ہو یا مدعٰی سے کم ہو بخلاف جبکہ زائد ہو(ت)
 (۲؎ بحرالرائق     بحوالہ فتح القدیر باب الاختلاف فی الشہادۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۷/ ۱۰۳)
انہیں میں ہے:
من المخالفۃ المانعۃ مااذا شھدت باکثر، ومن فروعھا دارفی یدرجلین اقتسماھا وغاب احدھما فادعی رجل علی الحاضران لہ نصف ھذہ الدار مشاعا فشھدوا ان لہ النصف الذی فی یدالحاضر فھی باطلۃ لانھا باکثر من المدعی بہ ولوادعی دارا و استثنی طریق الدخول وحقوقھا ومرافقہا فشہدواانھا لہ ولم یستثنواشیئا لاتقبل، وکذالو استثنی بیتا ولم یستثنوہ الااذا وافق فقال کنت بعت ذٰلک البیت منھا فتقبل۱؎۔
قبولیت کے لئے مانع وہ مخالفت ہے جو کہ شہادت دعوٰی سے زائد ہو، اور اس کی تفریعات میں ایک یہ ہے کہ ایک مکان دو حضرات کے قبضہ میں ہے دونوں نے تقسیم کیا اور ایک غائب تھا تو اس نے موجود حاضر فریق پردعوٰی کردیا میرا اس مکان میں غیر منقسم حصہ ہے تو گواہوں نے شہادت دیتے ہوئے کہ اس کا نصف وہ ہے جو حاضر موجود کے قبضہ میں ہے تو یہ شہادت باطل ہے کیونکہ مدعی سے زائد ہے (یوں ہی) دعوٰی مکان ہواور اس دعوٰی میں داخلہ کے راستہ او دیگر حقوق وسہولیات کا استثناء کیا تو گواہوں نے مکان کی شہادت اس کے حق میں دیتے ہوئے راستہ حقوق اور سہولیات کا استثناء نہ کیا، شہادت مقبول نہ ہوگی اور یونہی مدعی نے حویلی میں سے ایک کمرہ کا استثناء کیا اور گواہوں نے نہ کیا مگر مدعی ان کی موافقت میں کہہ دے کہ وہ کمرہ میں نے فروخت کردیا تھا تو قبول ہوگی۔(ت)
(۱؎ بحرالرائق بحوالہ فتح القدیر     باب الاختلاف فی الشہادۃ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۷/ ۱۰۳)
نیز بحر میں ہے:
والحاصل انہم اذاشھد واباقل مما ادعی تقبل بلا توفیق وان کان باکثر لم تقبل الااذا وفق، فلوادعی الفافشھدابالف وخمسمائۃ فقال المدعی کان لی علیہ الف وخمسمائۃ الاانی ابرأتہ من خمس مائۃ او قال استوفیت منہ خمس مائۃ ولم یعلم بہ الشھود تقبل وکذافی الالف والالفین ولایحتاج الی اثبات التوفیق بالبینۃ لان الشیئ انما یحتاج الی اثباتہ بالبینۃ اذاکان سببا لایتم بدونہ ولا ینفرد باثباتہ کما اذا ادعی الملک بالشراء فشھد الشھود بالھبۃ فان ثمۃ یحتاج الی اثباتہ بالبینۃ، اماالابراء فیتم بہ وحدہ ولو اقربا لاستیفاء یصح اقرارہ ولا یحتاج الی اثباتہ لکن لابدمن دعوی التوفیق ھنا استحسانا والقیاس ان التوفیق اذاکان ممکنا یحمل علیہ وان لم یدع التوفیق تصحیحا للشھادۃ وصیانۃ لکلامہ وجہ الاستحسان ان المخالفۃ بین الدعوی والشہادۃ ثابتۃ صورۃ فاذاکان التوفیق مرادا تزول المخالفۃ وان لم یکن مرادا لاتزول بالشک فاذاادعی التوفیق ثبت التوفیق وزالت المخالفۃ وذکر الشیخ الامام المعروف بخواہر زادہ ان محمدا شرط فی بعض المواضع دعوی التوفیق ولم یشترط فی البعض وذاک محمول علی مااذا ادعی التوفیق اوذاک جواب القیاس فلابدمن دعوی التوفیق۱؎۔
حاصل یہ کہ جب گواہوں نے دعوٰی سے کم چیز کی شہادت دی تو قبول ہوگی اور موافقت بنانے کی ضرورت نہ ہوگی او راگر زیادہ کی شہادت ہو تو پھر موافقت بنائے بغیر قبول نہ ہوگی مثلاً مدعی نے ہزار کا دعوٰی کیا گواہوں نے ڈیڑھ ہزار کی شہادت دی مدعی کہہ دے میرا قرضہ اس پر ڈیڑھ ہزارتھا لیکن میں نے اس کو پانچسو معاف کردئے یا میں نے پانچ صد پہلے وصول کرلئے یہ گواہوں کو معلوم نہیں ہوا، تو اب شہادت مقبول ہوگی، ہزار اور دو ہزار میں بھی ایسے ہوگا، موافق بنانے میں گواہی کی ضرورت نہیں کیونکہ کسی چیز کو گواہی سے ثابت کرنے کی ضرورت تب ہوتی ہے کہ وہ ایسا سبب ہو جس کے بغیر چیز تام نہ ہو اور وہ اکیلے ثابت نہ ہوسکے جیسا کہ مدعی نے خریداری کے ذریعے ملک کا دعوٰی کیا اور گواہوں نے ہبہ کے ذریعے ملک ثابت کی تو ایسی صورت میں اس کے اثبات کے لیے گواہی کی ضرورت ہے لیکن بری کرنا ایسی چیز ہے جو اکیلے بغیر سبب تام ہو جاتی ہے اور اگر وصولی کا اقرار کرتا ہے تو اقرار صحیح ہے اس کے اثبات کی ضرورت نہیں ہے تاہم اس کے ساتھ موافقت کا دعوٰی بطور استحسان ضرور ی ہے جبکہ قیاس  میں یہی ہے کہ اگر توفیق ممکن ہو تو اس پر محمول کرینگے اگرچہ توفیق کا دعوٰی نہ بھی ہو تاکہ شہادت صحیح ہوسکے اور کلام غلط نہ ہوسکے استحسان کی وجہ یہ ہے کہ دعوٰی اور شہادت میں صورتاً مخالفت ثابت ہے تو اگر توفیق مراد بنے  تو  مخالفت زائل  ہوگی، اور اگر وہ  مراد نہ ہو تو  مخالفت زائل نہ  ہوگی، مراد ہونے نہ ہونے میں شک کی وجہ سے مخالفت ختم نہ ہوگی تو جب موافقت کا دعوٰی ہوگا تو مخالفت ختم ہوجائے گی اور توفیق ثابت ہوجائے گی، اور شیخ امام المعروف خواہر زادہ نے ذکر فرمایا ہے کہ امام محمد رحمہ اﷲ تعالٰی نے بعض جگہ پر موافقت کے دعوٰی کو بیان فرمایاہے اور بعض جگہ اس کو بیان نہیں کیا اور اس کو دعوٰی موافقت پرمحمول کیا جائے گا یا اس کو قیاس کا جواب قرار دیا جائیگا لہذا دعوٰی موافقت ضروری ہے ۔
 (۱؎بحرالرائق    باب الاختلاف الشہادۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ۷/ ۱۰۴)
مدعی جب ایک چیز کادوسرے کے لئے اقرار کرچکا اب اپنے لئے دعوٰی نہیں کرسکتا
لاجل التناقض
 (تناقض کی وجہ سے۔ت) شہادت جب بعض میں مردود ہوکل میں مردود ہے مگر آٹھ مسائل مذکورہ شروح اشباہ میں
اقول وباﷲ التوفیق
 (میں کہتا ہوں توفیق اﷲ تعالٰی سے ہے۔ت)ان کا محصل یہ کہ شہادت کو اگر دو چیزوں سے تعلق ہے ایک میں وہ نصاب کامل ہے دوسرے میں نہیں یا ایک میں تہمت سے دوری ہے دوسرے میں نہیں یا ایک پر شاہدوں کو ولایت شہادت ہے دوسرے پر نہیں تو جہاں نصاب کامل ولایت حاصل تہمت زائل ہے اتنے میں مقبول ہوگی دوسرے میں مردود۔ 

درمختار میں ہے:
الشہادۃ اذابطلت فی البعض بطلت فی الکل الافی عبد بین مسلم ونصرانی فشھدنصرانیان علیہما بالعتق قبلت فی حق النصرانی فقط اشباہ، قلت وزاد محشیہا خمسۃ اخری معزیۃ للبزازیۃ۱؎اھ وراجع للسبع البواقی ردالمحتار وما علقنا علیہ، واﷲ تعالٰی اعلم۔
جب بعض چیز میں شہادت باطل ہو تو کل چیز میں باطل ہوجائے گی مگر ایک صورت میں کہ غلام مسلمان اور نصرانی کا مشترکہ ہو تو دو نصرانیوں نے گواہی دی کہ انہوں نے غلام آزاد کردیا ہے تو ان کی شہادت فقط نصرانی کے متعلق قبول ہوگی، اور اس کے محشی نے پانچ صورتوں کا اس پر اضافہ کیا ہے جن کو انہوں نے بزازیہ کی طرف منسوب کیا ہے اھ، اور باقی صورتوں کےلئے ردالمحتاراور اس پر ہمارے حاشیہ کی طرف رجوع کرو۔واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
 (۱؎ درمختار    باب القبول وعدمہ    مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۹۸)
Flag Counter