فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
4 - 151
مسئلہ۴:ازریاست ٹونک محلہ مئوخیل وزیر گنج مرسلہ حسن رضاخاں۲۸/ربیع الاول شریف ۱۳۱۰ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس صورت میں کہ مسماۃ ہندہ مدعیہ کے شوہر کا انتقال ہوگیا اس نے خسر ضامن مہر و نیز مدعاعلیہ ثانی ضامن چڑھا وا و جہیز پر تین دعوے عدالت شریعت میں پیش کئے۔ ثبوت ہر سہ دعوی میں ہشت مع قاضی شہادتین شرعیہ بمواجہہ مدعاعلیہم پیش ہوئیں کہ عدالت شرعی میں پذیراوتسلیم ہوچکیں وحصر بھی فریقین سے کرچکی تھی ونیز مدعاعلیہم کے بیانات سے بھی اقرار ثابت ہے، ادخال ثبوت سے بعد پانچ ماہ کے ایک مدعا علیہ نے درخواست خلاف شرع پیش کی کہ اب گواہان مدعیہ پر جرح ہے تزکیہ کرادیاجائے، وکیل مدعیہ نے بھی عرض بدیں خلاصہ پیش کی کہ اب جرح کرنا مدعاعلیہ کا اور درخواست تزکیہ کی شرعاً ناجائز ہے، پس تزکیہ ایسے وقت میں ایسے معاملہ داد وستد میں جس کامذکورہ بالا ہوچکاہے بعد پانچ ماہ کے درست ہے یانہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب: اگر بیان مدعاعلیہم سے دعوٰی مدعیہ کا اقرار ثابت ہولیا جیساکہ سوال سے ظاہر ہے جب تو خود واضح کہ یہ درخواست جرح گواہان اصلاً قابل سماعت نہیں خود ان کا اقرار ان پرڈگری ہونے کو کافی
فانہ حجۃ شرعیۃ یکفی للقضاء علی صاحبہ فکما ان المدعی لایکلف باقامۃ بینۃ بعد اقرار المدعا علیہ وکذٰلک لایکلف باثبات عدالتھم اذکل ذلک صارمستغنی عنہ بعدہ۔
اس لئے کہ اقرار حجت شرعیہ ہے جو اقرار کرنیوالے پر قضاء کے لئے کافی ہے، تو جس طرح مدعاعلیہ کے اقرار کے بعد مدعی گواہ پیش کرنے کا مکلف نہیں بنایا جاتا اسی طرح وہ گواہوں کی عدالت ثابت کرنے کا مکلف بھی نہیں بنایا جائے گا کیونکہ اقرار کے بعد ان تمام چیزوں کی حاجت نہیں رہتی۔(ت)
علماء تصریح فرماتے ہیں کہ اگر بعد اقامت بینہ مدعا علیہ نے اقرار کردیا تو اس پر ڈگری بوجہ اقرار ہوگی نہ کہ بوجہ بینہ۔
فی ردالمحتار عن البحر الرائق لواقر بعد البینۃ یقضی بہ لابھا۱؎۔
البحرالرائق کےحوالے سے ردالمحتار میں مذکور ہے کہ اگرمدعاعلیہ نے مدعی کی طرف سے گواہ پیش کرنے کے بعد اقرار کرلیا تو فیصلہ اقرار کی بنیاد پر ہوگا نہ کہ گواہوں کی بنیاد پر۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الدعوی داراحیاء التراث العربی بیروت ۴/ ۴۲۳)
تواب گواہوں کی عدالت وعدم عدالت سے کیا بحث رہی بلکہ خود بوجہ اقرار مدعا علیہم پر ڈگری ثابت، اور اگر بروجہ کافی ان کے بیان سے ثابت نہ ہو تو دیکھا جائے کہ قاضی نے گواہوں کا تزکیہ کرلیا یعنی اگرخود ان کی عدالت سے آگاہ تھا تو مزکی معتمد سے ان کے عدل جائز الشہادۃ ہونے کی تنقیح کر لی تھی یا نہیں ، اگر کرچکا تھا تو اس حالت میں بھی یہ جرح مجرد کی درخواست ناقابل شنوائی ہے کہ بعد تزکیہ جرح مجرد پر گواہی گزری تو وہ بھی نامقبول ہے نہ کہ مدعاعلیہ کا نرابیان۔ درمختارمیں ہے :
لاتقبل الشہادۃ علی جرح مجرد بعد التعدیل۲؎(ملخصاً)
تزکیہ کے بعد جرح مجرد پر شہادت قبول نہیں کی جائے گی(ملخصاً)۔(ت)
(۲؎ درمختار کتاب الشہادات باب القبول وعدمہ مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۹۷)
اور اگر ہنوز تزکیہ نہ ہوا تھا کہ مدعاعلیہم نے یہ درخواست دی تو بلا شبہ قاضی پر واجب کہ یہ درخواست سنے اور عدالت شہود کی تحقیقات کرے اگرچہ ادائے شہادت کو مہینے گزرچکے ہوں کہ مرور مدت مانع سوال تزکیہ نہیں اور مذہب مفتی بہ پر یہ تنقیح اس زمانہ میں مطلقاً لازم اور بعد طلب و طعن مدعا علیہ تو بالاتفاق کی جائے گی،
درمختارمیں ہے :
لایسأل عن شاھد بلاطعن من الخصم الافی حدوقود وعند ھما یسأل فی الکل ان جہل بحالہم، بحر، بہ یفتی۱؎۔
حدود وقصاص کے علاوہ دیگر مقدمات میں مدعاعلیہ کی طرف سے طعن کے بغیر قاضی گواہوں کاحال دریافت نہ کرے، صاحبین کے نزدیک ہرصورت میں دریافت کرے جبکہ قاضی کو ان کا حال معلوم نہ ہو، بحر، اسی پر فتوی ہے۔(ت)
(۱؎ درمختار کتاب الشہادات مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۹۱)
ردالمحتار میں ہے :
قولہ یسأل ای وجوبا، قال فی البحر والحاصل انہ ان طعن الخصم سأل عنہم فی الکل والاسئل فی الحدودوالقصاص وفی غیرہامحل الاختلاف۲؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
ماتن کا قول کہ''سوال کرے''یعنی قاضی پر گواہوں کا حال دریافت کرنا واجب ہے۔بحر میں فرمایا خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر مدعاعلیہ کی طرف سے طعن ہو تو تمام مقدمات میں گواہوں کاحال دریافت کرے ورنہ حدود وقصاص میں دریافت کرے جبکہ باقی مقدمات میں محل اختلاف ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
(۲ ؎ ردالمحتار کتاب الشہادات داراحیاء التراث العربی بیروت ۴/ ۳۷۲)
مسئلہ۵: ۲۰/ذی الحجہ ۱۳۱۲ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نےا پنی زوجہ ہندہ کو اپنی زندگی وصحت میں بعوض دین مہر کے اپنی جائداد منقولہ وغیر منقولہ قیمتی تخمیناً چارسوروپیہ کے دی اور قبضہ کرادیا، اب زید مرگیا ورثہ نے اپنے حصہ کا دعوٰی کیا اور کہا کہ یہ جائداد متروکہ ہے ہندہ نے بیان کیا میر امہر پانچسو روپیہ کا تھا اور میر اخاوند زید بعوض دین مہر کے گواہوں کے روبرو مجھے قبضہ دے گیا ہے اور شہادت معتبر سے یعنی دو گواہوں سے ثابت ہوگیا ہے کہ زید نے ہمارے سامنے بعوض دین مہر کے ہندہ کو جائداد دی اور قبضہ کرادیا لیکن تعداد دین مہر کی یا د نہیں کہ کس قدر تھا تو اس صورت میں مہر ہندہ کاوہی سمجھاجائے گا جو زید اپنی زندگی میں دے مرا یا مہر مثل لازم آئے گا یا کم از کم مہر دس درہم سمجھا جائے گا اور ورثہ بھی اس جائداد میں حصہ پائیں گے یانہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب : جبکہ دو گواہان عادل شرعی شہادت شرعیہ کا ملہ ادا کریں کہ ان کے سامنے یہ مال اور فلاں جائداد اس عورت کو اس کے فلاں شوہر نے بعوض دین مہر دی تو یہ گواہی کا مل ہے عورت کی ملک بذریعہ خریداری بعوض مہر اس مال وجائداد میں ثابت ہوگئی، وارثوں کا دعوٰی ساقط ہوا گواہی میں بیان مقدار مہر کی کچھ حاجت نہ تھی کہ اس وجہ سے شہادت میں قصور سمجھا جائےنہ اب اس بحث کی کوئی ضرورت کہ مہر کتنا تھا یا کس قدر سمجھا جائے آخر وہ کتنا ہی تھا ذمہ زید سے ساقط ہوگیا اور اس کے بدلے یہ مال وجائداد ملک ہندہ میں آگیا۔
ردالمحتار میں ہے:
اشارالی انھما لو شھدابالشراء ولم یبینا الثمن لم تقبل وتمامہ فی البحر وقال الخیر الرملی فی حاشیتہ علیہ المفہوم من کلامھم فی ھذا المواضع وغیرہ انہ فیما یحتاج فیہ الی القضاء بالثمن لابد من ذکرہ وذکر قدرہ وصفتہ ومالایحتاج فیہ الی القضاء بہ لاحاجۃ الی ذکرہ۱؎۔
ماتن نے اشارہ کیا ہے اس بات کی طرف کہ گواہ اگر خریداری کی گواہی دیں اور ثمن نہ بیان کریں تو ان کی گواہی قبول نہ ہوگی، اس کا مکمل بحث بحرمیں ہے، امام خیر الدین رملی نے اس کے حاشیہ میں فرمایا کہ اس مقام پر اور دیگر مقامات پر فقہاء کی کلام سے یہ مفہوم حاصل ہوتا ہے کہ یہ حکم مذکورتب ہے جب ثمن کے ذریعے قضاء کی حاجت ہو اس صورت میں ثمن، اس کی مقدار اور اس کی صفت کاذکر ضروری ہے اور جہاں ثمن کے ذریعے قضاء کی حاجت نہیں وہاں ثمن کو ذکر کرنا ضروری نہیں۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الشہادات باب الاختلاف فی الشادۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۴/ ۳۹۰)
اسی میں مبسوط سے ہے:
وان قالا اقر عندنا انہ باعھا منہ واستوفی الثمن ولم یسمیا الثمن فھو جائز لان الحاجۃ الی القضاء بالملک للمدعی دون القضاء بالعقد فقد انتہی حکم العقد باستیفاء الثمن۲؎۔
اور اگر گواہوں نے کہا اس نے ہمارے پاس اقرار کیا کہ اس نے فلاں شخص کے ہاتھ گھر فروخت کیا اور ثمن وصول کر لیے گواہوں نے ثمن کو بیان نہیں کیا تو یہ جائز ہے کیونکہ یہاں حاجت ملک مدعی کی قضا کی ہے نہ کہ عقد کے بارے میں قضا کی تو بلاشبہ ثمن کی وصولی سے حکم عقد انتہاء کو پہنچ گیا۔(ت)
(۲؎ردالمحتار کتاب الشہادات باب الاختلاف فی الشادۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۴/ ۳۹۰)
منحۃ الخالق علی البحرالرائق میں کلام مذکور کے بعدفرمایا:
ولان الجہالۃ انما تؤثر لانھاتفضی الی منازعۃ مانعۃ من التسلیم والتسلم الاتری ان مالایحتاج الی قبضہ فجہالتہ لاتضر وھو المصالح عنہ بخلاف مایحتاج الی قبضہ وھو المصالح علیہ فاذا اقر باستیفاء الثمن فلا حاجۃ ھنا الی تسلیم الثمن فجہالتہ لا تمنع القاضی من القضاء بحکم الاقرار۱؎اھ ومن تامل ھذہ الکلمٰت ظھر لہ الحکم فی مسألتنا ھذہ ظہورا بینا۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
اس لئے کہ بیشک جہالت یہاں مؤثر ہے کیونکہ وہ ایسے نزاع کا باعث ہے جو تسلیم وتسلم سے مانع ہے، کیا تو نہیں دیکھتا کہ جہاں قبضہ کی حاجت نہ ہو اس کی جہالت مضر نہیں اور وہ مصالح عنہ ہے(جس شے پر نزاع واقع ہوا) بخلاف اس چیز کے جس پر قبضہ کی حاجت ہے اور وہ مصالح علیہ ہے(جس شے پر صلح ہوئی)۔ اور جب بائع نے ثمن وصول کرلینے کا اقرار کرلیا تو یہاں تسلیم ثمن کی حاجت نہ رہی لہذا ثمن کی جہالت قاضی کو بوجہ اقرار قضاء سے مانع نہیں ہوگی اھ جو شخص ان کلمات میں غور کرے اس پر ہمارے زیر بحث مسئلہ کا حکم خوب واضح ہوجائیگا واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
(۱؎ منحۃ الخالق علی البحر الرائق کتاب الشہادات باب الاختلاف فی الشہادات ۷/ ۱۱۶)