Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
39 - 151
مسئلہ۶۰:ازبریلی محلہ گندہ نالہ مرسلہ ظہور حسن     ۱۶/ذیقعدہ ۱۳۱۹ھ

زید وہندہ نے جو حقیقی بہن زید کی ہے خالد کو ایک دستاویز لکھ دی ہندہ کی طرف سے جو ناخواندہ ہے اور پردہ نشین ہے زید اس کے حقیقی بھائی نے دستخط کی بایں عبارت(ہندہ بقلم زید)اس دستاویز میں لکھا کہ زر مندرجہ دستاویز ہم نے وصول پالیا ایسا ہی زید نے لکھا بلا تفریق مقدار روپیہ کے اور دونوں نے جائداد غیر منقولہ مکفول کی وقت رجسٹری کے ہندہ نے اقرار تحریر دستاویز اور وصولیابی زر مندرجہ دستاویز سے اقرار کیا، اور چونکہ ہندہ ناخواندہ اور پردہ نشین ہے زید نے ہندہ کی طرف سے حسب بالا دستخط کردی اب خالد نے دونوں سے مطالبہ دستاویز کیا اور شناخت ہندہ کی اس کے دوسرے بھائی حقیقی اور بھتیجا نے کی کہ مسماۃ مقرہ ونویسندہ دستاویز ہندہ ہے جس نے اقرار کیا ہے خالد مطالبہ دستاویز کا دونوں مدیون سے کرتا ہے ہندہ یہ عذر کرتی ہے کہ میں نے روپیہ نہیں لیا اور دستاویز پر نہ میرے دستخط ہیں اور نہ نشانی ہے زید میرا بھائی میری دستخط کرنے کا مجاز نہ تھا اورہندہ ایک نظیر ہائی کورٹ کی پیش کرتی ہے جس کا یہ مضمون ہے کہ صرف اقرار وصولیابی زر کافی نہیں ہے جب تک کہ مدیون کے دستخط یا نشانی نہ ہو۔

سوال:آیا اقرار تحریر دستاویز واقرار وصولیابی زر مندرجہ دستاویز جوسامنے مصدق دستاویز کے ہندہ نے کیاہے شرعاً جائز ہے یانہیں؟اگر جائز ہے تو رائے حکام انگلشیہ ہائیکورٹ عدالت انگریزی کو بمقابلہ حکم شرعی کے فوقیت دی جائے گی یانہیں اور ہندہ پر پابندی اپنے اقرار کی شرعاً لازم ہے اور یا یہ کہ پابندی حکم ہائیکورٹ کی اور دائن و مدیون یعنی دونوں فریق تابع شریعت اسلام ہیں اور کوئی فریق منکر شرع شریف کا نہیں ہے۔
الجواب

حکم اﷲ ورسول کے لیے ہے جل جلالہ وصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم
ان الحکم الاﷲ
 (حکم نہیں مگر اﷲ کا ۔ت)
 (۱؎ القرآن الکریم    ۶/ ۵۷)
جب ہندہ منکر ہے تو شہادت عادلہ شرعیہ دو مرد یا ایک مرد دو عورت ثقہ کی درکار ہے کہ ہندہ نے ہمارے سامنے روپیہ لیا ہمارے سامنے اقرار کیا فقط دستاویز اگرچہ خود ہندہ کے دستخط بقلم خود اس پر لکھے ہوتے یا اہلکار رجسٹری کی تحریر کہ میر ے سامنے اقرار کیا اصلاً کافی نہیں۔

فتاوٰی امام قاضی خان میں ہے:
القاضی انما یقضی بالحجۃ والحجۃ ھی البینۃ اولاقرار اما الصک فلا یصلح حجۃ۱؎۔
قاضی صرف حجت کی بناء پر فیصلہ کرسکتا ہے اور حجت، گواہی یا اقرار یا قسم سے انکار ہے اور رسید کسی طرح حجت نہیں بن سکتی ۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی قاضیخان    کتاب الوقف    فصل دعوی الوقف    نولکشور لکھنؤ    ۴/ ۷۴۲)

(الاشباہ والنظائر    الفن الثانی         کتاب الدعوٰی والشہادات الخ    ادارۃ القرآن کراچی    ۱/ ۳۳۸)
رہایہ کہ ہندہ کس چیز کی پابندی کرے ہندہ اپنے معاملہ کو خوب جانتی ہے اگر واقعی اس پر روپیہ عنداﷲ چاہئے تو اسے انکار کرنا سخت حرام ہے اس پر فرض ہے کہ حق کو قبول کرے اور عنداﷲ نہ چاہئے تو اگرچہ اس نے کسی دباؤ سے یا ناواقفی سے یا کسی وجہ سے اقرار غلط کردیا ہو اس کی پابندی اس پر اصلاً لازم نہیں، واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
مسئلہ۶۱تا۶۲: ازرامپور متصل زیارت شاہ ولی اﷲ صاحب مرسلہ حافظ مولوی عنایت اﷲ خاں صاحب ۱۶/ذی القعدہ ۱۳۱۹ھ

سوال اول: زید اور عمرو نوعیت طرز عمل تزکیہ شہود میں مختلف الاقوال ہیں، زید کہتا ہے کہ تین طرح سے قاضی شاہد کے چال چلن کے بابت تحقیق و دریافت کرسکتا ہے:رسول بھیج کر یا رقعہ مزکی کے نام بھیج کریا خود قاضی موقع پر جاکر مصلیان مسجد محلہ یا دیگر اشخاص اہل محلہ سے،اور اس تیسری صورت میں قاضی پر یہ لازم نہیں ہے کہ جس شخص کو کہ وہ جانتا ہو مخصوص اسی سے دریافت حال شاہد کرے بلکہ نمازی صورت ہو شخص غیر معلوم سے بھی وہ دریافت حال کرسکتا ہے اور اس شخص مجہول الحال کے نام دریافت کرنے یاا س کا نام دفتر قضاء میں برائے علم آئندہ درج کرنے کی قاضی کو کوئی ضرورت نہیں ہے، یہ تحقیقات قاضی بر سر موقع قاضی کے اطمینان او رمقدمہ کے فیصلہ کرنے کے لئے رائے قائم کرنے کو شرعاً کافی ہے انتہی کلامہ(عمرو کا یہ بیان ہے کہ شرعی اصول پر بقول صاحبین تزکیہ شہود کا دو طرح سے ہوسکتا ہے سراً وعلانیۃً جو کتاب الشہادۃ غایۃ الاوطار ترجمہ درمختار ودیگر کتب فقہیہ میں بصراحت مذکور ہے، یہ بھی بیان عمرو کا ہے مزکی ایسا شخص ہو جو لوگوں کے احوال سے خوب واقف ہو اور ان سے اختلاط رکھتا ہو اور بنفسہٖ عادل ہو،اور جرح وغیر جرح میں فرق کرسکتا ہو نایجی اور مفلس نہ ہو۔ قاضی علی الخصوص ایسے ہی شخص کو جو بصفات مذکورہ متصف ہو مزکی مقرر کرسکتا ہے، پس اس امر میں دو قسم کی واقفیت ضرور ہے ایک بذاتہ علم قاضی بصفات منتسبہ الی المزکی۔ دوسرے اطلاع مزکی نسبت احوال شہودمطلوبۃ التزکیۃ بعد تشریح اقوال زید وعمرو مفتیان شرع شریف سے یہ امر دریافت طلب ہے کہ ازروئے شرع زید کا قول صحیح اور قابل عمل ہے یا عمرو کا جواب صاف بحوالہ روایات مستندہ کتب فقہیہ عنایت ہو۔

سوال دوم: زید کا قول ہے کہ اگر کسی ضرورت سے قاضی برسر موقع تحقیقات کرے تو جو گواہ موقع پر جمع ہوں وہ علیحدہ بٹھلائے جائیں اور ان میں سے ایک ایک شخص کو قاضی اپنے رو برو طلب کرکے ضرور سوالات کرے۔، اورفریقین یا وکلاء فریقین کو بھی موقع سوالات وجرح کا دیا جاوے، سب اہل محلہ کو ایک جلسہ میں ان سے قاضی کے دریافت حال کرنے میں یہ نقص ہے کہ سب لوگ حال مستفسرہ کو یک زبان ہو کر کہیں گے اور اس صورت میں اصلی واقعہ کا انکشاف قابل اطمینان نہ ہوگا بکر کہتاہے کہ جیسازید کہتاہے ایسا نہیں ہوناچاہئے بلکہ قاضی ایک ہی جلسہ میں کل گواہان سے دریافت حال کرکے قلم بند کرکے قاضی کا ایسا کرنا خلاف شرع نہیں ہے۔ یہ تحقیقات قاضی کے اطمینان کے واسطے ہے، مفتیان شرع شریف سے یہ التما س ہے کہ ازروئے شرع مبارک زید کا قول قابل عمل ہے یا بکر کا؟بحوالہ کتب وعبارت جواب عنایت ہو۔
الجواب

(۱) زید کا قول باطل ہے، مزکی کا عادل ہونا ضروری ہے، مجہول الحال خود محتاج تزکیہ ہے وہ دوسرے کا تزکیہ کیاکرسکتا ہے۔

معین الحکام میں ہے:
ینبغی للقاضی ان یختار للمسألۃ عن الشھود من ھواوثق الناس واورعھم دیانۃ واعظمھم درایۃ واکثرھم خبرۃ واعلمھم بالتمییز فطنۃ فیولیہ، المسألۃ لان القاضی مامور بالتفحص عن العدالۃ فیجب علیہ المبالغۃ والاحتیاط فیہ۱؎اھ۔
گواہوں کے متعلق معلومات حاصل کرنے کےلئے قاضی ایسے حضرات کو مقرر کرے جو مناسب ترین دیانت میں متقی سمجھداری میں بڑے، خبرداری میں کثیر، اور پرکھنے کا زیادہ علم رکھتے ہوں تو ایسے لوگوں کو یہ معاملہ سپرد کرے کیونکہ قاضی گواہوں کے عدل کو معلوم کرنے کا پابند ہے، تو اس پر واجب ہے کہ وہ اس معاملہ میں مبالغہ اور احتیاط سے کام لے اھ
(۱ ؎ معین الحکام     الفصل السادس    فصل فی المسئلۃ عن الشہود    مصطفی البابی مصر    ص۸۵و۸۶)
ردالمحتار مسئلہ تعدیل الخصم للشہود بیان مذہب امام میں ہے:
تزکیۃ الکاذب الفاسق لاتصح۱؎۔
جھوٹے او رفاسق کو گواہوں کا تزکیہ درست نہیں۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار     کتاب الشہادت        احیاء التراث العربی بیروت        ۴/ ۳۷۳)
نیز مذہب صاحبین میں ہے:
تصح ان کان من اھلہ (ای اھل التعدیل) بان کان عدلا۲؎۔
تزکیہ کرنے والا اہل ہو توصحیح ہے یعنی تزکیہ گواہوں کو عادل ثابت کرنا تب صحیح ہوگا جب وہ خود عادل ہو۔(ت)
 (۲؎ردالمحتار     کتاب الشہادت        احیاء التراث العربی بیروت    ۴/ ۳۷۳)
ظاہر ہوا کہ مزکی میں عدالت باتفاق ائمہ ثلثہ رضی اﷲتعالٰی عنہم شرط ہے،تہذیب پھر بحرالرائق پھر درمختار میں ہے:
المجھول لایعرف المجہول۳؎۔
مجہول الحال کسی مجہول کو معلوم نہیں کرسکتا۔(ت)
 (۳؎ درمختار بحوالہ البحر عن التہذیب    کتاب الشہادت   مطبع مجتبائی دہلی         ۲/ ۹۱)
خانیہ وہندیہ میں ہے:
ان کان فاسقا او مستورا لایصح تعدیلہ۴؎۔
مزکی اگر فاسق یا مستور الحال ہو تو اسے عادل قرار دینا صحیح نہیں۔(ت)
 (۴؎ فتاوٰی ہندیۃ بحوالہ قاضیخان کتاب الشہادت الباب الثانی عشر نورانی کتب خانہ پشاور    ۳/ ۵۲۷)
اگر شاہد کے ہمسایگان مسکن وبازار واہل محلہ میں کوئی ثقہ نہ ملے نہ اس کے بارے میں کوئی تواتر صحیح شرعی ہوتو قاضی اہل محلہ کے بیان پر دو شرط سے اعتماد کرسکتا ہے، ایک یہ کہ وہ سب بالاتفاق یکزبان ایک ہی بات کہتے ہوں سب اسے عادل کہیں یا سب مجروح ہی بتاتے ہوں، دوسرے یہ کہ قاضی کے قلب میں آئے کہ یہ سچ کہہ رہے ہیں تو اس وقت ان کا اتفاق مع اس تحری کے قائم مقام تواتر ہوجائے گا اور تواتر میں عدالت کی حاجت نہیں، نہ یہ کہ جس نمازی صورت محلے والے مجہول الحال سے چاہیں پوچھ لے اور یہی کافی ہو یہ محض افتراء زید ہے۔ 

محیط وعالمگیریہ میں ہے:
ان لم یجد فی جیرانہ واھل سوقہ من یصلح للتعدیل بل یسأل اھل محلتہ، وان وجد کلھم غیرثقات یعتمد فی ذٰلک علی تواتر الاخبار، و کذٰلک اذا سأل جیرانہ واھل محلتہ وھم غیر ثقات فاتفقوا علی تعدیلہ او جرحہ ووقع فی قلبہ انہم صدقوا کان ذٰلک بمنزلۃ تواترالاخبار۱؎۔
اگر پڑوس اور بازاروں میں کسی کو تعدیل کا اہل نہ پائے تو پھر قاضی اہل محلہ کے متعلق سوال واستفسار کرے اگر ان میں سے کسی کو بھی اہل نہ پائے تو پھر گواہوں کے متعلق متواتر خبروں پر اعتماد کرے او ریوں ہی جب گواہوں کے پڑوس اور اہل محلہ سے پوچھا حالانکہ یہ تمام لوگ خود غیر ثقہ ہیں، او روہ تمام گواہوں کو عادل بتاتے ہیں یا مجروح بتاتے ہیں تو قاضی اگر ان کو سچا سمجھتا ہے تو ان کے قول پر عمل کرلے یہ بھی متواتر خبروں کی طرح ہے(ت)
 (۱؎فتاوٰی ہندیہ    کتاب الشہادت    الباب الثانی عشر    نورانی کتب خانہ پشاور    ۳/ ۵۲۹)
عمرو نے جوصفات مزکی میں بیان کیں قاضی کو مناسب ہے کہ ایسے ہی شخص کو مزکی مقرر کرے طامع ومفلس نہ ہونا اور لوگوں سے اختلاط شرائط اولویت ہیں جبکہ ان سے ارجح وصف مثل علم فقہ ان کے معارض نہ ہو مثلاً اور اس میں زیادہ حاجت ہے،گوشہ گزیں اپنے معتمدین سے پوچھ کر تزکیہ کرسکتا ہے اور جاہل کے اسباب جرح و تعدیل میں امتیاز دشوار۔

محیط وہندیہ میں ہے:
ینبغی للقاضی ان یختار للمسألۃ عن الشھود من کان عدلا صاحب خبرۃ بالناس و ان لایکون طماعا وینبغی ان یکون فقہیا یعرف اسباب الجرح والتعدیل وان یکون غنیا وان وجدعالما فقیرا وغنیا ثقۃ غیر عالم او عالما ثقۃ لایخالط الناس وثقۃ غیر عالم یخالط الناس اختار العالم۲؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
قاضی کو مناسب ہے کہ گواہوں کی تعدیل کیلئے ایسے لوگوں کو مقرر کرے جو خود عادل او رخبردار ہوں اور وہ لالچی نہ ہوں، بہتر ہے کہ وہ فقہ والے ہوں تاکہ جرح وتعدیل کے اسباب کو پہچانتے ہوں اگروہ غنی ہوں تو بہتر ہے اگر عالم فقیر ہو اور غنی ثقہ ہو اور عالم نہ ہو یا عالم ثقہ ہو لیکن لوگوں سے میل جول نہیں اور غیر عالم ثقہ ہے اور لوگوں سے میل جول رکھتا ہے توا ن حالات میں عالم کو ترجیح دے۔واﷲ تعالٰی اعلم۔(ت)
(۲؎ فتاوٰی ہندیہ    کتاب الشہادت    الباب الثانی عشر    نورانی کتب خانہ پشاور    ۳/ ۵۲۹)
 (۲) حق یہ کہ یہ امررائے قاضی پر مفوض ہے اگر گواہوں پر کوئی بدگمانی ہوتو قاضی پر واجب ہے کہ انہیں جداجدادائے شہادت کا حکم دے مگر دوعورتوں کہ ان کی شہادت مل کر شرعاً بجائے شہادت واحدہ ہے ان میں تفریق نہیں
لقولہ تعالٰی ان تضل احدھما فتذکراحدھما الاخری۳؎
 (اﷲ تعالٰی کے ارشاد کے مطابق کہ عورتوں میں سے ایک غلطی کرے تو دوسری یاد دلائے۔ت)
(۳؎ القرآن الکریم ۲/ ۲۸۲)
اوراگر قاضی کو اطمینان کافی ہوکہ یہ لوگ اہل صدق و دیانت ہیں ہر ایک اپنے علم کے مطابق شہادت دے گا نہ کہ دوسرے کی سنی سیکھی پر تو تفریق کی حاجت نہیں مگر اس زمانے میں ایسا اطمینان شاذ ونادر ہے۔

 مبسوط امام محمد پھر محیط عالمگیریہ میں ہے:
اذاارتاب القاضی فی امر الشھود فرق بینھم ولایسعہ غیر ذٰلک۱؎۔
قاضی کو گواہوں کے متعلق شک ہو تو جدا جدا کرکے شہادت لے، اس کے علاوہ کوئی صورت نہیں۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ     الباب الخامس عشر    نورانی کتب خانہ پشاور    ۳/ ۳۴۵)
درمختار میں ہے:
(ورجل وامرأتان) ولایفرق بینھما لقولہ تعالٰی فتذکر احدھما الاخری۲؎۔
ایک مرد اور دو عورتیں ہوں تو عورتوں کو جدا جدا نہ کرے کیونکہ اﷲتعالٰی نے فرمایا وہ دونوں ایک دوسری کو یاد دلائیں(ت)
 (۲؎ درمختار     کتاب الشہادات     مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۹۱)
رہے وکلاء کے سوالات جرح جس کا حاصل چار طرف سے گھیر کر گھبرالینا اور سچے کو خواہی نخواہی جھوٹا بنا چھوڑنا ہے یہ سخت بدعت شنیعہ مردودہ ہے اس سے احتراز فرض ہے کہ ہمیں اکرام شہود کا حکم ہے اور یہ خاص اہانت، خطیب وابن عساکر اور مالک نے اپنے جزء میں حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے راوی کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:
اکرمواالشہود فان اﷲ یستخرج بھم الحقوق ویدفع بھم الظلم۳؎۔
واﷲ تعالٰی اعلم۔ گواہوں کا احترام کرو کیونکہ ان کے ذریعے اﷲ تعالٰی بندوں کے حقوق ظاہر فرماتا ہے اور ظلم کو دفع فرماتا ہے۔واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
 (۳؎ تاریخ بغداد     ترجمہ ۳۱۷۷ ابراہیم بن عبدالصمد     دارالکتاب العربی بیروت    ۶/ ۱۳۸)

(تہذیب تاریخ ابن عساکر    ترجمہ احمد بن محمد الکلبی     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱/ ۴۵۳)
Flag Counter