Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
38 - 151
مسئلہ۵۹:ازریاست ٹونک محلہ قافلہ    مرسلہ مولوی سید ظہور اﷲ صاحب ۱۷/شوال ۱۳۱۹ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہندہ بلاوصول دین مہر خود، درنگی بکر زوج اپنے کے فوت ہوگئی اس نے ایک بکر زوج خود اور دو پسر ایک عمرو او دوسرا زید وارث چھوڑے، بعد تخمیناً آٹھ سال کے عمرو کبھی فوت ہوگیا اور اس نے ایک زوجہ اور دو پسر اور دو دختر وارث چھوڑے، اب زوجہ عمرو نسبت بکر خود کے اس طرح دعویدار ہوئی کہ میرادین مہر میرے زوج عمرو کے ذمہ چاہئے اور عمرو کی والدہ ہندہ کا مہر ذمہ بکر خسر میرے کے واجب ہے جس میں عمرو کا بھی حصہ ہے پس اس کے حصہ میں سے اول یہ دین مہر مجھ کو وصول کرایا جاکر مابقی اس کا مجھ کو اور دو پسر اور دو دختر اولاد عمرو پر موافق فرائض اﷲ تقسیم کیاجائے، بجواب مطالبہ ہذا بکر پدر عمرو کو یہ عذرہے کہ دعوٰی زوجہ عمرو کا دو طرح سے مجھ پر نہیں پہنچتا اولا تو یہ کہ زوجہ عمرو وارثہ ہندہ کی نہیں دوسرے بقول اس کے اس کا دین مہر اپنے زوج عمرو پر ہے اور عمرو کی والدہ ہندہ کا دین مہر مجھ بکر پر بقول اس کے باقی ہے تو گویا دعوٰی اس کا مدیون کے مدیون پر ہوا جو عندالشرع قابل سماعت نہیں بموجب اس روایت کے:
لواقام البینۃ علی مدیون مدیونہ لایقبل ولایملک اخذ الدین۲؎کذافی الخلاصۃ۔
اگر کسی نے اپنے مقروض کے مقروض پر گواہی پیش کی تو مقبول نہ ہوگی و ہ قرض حاصل کرنے کا حقدار نہ ہوگا جیسا کہ خلاصہ میں ہے(ت)
 (۲؎ فتاوٰی ہندیہ    کتاب الدعوٰی    الباب الثانی عشر    نورانی کتب خانہ پشاور    ۴/ ۱۰۸)
صورت مسئولہ میں اگر جواب بکر کا موافق کتاب کے ہے تو اس استفتاء پر مواہیر ثبت فرمائی جائیں اور اگر خلاف شرع بکر کا جواب ہے تو اس کا حکم مع روایت ذیل میں قلمبند فرمایا جاکر مواہیر ثبت فرمائی جائیں،بینواتوجروا(بیان کرو اجر دئے جاؤگے۔ت)
الجواب: صورت مستفسرہ میں زوجہ عمرو کا دعوٰی صحیح ومسموع اور بکر کے عذرات باطل ومدفوع ہیں، زوجہ عمروضرور وارثہ ہندہ نہیں مگر اب وہ دین بھی دین ہندہ نہیں
فان الموت ناقل للملک
(کیونکہ موت ملکیت کو منتقل کرتی ہے۔ت) بعد موت ہندہ بقدر حصہ عمرو دین عمرو ہو ااور زوجہ عمرو وارثہ عمرو بھی ہے اور دائنہ بھی مہر زوجہ وغیرہ دیون کہ ذمہ عمرو ہوں جبکہ محیط ترکہ نہ ہوں تو مابقی بعد انفاذ وصایا علی حسب الفرائض خود ملک ورثہ ہے جن میں زوجہ بھی ہے تو اس قدر میں بکر خود مدیون زوجہ عمرو ہے نہ مدیون مدیون اور قدر دیون مہر وغیرہ میں اگرچہ ترکہ ملک عمرو پرباقی رکھاجائے
لانصرافھا الٰی حاجۃ المیت
 (میت کی اپنی حاجت کیلئے ترکہ منتقل ہونے کی وجہ سے) مگر دائن میت ومدیون میت جبکہ دونوں وارثان میت ہوں تو ایسے دائن کا ایسے مدیون مدیون پر دعوی قطعاً مسموع ومقبول ہے، عدم سماع یا عدم قضا اس صورت میں ہے کہ وہ دونوں یا ان میں ایک میت سے اجنبی ہو۔ تحقیق مقام کہ یہ دائن میت کو مدیون میت پر دعوٰی کرکے وصول پاسکنے کےلئے دو باتوں کی حاجت ہے:

اولاً میت کا دین اس پر ثابت کرے اور جب یہ میت سے اجنبی ہے اسے ملک میت مدیون میت پر ثابت کرنے کا کیا استحقاق ہے
فانہ لایصلح خصماعنہ
 (کیونکہ وہ اس کا فریق بننے کاصلاحیت نہیں رکھتا) اس کے لئے میت کے وصی یا وارث کادعوٰی درکار ہے۔

ثانیاً اپنا دین میت پر ثابت کرے اور جب مدعا علیہ میت سے اجنبی ہے میت پر اثبات دین کےلئے اس کا حضور کافی نہیں
فانہ لایقدم خصماعنہ
 (کیونکہ بطور فریق اسکی طرف سے پیش نہیں ہوسکتا) میت کا جو کوئی وصی یا وارث ہو تو میت پر دین ثابت کرنے کےلئے ان میں کسی کا حاضر ہونا ضرور ہے غرض عدم سماع کی وجہ عدم امکان ثابت ہے اگر دونوں امر کا ثبوت کسی طرح ہوجائے تو دعوٰی ضرور قابل قبول ہے ولہذا اگر دین دائن ذمہ میت نزد قاضی ثابت ہو اور مدیون میت مدیون میت ہونے کا اقرار کرے تو قاضی مدیون میت سے دائن میت کو دین دلادے گا،

 خلاصہ وہندیہ میں ہے:
لواقام البینۃ علی مدیون مدیونہ لاتقبل ولایملک اخذ الدین منہ امااذاثبت الدین فی ترکتہ عند القاضی واقررجل عند القاضی ان للمیت علیہ دینا قدرہ کذا یأمرہ بالدفع الی رب الدین۱؎۔
اگر اپنے مقروض کے مقروض پر گواہی پیش کی تو مقبول نہ ہوگی اور وہ قرض وصول کرنے کا حقدارنہ ہوگا، لیکن جب میت کے ترکہ میں قرض (کسی پر) قاضی کے ہاں ثابت ہوجائے اور قرضدار شخص یہ اقرار کرے

کہ مجھ پر میت کا قرض ہے جس کی مقدار یہ ہے تو قاضی اس کو ادائیگی کا حکم د ے گا کہ میت پر جس کا قرض ہے اس کو دے دے ۔(ت)
 (۱ ؎ فتاوٰی ہندیہ    کتاب الدعوی    الباب الثانی عشر    نورانی کتب خانہ پشاور    ۴/ ۱۰۸)
ولہذا اگر دائن میت وارث میت ہو اور مدیون میت اجنبی اور دوسرا وارث حاضر نہیں تو مدیون میت پر دین میت ثابت کرنے کے حق میں اس دائن وارث کا دعوٰی مسموع ہوگا اور بوجہ اول اس مدیون پر دین میت کی ڈگری کردینگے مگر بوجہ ثانی وہ دین اس مدعی کو ابھی نہ دلائیں گے کہ مدیون اجنبی ہے اور دوسراوارث غائب۔ 

محیط وعالمگیریہ میں ہے:
رجل مات ولہ ابنان احدھما غائب فادعی الحاضران لہ علی ابیہ الف درھم دینا و لامال لمیت غیر الف درہم علی رجل فانی اقبل بینۃ الابن الحاضر فی اثبات الدین علی الاجنبی ولااسمع بینتہ علی ابیہ بدینہ ولااقضی لہ من الالف التی قضیت علی الاجنبی بشیئ فاوقف الالف حتی یجیئ الاخ کذافی المحیط۲؎۔
ایک شخص فوت ہو ا اس کے وارث د وبیٹے تھے جن میں سے ایک غائب ہے تو حاضر بیٹے نے اپنے باپ پر ایک ہزار درہم قرض کا دعوٰی کیا جبکہ میت(باپ) کاایک غیر شخص پر ایک ہزار قرض کے بغیر کوئی ترکہ نہ ہو،تو اس صورت میں حاضر بیٹے کی گواہی کہ غیر شخص پر باپ کا قرض ہے، میں قبول کرلوں گا، اور اس کی اپنے باپ پر قرض کی گواہی کو نہ سنوں گا، اور نہ ہی غیر پر ثابت قرض میں سے حاضر بیٹے کو کچھ دلاؤں گا، اور میں غیر پر باپ کے ثابت شدہ قرض ہزار درہم کو موقوف رکھوں گا تاوقتیکہ اس کا غائب بھائی نہ آجائے، ایسے ہی محیط میں ہے۔(ت)
 (۲؎فتاوٰی ہندیہ    کتاب الدعوی      الباب الخامس    کتب خانہ کراچی    ۴/ ۳۹)
اور جب دائن ومدیون دونوں وارثان میت ہیں جس طرح یہاں بکر وزوجہ عمرو تو اب سماع وقبول کی تمام وجوہ متحقق ہیں زوجہ عمرو اپنی وراثت کے سبب بکر کے دین میت کا دعوٰی کرسکتی ہے اور وراثت بکر کے سبب اس کے موجہ میں میت پر اپنے دین کا دعوٰی۔

 واقعات پھر جامع الفصولین میں ہے:
احدالورثۃ ینتصب خصما عن المورث فیما لہ وعلیہ۳؎الخ۔
ورثا میں سے ایک کو مورث کی طرف سے لین دین کےلئے فریق مقرر کیا جائے گا الخ(ت)
 (۳؎ جامع الفصولین     الفصل الثامن والعشرون     اسلامی کتب خانہ کراچی    ۲/ ۳۴)
خزانۃ المفتین میں ہے :
لوادعی علی المیت دینا بحضرۃ احد الورثۃ یثبت الدین فی حق الکل وکذالوادعی احد الورثۃ دینا علی انسان للمیت واقام بینۃ یثبت الدین فی حق الکل ویدفع الی الحاضر نصیبہ مشاعا۱؎الخ۔
اگر کسی نے میت پر قرض کا دعوٰی کرکے ورثاء میں سے ایک کی موجودگی میں ثابت کردیا تو وہ قرض تمام ورثاء پر ثابت ہوجائے گا اور یونہی ورثاء میں سے ایک نے اپنے والد کا قرض کسی شخص پر ثابت کردیا اور گواہ بھی پیش کردئے تو یہ قرض تمام ورثاء کے حق میں ثابت ہوجائے گا اور ثابت کرنے والے موجود وارث کو غیر منقسم حصہ کے طور پر بطور حصہ اس کو دے دیا جائیگا الخ(ت)
(۱؎ خزانۃ المفتین     کتاب الدعوٰی فصل دعوی المیراث     قلمی نسخہ     ۲/ ۸۲)
لاجرم جامع الفصولین میں فتاوٰی امام رشید الدین سے نقل کیا:
لایملک الدائن اثبات الدین علی مدیون المیت ولاعلی الموصی لہ ولواثبت علی من یصح اثباتہ علیہ کوصی ووارث ثبت لہ حق الاستیفاء منھما ولوانکر وارثہ وجود ترکۃ بیدہ فللدائن اثباتھا لالواجنبیا فلا تقبل علیہ بینۃ الدائن اذلیس بخصم فی اثبات الملک للمیت۲؎۔
میت کے قرضخواہ کو میت کے مقروض یا موصی ٰ لہ پر قرض ثابت کرنے کا اختیار نہیں او ر اگر اس نے ایسے شخص پر قرض ثابت کردیا جس پر اثبات سے وصی اور وارث کے لئے حق ثابت ہوجاتا ہے تو اس کو وصی اور وارث سے اپنا قرض وصول کرنے کا حق ہوگا اور اگر وارث میت کا ترکہ اپنے قبضہ میں ہونے سے انکار کردے تو قرض خواہ کو قبضہ کے اثبات کا حق ہوگا اگر اجنبی شخص انکار کرے تو اس کے خلاف قرض خواہ کی گواہی مقبول نہ ہوگی کیونکہ وہ اجنبی میت کی ملکیت کے اثبات میں فرق نہیں ہے(ت)
 (۲ ؎ جامع الفصولین     الفصل الثامن والعشرون     اسلامی کتب خانہ پشاور     ۲/ ۳۵)
پس صورت مسئولہ میں زوجہ عمرو کا دعوٰی ضرور صحیح ہے مگر مہر ہندہ سے جس قدر حصہ عمرو ہو اس میں سے وہ مقدار کہ ترکہ عمرو سے خود حصہ بکر ہوئی چھوڑ کر باقی پر دعوٰی پہنچے گا،
لانھا لادعوی لھا ولافی الذی لزوجھا وما کان لزوجھا قد سقط منہ ماورثہ منہ ابوہ کما سقط اولاالربع من مھر ھندۃ لصیرورتہ حق المدیون بنفسہ وھو الزوج۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
کیونکہ اس میں خود بیوی کو اور نہ ہی ا سکے خاوند کے حصہ میں دعوٰی ہے اور جو خاوند کا حصہ تھا اس میں سے والد جتنے کا وارث بنا ساقط ہوجائیگا جس طرح اولاً اس میں سے چوتھائی حصہ ہندہ کے مہر کا ساقط ہوگیا ہے اس وجہ سے کہ وہ خود مدیون کا حق بن گیا اور وہ خود خاوند ہے۔واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
Flag Counter