Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
37 - 151
مسئلہ۵۴: ازرامپور    ۱۸/رمضان المبارک ۱۳۱۶ھ

کیافر ماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید اور ہندہ کا نکاح ہوا مہر مؤجل ومعجل کے ساتھ زید نے جائداد مملوکہ وموجودہ خود مہر معجل ہندہ میں مستغرق کردی اور یہ بھی اقرار کیا کہ آئندہ جوجائداد مجھ کو کسی ذریعہ سے حاصل ہو، تا مقدار مہر معجل ہندہ مستغرق ومکفول سمجھی جائے اگر یہ تحریر واقرار زید شرعاً صحیح ہے فہو المراد، ورنہ جو شرعاً قابل قبول قضاء ہو وہ الفاظ بتائے جائیں جو کہ لکھے جائیں جو شرعاً نافذ وجاری ہوں فقط
الجواب

شرعاً استغراق جائداد بلا قبضہ جس طرح آجکل رائج ہے محض مہمل و بے معنی ہے، ہاں رہن مع قبضہ مرتہن ضرور عقد شرعی ہے مگر وہ دخلی حرام اور اس سے نفع لینا حرام او زید کا وعدہ نسبت جائداد آئندہ اور بھی مہمل تر ہے معدوم کی نسبت اقرار کیا معنی، مہر معجل کا دعوٰی عورت کو پیش از وقوع وطی ہر وقت پہنچتا ہے اور بعدو طی بھی
لان کل وطائۃ معقودعلیہا
 (کیونکہ ہر وطی پر عقد ہے۔ت) تو جائداد موجود مہر میں دے دے یا عورت کے پاس رہن شرعی کردے اور باقی جوجائداد پیدا ہو عورت برضائے شوہر یونہی لیتی جائے نہ دے تو نالش وسوال امتناعی ونیلام سے کار برآری آج کل رائج ہے کہ جس میں دو صورتیں شرعی بھی نکل سکتی ہیں، ایک دیانۃً صرف مقدار دین کو خود نیلام میں لے کر زائد کو واپس دینا
بناء علی ما افتی بہ الاٰن من اخذ الحق من خلاف الجنس
 (اب موجودہ فتوٰی کی بناء پر صاحب حق اپنا حق خلاف جنس میں حاصل کرسکتا ہے۔ت)، دوسرے نیلام مقدار مطالبہ سے زائد پر ہونااور مقدار زیادت کو مدیون کالے لینا
فانہ یکون تنفیذ اللبیع کما نصواعلیہ
ومن یتق اﷲ یجعل لہ مخرجا
 (تویہ بیع کو نافذ کرنا قررا پائے گا جیسا کہ فقہاء کی اس پر تصریح ہے، اور جو اﷲ تعالٰی سے ڈرے وہ اس لئے راستہ بنادیتا ہے۔ت)
مسئلہ۵۵: مرسلہ محمداﷲ یارخان مقیم ریاست رامپور محلہ بزریا ملا ظریف گھر منشی عبدالرحمٰن مرحوم۲۶/ربیع الاول ۱۳۱۷ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے ہندہ سے اوپر مہر تیس ہزار تیس اشرفی رائج الوقت عقد کیا اس کے بعد زید نے دو دکانیں مملوکہ اپنی بعوض کل دین مہر ہندہ کو ہبہ کردیں اور کاغذ ہبہ نامہ رجسٹری شدہ سرکاری بھی مسماۃ ہندہ نے برضاورغبت بشہادت مرد مان ثقات کے اپنے کل دین مہر کا ادا ہوناا ور ایک حبہ زید کے ذمہ نہ رہنا قبول کرلیا یہاں تک کہ زید کی زندگی میں دس روپیہ ماہوار کرایہ دکانوں کا گیارہ برس آٹھ مہینے سے لیتی رہی اور اب زید مرگیا اب بھی لیتی ہے اور اپنی تمام عمر لے گی، اب سائل سوال کرتا ہے کہ زید نے ہبہ نامہ میں تفصیل تیس ہزار تیس اشرفی کی نہیں لکھی ہے اور جو قرار پایا تھا تو اب زید نے یوں لکھا دیا کہ مسماۃ ہندہ کے کل دین مہر کے ادا ہونے کے بدلے یہ دکانیں مجھ زید نے لکھ دیں اب ایک حبہ میرے ذمہ دین مہر مسماۃ ہندہ کا دینا باقی نہ رہا، پس لفظ کل کے تحریر کرنے سے زید بری الذمہ ہوگیایا نہیں، اب زید مرگیا، مسماۃ ہندہ نے دو ہزار روپیہ کے بابت مہر کی پھر نالش کردی ہے، یہ دعوٰی مسماۃ ہندہ کو عدالت میں پہنچتا ہے یانہیں؟
الجواب

دعوٰی مذکورہ محض باطل ونامسموع ہے، جب ہبہ کل مہر کے عوض ہندہ نے قبول کرلیا کل مہر بحکم مقاصہ ساقط ہوگیا اب اس میں سے کسی جز کا دعوٰی صریح ظلم ہے،
فان الھبۃ بالعوض بیع ابتداء وانتھاء کما فی الدرالمختار۱؎والمشتری لایبقی لہ ملک فی شیئ من الثمن وامثال المقام لاتحتاج الی التسمیۃ بل ولاالی علم المقدار لعدم الحاجۃ الی التسلیم والتسلم فی الھندیۃ ھذابیع لایحتاج فیہ الی التسلیم وبیع مالم یعلم البائع والمشتری مقدارہ، اذاکان لایحتاج فیہ الی التسلیم جائز الایری ان من اقرانہ غصب من فلان شیئا اواقر ان فلانا اودعہ شیئا ثم ان المقراشتری ذٰلک الشیئ من المقرلہ جاز وان کان لایعرفان مقدارہ۔واﷲ اعلم۔
تو بیشک ہبہ بالعوض ابتداءً وانتہاءً بیع ہے جیسا کہ درمختارمیں ہے اور خریدار کی اد اکردہ ثمن میں ملکیت ختم ہوجائے گی، ایسے مقامات پر مبیع و بیع کا ذکر بلکہ مقدار مبیع کا علم بھی ضروری نہیں کیونکہ یہاں لینا دینا کچھ نہیں ہوتا، ہندیہ میں ہے کہ یہ ایسی بیع ہے جس میں کچھ سونپنے کی ضرورت ہےنہ ہی مبیع کی مقدار کا جاننا بائع یا مشتری کو ضروری ہے تو جس بیع میں سونپنا اور قبضہ دینا نہ ہوتو وہاں مقدار کے علم کے بغیر بیع جائز ہے، کیا دیکھا نہیں کہ کوئی شخص اقرارکرے کہ میں نے فلاں کی چیز غصب کی ہے یا یہ اقرا رکرے اس نے میرے پاس امانت رکھی پھر اقرار کرنیوالا مقرلہ سے وہ چیز خریدلے تو جائز ہے اگرچہ دونوں کو چیز کی مقدار کا علم نہ ہو۔واﷲ تعالٰی اعلم۔(ت)
(۱؎ درمختار    کتاب الہبہ    باب الرجوع فی الھبۃ    مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۱۶۴)
مسئلہ۵۶: ازلشکر گوالیار محلہ یکہ مرسلہ محمد بخش    ۲۱ربیع الآخر شریف ۱۳۱۷ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس معاملے میں کہ مسماۃ حرہ نے اپنے شوہر پر اس بیان سے طلاق کا دعوی پیش کیا ہے کہ میرے شوہر نے بموجودگی چار عورتوں کے ایک جلسہ میں مجھ کو تین بار طلاق دی اور اس کو عرصہ دو مہینے کا ہوا اب ان چارعورتوں میں ایک عورت زمانہ طلاق کا تخمیناً ڈیڑھ سال بیان کرتی ہے اور دوسری عورت سوایاڈیڑ ھ سال کہتی ہے اور باقی دوعورتوں کی نسبت مسماۃ کا یہ بیان ہے کہ مجھ کو ان کی شہادت دلانا منظور نہیں، علاوہ ان کے دو مرد مسلمان اور تین مرد ہندو جن کی نسبت مسماۃ سننے نہ سننے کی لاعلمی بیان کرتی ہے، ان میں ایک گواہ زمانہ طلاق کا چودہ پندرہ ماہ کا بیان کرتا ہے اور دوسرا قریب دو سال بیان کرتا ہے اور تین ہندو کوئی سوابرس کوئی ڈیڑھ برس اور مسماۃ زمانہ طلاق کا دو مہینے کا بتاتی ہے اور شوہر کو طلاق دینے سے انکار ہے، پس اس صورت میں مسماۃکا دعوی طلاق کا شہادت مذکور سے شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟بینواتوجروا۔
الجواب

مسلمانوں پر کسی معاملے میں ہنود کی گواہی اصلاً معتبر نہیں، نہ تنہا عورتوں کی گواہی سے طلاق ثابت ہوسکے کم سے کم دو مسلمان مرد عاقل بالغ متقی پرہیزگار یا ایک مرددو عورتیں سب مسلمان عاقل بالغ متقی پرہیز گار درکار ہیں، اگر ایسے گواہ نہیں تو شوہر سے قسم لی جائے اگروہ قسم کھاکر طلاق ہونے سے انکار کردے دعوٰی حرہ رد ہوجائے گا اور اگر شوہر قسم نہ کھائے تو طلاق ثابت ہوجائے گی اور اگر ویسے گواہ شرعی موجود ہیں تو دعوٰی طلاق آپ ہی ثابت ہے اور مدعیہ وگواہان اور نیز باہم گواہوں کا زمانہ طلاق میں اختلاف کچھ مضرشہادت نہیں، 

درمختار میں ہے:
یشترط الاسلام لو المدعی علیہ مسلما۱؎۔
اگر مدعی علیہ مسلمان ہوتو گواہوں کا مسلمان ہونا شرط ہے۔(ت)
 (۱؎ درمختار    کتاب الشہادات    مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۹۰)
اسی میں ہے:
ونصابھا لنکاح وطلاق رجلان اورجل وامرأتان ولاتقبل شہادۃ اربع بلا رجل ۱؎اھ مختصراً۔
نکاح وطلاق کے لئے نصاب شہادت دو مر دیا ایک مر د اور دو عورتیں، مرد کے بغیر چار عورتوں کی شہادت مقبول نہ ہوگی اھ مختصراً(ت)
(۱؎ درمختار    کتاب الشہادات    مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۹۱)
عالمگیری میں ہے:
اختلفا فی الوقت اوالمکان فان کان المشہود بہ قولا محضا کا لبیع والاجارۃ والطلاق والعتاق جازت شہادتھما۲؎اھ ملخصا۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
اگر دونوں گواہوں کا وقت یا مکان میں اختلاف ہو اور شہادت والا معاملہ گفتگو سے متعلق ہو مثلاً بیع، اجارہ، طلاق اور عتاق، تو یہ شہادت جائز ہے اھ ملخصاً۔واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
 (۲؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الشہادات   الباب الثامن     نورانی کتب خانہ کراچی    ۳/ ۸۔۵۰۷)
مسئلہ۵۷تا۵۸: ازریاست رامپور     مرسلہ منشی واحد علی صاحب پیشکارمحکمہ مال ۱۹/ربیع الآخر شریف ۱۳۱۹ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین ان مسائل میں:

(۱) جوضوابط واحکام واسطے فیصلہ خصومات اور رجوع نالش کے خلیفہ یا قاضی وقت نے مقرر کئے ہیں ان کی پابندی حاکم کو شرعاًلازم و واجب ہے یانہیں؟بینواتوجروا۔

(۲) زید نے اپنی تحریرمیں یہ لکھا ہے کہ(عمرو شہرسے باہر گئے ہیں) ازروئے احکام شرعی الفاظ مذکورہ سے فرار عمرو ثابت ہے یانہیں بلکہ صرف معمولی طور پر جانا پایا جاتا ہے۔بینواتوجروا۔
الجواب

(۱) والی ملک حاکم اسلام یا اس کے یہاں کے افسر بالا دست مثل قاضی القضاۃ نے جسے اس نے لوگوں کو عہدہ قضا پر اپنے دستخطوں سے مقرر کردینے کا اختیار دیا ہو، بالجملہ جس کے نصب سے حاکم شرعاً حاکم ہوجاتا ہے اور بے رضائے فریقین فیصلہ کرنے کا اختیار پاتا ہے ایسے شخص نے جس کے نصب میں جو شرائط حکم قضا کےلئے لگائے ہوں یا سلطان خواہ اس کے ماذون مجاز نے جسے وضع ضوابط کا اختیار ہو جو ضابطے فیصلہ خصومات ورجوع مقدمات کے واسطے مقرر کئے ہوں ان کے پابندی صورت اولٰی میں اس خاص حاکم اور ثانیہ میں اس ریاست کے تمام حکام پر خواہی نخواہی ضرور ہے، ان کے خلاف جو فیصلہ ہو گا سراسر مردود بے اثر ونامعتبر ہوگا جیسے کسی راہ چلے کا کوئی فیصلہ بطور خود کردینا۔

درمختار میں ہے:
القضاء یتخصص بزمان ومکان وخصومۃ حتی لوامر السلطان بعدم سماع الدعوی بعد خمسۃ عشر سنۃ فسمعھا لم ینفذ۱؎۔
قضا کو مکان، زمان اور مقدمہ سے مختص کیا جاسکتا ہے حتی کہ اگر سلطان نے حکم دیا کہ پندرہ سال گزرجانے کے بعد دعوٰی کی سماعت نہ ہوگی تو کسی قاضی نے یہ سماعت کی تو فیصلہ نافذ نہ ہوگا۔(ت)
 (۱؎ درمختار         کتاب القضاء    فصل فی الحبس    مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۸۱)
ردالمحتار میں ہے:
عزاہ فی الاشباہ الی الخلاصۃ وقال فی الفتح الولایۃ تقبل التقلید والتعلیق بالشرط۲؎۔
اشباہ میں اس کو خلاصہ کی طرف منسوب کیا ہے اور فتح میں فرمایا کہ ولایت شرط کے ساتھ مقید اور معلق ہوسکتی ہے۔(ت)
 (۲؎ ردالمحتار      کتاب القضاء    فصل فی الحبس    داراحیاء التراث العربی بیرو ت    ۴/ ۳۴۲)
اسی میں ہے:
فیکون القاضی معزولا عن سماعہا لما علمت من ان القضاء یتخصص۳؎۔
قاضی اس کے سماعت سے بے اختیار ہوگا کیونکہ تمہیں معلوم ہے کہ قضا کو خاص کیا جاسکتا ہے۔(ت)
 (۳؎ردالمحتار      کتاب القضاء    فصل فی الحبس    داراحیاء التراث العربی بیرو ت   ۴/ ۳۴۳)
ہاں اگر ان دوصورتوں کے سوا کسی قاضی غیرمجاز نے بے اذن والی بطور خود کچھ ضوابط مقرر کئے ہوں تو ان کی پابندی کسی پر لازم نہیں۔واﷲتعالٰی اعلم۔
 (۲) الفاظ مذکورہ سے فرار عمرو ہر گز ثابت نہیں، ''باہر جانا'' ترجمہ خروج کا ہے ا ورفرار کا ترجمہ ''بھاگ جانا'۔خروج سے ''فرار'' ہر گز لازم نہیں۔ اﷲ عزوجل زکریا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حق میں فرماتا ہے:
فخرج علی قومہ من المحراب۴؎۔
اپنی قوم پر محراب سے باہر آئے۔
 (۴؎ القرآن الکریم    ۱۹/ ۱۱)
اﷲ تعالٰی سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے فرماتا ہے:
ومن حیث خرجت فول وجھک شطر المسجد الحرام۵؎۔
باہر جاؤ تو اپنا منہ کعبے کی طرف کرو۔
 (۵؎القرآن الکریم   ۲/ ۱۴۹)
صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے فرماتا ہے:
ان کنتم خرجتم جہادا فی سبیلی وابتغاء مرضاتی۱؎۔
اگر تم نکلے ہو میری راہ میں جہاد کرنے اور میری مرضی چاہنے تو کافروں سے دوستی نہ کرو۔
 (۱؎ القرآن الکریم۶۰/ ۱)
ظاہر ہے کہ بھاگ جانے میں باہر جانے سے ایک امر زائد ہے اور زیادت بے ثبوت زائد ہر گز ثابت نہیں ہوسکتی، ہدایہ وغیرہا کتب مذہب میں جابجا ہے
الاقل ھو المتیقن
 (قلیل یقینی امر ہوتا ہےلک۔ت)  واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
Flag Counter