Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
36 - 151
جب یہ مقدمات ثمانیہ ممہد ہولئے بفضلہ تعالٰی حکم مسئلہ واضح ہوگیا اور چند مفید بحثوں نے رنگ انجلا پایا:
بحث اول: سید اشرف علی شمس الدین خاں، غلام محی الدین خاں، عبدالرزاق خاں، باقرحسین کی گواہی میں اصلاً کوئی غبار نہیں وہ صاف صاف شاہد اقرار عبدالغنی خاں ہیں نہ شاہدان مجلس ایجاب وقبول تو غلام محی الدین خاں وشمس الدین خاں کے بیانات پر یہ اعتراض کہ اگر کلام بائع کو ایجاب قرار دیں تو قبول اس مجلس میں نہیں یا محمدی بیگم کا بیان قبول نہیں اخبار ہے محض بے محل ہے، نہ ان شاہدوں نے دعوٰی کیا کہ ہم حاضر مجلس ایجاب وقبول تھے نہ ان کے بیان کئے ہوئے الفاظ حکایت ایجاب وقبول ہیں وہ صراحۃً اقرار عبدالغنی خاں بیان کررہے ہیں جن کے بعد محمدی بیگم کا کلام زیر سقف ہونا یا خبر محض ہونا یا اصلاً کچھ نہ ہونا کچھ بھی مضر نہیں، نہ اس پر لحاظ، کما بیناہ فی الامر الثانی (جیسا کہ اسے امر ثانی میں بیان کیا گیا ہے۔ت)

بحث دوم:  سید اشرف علی نے صرف اپنے فعل پر شہادت ہر گز نہ دی بلکہ اس گواہی میں صراحۃً عبدالغنی خاں کا کتابت بیعنامہ کے لئے حکم کرنا اور خود عبارت بتاتے جانا اور اپنے ہاتھ سے مہر لگانا مذکور ہے، یہ افعال واقوال عبدالغنی خان کے ہیں یا سید اشرف علی کے، ان کے ساتھ اگر اپنا لکھنا بیان ہو ا تو ان سب پر شہادت کیوں صرف اپنے فعل پر شہادت قرار پاگئی۔
فی الھندیۃ عن المحیط عن النوادر عن الامام ابی یوسف رضی اﷲ تعالٰی عنہ اذاشھد شاھدان ان فلانا امرنا ان نبلغ فلانا انہ قد وکلہ ببیع عبدہ وقد اعلمناہ او امرنا ان نبلغ امرأتہ انہ جعل امرھا بیدھا فبلغنا ھاوقد طلقت نفسہا جازت شہادتھما۱؎۔
ہندیہ میں محیط سے منقول کہ نوادر روایات میں سے امام ابویوسف سے منقول ہے کہ جب دو گواہ شہادت دیں کہ فلاں شخص نے ہمیں کہا کہ ہم فلاں کو یہ اطلاع دے دیں کہ اس نے اس کو وکیل بنایا ہے کہ اس کے غلام کو فروخت کردے تو ہم نے اس فلاں کو اطلاع پہنچا دی یا گواہوں نے یہ شہادت دی کہ اس شخص نے ہمیں کہا کہ ہم اسکی بیوی کو مطلع کردیں کہ اس نے اسے طلا ق کا اختیار دیا ہے تو ہم نے اس کی بیوی کو مطلع کردیا ہے اور اس کی بیوی نے اپنے نفس کو طلاق دے دی ہے، تو یہ شہادت جائز ہوگی۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ    کتاب الشہادات    الباب الرابع     الفصل الثالث    نورانی کتب خانہ پشاور     ۳/ ۴۷۲)
بحث سوم:  ظاہر ہوا کہ باقر حسین تنہا گواہ اقرار نہیں بلکہ اس کے پانچ گواہ ہیں اور ایسی جگہ یہ بحث کہ ثبوت بیع ایجاب وقبول بمجلس واحد سے ہوتا ہے معنی ثبوت میں تفرقہ نہ کرنے سے ناشی وثبوت فی نفسہ ہے ثبوت عند القاضی کے لئے صرف ثبوت اقرار کافی ہے۔

بحث چہارم:  اظہارمحمدی بیگم میں کہیں ایجاب وقبول کی نفی نہیں، نہ اس کے بیان مذکور تجویز میں کوئی لفظ حصر ہے کہ اس کے سوازن وشو میں دربارہ بیع کوئی کلام نہ آیا نہ باوصف شہادت اقرار حاکم کے حضور تذکرہ ایجاب وقبول آنا کچھ ضرور، محمدی بیگم نے وقوع عقد والفاظ ایجاب وقبول کو ان لفظوں میں ادا کردیا کہ یہ مکان شوہر نے بیع کرکے کاغذ میرے حوالہ کیا اور وہ گفتگوئے بیع جو اس نے بیان کی کہ میں بیعنامہ تمہیں لکھوائے دیتا ہوں، میں نے کہا آمین، بیان ایجاب وقبول نہ تھی بلکہ وہ گفتگو بمعنی قرار داد و مشورہ بیع تھی جیسا کہ صراحۃً اس کے لفظ سے ظاہر ہے اگر کہئے ممکن کہ اس کے مراد گفتگوئے بیع سے یہی ایجاب وقبول تو ہم کہیں گے ممکن کہ اس کی مراد وہی قرار داد ومشورہ ہو غیب پر حکم کردینا اور امر محتمل سے ایک معنی بطور خود سمجھ لینا کیونکر صحیح ہوا بلکہ جب لفظ صراحۃً مشورے ہی کے ہیں تو اسی پر حمل واضح، ہاں اگر اس کے کلام میں تصریح ہوتی کہ اس کے سوا بیع کو ئی بیع کا کو ئی مکالمہ عبدالغنی خاں نے مجھ سے نہ کیا تو یہ معنی ٹھیک ہوتے اور جب ایسا نہیں تو عقلاً ونقلاً احتمال قاطع استدلال۔

بحث پنجم: یہیں سے ظاہر ہوا کہ یوسف علی خاں وسید حشمت علی کے بیانوں کو اظہار محمدی بیگم سے اصلاً تنافی نہیں، وہ دووقت کسی اور کے ہونے کا انکار کرتی ہے، وقت مشورہ اور وقت دادن بیعنامہ وقت ایجاب وقبول کسی کے موجود ہونے نہ ہونے کا اس کے اظہار میں کچھ ذکر نہیں اور یہ دونوں وقت ایجاب وقبول اپنا ہونا بیان کرتے ہیں وقت قرار داد ووقت عطائے بیعنامہ سے کچھ بحث نہیں تو منافات کہاں ہوئی اور ایسی محتمل بات پر مسلمانوں کی گواہی محض زوری وجعلی کیونکر ٹھہرسکی۔

بحث ششم : اگرفرض ہی کیجئے کہ گفتگوئے بیع سے محمدی بیگم کی مراد ایجاب وقبول ہی ہے جب بھی بربنائے مذہب صحیح کہ ہمارے امام اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا مذہب ہے اس کے اظہار سے شاہدین ایجاب وقبول کی شہادت پر اصلاً آنچ نہیں آتی، بیان سائل سے معلوم ہوا کہ محمدی بیگم کا اظہار سید حشمت علی ویوسف علی خاں بلکہ تمام شہود کے اظہار سے پہلے ہو ا اور امر ہشتم میں واضح ہوچکا کہ اگر محمدی بیگم صراحۃً اپنے اظہار میں یوں لکھاتی کہ ایجاب وقبول کی جو شہادت دی محض جھوٹا ہے نری بناوٹ کرتا ہے اور اس کے بعد شہادت گزرتی اظہار مدعیہ یعنی محمدی بیگم سے اسے کچھ مضرت نہ تھی جب مردوں کے حق میں یہ قرار دیا جاتا ہے کہ مدعی بھول گیا تو عورات خصوصاً اس عمرمیں زیادہ مستحق اس عذر کی ہیں خلاف مذہب مصحح امام مسلمانوں کی شہادت کو مصنوعی بتادینے کا کوئی حق نہ تھا۔

بحث ہفتم:  ان ابحاث سے روشن ہوا کہ یہ سات شہادتیں فی نفسہا ہر غبار واعتراض سے پاک وصاف ہیں رہا شہود کو غیرثقہ نامعتمد بتانا قطع نظراس کہ اگر بے دلیل شرعی صرف اس بنا پر ہو کہ ان کی تحقیقات نہ کی گئی تو یہ کمی خود حاکم کی طرف سے ہے حاکم پر واجب ہے کہ احوال شہود سے خود بروجہ کافی آگاہ نہ ہو تو خفیہ تحقیقات کرے جس سے معلوم ہو کہ ان کی شہادت قابل اعتبار شرع ہے یانہیں، اگر چہ فریق ثانی کی طرف سے اس کی تحریک نہ بھی ہو بے تحقیقات کے جزافاًثقہ غیرثقہ کہہ دینے کے کوئی معنی نہیں،

 درمختار میں ہے:
عندھما یسأل فی الکل اذا جھل بحالھم بہ یفتی۱؎۔
صاحبین کے نزدیک قاضی جب گواہوں کے حالات کو نہ جانتا ہو تو اسے تمام قسم کے گواہوں کے متعلق معلومات حاصل کرنے کا حق ہے، اسی پر فتوٰی ہے۔(ت)
(۱؎ درمختار    کتاب الشہادات    مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۹۱)
ردالمحتار میں ہے:
یسأل ای وجوبا۲؎
 (قاضی پر واجب ہے کہ معلومات حاصل کرے۔ت)
 (۲؎ ردالمحتار    کتاب الشہادات   داراحیاء التراث العربی بیروت۴/ ۳۷۲)
منحۃ الخالق میں علامہ خیر رملی سے ہے:
مقتضاہ ان القاضی یاثم بترک السوال۳؎۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ معلومات حاصل نہ کرنے پر قاضی گنہگارہوگا۔(ت)
 (۳؎ منحۃ الخالق علی البحرالرائق  کتاب الشہادات    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۴/ ۶۳)
بحر میں ہے :
وفی السراجیۃ والفتوٰی علی انہ یسأل فی السر۴؎۔
اور سراجیہ میں ہے کہ فتوٰی یہ ہے کہ قاضی انکے متعلق خفیہ طریقہ سے معلومات حاصل کرے(ت)
(۴؎ بحرالرائق   کتاب الشہادات ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۷/ ۶۴)
یہاں محل نظریہ ہے کہ اسی بیعنامہ محمدی بیگم کے تحقیقات میں حاکم نے انہیں شہود کی شہادت پر اعتماد کیا اور اسی کی بنا پر یہ پابندی سرکلر بیعنامہ کو ثابت مان کر فیس اسٹامپ وتاوان رجسٹری لیا تو اب انہیں شہادتوں کا اسی ثبوت میں معتبر ومردود بتانے کا کوئی محل نہ رہا جیسا کہ امر پنجم میں واضح ہوچکا وہ غیر ثقہ نہیں فرضاً کھلے فساق ہوتے جب حاکم خود انہیں قبول کرکے حکم کرچکا شہادت نافذ ہوگئی، امر ششم میں واضح ہوا کہ فاسق بھی اہل شہادت ہے پھر بعد قبول رد کے کیا معنی، سائل نے نہ عبارت سرکار پیش کی جس کی تعمیل پر حاکم کی یہ کارروائی تھی نہ اس امر کے متعلق تجویز حاکم کی یہ کارروائی تھی نہ اس ا مر کے متعلق تجویز حاکم کی نقل نظر سے گزری کہ اس قبول و تنفیذ شہادت کا حال کما ینبغی منکشف ہوتا پھر بھی اس قدر میں شک نہیں کہ یہ امر بہت قابل لحاظ ہے اور مخالفت ضابطہ کاجواب تو اس سے بداہۃً واضح اگرچہ خدام شرع کو بحمداﷲ تعالٰی ضوابط شرع مطہر کے سوا کسی ضابطے سے بحث نہیں، جب خود صاحبان ضابطہ ہی نے وہ سرکلر جاری کیا اور اسی کے مطابق اب بعد ظہور وجہ وجیہ واجازت وحصول تحقیقات مزید وہ کاغذ مثل کاغذات رجسٹری ٹھہرگیا تو مخالفت ضابطہ کہاں رہی، فیس و تاوان رجسٹری لینے کے بعد بھی سادہ وساقط الاعتبار بتانا یعنی چہ، کیا سرکلر اس لئے وضع ہواتھا کہ اسٹامپ کے دام رجسٹری کا تاوان سب کچھ لے لیجئے اور پھر کہہ دیجئے کہ کاغذ سادہ ہے ساقط الاعتبار ہے یہ کہنا تو پہلے ہی حاصل فیس و تاوان کس بات کے لئے اور اس میں کون سا رفع عذر ہوا جسے مقصود عدالت بتایا جاتا ہے کیا قبل ظہو ر وجہ وجیہ وتحقیقات مزید کاغذ سادہ کو سادہ کہا جاتا تو شکایت ہوتی اب کے بعد ان تمام مراتب کے فیس وتاوان لے کر مصدقہ بناکر سادہ ساقط الاعتبار کہہ دینے سے کوئی عذرباقی  نہ رہا۔
بحث ہشتم : قرائن صدق شہادات کی یوں نفی کہ نہ بیعنامے پر رجسٹری، نہ کاغذ اسٹامپ کا، نہ بائع کے ہاتھ کا لکھا، نہ دستخط، نہ اہل محلہ واقارب کی شہادت کہ انہیں سے بعض کے بے ثبوتی بیعنامہ کا دلیل عقلی بنایا گیا ہے اصلاً قابل التفات نہیں۔

اولاً یہ اعتراض خود اپنے حکم پر ہے کہ انہیں شہادات کو ذریعہ ثبوت وجہ وجیہ مان کرفیس وتاوان لیا گیا۔

ثانیاً رجسٹری واسٹامپ نہ ہونا اگر دلیل عقلی بطلان شہادات ہوتو انہیں کی بناپر فیس و تاوان لے کر کاغذ کو مصدقہ رجسٹری واسٹامی بنانا طرفہ دور کارنگ ہوگا کہ مصدقہ ماننا تو موقوف ہوا قبول شہادات پر قبول شہادات مصدقہ ہونے پر ۔

ثالثاً امر سوم میں واضح ہوچکا کہ اپنے لکھنے سے دوسرے پر املا اقوی ہے۔

رابعاً یہ سب زوائد وفضول باتیں ہیں شرع مطہر مں قبول شہادات کو وجوداً وعدماً ان باتوں سے  علاقہ نہیں شہوداگر معتبر شرعی ہیں ان کی شہادت کا قبول واجب اگرچہ یہ امور سب منتفی ہوں ورنہ نہیں اگرچہ یہ امور سب موجود ہوں، یہ سرسری نگاہ سے اتنے ابحاث ہیں، اور ہنوز بہت امور باقی ہیں کہ بخیال تطویل ترک کئے۔

بالجملہ تجویز بوجہ کثیرہ غیرصحیح ہے اور اس مسئلہ میں حکم شرعی یہ ہے کہ اگر ان سات شاہدوں میں دو گواہ بھی معتبر شرعی ہیں خواہ وہ صرف اقرار عبدالغنی خاں کے گواہ ہوں یا صرف ایجاب وقبول کے یا ایک اقرارکا ایک ایجاب وقبول کا، تو از انجا کہ یہاں محمدی بیگم دونوں وجوہ ترجیح کی جامع ہے تاریخ بیع بھی اسی کی پہلی ہے اورقبضہ بھی اسی کا ہے لہذا ہر طرح فیصلہ بحق محمدی بیگم ہونا لازم، واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
Flag Counter