Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
35 - 151
ھفتم اگر زید مثلاً کسی مکان پر دعوی کرے کہ یہ میرا ہے میں نے بکر سے خریدا ہے اور عمرو مدعا علیہ جس کے قبضے میں وہ مکان ہے جواب دے کہ بلکہ مکان میرا ہے میں نے بکر مذکور سے خریدا ہے تو اس صورت میں وہ مدعا علیہ مدعی اور یہ مقدمہ باب دعوی الرجلین سے ہوجائے گا دونوں طرف سے شہادت مسموع ہوگی اور اب یہ دیکھیں گے کہ ان میں ایک نے اپنی خریداری کی تاریخ بیان کی ہے یا دونوں نے یا کسی نے نہیں، اور اگر دونوں نے بیان کی ہے تو تاریخ ذوالید کی مقدم ہے یعنی عمرو جس کے قبضے میں مکان ہے یا خارج کی یعنی زید جس کے قبضے میں نہیں ان سب صورتوں میں ڈگری صاحب قبضہ کی ہوگی مگر جبکہ خارج کی تاریخ مقدم ہو، غرض یہاں اول ترجیح تقدم تاریخ سے ہے کہ اس کے بعد قبضہ ہونے نہ ہونے پر بھی لحاظ نہیں ہوتا اس کے بعد ترجیح قبضے سے ہے کہ دوسرے کی تاریخ مقدم نہ ہوتو ہر طرح اسی کو ترجیح رہتی ہے۔ 

فتاوٰی عالمگیریہ میں ہے :
ان ادعیا الشراء من واحد وکانت العین فی یداحدھما فھی لذی الیدسواء ارخ ام لم یؤرخ اذا ارخاوتاریخ الخارج اسبق فیقضی بھا للخارج کذافی الکافی اھ۱؎ملتقطا۔
اگر دو شخص ایک شخص سے کسی چیز کی خریداری کے مدعی ہوں تو جس کا قبضہ ہوگا وہی مالک قرار دیا جائے گا وہ تاریخ بیان کرے یا نہ کرے برابر ہے اور دونوں نے تاریخ بیان کی تو غیر قابض مدعی کی تاریخ پہلے ہو غیر قابض کو مالک قرار دیا جائیگا، کافی میں یونہی ہے اھ ملتقطاً(ت)
( ۱؎  فتاوٰی ہندیہ     کتاب الدعوی     الباب التاسع         نورانی کتب خانہ پشاور    ۴/ ۷۴)
فصول عمادی پھر فتاوی ہندیہ باب فیما تدفع بہ دعوی المدعی میں ہے:
اذاادعی عینا فی یدی رجل انی اشتریتہ من فلاں منذسبعۃ ایام وقال ذوالید لابل ھو ملکی اشتریتہ من ذٰلک الذی تدعی الشراء منہ منذ عشرۃ ایام وقام البینۃ یکون لاسبقھما تاریخا۲؎۔
ایک شخص کسی چیز کے متعلق جو کہ دوسرے کے قبضہ میں ہے دعوٰی کیا کہ میں نے یہ چیز فلاں شخص سے ایک ہفتہ قبل خریدی ہے قابض نے کہا یہ غلط ہے بلکہ یہ چیز میری ملک ہے میں نے اسی فلاں شخص سے ایک عشرہ قبل خریدی ہے اور قابض نے اپنے دعوٰی پر گواہی پیش کردی تو یہ چیز پہلی تاریخ والے یعنی قابض کی ملک قرار دی جائے گی(ت)
( ۲؎فتاوٰی ہندیہ        کتاب الدعوے    الباب السادس فیما تدفع بہ دعوی المدعی    نورانی کتب خانہ پشاور    ۴/ ۵۱)
بیان سائل سے معلوم ہوا کہ یہاں محمدی بیگم کے مدعیہ ہوجانے پر بھی بحث کی گئی ہے حالانکہ یہ تو بہت واضح بات ہے جب اس نے اپنی خریداری کا دعوٰی کیا مدعیہ ہوجانے میں کیا شبہ رہا
کما ذکرنا
 (جیسا کہ ہم ذکرکرچکے ہیں۔ت) علماء تو یہاں تک تصریح فرماتے ہیں کہ اگر زید عمروپر دعوٰی کرے کہ یہ مال جو اس کے قبض میں ہے میرا ہے، عمرو جواب دے کہ بلکہ بکر کا ہے اس نے ودیعۃً مجھے سپرد کیا ہے تو عمرو مدعی ہوگیا حالانکہ اس نے اپنی ملک کا دعوٰی بھی نہ کیا تو دعوٰی شراء میں مدعیہ نہ ہوجانے کے کیا معنی، 

جامع الفصولین فصل ۱۰ میں برمزفش فتاوٰی امام رشید الدین سے ہے:
اذاطلب المدعی یمین ذی الیدانہ ودیعۃ لیس لہ ذلک لانہ جعل نفسہ مدعیا فی انہ ودیعۃ ولایمین علی المدعی۱؎۔
مدعی نے قابض سے قسم کا مطالبہ کیا کہ یہ چیز اس کے قبضہ میں بطور امانت ہے تو مدعی کو قابض سے قسم لینے کا حق نہیں کیونکہ قابض نے یہ ظاہرکرکے کہ میرے پاس یہ فلاں کی امانت ہے امانت کا مدعی بن گیا ہے جبکہ مدعی سے قسم کا مطالبہ درست نہیں ہے(ت)
(۱؎ جامع الفصولین     الفصل العاشر    اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۱۳۳)
ھشتم : فرق ہے اس میں کہ مدعی بعد صدور شہادت اپنے شہود کی نسبت اقرار کرے کہ انہوں نے جھوٹی گواہی دی یا یہ حاضر واقعہ نہ تھے کہ اس تقدیر پر وہ اپنے اقرار پر مواخذ ہوگا
کما افادہ فی البحر والشامیۃ وغیرہما
 (جیسا کہ بحر اور فتاوٰی شامی میں اس کا افادہ کیا ہے۔ت) اور اس میں کہ مدعی پیش از شہادت کہے میر اکوئی گواہ نہیں یا کہے میں جو شہادت لاؤں محض جھوٹی اور جعلی ہوگی یا کہے فلاں و فلاں جو کچھ گواہی میرے لئے دیں وہ جھوٹ ہے، اس کے بعد وہ گواہ پیش کرے اور فلاں فلاں اس کے واسطے شہادت دیں تو مذہب صحیح میں یہ شہادت مان لی جائے گی اور مدعی کے وہ پہلے اظہار واقرار اس کے قبول میں خلل انداز نہ ہوں گے کہ یہاں توفیق ممکن ہے انسان نسیان کے لئے ہے ممکن کہ مدعی کو اس وقت یہی یاد تھا کہ کوئی شخص حاضر واقعہ نہ تھا یا خاص فلاں و فلاں موجود نہ تھے لہذا اس وقت یہ اظہار کیا اور بعد کو یا دآیا اور گواہ حاضرلایا، 

درمختار میں ہے:
تقبل البینۃ لو اقامھا المدعی وان قال قبل الیمین لابینۃ لی، سراج، خلافا لما فی شرح المجمع عن المحیط۲؎۔
اگر مدعی نے مدعی علیہ کی قسم سے پہلے گواہی پیش کردی تو قبول کرلی جائے گی اگرچہ وہ قبل ازیں کہہ چکا ہو کہ میرے پاس گواہ نہیں ہیں، سراج۔ اور وہ جو کہ محیط سے شرح المجمع میں منقول ہے یہ اس کے خلاف ہے۔(ت)
 (۲؎درمختار        کتاب الدعوٰی    مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۱۸۔۱۱۷)
حاشیہ علامہ ابرساہیم حلبی پھر ردالمحتار میں ہے:
(قولہ خلافا لما فی شرح المجمع) لیس فیہ ماینافی ذٰلک بل حکی قولین۳؎۔
اس کے قول(شرح المجمع کے خلاف) کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اس کے منافی ہے بلکہ انہوں نےدو قول نقل کئے ہیں۔(ت)
 (۳ ؎ ردالمحتار        کتاب الدعوٰی      داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴/ ۴۲۴)
تنویر الابصار وشرح مدقق دمشقی میں ہے:
(قال لابینۃ لی وطلب یمینہ فحلفہ القاضی ثم برھن) علی دعواہ بعد الیمین (قبل ذٰلک) البرھان عند الامام (منہ) وکذالو قال المدعی کل بینۃ اٰتی بھا فھی شہود زور،ثم برھن علی الحق قبل خانیۃ وبہ جزم فی السراج کما مر(وقیل لا) یقبل والاصح القبول لجواز النسیان ثم التذکرکما فی الدرواقرہ المصنف۱؎اھ مختصرا۔
ایک نے کہا کہ میرے پاس گواہ نہیں لہذا مدعی علیہ سے قسم لی جائے، تو قاضی نے قسم لے لی، پھر مدعی نے گواہی پیش کردی تو اس کی گواہ قبول کی جائے گی امام ابوحنیفہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے نزدیک، اور یونہی اگر مدعی نے کہا ہو کہ میں جو بھی گواہ پیش کرونگا وہ گواہ جھوٹے ہوں گے، پھر بعد میں مدعی نے اپنے حق میں گواہی پیش کردی تو مقبول ہوگی، خانیہ، اور اسی پر سراج میں جزم کیا ہے جیسا کہ گزرا ہے، بعض نے کہا یہ گواہی قبول نہ ہوگی، اور اصح یہ ہے کہ قبول ہوگی کیونکہ ہوسکتا ہے کہ بھول جانے کے بعد یاد آئی ہو یا پہلے علم نہ تھا اب گواہی کا علم ہوگیا ہو، جیسا کہ درر میں ہے، اور مصنف نے اسے ثابت مانا ہے اھ مختصرا۔(ت)
 (۱؎ درمختارشرح تنویر الابصار    کتاب الدعوٰی    مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۱۱۹)
حاشیہ علامہ طحطاوی میں ہے:
لان الشہادۃ تتعلق بالشہود ویجب علیہم اداؤھا ویاثم کاتمہا وھذاالقول منہ لایثبت زور العدل لانہ قبل الشہادۃ۲؎الخ۔
کیونکہ گواہی کا تعلق گواہوں سے ہے اور ان پر شہادت کا ادا کرنا واجب اور گواہی چھپانے والا گنہگار ہے، مدعی کے کہنے سے وہ جھوٹے نہ ہوگئے کیونکہ مدعی کی یہ بات شہادت کی ادائیگی سے قبل ہے الخ۔(ت)
 (۲؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار   کتاب الدعوٰی     دارالمعرفۃ بیروت    ۳/ ۳۰۰)
غرر میں ہے:
الاصح القبول۳؎
 (اصح قبول کرنا ہے۔ت)
 (۳؎ الدررالحکام شرح غرر الاحکام   کتاب الدعوٰی   نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ۲/ ۳۳۷)
درر میں ہے:
لجواز ان یکون لہ بینۃ او شہادۃ فنسیھا ثم ذکرھا اوکان لایعلمھاثم علمہا۴؎۔
ہوسکتا ہے کہ فی الواقع گواہی تھی تو وہ بھول گیا اور اب یا دآگئی، یا علم نہ تھا اب معلوم ہوگیا(ت)
 (۴؎الدررالحکام شرح غرر الاحکام   کتاب الدعوٰی      نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ۲/ ۳۳۷)
جامع الفصولین برمزفقظ ہے:
وکذا لوقال کل بینۃ اٰتی بھا فھی زورثم اتی اوقال کل شہادۃ یشھد لی فلان وفلان فھی کذب ثم شہدا۱؎۔
یونہی اگر مدعی نے کہہ دیا کہ جو بھی شہادت پیش کروں وہ جھوٹی ہے یا یوں کہا فلان فلاں کی ہر شہادت میرے حق میں جھوٹ ہے اس کے گواہوں نے شہادت دی مقبول ہوگی۔(ت)
(۱؎ جامع الفصولین     الفصل العاشر    اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۱۲۶)
Flag Counter