Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
34 - 151
دوم ثبوت عندالقاضی جس طرح شہادت اصل عقد سے ہوتا ہے یعنی گواہ کہیں ان دونوں نے ہمارے سامنے خریدم وفروختم کہا، یونہی شہادت اقرار سے بھی کہ گواہ کہیں ہماے سامنے اس نے اقرار بیع کیا، 

جامع الفصولین فصل۱۱میں برمز"می "منتقی الامام الحاکم الشہید سے ہے:
ادعی بیعاو شھدا انہ اقربالبیع  تقبل۱؎۔(ملتقطا)
ایک شخص نے بیع کا دعوٰی کیا اور دو گواہوں نے اس کے بیع کے اقرار پر شہادت دی تو شہادت قبول ہوگی۔(ملتقطا)۔(ت)
(۱؎ جامع الفصولین    الفصل الحادی عشر    اسلامی کتب خانہ پشاور    ۱/ ۱۶۴)
یوں ہی شہادت مختلطہ سے بھی یعنی ایک گواہ عقد بیع پر شہادت دے اور دوسرا اقرار بیع پر، بیع ثابت ہوجائے گی، 

جامع الفصولین میں برمز فقظ فتاوٰی امام قاضی ظہیر سے ہے:
فی البیع والاجارۃ والصلح لو شھد احدھما بعقد والاٰخر باقرارہ بہ لایضر۲؎۔
بیع، اجارہ اورصلح کے معاملات میں ایک نے شہادت دی کہ عقد کیا ہے دوسرے نے اقرار کی شہادت دی تو یہ اختلاف مضر نہیں۔(ت)
 (۲؎ جامع الفصولین    الفصل الحادی عشر    اسلامی کتب خانہ پشاور    ۱/ ۱۶۳)
اسی میں برمز لبس مبسوط سے ہے:
ادعی شراء وشھدااحدھما بہ والاٰخر انہ اقربہ تقبل۳؎۔
مدعی نے خریداری کا دعوٰی کیا، ایک گواہ نے خریدنے کی اور دوسرے نے خرید کرنے کے اقرار کی شہادت دی تو مقبول ہوگی۔(ت)
 (۳؎ جامع الفصولین    الفصل الحادی عشر    اسلامی کتب خانہ پشاور    ۱/ ۱۶۴)
اسی میں برمزلط لطائف الاشارات سے ہے:
شھدبنحوبیع والاٰخر باقرارہ بہ تقبل۴؎۔
ایک نے بیع کی اور دوسرے نے اس بیع کے اقرار کی شہادت دی تو مقبول ہوگی۔(ت)
 (۴؎ جامع الفصولین    الفصل الحادی عشر    اسلامی کتب خانہ پشاور    ۱/ ۱۶۴)
اسی میں ہے:
ادعی الشراء وشھداحدھما ببیع وشھدالاٰخر''کہ بائع ازومہ ثمنش طلب کرد'' تقبل لان طلب الثمن اقرار منہ بالبیع۱؎۔
مدعی نے خریداری کا دعوٰی کیا، ایک نے فروخت کرنے اور دوسرے نے یہ شہادت دی کہ بائع نے اس مشتری سے قیمت طلب کی ہے شہادت مقبول ہوگی کیونکہ قیمت طلب کرنا فروخت کرنے کا اقرار ہے۔(ت)
(۱؎ جامع الفصولین     الفصل الحادی عشر    اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۱۶۶)
یہاں سے ثابت ہوا کہ شہادت اقرارکے بعد شہاد ت ایجاب وقبول کی اصلاً حاجت نہیں ولہذا تنہا اقرار کی گواہی کافی ہوجاتی ہے ولہذا ایک گواہ اقرار کے ساتھ ایجاب وقبول کی ایک ہی شہادت کافی ہے حالانکہ نفس عقد پر صورت اولٰی میں شہادت اصلاً نہیں، اور صورت ثانیہ میں نصاب ناتمام اور جب شہادت اقرار کے ساتھ نفس عقدکی تفتیش ہی نہ رہی تو آفتاب کی طرح روشن ہوا کہ اس کے ہوتے حاکم کو اس بحث کی کچھ گنجائش نہیں کہ مشتری کے لفظ تو معلوم ہی نہ ہوئے یا بیان اس مجلس میں نہ تھا یا اس کا کلام انشائے قبول نہ تھا اخبار تھا، یہ تحقیقات تو نفس ایجاب وقبول سے متعلق تھی جب شہادت اقرار بائع کی نسبت ہے بیع ثابت ہوگئی الفاظ مشتری یا اتحادوتعدد مجلس سے کیا بحث رہی۔
سوم املایعنی عبارت بتاتے جانا اور دوسرے سے لکھوانا اپنے لکھنے سے کسی طرح کم نہیں بلکہ اس سے اقوی ہے، علماء فرماتے ہیں کتابت تین قسم ہے:ایک نامعلوم جیسے ہو ایاپانی پر لکھنا، یہ محض باطل ہے دوسری مرسوم یعنی طریقہ معہودہ معروفہ پر لکھنا، جس طرح خطوط میں القاب وآداب سے آغاز یا تمسکات میں منکہ فلاں بن فلاں سے شروع، یہ ضرور معتبر ہے۔ تیسری معلوم غیر مرسوم جیسے کاغذ پر وہ تحریر کہ طریقہ معہودہ پر نہ ہو اس کے ساتھ جب تک نیت یادلیل نیت نہ پائی جائے معتبر نہیں، دلیل نیت مثلاً لکھ کر گواہ کرنا یا عبارت بتابتا کر دوسرے سےلکھوانا کہ قول راجح میں اس کے بعد گواہ کرنے کی حاجت نہیں تو ثابت ہوا کہ عبارت بتاکر لکھوانا اپنے لکھنے سے قوی تر ہے کہ غیر مرسوم طور پر خود لکھے اور گواہ نہ کرے تو معتبر نہیں اور دوسرے سے لکھوائے تو بے گواہ کئے معتبر ہے۔

عقود الدریہ میں ہے:
فی الزیلعی والملتقی اٰخر الکتاب فی مسائل شتی قالواالکتاب علٰی ثلث مراتب، مستبین مرسوم وھو ان یکون معنوناای مصدرابالعنوان وھو ان یکتب فی صدرہ من فلان الٰی فلان علی ماجرت بہ العادۃ فھذاکالنطق فلزم حجۃ، ومستبین غیر مرسوم کالکتابۃ علی الجدران واوراق الاشجار وعلی الکاغذ لاعلی الوجہ المعتاد فلایکون حجۃ الابانضمام شیئ اٰخر الیہ کالنیۃ والاشہاد علیہ والاملاء علی الغیر حتی یکتبہ لان الکتابۃ قد تکون للتجربۃ ونحوھا وبھذہ الاشیاء تتعین الجھۃ وقیل الاملاء بلااشھاد لایکون حجۃ والاول اظہر، وغیرمستبین کالکتابۃ علی الھواء والماء وھو بمنزلۃ کلام غیر مسموع ولایثبت بہ شیئ من الاحکام وان نوی اھ ومثلہ فی الھدایۃ وفتاوی قاضی خان۱؎۔
زیلعی اور ملتقی مسائل شتی کے آخر میں ہے، فقہاء کرام نے فرمایا تحریر تین مراتب پر ہے، ایک یہ کہ واضح معنون ہو وہ یہ کہ اس کے شروع میں یہ عنوان ہو کہ فلاں سے فلاں کی طرف جیسا کہ چٹھی میں طریقہ مروجہ ہے، یہ چٹھی بالکل زبانی گفتگو کی طرح حجت ہے، دوسری واضح غیر معنون جیسا کہ کسی دیوار پر، درخت کے پتوں یا عام کاغذ پر غیر مروجہ طریقہ پر لکھی گئی ہو یہ کسی دوسری چیز کی مدد کے بغیر حجت نہ ہوگی مثلاً نیت یا گواہی یا دوسرے کو املاء کئے بغیرحجت نہ بنے گی کیونکہ ایسی تحریر کبھی تجربہ کے لئے ہوتی ہے لہذا مذکور قرائن سے اس کی وجہ متعین ہوسکے گی، بعض نے کہا ہے کہ املاء کی صورت میں جب تک گواہی نہ ہو حجت نہ بنے گی لیکن اول قول درست اوراظہر ہے تیسری وہ کہ واضح نہ ہو جیساکہ ہو ااور پانی پر تحریر ہو تو اس کی حیثیت غیر مسموع کلام جیسی ہے اس سے کوئی حکم ثابت نہ ہوسکے گااگرچہ نیت بھی کی ہو اھ، ھدایہ اور فتاوی قاضی خان میں بھی ایسے ہی ہے۔(ت)
(۱؎ العقود الدریۃ    کتاب الدعوٰی     ارگ بازار قندھار افغانستان    ۲/ ۱۹)
چہارم بیع نام ایجاب وقبول کا ہے اور وہ جب الفاظ میں ہو خود گفتگو ہے اور کسی شے کی گفتگو بمعنی اس چیز کی بات چیت اور مشورے اور قرار کے بھی مستعمل مثلاً کسی کے نکاح کا مشہور ہوا ہو تو اس سے کہیں آج تمہارے بیاہ کی گفتگو تھی اس کے یہ معنی نہیں کہ ایجاب قبول ہوگیا بلکہ وہ مشورہ اور بات چیت مراد ہے تو لفظ گفتگوئے بیع دو معنی کو محتمل، اول اضافت بیانیہ یعنی وہ گفتگو کہ بیع ہے، اس تقدیر پر اس سے مقصود نفس ایجاب وقبول ہوگا۔ دوم اضافت لامیہ یعنی بیع کا مشورہ اور اس کی بات چیت، اس تقدیر پر ہرگز اس کے معنی ایجاب وقبول نہیں بلکہ پیش از عقد اس کے باب میں مکالمہ باہمی، وھذا ظاہر جدا(اوریہ خوب ظاہر ہے۔ت)

پنجم جب کسی معاملے کے متعلق کوئی شہادت پیش ہو اور حاکم اسے ایک امر میں قبول کرلے تو اسی مقدمہ کے متعلق کسی دوسرے امر میں بھی اسے رد نہیں کرسکتا سوا بعض صورت اسستثناء کے، نہ کہ خاص اسی امر میں کہ یہ تو حاکم کا صریح تناقض ہوگا۔

درمختا رمیں ہے:
الشہادۃ اذابطلت فی البعض بطلت فی الکل الافی عبد بین مسلم ونصرانی فشہد نصرانیان علیہما بالعتق قبلت فی حق النصرانی فقط اشباہ قلت وزاد محشیہا خمسۃ اخری معزیۃ للبزازیۃ۱؎۔
شہادت جب بعض حصہ میں باطل ہو تو کل میں باطل قرار پاتی ہے مگر ایک صورت میں کہ مسلمان اور نصرانی کا مشترکہ غلام ہو تو دو نصرانیوں نے شہادت دی کہ دونوں مالکوں نے اسے آزاد کردیا ہے، یہ شہادت صرف نصرانی مالک کے حصہ میں مقبول ہے، میں کہتاہوں کہ محشی نے ایسی مزید پانچ صورتوں کااضافہ کیا ہے اور یہ بزازیہ کی طرف منسوب ہیں۔(ت)
 (۱؎ درمختار     کتاب الشہادۃ     باب القبول وعدمہ    مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۹۸)
ردالمحتار وغیرہ میں ان صور استثناء کا مفصل بیان ہے جنہیں اس مقدمہ سے کوئی تعلق نہیں ،
اقول: واذا ثبت ان الشہادۃ اذابطلت فی البعض بطلت فی الکل لزمہ انھا اذاقبلت فی البعض قبلت فی الکل والالبطلت فی البعض فبطلت فی الکل مع انھا قد قبلت فی البعض ھذا خلف فاحفظہ فانہ فائدۃ جلیلۃ مھمۃ۔
اقول: (میں کہتا ہوں) جب ثابت ہے کہ بعض میں باطل کل میں باطل ہوجاتی ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ شہادت بعض میں مقبول ہوتو کل میں مقبول ہوجائے ورنہ بعض میں باطل ہونے سے کل میں باطل ہوجائے گی حالانکہ بعض میں مقبول ہوچکی ہے تو کل میں باطل ہونا متحقق نہ ہوا، یہ مفروض کے خلاف ہے، اس کو محفوظ کرلوکیونکہ یہ فائدہ جلیلہ ہے۔(ت)

ششم غیر ثقہ اہل شہادت ہے اور شہادت فاسق مقبول نہ ہونے کے یہ معنی کہ اس کی شہادت کا قبول واجب نہیں، نہ یہ کہ صحیح ہی نہیں، یہاں تک کہ اگر حاکم صریح فاسقوں کی شہادت قبول کرلے تو وہ بھی مقبول ہوجائے گی اگرچہ حاکم اس قبول کے باعث آثم ہو۔ 

بحرالرائق ودرمختار میں ہے:
والنظم للدر باب القبول وعدمہ ای من یجب علی القاضی قبول شہادتہ ومن لایجب لامن یصح قبولہا اولایصح لصحۃ الفاسق مثلا کما حققہ المصنف تبعا لیعقوب باشا وغیرہ۱؎۔
الفاظ در کے ہیں ، باب القبول وعدمہ، یعنی کس کی شہادت کو قبول کرنا قاضی پر واجب ہے اور کس کو قبول کرنا واجب نہیں، یہ مطلب نہیں کہ کس کو قبول کرنا صحیح ہے یانہیں، کیونکہ مثلاً فاسق کی شہادت قبول کرنا صحیح ہے جیساکہ مصنف نے یعقوب پاشا وغیرہ کی اتباع میں محقق کیا ہے۔(ت)
 (۱؎ درمختار    کتاب الشہادۃ     باب القبول وعدمہ    مطبع مجتبائی دہلی    ۲/ ۹۳)
درروغرر میں ہے:
لو قبل القاضی وحکم بھا کان اٰثما لکنہ ینفذ وفی الفتاوی القاعدیۃ ھذااذا غلب علی ظنہ صدقہ وھو مما یحفظ۲؎۔
اگر قاضی نے فاسق کی شہادت قبول کرکے فیصلہ دے دیا تو نافذ ہوجائے گا لیکن قاضی گنہگار ہوگا۔ فتاوٰی قاعدیہ میں ہے یہ تب ہوگا جب قاضی کو ظن غالب ہو کہ فاسق سچا ہے، یہ محفوظ کرنے کے قابل ہے۔(ت)
 (۲؎ الدررالحکام شرح غرر الاحکام    کتاب القضاء     نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ۲ /۴۰۴)
تنویر الابصار وجامع البحار وشرح علائی کتاب القضاء میں ہے:
اھلہ اھل الشہادۃ والفاسق اھلہا فیکون اھلہ لکنہ لایقلد وجوبا ویاثم مقلدہ کقابل شہادتہ،بہ یفتی وقیدہ فی القاعدیۃ بما اذاغلب علی ظنہ صدقہ فلیحفظ درر۳؎اھ ملتقطا۔
قضاء کا اہل وہی ہے جو شہادت کا اہل ہو اور فاسق شہادت کا اہل ہے لہذا وہ قضاء کا اہل ہے لیکن اس کو قضاء پر مقرر نہ کیا جائے اس کو قضاء پر مقرر کرنے والا گنہگار ہوگا، جیساکہ اس کی شہادت قبول کرنے والا گنہ گار ہوگا، اسی پر فتوٰی دیا جائے، اور فتاوٰی قاعدیہ میں اس کو قاضی کے ظن غالب سے مقید کیا ہے کہ فاسق کی شہادت صدق پر مبنی ہے، اس کو محفوظ کرو، درر، اھ ملتقطا۔(ت)
 (۳؎ درمختار شرح تنویر الابصار    کتاب القضاء    مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۷۱)
Flag Counter