Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
33 - 151
مسئلہ۵۳: ازریاست رامپور محلہ مدرسہ مولوی حکیم نجم الغنی خاں صاحب طبیب شفاخانہ فوجی ریاست رامپور ۱۶/رجب ۱۳۱۶ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ یعقوب علی خاں نے اپنے برادر عینی عبدالغنی خاں اور ان کی زوجہ وپسر محمدی بیگم ونجم الغنی خاں پر حاکم شرع کے حضور نسبت مکان مسکونہ مدعا علیہم دعوی دخلیابی بریں بنادائر کیا کہ یہ مکان عبدالغنی خان نے ۱۹/مئی ۱۸۹۷ء کوعلی محمد خان کے ہاتھ بیع کیا پھر یکم جون ۱۸۹۷ء کو اس سے کرایہ پر لیا بعدہ علی محمد خان مالک مشتری نے ۱۳/جولائی ۱۸۹۸ء کو میرے ہاتھ بیچا عبدالغنی خان اصالۃً اور انکی زوجہ وپسر بالتبع بذریعہ کرایہ قابض اب تخلیہ نہیں کرتے عبدالغنی خان نے دعوی مدعی قبول کیا اور علی محمد خان نے بھی اس کی تصدیق کی محمد بیگم ونجم الغنی خان نے جواب دیا کہ دعوٰی بہ ساز ش عبدالغنی خاں برادر حقیقی مدعی دائر ہوا ہے عبدالغنی خاں نے یہ مکان یکم جنوری ۹۷ء کو مجھ محمدی بیگم کے ہاتھ تین سو روپے کو بیچ کر بیعنامہ مہری اپنا مرتب بگواہی گواہان کرکے مجھے حوالہ کردیا اور زر ثمن میرے مہر میں مجرا کیا مجھے مالک مستقل بناکر قابض کرادیا جب مجھے معلوم ہوا کہ بیعنامہ غیر مصدقہ رجسٹری ہے تو میرے اعتراض پر رجسٹری کرادینے کا وعدہ کیا اور لطائف الحیل میں رکھا پھر کہہ دیا ہمارا تمہارا معاملہ زن وشوکا ہے تصدیق کی کیا ضرورت، پھر خارجاً اس بیع فرضی کی کارروائی کی، محمدی بیگم نے اپنے ثبوت میں بیعنامہ مذکور مہری عبدالغنی خان اور آٹھ مرد دو عورتیں گواہ پیش کئے حاکم مجوز نے حسب سرکلر مجریہ نواب خالد آشیاں کے جس کاغذ بے رجسٹری کے ثبوت پر وجہ وجیہہ گزرجائے تو اسے ثبوت میں لینے اور باضابطہ تحقیقات کرنے کی نسبت حکام بالا سے اجازت لے کر بعد تحقیقات فیس اسٹامپ وتاوان رجسٹری لے کر مثل کاغذات مصدقہ سمجھا جائے حاکم مجوز نے بعد سماع ثبوت اجازت تحقیقات مزید حاصل کی پھر بعد مزید تحقیقات فیس اور تاوان لے لیا، یہ ثبوت و تحقیقات انہیں گواہان پیش کردہ محمدی بیگم سے ہوئے ان میں سید حشمت علی ویوسف علی خاں صاحبان شہود ایجاب و قبول ہیں کہ ہمارے سامنے عبدالغنی خاں نے اپنی زوجہ محمدی بیگم سے کہا یہ مکان میں نے تمہارے ہاتھ تین سو روپے کو بیچا اور زر ثمن تمہارے مہر میں مجرا کیا بیعنامہ دو چارروز میں لکھا دوں گا محمدی بیگم نے کہا میں نے سید اشرف علی کاتب بیعنامہ اور شمس الدین خاں غلام محی الدین خاں نثار علی شاہ عبدالرزاق خان پانچوں گواہان حاشیہ بیعنامہ ہیں، ان میں کاتب کا بیان ہے میں نے یہ بیعنامہ عبدالغنی خان کے کہنے سے لکھا، عبارت عبدالغنی خاں بتاتے گئے مہر اپنی انہوں نے اپنے ہاتھ سے لگائی، عبدالرزاق خان نے کہا میں مولوی عبدالغنی خان کے بیٹے سے ملنے گیا مولوی عبدالغنی خان نے مکان متنازعہ کاکاغذ نکالا اورکہا کہ یہ مکان میں نے اپنی زوجہ محمدی بیگم کے ہاتھ تین سو روپے کو بیچا ہے تم اس پر اپنی گواہی لکھ دو میں نے لکھ دی ان کے علاوہ باقر حسین ومنور بیگم وفرخندہ بیگم وفرزندہ بیگم نے شہادت دی۔ حاکم مجوز نے اس پر یہ تجویز صادرفرمائی کہ بیع بنام محمدی بیگم اس بیع نامہ سادہ سے ثابت نہیں، نہ شرعاً نہ ضابطۃً نہ عقلاً۔

شرعاً بدیں وجہ کہ مدار ثبوت بیع قولی مجلس واحدمیں وجود ایجاب وقبول پر ہے عدالت نے خود اظہار محمدی بیگم لیا جس میں اس نے بیان کیا کہ یہ مکان شوہر مظہرہ نے بمعاوضہ سہ صد روپیہ منجملہ مہر مظہرہ بیع کرکے کاغذ میرے حوالہ کیا کاغذ بعد گفتگوئے بیع لکھا گیا گفتگوئے بیع یہ ہوئی تھی بائع نے کہا میں کاغذ بیعنامہ تمہیں لکھوائے دیتا ہوں، میں نے کہاآمین، وقت گفتگوئے بیع اور لانے بیعنامہ کے کوئی نہ تھا صرف میرا خاوند اور میں تھی، اولاً صرف یہ کہنا بائع کا کہ بیعنامہ لکھوائے دیتا ہوں، وعدہ ہے نہ ایجاب، بالفرض ایجاب بھی ہوتا تو تعیین ثمن ایجاب وقبول میں ضرور ہے وہ یہاں مفقود۔ دوم گواہی یوسف علی خان وسید حشمت علی صریح زوری ومصنوعی خلاف بیان مدعا علیہاہے یہ صاف صاف اپنے سامنے ایجاب وقبول ہونا بیان کرتے ہیں اور مدعا علیہا  لکھا چکی کہ وقت گفتگوئے بیع کوئی نہ تھا اور گفتگوئے بیع وہ تھی،غلام محی الدین خان لکھاتا ہے بائع نے سقف مکان مبیعہ پر مجھ سے کہا تھا کہ میں نے اپنا مکان بقیمت سہ صد روپیہ بدست محمدی بیگم بیچاہے میں نے زیر سقف نزد محمدی بیگم آکر دریافت کیا تو مسماۃ نے کہامیں نے یہ مکان بقیمت سا/خریدا ہے تم گواہی کردو، اگر عدالت کلام بائع کو جو بالائے سقف کہا ایجاب قرار دیتی ہے تو قبول مدعا علیہا نے زیر سقف ظاہرکیا ہے مجلس مغائر ہے اودر وہ موجب بطلان وعدم انعقاد بیع ہے۔ شمس الدین خاں لکھاتا ہے بائع نے بالائے سقف کہا میں نے یہ مکان بدست محمدی بیگم فروخت کیا ہے تم بھی گواہی کردو، پھر مظہرمحمدی بیگم کے پاس آیا اور مبارکی دی، محمدی بیگم نے کہا ہاں پرسوں میرے زوج نے یہ مکان میرے ہاتھ بیچا ہے اگر قول بائع کو ایجاب مان لیاجائے تو قبول ندارد کہ محمدی بیگم نے اپنے خریدنے سے خبردی ہے جس سے پایا جاتا ہے کہ بیع پہلے ہوئی، شرف علی کاتب نے صرف کتابت بیعنامہ یعنی اپنے فعل پر گواہی دی ہے ایسی گواہی جائز نہیں۔ باقرحسین گواہ صرف اقرارکاہے بوجہ واحد ہونے کے نصاب نہیں، علاوہ برآں جملہ گواہ رجال غیر ثقہ غیرمعتمد ہیں کوئی قرینہ صداقت شہادت نہیں، نہ بیعنامہ رجسٹر، نہ برکاغذ اشٹام، نہ محررہ بقلم بائع، نہ دستخط اس کے، نہ گواہی کسی اہل محلہ کی۔ فرخندہ بیگم نواسی مدعا علیہا کی گواہی بحق نانی غیر مقبول کہے، نثار علی شاہ صریح نامقبول الشہادۃ کہ باقرار خود داڑھی مونچھ چودہ سال سے صفارکھتا ہے۔

ضابطۃً اس بناء پر کہ اس زمانہ فتنہ میں بلحاظ سد باب زور سرکار نے دستور العمل مرتب فرمادیا ہے جس میں پیش از تقرر کونسل زیادہ دس روپے سے ہونا رجسٹری انتقالات قطعی جائداد غیر منقول لازمی تھا زمانہ کونسل میں زائد ازپنجاہ روپیہ لازمی رکھ کر بہت سے قیود اسٹامپ وغیرہ بڑھادئے گئے بلحاظ پابندی دستور العمل و جدید بیعنامہ سادہ عندالعدالت ساقط الاعتبار ہے خاصۃً ایسے محل پر کہ حسب تحریرمدعاعلیہا بائع آدم فریبی وجعلساز ہے، مانا کہ عدالت نے اسٹامپ وفیس لے لیا ہے مگر مقصود سوااس کے نہ تھا کہ عدالت انکشاف اصلیت معاملہ کرکے عذر کسی کا باقی نہ رکھے۔

عقلاً حالت اشتباہی بیعنامہ ظاہر ہے بائع لکھا پڑھا آدمی ہے، نہ اس کے قلم کی تحریر، نہ دستخط، نہ اہل محلہ یا عزیز واقارب کی شہادت، نہ اسٹامپ، نہ وثائق نویس رجسٹری کا لکھا ہوا، حدود جنوبی وشمالی مشکوک، مہر عرفاً محفوظ نہیں رہتی جس کا دستیاب ہونا اہل خانہ کو دشوار ہو، جس حالت میں بیع مدعا علیہا ثبوت کو نہ پہنچی اس بناء پر اول مدعا علیہا کو کوئی منصب اعتراض کا بیعنامہ رجسٹری شدہ موسومہ مدعی وبائع مدعی پر نہیں۔دوم ہر دو بیعنامہ مدخلہ مدعی رجسٹری شدہ وباضابطہ نہیں۔ سوم بائع کو ہر دو بیع مظہرہ مدعی مسلم ومقبول ہیں۔ لہذا حکم ہوا کہ فیصلہ بحق مدعی ہوکر خرچہ مدعی ذمہ محمدی بیگم ونجم الغنی خاں عائد ہو فقط۔ اب علمائے شرع سے استفسار ہے کہ شرعاً اس صورت میں حکم کیا ہے شہادات پیش کردہ محمدی بیگم بوجوہ مذکورہ مردود ہیں یا نہیں، شہود پر نہ کوئی جرح لی گئی نہ وہ مجروح ہیں، ایسی حالت میں انہیں بلاثبوت غیر ثقہ وغیر معتمد قرار دینا کیساہے۔ عبدالرزاق خاں کا ذکر تجویز میں اصلاً نہ فرمایا گیا جس کے ملاحظہ کے بعد باقر حسین تنہا گواہ اقرار نہیں ثبوت بیع کیلئے خاص ایجاب وقبول پر شہادت گزرناضرور ہے یا اقرار بائع کا ثبوت بھی کافی، اور بر تقدیر ثبوت اقرار یہاں فیصلہ شرعاً بحق یعقوب علی خاں ہونا چاہئے یا بحق محمدی بیگم؟بینواتوجروا۔
الجواب

اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔طالب حق یہاں چند امر ملحوظ رکھے کہ باذنہ تعالٰی وضوح حکم میں دقت نہ رہے،

اول ثبوت بیع کے دو معنی ہیں:ثبوت فی نفسہ یعنی بیع فی الواقع کا موجود ومنعقد ہونا، اور ثبوت عندالقاضی یعنی حاکم کے نزدیک اس کا پایہ ثبوت کو پہنچنا۔ ثبوت فی نفسہ نہ صرف بیع قولی بلکہ ہر بیع کا قولی ہو یا فعلی وجوہ ایجاب وقبول پر موقوف ہے کہ وہ ارکان عقد ہیں اور کوئی عقد بے اپنے رکن کے متحقق نہیں ہوسکتا ہاں ایجاب وقبول اس سے عام ہیں کہ قولاً ہوں یا فعلاً، صراحۃً ہوں یا دلالۃً عبارۃً ہوں یا اقتضاءًہوں خطاباًیا کتاباً، غرض کوئی قول کوئی فعل طرفین سے ایسا ہونا چاہئے جو باہم مبادلہ مال بالمال کی تراضی پر دلیل ہو کہ ان عقود میں معنی ہی  اعتبار کا ہے زبانی تلفظ پر مدار نہیں ، ولہذا علماء تصریح فرماتے ہیں کہ بیع جس طرح "بعت اشتریت" کہنے سے ہوجاتی ہے یونہی تحریر سے بھی کہ قلم بھی ایک زبان ہے۔

اشباہ میں ہے:
الکتابۃ یصح البیع بہا قال فی الھدایۃ والکتاب کالخطاب۱؎۔
تحریری بیع صحیح ہے جس کو ہدایہ نے بیان کیا، اور تحریر زبانی خطاب کی طرح ہے(ت)
 (۱؎ الاشباہ والنظائر     الفن الثالث         احکام الکتابۃ    ادارۃ القرآن کراچی     ۲/ ۱۹۶)
ولہذافرماتے ہیں تعاطی سے بھی ہوجاتی ہے جہاں نہ تقریر نہ تحریر، ایک تھان رکھاہے بزاز سے پوچھا قیمت کیا ہے؟کہا دس روپے، اس نے روپے رکھ کر تھان اٹھالیا، اس نے روپے لے لئے بیع ہوگئی اگرچہ نہ بزاز نے فروختم کہا نہ اس نے خریدم۔

ہدایہ میں ہے:
المعنی ھوالمعتبر فی ھذہ العقود لھذا ینعقد بالتعاطی فی النفیس والخسیس ھوالصحیح لتحقق المراضاۃ۲؎۔
ان عقود میں معنی معتبرہوتا ہے لہذا دستی ادل بدل سے اعلٰی اور ادنٰی چیز میں بیع منعقد ہوجاتی ہے کیونکہ فریقین کی رضامندی پائی گئی ہے۔(ت)
 (۲؎ الہدایہ    کتاب البیوع     مطبع یوسفی لکھنؤ    ۳/ ۲۵۔۲۴)
اور شک نہیں دستاویز بیعنامہ بطور مرسوم ومعہود لکھ کر گواہیاں کراکر مشتری کو حوالہ کرنا اور اس کابخوشی لے لینا قطعاً دلیل تراضی ہے۔ عندالانصاف اسی قدر تحقق ایجاب وقبول کےلئے کافی ہے اگرچہ اس سے پہلے زبانی گفتگو صرف اسی قدر آئی ہو کہ اس نے کہا میں بیعنامہ تمہیں لکھواکردیتا ہوں، اس نے کہاآمین کہ یہاں تک اگرچہ صرف وعدو پسند تھا مگر بیعنامہ بطور مذکور لکھواکر دینا لینا دلیل تراضی ہوکر ایجاب و قبول ہوگیا جس طرح شائع وذائع ہے کہ والدین کوئی جائداد اپنے روپے سے خرید کر بیعنامہ اپنے کسی بچے کے نام لکھواتے ہیں تمام عالم جانتا ہے کہ اس سے مقصود اس کی تملیک ہی ہوتی ہے اور وہ جائداد اسی بچے کی ٹھہرتی ہے اگرچہ زبان پر ہبہ کا حرف بھی نہ آیا۔
احکام الصغار استرو شنی میں ذخیرہ وتجنیس سے ہے:
امرأۃ اشترت ضیعۃ لولدھا الصغیر من مالہا وقع الشراء للام لانہا لاتملک الشراء للولد وتکون الضیعۃ للولد لانہا تصیر واھبۃ والام تملک ذٰلک ویقع قبضھا عنہ۳؎۔
ایک عورت نے اپنے مال سے نابالغ بیٹے کےلئے زمین خریدی، یہ خریداری والدہ کی ہوگی کیونکہ وہ نابالغ بیٹے کےلئے خریدار نہیں ہوسکتی اور یہ زمین بیٹے کی ہوگی کیونکہ ماں ہبہ کرنے والی ہوئی کیونکہ ماں کو ہبہ کاحق ہے اور پھر بیٹے کی طرف سے قبضہ لیا ہے۔(ت)
(۳؎ احکام الصغار علی ہامش جامع الفصولین     باب فی مسائل البیوع    اسلامی کتب خانہ کراچی۱/ ۱۸۷)
Flag Counter