Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
32 - 151
مسئلہ ۵۱: ازملک اپر برہمامانڈلہ زیجوبازار مرسلہ جناب مرزا غلام قادر بیگ صاحب۲۵ذی الحجہ ۱۳۱۵ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے اپنی جائداد اپنی زوجہ ہندہ کے قبضہ میں چھوڑی، بعد ازیں انتقال کیا، اور اپنی بہن کا نواسہ عمرواور زوجہ ہندہ کو چھوڑا بعد وفات زید کے جائداد متروکہ پر ہندہ قابض رہی، اب ہندہ نے وہ جائدا جو اس کے قبضہ میں تھی اس میں سے کچھ بنام خالد اپنے بھتیجے کو ہبہ کرکے دستاویز رجسٹری کرادی اور کچھ اپنی بہن زینب وفاطمہ اور کچھ کلثوم اپنی بہن متوفاۃ کی بیٹی کو اور دو بھتیجوں کو تقسیم کرکے ان کے نام رجسٹری کرادی، بعد اس کے ہندہ نے انتقال کیا، اب عمرو جائداد مذکورہ کا دعوٰی کرتا ہے شرعاً جائداد کس کو ملنا چاہئے۔بینواتوجروا۔
الجواب

اگر عمروعاقل بالغ اسی شہر میں موجود ہندہ کے ان تصرفات پر مطلع تھا اور دعوٰی نہ کیا اب بعد انتقال ہندہ مدعی ہوا تو یہ دعوٰی اصلاً قابل سماعت نہیں کہ ان تصرفوں پر مطلع ہوکر ساکت رہنا صریح دلیل ہے کہ عمرو کا جائداد میں کوئی حق نہ تھا،

 خلاصہ میں ہے :
رجل تصرف فی ارض زمانا ورجل اٰخریری تصرفہ فیہا ثم مات المتصرف ولم یدع الرجل حال حیاتہ لاتسمع دعواہ بعد وفاتہ۱؎۔
ایک شخص ایک زمانہ سے زمین میں تصرف کررہا ہے اور دوسرا شخص زمین میں اس کے تصرفات کو دیکھ رہاہے پھر تصرف کرنے والا فوت ہوا تو اب وفات کے بعد دوسرے نے زمین پر دعوٰی کیا تو اس کا دعوٰی مسموع نہ ہوگا کیونکہ اس کی زندگی میں دوسرے نے دعوٰی نہ کیا۔(ت)
(۱؎ العقود الدریۃ    بحوالہ الخلاصہ     کتاب الدعوٰی     ارگ بازار قندھار افغانستان    ۲ /۳)
عقود الدریہ میں ہے :
فی فتاوی المرحوم العلامۃ الغزی صاحب التنویر سئل عن رجل لہ بیت فی دار یسکنہ مدۃ تزید علی ثلث سنواۃ ولہ جاربجانبہ والرجل المذکور یتصرف فی البیت المزبور ھدما وعمارۃ مع اطلاع جارہ علی تصرف فی المدۃ المذکورۃ فہل اذاادعی البیت اوبعضہ تسمع دعواہ ام لا اجاب لاتسمع دعواہ علی ماعلیہ الفتوی۲؎۔
علامہ غزی صاحب تنویر کے فتاوٰی میں ہے ان سے سوال ہوا کہ ایک شخص کا حویلی میں مکان ہے وہاں وہ تین سال سے زائد عرصہ رہائش پذیر ہے اور وہ اپنے مکان میں توڑ پھوڑ اور مرمت کاکام کرتا رہا اس کے پڑوس والا شخص اس کے ان تصرفات کو دیکھتا رہا اور مدت مذکورہ میں خاموش رہنے کے باوجود اب اس مکان کے کل یا بعض پر دعوٰی کرے تو اس کا دعوٰی مسموع ہوگا یا نہیں؟ تو جواب میں فرمایا کہ فتوٰی کے مطابق اب اس کا دعوٰی مسموع نہ ہوگا۔(ت)
(۲؎ العقود الدریۃ     کتاب الدعوٰی        ارگ بازار قندھار افغانستان    ۲ /۴)
اوراگراس وقت تک بچہ یا مجنون یا غائب تھا اب عاقل بالغ ہو ایا اطلاع پائی تو اگر ثابت ہو کہ زید کی جائداد قبضہ ہندہ میں بطور ہبہ یا بعوض دین مہر تھا جب بھی دعوٰی عمرو نامقبول ہونا خود ظاہر، اوراگر اس کا ثبوت نہ ہو تو دیکھیں گے کہ دین مہر ہندہ ترکہ کو مستغرق یعنی اس کی قیمت سے زائد مساوی ہے یانہیں، اگر مستغرق ثابت ہو جب بھی عمرو کا اصل مبنائے دعوٰی عن ملک بذریعہ وراثت حاصل ہی تھا کہ دین جب ترکہ کو محیط ہو تو وارث اس کے مالک نہیں ہوتے نہ وہ اسے لے سکتے ہیں کل جائداد ادائے دین میں صرف کی جائیگی، 

اشباہ میں ہے :
الدین المستغرق للترکۃ یمنع ملک الوارث۳؎۔
میت پر قرضہ اس کے ترکہ کے برابر یا زائد ہو تو وارث کی ملکیت کےلئے مانع ہے(ت)
 (۳؎ الاشباہ والنظائر    الفن الثالث     القول فی الملک    ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی    ۲/ ۲۰۴)
ہاں اگر عمرو کہے کہ میں تمام وکمال دین مہر اپنے پاس سے اداکئے دیتا ہوں تو بیشک اسے اختیار ہوگا کہ دین ادا کرکے ترکہ چھڑالے۔

 اشباہ میں ہے :
للوارث استخلاص الترکۃ بقضاء الدین ولومستغرقا۱؎۔
وارث کو قرضہ ادا کرکے ترکہ کو حاصل کرلینے کا حق ہے اگرچہ وہ ترکہ قرضہ میں مستغرق ہو۔(ت)
 (۱؎ الاشباہ والنظائر     الفن الثالث     القول فی الملک    ادارۃ القرآن کراچی    ۲/ ۲۰۵)
اس صورت میں اور نیز جبکہ دین مستغرق نہ ہو بعدا دائے دین جو باقی بچے اس کے ثلث میں زید کی وصیت اگر اس نے کچھ کی ہو نافذ کرکے مابقی بر تقدیر عدم موانع ارث وانحصار ورثہ فی المذکورین چار سہم ہو کر ایک سہم ہندہ اورتین سہام عمرو کو ملیں گے ان تقدیرات پر جن میں کل جائداد مملوک ہندہ نہ ٹھہری جتنے ہبہ ہندہ نے جس جس کے نام کئے سب باطل ہوجائیں گے چہارم حصہ جو ہندہ کو پہنچا اس کے وارثان شرعی پر حسب فرائض تقسیم ہوجائیگا۔

 درمختار میں ہے :
الاستحقاق شیوع مقارن لاطارئ فیفسد الکل۲؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
غیرمنقسم حصوں کا استحقاق ابتداء سے مقارن ہو طاری نہ ہو تو تمام حصوں کو فاسد کردے گا۔واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
(۲؎ درمختار        کتاب الہبہ        مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۱۶۰)
مسئلہ۵۲: ازریاست رامپور     مرسلہ احمد خان صاحب    ۶/جمادی الآخرہ۱۳۱۶ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید مدعی ہوا کہ میں نے آٹھ ہزار روپے یا فتنی عمروکے میرے ذمے تھے عمرو کو پہنچادئے اور چند گواہ متفق اللفظ والمعنی حاکم کے حضور گزرائے جنہوں نے بالاتفاق رقم مذکور کی نسبت عمرو کے اقرار وصول کرنے پر شہادت دی زید نے اس رقم کی رسیدیں کبھی پیش کیں جن کی تحریرسے بھی عمرو کو اقرار ہے، عمرو اس کے جواب میں کہتا ہے کہ ان میں ایک رسید تین سوکی تو میں نے دی ہی نہیں اور دو رسیدیں ایک تین سو اور ایک دو سو چالیس کی زید نے چالاکی سے بڑھالی ہیں وہ سو اوریہ صرف چالیس کی میں نے دی تھی، اس مضمون پر عمرو نے چند گواہ دئے کہ یہ رسیدیں سو اور چالیس کی عمرو نے لکھی تھیں، اس صورت میں دفع دعوٰی زید کے لئے یہ گواہ مقبول ہیں یانہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب

صورت مسئولہ میں نہ عمرو کا یہ جواب مقبول نہ اس میں اس مضمون کی شہادت مسموع۔ شرع میں ایسی جگہ اقرار حجت شرعیہ ہے اور اس پر شہادت ثبوت دعوٰی کے لئے کافیہ وافیہ، 

جامع الفصولین فصل حادی عشر میں ہے :
لوادعی قضاء دینہ اشھداانہ اقربا ستیفائہ تقبل۱؎۔
اگر مدعی نے قرض ادا کرنے کا دعوٰی کیا ہو دو گواہوں نے یہ شہادت دی کہ مدعی نے قرض وصول کرلینے کا اقرار کیا ہے، تو شہادت مقبول ہوگی۔(ت)
(۱؎ جامع الفصولین     الفصل الحادی عشر     اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱ /۱۶۷)
بخلاف رسیدات کہ یہ کوئی حجت نہیں حاصل انکار عمرو یہ ہوگا کہ منجملہ آٹھ ہزار کے سات سو مجھے نہ ملے کہ اس قدر کی رسید میری لکھی ہوئی نہیں، ایسا فضول جواب بعد ثبوت اقرار کیا قابل التفات ہوسکتا ہے، بالفرض اگر ایک رسید کو بھی عمرو نہ مانتا یا اصلاً کوئی رسید ہوتی ہی نہیں تو ثبوت اقرار ثبوت ایصال کو بس تھا اور جب یہ جواب خود مہمل ہے تو اس پر شہادت بھی قطع نظر اس سے کہ معنی نفی پر شہادت ہے جس کا حاصل یہ کہ اتنے روپے نہ پہنچے خود فضول و مہمل ہے کہ یہ شہادت ایسی ہی چیز ہے جس کا وجود وعدم یکساں، تو بعد ثبوت حجت شرعیہ ایک امر غیر حجت میں خلل ہو بھی توکیا۔
فتاوٰی قاضیخان واشباہ والنظائر وفتاوٰی خیریہ و عقود الدریہ وغیرہاکتب کثیرہ میں ہے:
واللفظ للعلامۃ الرملی فی فتاوٰی المقرر عندعلماء الحنفیۃ انہ لااعتبار بمجرد الخط ولاالتفات الیہ حجج الشرع ثلثۃ وھی البینۃ اوالاقرار اوالنکول کما صرح بہ فی الاقرار الخانیۃ۲؎۔
فتاوٰی میں علامہ رملی کے الفاظ ہیں کہ علماء احناف کے ہاں یہ بات ثابت شدہ ہے کہ محض خط کا کوئی کااعتبار ہے نہ وہ قابل توجہ ہے کیونکہ شرعی دلائل تین ہیں:گواہی یا اقراریا قسم سے انکار، جیسا کہ خانیہ کے باب الاقرار میں تصریح ہے۔(ت)
(۲؎ فتاوٰی خیریہ    کتاب القضاء    دارالفکر بیروت    ۲ /۱۲)
اسی میں ہے :
القاضی لایقضی الابالحجۃ وھی البینۃ اوالاقرار اوالنکول کما فی اقرار الخانیۃ وقد نقلہ الشیخ زین فی اشباھہ ونظائرہ فی اول کتاب القضاء۱؂۔واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔
قاضی صرف حجت پر فیصلہ دے گا اور وہ صرف گواہی یا اقرار یا قسم سے انکار ہے جیساکہ خانیہ کے باب الاقرار میں ہے اور اس کو شیخ زین الدین نے اپنی اشباہ ونظائر میں کتاب القضاء کے شروع میں ذکر کیا ہے۔واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم(ت)
(۱؎ فتاوٰی خیریہ    کتاب القضاء    دارالفکر بیروت    ۲ /۱۹)
Flag Counter