Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
31 - 151
مسئلہ۴۹: ازریاست رامپور بزریا ملا ظریف گھر منشی عبدالرحمان خاں مرحوم مرسلہ عبدالرؤف خان ۱۳/ذیقعدہ ۱۳۱۵ ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک مکان زید نے خریدا، وقت خرید کے حد رابع کوچہ تھا، جب زید نے دعوٰی بنام عمرو کیا تو اسی حد رابع میں جو بیعنامہ میں کوچہ نافذہ لکھا تھا بموجب حد مندرج بیعنامہ کوچہ نافذہ لکھا گیا عمرو نے بھی اس کو مان لیا دوران مقدمہ میں زید کو معلوم ہواکہ قبل رجوع دعوٰی ہذا سے بکر نے کوچہ نافذہ کو بند کرلیا اپنا مکان بجائے حد مذکور بنالیا ہے زید نے ایک سوال پیش قاضی اسی مضمون کا باظہار اس کے کہ پہلے وقت شرا کے کوچہ تھا قبل رجوع دعوٰی سے بکر نے اسی حدمیں کوچہ بند کرکے اپنا مکان بنالیاہے وقت رجوع دعوٰی کے میں نے نہ دیکھا تھا اب دیکھا تو تبدیل حد مذکور کی ہوگئی ہے بصورت مذکورہ توفیق ہوگی یا نہیں اور اس توفیق سے دعوٰی زید قابل سماعت ہے یانہیں ؟بینواتوجروا(بیان کرو اجر دئے جاؤگے۔ت)
الجواب

ہاں اور دعوٰی میں کچھ خلل نہ رہا،
فی جامع الفصولین برمزشیخ الاسلام شمس الائمۃ السرخسی ان الشاھد لواخطاء فی بعض الحدثم تدارک واعادالشہادۃ واصاب قبلت شہادتہ لو امکن التوفیق سواء تدارک فی المجلس اوفی مجلس اٰخر ومعنی امکان التوفیق ان یقول کان صاحب الحد فلانا الاانہ باع دارہ من فلان اٰخر وما علمنا بہ او یقول کان صاحب الحد بھذا الاسم الاانہ سمی بعد ذٰلک بھٰذا الاسم الاٰخر وما علمنا بہ وعلی ھذا القیاس فافھم ھذااذا ترک الشاہد احدالحدود او غلط فیہ ولو ترک المدعی احد الحدود او غلط فیہ فحکمہ کالشاھد جملۃ۱؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
جامع الفصولین میں شیخ الاسلام سرخسی کی علامت دے کر کہا کہ اگر حد بندی کے بیان میں گواہ خطا کرے اور پھر خطا کاازالہ کرکے شہادت دے اور درستی کردے تو یہ شہادت مقبول ہوگی بشرطیکہ دونوں بیانوں میں موافقت ہوسکے خطا کا ازالہ اسی مجلس میں کردے یا کسی دوسری مجلس میں کردے، موافقت کا معنی یوں کہ حد بندی والا فلاں ہے ،کہہ کر، پھر کہے، مگر اس نے اپنا مکان دوسرے کو فروخت کیا جو فلاں ہے اور اس کا مجھے علم نہیں یوں کہ، حدود والے کا نام یہ ہے، پھر کہے،بعد میں اس کا یہ دوسرا نام بتایا گیا ہے اور مجھے علم نہیں ہے علٰی ہذاالقیاس، اس کو سمجھو، یہ گواہ کے متعلق ہے کہ وہ حدود میں سے کسی حد کا ذکرچھوڑدے یا غلطی کرے تو اگر مدعی حد بندی کے بیان میں ایسا کرے تو اس کا حکم بعینہ گواہ کی طرح کا ہوگا۔واﷲ تعالٰی اعلم۔(ت)
 (۱؎ جامع الفصولین     الفصل السابع فی تحدید العقار الخ    اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱ /۹۵)
مسئلہ۵۰: ازریاست رامپور    مرسلہ منابھائی    ۱۷/ذی الحجہ ۱۳۱۵ھ

صورت یہ ہے کہ زید کے مکان کے بالاخانوں کے ایک ہی سمت اور سلسلے میں بہت دریچے ہیں جن میں سے دو دریچے جدید ہیں اور باقی تمام قدیم، ہندہ کا مکان زید کے مکان کے مقابل کوئی ستر قدم کے فاصلے پر ہے اور ان دونوں مکانوں کے درمیان ایک وسیع شارع عام اور ایک کھنڈر واقع ہے۔ہندہ نے اس بناء پر کہ اس کے مکان کی بے پردگی ہوتی ہے منجملہ تمام دریچوں کے پانچ دریچے بند کرادینے یا ان کے سامنے دیوار قائم کرادینے کی نالش دائر کردی ان پانچ دریچوں میں سے دو جدید ہیں جن کا ذکر اوپر آچکا اور باقی قدیم چنانچہ فریقین کی شہادت سے یہ بات ثابت ہے اور درحقیقت اس بے پردگی کا باعث یہ ہے کہ ہندہ کاایک مکان جو مانع بے پردگی تھا باختیار ہندہ منہدم ہوگیا اور اب بے پردگی میں دریچہائے متنازع فیہا اور زید کے مکان کے دوسرے دریچے اور وہ لوگ جو بہ سواری اسپ وفیل وشتر وغیرہ شارع عام سے گزرتے ہیں سب برابر ہیں۔ زید ہندہ سے کہتا ہے کہ دریچے بند ہوجانے سے میرے ہزار ہا روپے کے مکانات غارت ہوجائیں گے اور تمہارا ہر طرح سے صرف دس بارہ گرہ دیوار بلند کرلینے سے پردہ ہوسکتا ہے اور اگر تمہیں بار ہو تو صرف بھی میں ہی دوں گا، اس صورت میں علمائے کرام سے سوال یہ ہے کہ آیا مطابق مذہب ائمہ حنفیہ ہندہ زید کو اپنی ملک میں تصرف سے مانع ہوسکتی ہے اور ہندہ دریچے بند کرادینے کی مستحق ہے۔جواب مدلل بنقل و روایات ہو۔
واﷲ لایضیع اجر المحسنین
(اﷲ تعالٰی نیکی والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ت)
الجواب

صورت مستفسرہ میں دعوی ہندہ باطل ونامسموع ہے، ائمہ حنفیہ رضی اﷲ تعالٰی عنہم کا اصل مذہب و ظاہر الروایۃ ومرجح ومصحح ومفتی بہ یہ ہے کہ انسان اپنی ملک میں تصرف کا مطلقاً اختیار رکھتا ہے دوسرا اپنے کسی نفع نقصان کی وجہ سے مالک کو اپنی ملک خاص مستقل میں کسی تصرف سے منع نہیں کرسکتا، خود محرر المذہب سیدنا امام محمد رضی اﷲ تعالٰی عنہ مبسوط میں کہ کتب ستہ ظاہر الروایۃ سے ہے، ارشاد فرماتے ہیں:
ان کف عما یوذی جارہ فہواحسن، ولایجبر علی ذٰلک ولو فتح صاحب البناء فی علوبنائہ بابااوکوۃ لم یکن لصاحب الساحۃ منعہ ولصاحب الساحۃ ان یبنی فی ملکہ مایستر جھتہ۱؎۔
اپنے پڑوسی کو تکلیف دہ امور نہ کرے تو اچھا ہے جبکہ اس پر اسے مجبور نہیں کیا جاسکتا، اگر مکان والے نے مکان کے اوپر دروازہ یا کھڑکی کسی کے صحن کی طرف کھولی تو صحن والے کو منع کا حق نہیں ہے تاہم اس کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی ملکیت میں عمار ت بناکر اس کی کھڑکی کو بند کردے۔(ت)
 (۱؎ فتح القدیر     بحوالہ مبسوط لامام محمد    کتاب القضاء مسائل شتی    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۶ /۴۱۴)

(خلاصۃ الفتاوٰی     کتاب الحیطان     مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ    ۴/ ۲۶۳)
وجیز امام شمس الائمہ کردری میں ہے :
الامام ظہیرالدین کان یفتی بجواب الروایۃ۱؎۔
   امام ظہیرالدین اس روایت پر فتوٰی دیا کرتے تھے۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی بزازیۃ علی ہامش الفتاوٰی الہندیۃ     کتاب الحیطان     نورانی کتب خانہ پشاور    ۶ /۴۱۴)
اسی میں ہے :
قال فی الفتاوٰی عن استاذنا انہ یفتی علی قول الامام۲؎۔
انہوں نے اپنے فتاوٰی میں فرمایا کہ ہمارے استاذ سے مروی ہے کہ امام صاحب رحمہ اﷲ تعالٰی کے اس قول پر فتوٰی دیاکرتے تھے۔(ت)
(۲؎فتاوٰی بزازیۃ علی ہامش الفتاوٰی الہندیۃ     کتاب الحیطان     نورانی کتب خانہ پشاور   ۶ /۴۱۸)
محقق علی الاطلاق فتح میں فرماتے ہیں:
الوجہ لظاہر الروایۃ۳؎
 (فتوٰی کی وجہ ظاہر الروایۃ ہے۔ت)
 (۳؎ فتح القدیر     کتاب القضاء     مسائل شتی        مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۶ /۴۱۴)
شرح تنویر الابصار میں ہے :
جواب ظاہر الروایۃ عدم المنع مطلقا وبہ افتی طائفۃ کالامام ظہیر الدین وابن الشحنۃ ووالدہ ورجحہ فی الفتح وفی قسمۃ المجتبی وبہ یفتی واعتمدہ المصنف ثمہ فقال وقد اختلف الافتاء وینبغی ان یعول علی ظاہر الروایۃ۴؎۔
ظاہر الروایۃ میں جواب کہ مطلقاً منع نہیں ہے، اسی پر ایک جماعت کا فتوٰی ہے، جیسا کہ امام ظہیرالدین، ابن شحنہ اور ان کے والد، اسی کو فتح میں ترجیح دی ہے، اور مجتبٰی کے باب القسمۃ میں ہے اور اس پر فتوٰی دیا جائے اور مصنف نے اسی پر اعتماد کرتے ہوئے وہاں فرمایا فتووں میں اختلاف ہے جبکہ ظاہر روایت پر اعتماد چاہئے۔(ت)
 (۴؎ درمختارشرح تنویر الابصار   کتاب القضاء     مسائل شتی    مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۸۶)
بحرالرائق میں ہے :
ذکر العلامۃ ابن الشحنۃ ان فی حفظہ ان المنقول عن ائمتنا الخمسۃ ابی حنیفۃ وابی یوسف ومحمد وزفر والحسن بن زیاد رضی اﷲ تعالٰی عنہم انہ لایمنع عن التصرف فی ملکہ وان اضربجارہ قال وھوالذی امیل الیہ واعتمدہ وافتی بہ تبعا لوالدی شیخ الاسلام رحمہ اﷲتعالٰی۱؎۔
علامہ ابن شحنہ نے فرمایامجھے یاد ہے کہ ہمارے پانچوں ائمہ ابوحنیفہ، ابویوسف، محمد، زفراور حسن بن زیاد رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے منقول ہے کہ اپنی ملکیت میں تصرف سے منع نہ کیا جائے اگرچہ پڑوسی کو اس سے تکلیف ہو، اور فرمایا مجھے یہی پسند ہے اسی پر اعتماد کرتا ہوں اور فتوٰی دیتا ہوں یہ اپنے والد شیخ الاسلام کی پیروی میں کرتا ہوں رحمۃ اﷲتعالٰی علیہ۔(ت)
 (۱؎ بحرالرائق  کتاب القضاء مسائل شتی ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۷ /۳۳)
اورفقہ کا قاعدہ مقرر ہے کہ جب فتوٰی مختلف ہو ظاہر الروایۃ کی طرف رجوع ہے اورا س سے عدول ناجائز، اور علماء تصریح فرماتے ہیں کہ جو کچھ ظاہر الروایۃ سے خارج ہے مرجوع عنہ ہے اور ہمارے ائمہ کا مذہب نہیں،
صرح بکل ذٰلک فی الخیریۃ والبحر والدروردالمحتار وغیرہا من معتمدات الاسفار وقد سردنا نصوصھم فی کتاب النکاح وغیرہ من فتاوٰنا۔
اس تمام کی تصریح خیریہ، بحر، در اور ردالمحتار وغیرہا قابل اعتماد کتب میں ہے، ان کی نصوص کو ہم نے اپنے فتاوٰی کے باب النکاح میں جمع کردیا ہے۔(ت)

متاخرین نے کہ بر خلاف مذہب جملہ ائمہ مذہب بنظر
"لاضرر ولاضرار فی الاسلام۲؎"
منع پر فتوٰی دیا صاف تصریح فرمائی کہ اس کا محل وہاں ہے کہ مالک کا وہ تصرف دوسرے کو ضرر شدید صریح پہنچاتا ہو جس کی وجہ سے اس کا مکان گرجائے یا اصلاً قابل انتفاع نہ رہے ورنہ بالاجماع ممانعت نہیں۔
 (۲؎ نصب الرایۃ کتاب الجنایات    باب مایحدث الرجل فی الطریق الخ    مکتبۃ الاسلامیہ ریاض    ۴ /۳۸۴)
تنویر الابصار میں ہے :
لایمنع الشخص من تصرفہ فی ملکہ الااذاکان الضرر بینا۳؎۔
کسی شخص کو اپنی ملکیت میں تصرف سے منع نہ کیا جائیگا الایہ کہ اس سے واضح ضرر پیدا ہو۔(ت)
 (۳؎ درمختارشرح تنویر الابصار        کتاب القضاء     مسائل شتی    مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۸۵)
بحر میں ہے:
صحح النسفی فی الحمام ان الضرر ان کان فاحشا یمنع والافلاوالحاصل ان الذی علیہ غالب المشائخ من المتاخرین الاستحسان فی اجناس ھذہ المسائل وافتی طائفۃ بجواب القیاس المروی واختار فی العمادیۃ المنع اذاکان الضرر بینا وظاہر الروایۃ خلافہ۱؎۔
امام نسفی نے تصحیح فرمائی ہے کہ اگر حمام کی وجہ سے فحش ضرر ہو تو منع کیا جائے ورنہ نہیں، حاصل یہ ہے کہ اس قسم کے مسائل میں متاخرین کی غالب اکثریت نے استحسان پر عمل کیا اور ایک گروہ نے قیاس کے مطابق جواب دیا ہے اور عمادیہ میں منع مذکور ہے جب ضرر واضح ہو، اورظاہر روایت اس کے خلاف ہے۔(ت)
(۱؎ بحرالرائق     کتاب القضاء    مسائل شتی    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی  ۷ /۳۳)
ردالمحتار میں فتح القدیر سے ہے :
ترک القیاس فی موضع یتعدی ضررہ الی غیرہ ضرر افاحشا وھو المراد بالبین وھو مایکون سبباللھدم اویخرج عن الانتفاع بالکلیۃ وھو مایمنع الحوائج الاصلیۃ کسد الضوء بالکلیۃ واختارواالفتوی علیہ فاما التوسع الی منع کل ضررما فیسد باب انتفاع الانسان بملکہ کماذکرناقریبا۲؎۔
جہاں غیرکو اس کا ضرر فاحش پہنچے وہاں قیاس کو ترک کیا جائے گا اور واضح ضرر سے یہی مراد ہے کہ دوسرے کی عمارت کے انہدام کا سبب بنے یا انتفاع کلی طور پر ختم ہوجائے وہ یہ کہ حوائج اصلیہ مثلاً روشنی کو مکمل ختم کردے اسی پر فتوٰی ہے لیکن ہر قسم کے ضرر کی وجہ سے منع کرنا وسیع ہو تو پھر انسان اپنی ملکیت میں تصرف وانتفاع سے محروم ہوجائیگا جیسا کہ قریب ذکر ہوا۔(ت)
(۲؎ ردالمحتار   کتاب القضاء    مسائل شتی    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴/ ۳۶۱)
یہاں اگر فرض کیا جائے کہ اب ہندہ کا ایسا ہی ضرر ہے جس کے سبب اس کا مکان اصلاً قابل انتفاع نہ رہا تو یہ ضرر دریچوں نے نہ پہنچایا کہ وہ تو قدیم سے ہیں اب تک ہندہ نے اپنے مکان سے کیونکر انتفاع کیا بلکہ یہ نقصان اس دیوار ہندہ کے انہدام سے پیدا ہوا جو حسب بیان سائل خود باختیار ہندہ منہدم ہوئی اورکوئی شخص خود اپنے لئے سبب ضرر پیدا کرکے دوسرے کا گریبان گیر نہیں ہوسکتا ورنہ کل کو ہندہ اپنی دیوار پردہ سے گزدوگز اور اتارکر شارع عام بند کرنے کی خواستگار ہوگی لوگوں کے گزرنے سے میری بے پردگی ہے، ایسے مہمل دعوے اگر سن لئے جائیں تو ایک عورت کہ محلہ کے وسط میں رہتی ہواہل محلہ کی عافیت تنگ کرسکتی ہے اپنے کچے جھونپڑے کی چاروں دیواریں گراکر چار طرف کی نشست گاہوں پر دعوٰی کردے کہ ان سے میری بے پردگی ہے سب تیغا کرادی جائیں یا ان کے سامنے دیواریں کھنچوادی جائیں گراتے وقت کوئی اس کا ہاتھ نہیں پکڑسکتا کہ وہ کہے گی میں اپنی ملک خاص میں تصرف کرتی ہوں تم کون، اور جب گراچکی تو اب لوگوں کی نشستگاہوں سے اس کا ضرر ظاہر ہے، انصافاً اس وقت مفتی کیا فتوٰی اور قاضی کیا حکم دے گا، کیا ہندہ کے اپنے پیدا کئے ہوئے ضرر کے سبب اس کا لایعنی دعوٰی سن لیا جائے گا یا اسی کو اپنا پردہ بدستور درست کرلینے کا حکم کردیا جائے گا خصوصاً جس حالت میں کہ زید محض تبرع واحسان یہ بھی کہتا ہے کہ میں اپنے صرف سے دیوار اونچی کردوں، پھر ہندہ کا نہ ماننا سواتعنت وایذارسانی کے کس امر پر محمول ہوسکتا ہے
ولاضرر ولاضرارفی الاسلام۱؎
 (اسلام میں ضرررسانی جائز نہیں ہے۔ت)
(۱؎ نصب الرایۃ    کتاب الجنایات    باب مایحدثہ الرجل فی الطریق     المکتبۃ الاسلامیہ ریاض    ۴ /۳۸۴)
بالجملہ صورت مستفسرہ میں ہمارے جملہ ائمہ مذہب رضی اﷲ عنہم کے اصل مذہب مفتی بہ پر تودعوٰی ہندہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں، انصافاً مختار متاخرین بھی اس صورت سے بیگانہ ہے کہ اضرار جانب زید سے نہیں
فعلیک بترک الاعتساف والانصاف خیرالاوصاف
 (کج روی کو ترک کرنا لازم ہے اور انصاف بہترین خوبی ہے۔ت) واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔
Flag Counter