Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
30 - 151
رابعاً ان سب سے قطع نظر کرکے مان ہی لیں کہ نفس عقد دیوار پر بھی وارد ہوا اور وہ بھی طلب شفعہ میں داخل تھی تاہم اس سے زید کا اس قدر اقرار حاصل ہوگا کہ یہ دیوار میری ملک نہیں، نہ یہ کہ عمرو کی ملک ہے ہمارے مذہب راجح میں کہ ظاہرالروایہ ہے اور اکثر تصحیحات ائمہ اسی جانب ہیں، اگر زید عمرو سے کوئی چیز مانگے کہ مجھے ہبہ کردے یا عاریۃً دے دے یا میرے ہاتھ بیچ ڈال یا اس کے مثل اور اقوال، تو ان سے صرف اپنی ملک نہ ہونے کا اقرار ثابت ہوتا ہے عمرو کی ملک ہونے کا اقرار نہیں نکلتا زیادات وصغری وینابیع و عمادیہ وتتارخانیہ وسراجیہ ومنیہ ووہبانیہ وغیرہا میں اسی کی تصحیح کی، امام اجل قاضیخان نے افادہ فرمایا کہ یہ اقرار ہو بھی تو بحسب ظاہر ہے اور ظاہر حجت استحقاق نہیں تو مدعی اس سے فائدہ نہیں اٹھاسکتا۔   

ردالمحتار میں منح الغفار سے ہے :
الحاصل روایۃ الجامع ان الاستیام والاستیجاروالاستعارۃ ونحوھا اقرار بالملک للمساوم منہ والمستاجر منہ وروایۃ الزیادات انہ لایکون ذلک اقرار بالملکیۃ وھو الصحیح کذا فی العمادیۃ وحکی فیہا اتفاق الروایات علی انہ لاملک للمساوم ونحوہ فیہ۲؎۔
جامع الصغیر کی روایت کے مطابق سودا لگانا، اجارہ پر طلب کرنا اور عاریتاً مانگنا یہ قابض جس سے چیز لی یا مانگی جارہی ہے، کی ملکیت کا اقرار ہے اور زیادات کی روایت کے مطابق یہ اس کی ملکیت کا اقرار نہ ہوگا، یہی صحیح ہے جیسا کہ عمادیہ میں ہے اور اس میں مذکورہ صورت میں ملک نہ ہونے پر روایات کا اتفاق بیان کیا گیا ہے۔(ت)
 (۲؎ ردالمحتاربحوالہ منح الغفار    کتاب الاقرار    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴ /۴۵۳)
اسی میں ہے :
قال الانقروی والاکثر علی تصحیح مافی الزیادات وانہ ظاہر الروایۃ۳؎۔
انقروی نے کہا کہ اکثریت کا مؤقف زیادات کی تصحیح ہے، اور یہ ظاہرالروایۃ میں ہے۔(ت)
 (۳؎ردالمحتاربحوالہ منح الغفار    کتاب الاقرار    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴ /۴۵۳)
انقرویہ میں ہے : فی الصغری عین فی یدرجل اقدم اٰخر علی الشراء منہ یکون اقرارا بملکیۃ العین للبائع علی روایۃ الجامع وعلی روایۃ الزیادات لاوھو الصحیح اھ، وکذافی التاتارخانیۃ من الصغری والنا بیع وفی السراجیۃ الاقدام علی الاستیام لایکون اقرارابملکیۃ ذلک لذی الیدعلی روایۃ الزیادات وعلی روایۃ الجامع یکون اقراراوالاول اصح وکذا فی المنیۃ فظہران فیہ اختلاف التصحیح والاکثر علی تصحیح ما فی الزیادات وانہ ظاہر الروایۃ وقال قاضیخان روی ھشام عن محمد ان المساومۃ اقرارمنہ لہ بالملک والصحیح ماذکر فی ظاہر الروایۃ انہ اقرار من حیث الظاہر فلا یصلح حجۃ للاستحقاق اھ۱؎مختصراً۔
صغری میں ہے کہ کوئی چیز کسی شخص کے قبضہ سے خریدنا چاہتا ہے تو یہ اس چیز پر بائع کی ملکیت کا اقرار ہے جامع کی روایت کے مطابق ۔ جبکہ زیادات کی روایت کے مطابق ایسا نہیں اوریہی صحیح ہے اھ، اور تاتارخانیہ میں صغری اور ینابیع سے ایسے منقول ہے، اور سراجیہ میں ہے کہ کسی سے چیزکو خرید نے کا اقدام یہ قابض کی ملکیت کا اقرار نہیں ہے زیادات کی روایت پر جبکہ جامع کی روایت کے مطابق یہ اقرار ہے اوراول صحیح ہے، اور منیہ میں بھی ایسے ہی ہے تو ظاہر ہوا کہس اس مسئلہ کی تصحیح میں اختلاف ہے اور اکثریت زیادات کی تصحیح پر ہے اور یہ کہ ظاہر الروایت ہے، اور قاضی خان نے فرمایا کہ ہشام نے امام محمد سے روایت کیا ہے کہ خرید نے کا اقدام قابض کی ملکیت کا اقرار ہے، اور صحیح وہ ہے جو ظاہر الروایۃ میں ہے کہ یہ ظاہر میں اقرار ہے تو یہ ظاہری معاملہ استحقاق کےلئے حجت نہیں بن سکتا اھ مختصراً(ت)
(۱؎ فتاوٰی انقرویہ    کتاب الدعوی    الباب الثانی عشر    دارالاشاعۃ العربیہ قندھار افغانستان    ۲ /۱۴۸)
عقودالدریہ میں ہے :
القاعدۃ ان العمل بما علیہ الاکثر۲؎۔
قاعدہ کے مطابق اکثریت کی رائے پر عمل ہے۔(ت)
 (۲؎ العقود الدریۃ   مسائل وفوائد شتی من الحظر والاباحۃ  حاجی عبدالغفار وپسران  دارالاشاعۃ العربیہ قندھار افغانستان۲ /۳۵۶)

(ردالمحتار   باب صلوٰۃ المریض    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱ /۵۱۰)
قرۃ العیون میں ہے :
قلت فیفتی بہ لترجحہ بکونہ ظاہر الروایۃ وان اختلف التصحیح۳؎۔
میں کہتا ہوں کہ، تو اس پر فتوٰی دیا جائے کیونکہ اکثریت اور ظاہرالروایت کی وجہ سے یہی راجح ہے اگرچہ تصحیح میں اختلاف ہے۔(ت)
 (۳؎ قرۃ عیون الاخیار    کتاب الاقرار     مصطفی البابی مصر    ۲ /۹۸)
غمز عیون البصائر میں ہے :
فی تصحیح القدوری للعلامۃ قاسم ان مایصححہ قاضیخان من الاقوال یکون مقدما علی مایصححہ غیرہ لانہ کان فقیہ النفس۱؎۔
علامہ قاسم کی قدوری میں ہے کہ اقوال میں سے جس کو قاضیخان صحیح قرار دیں وہ دوسروں کی تصحیح پر مقدم ہے کیونکہ یہ فقیہ النفس ہیں۔(ت)
(۱؎ غمزعیون البصائر    کتاب الاجارات    ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی  ۲ /۵۵)
ردالمحتار میں ہے:
کن علی ذکر مماقالوالایعدل عن تصحیح قاضیخان فانہ فقیہ النفس۲؎۔
توفقہاء کے قول کے مطابق عمل کر جوکہتے ہیں قاضیخان کے قول سے اعراض نہ کیا جائے کیونکہ وہ فقیہ النفس ہیں(ت)
(۲؎ ردالمحتار        کتاب الھبۃ        داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴ /۵۱۳)
تو یہ اقرار حق عمرو میں کچھ نافع نہ ہوا، مانا کہ دیوار حسب اقرار زید ملک زید نہیں مگر ملک عمرو ہونے کا اقرار بھی تو نہیں، تو مدعی بے بینہ عادلہ شرعیہ یا اقرار مدعاعلیہ یا نکول محض اپنے زعم پر کوئی چیز کسی سے کیونکر لے سکتا ہے اور قاضی کیونکر دلاسکتا ہے، 

فتاوی خیریہ میں ہے :
القاضی انما یقضی بالینۃ اوالاقرار او النکول۳؎واﷲ تعالٰی اعلم۔
قاضی صرف گواہی یا اقرار یا قسم سے انکار پر فیصلہ دے گا۔ واﷲتعالٰی اعلم (ت)
 (۳؎ فتاوٰی خیریہ    کتاب الدعوٰی     دارالفکر بیروت    ۲ /۶۷)
مسئلہ۴۸ :  ۳ /شوال المکرم۱۳۱۴ھ 

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں جبکہ کسی شخص کا گاؤں بلا قید آمدنی ہو یعنی جب پیداوار اچھا ہو آمدنی معقول ہو اور خراب تو کم اور یہ گاؤں اس کے والدین نے ایام نابالغی میں اس کے نام کیا بعد بلوغ باہم ایک پنچایت نامہ ۸۵ء میں بخیال زمانہ نازک ہو اپنچ نے والدین کے نام چھ سو روپے سالانہ اس کے گاؤں کی آمدنی سے دینا اس کے ذمہ قرار دے اور کوئی تفرق حصص والدین نہ کی بلکہ لکھا کہ یہ جملہ آمدنی بدست والد رہے گی وہ جس قدر چاہیں گے خود لیں گے اور جس قدر چاہیں گے اس کی والدہ کو دیں گے اس کا باپ ۸۶ء میں فوت ہوگیا اب اس کی ماں علیحدہ ہوکر پچاس روپے ماہوار کل بیٹے سے لینا چاہتی ہے تو شرعاً چھ سوروپے سالانہ سے کس قدر والدہ کو چاہئے کس قدر لڑکے کو؟بینواتوجروا۔
الجواب

سائل مظہر کہ یہ گاؤں اس کے والد کا تھا اس نے اپنی زوجہ کو مہر میں دیا پھر زوجہ سے اس پسر نابالغ کے نام ہبہ کرالیا پھر بعد بلوغ اس بناء پر کہ آمدنی جائداد کا تحفظ چاہتے ہیں یہ پنچایت نامہ ہوا، والدہ صاحب مال وزیور ہے محتاج نفقہ نہیں، اس صورت میں لڑکا گاؤں کا مالک مستقل ہوگیا اور یہ پنچایت محض بے معنی تھی جس کی پابندی ہر گز لازم نہیں ہوسکتی کہ شرط حکم صحت دعوٰی ہے اور دعوٰی طلب حق، اور یہاں والدین کا کوئی حق جائداد وتوفیر میں نہ رہا تھا کہ ان کا دعوی صحیح ہوسکتا اور یہ پنچایت پنچایت ٹھہرتی، غایت یہ کہ اس کا قبول کرلینا لڑکے کی طرف سے ایک وعدہ قرار دیا جائے گا اور وعدہ کی وفا پر جبرنہیں۔ 

عالمگیریہ میں ہے :
لایلزمہ الوفاء بالمواعید۱؎۔
وعدوں کا ایفاء ضروری نہیں ہے۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ    کتاب الاجارہ     الباب الثامن     نورانی کتب خانہ پشاور     ۴ /۴۲۷)
ہاں ماں کی خدمت دارین کی سعادت ہے جس قدر ہو بہتر ہے یہ امر دیگر ہے اور انسان کی اپنی مرضی پر ہےجب حالت یہ ہے کہ ماں محتاج نفقہ نہیں ورنہ بقدرنفقہ دینا واجب۔ 

عالمگیری میں ہے :
یجبر الولد الموسر علی نفقۃ الابوین المعسرین مسلمین کانا او ذمیین قدرا علی الکسب اولم یقدرا ۲؎۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
والدین تنگ دست ہوں تو امیر بیٹے کو بہر صورت ان کے نفقہ پر مجبور کیاجائے گا، والدین مسلمان ہوں یا ذمی، وہ کسب پر قادر ہوں یا نہ ہوں۔ واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
(۲؎ کتاب الطلاق    الباب السابع عشر     الفصل الخامس    نورانی کتب خانہ پشاور   ۱ /۵۶۴)
Flag Counter