فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
3 - 151
عقود الدریہ میں ہے:
قالوافی ثبوت ھلال رمضان شھد واانہ شھد عند قاض مصر کذا شاہد ان برؤیۃ الہلال وقضی القاضی بھا، ووجد استجماع شرائط الدعوٰی قضی القاضی بشہادتہما فانظرواحفظکم اﷲ تعالٰی الی قولہم قاضی بلدۃ کذاولم یذکروا اشتراط اسم ابیہ وجدہ لانہ لایلتبس بغیرہ اذ القاضی فی ذٰلک الوقت واحد لااثنان کما ھوا المعلوم۲؎
ہلال رمضان کے ثبوت کے بارے میں فقہاء نے کہا، گواہوں نے گواہی دی کہ فلاں شہر کے قاضی کے پاس دو گواہوں نے چاند دیکھنے کی شہادت دی اور قاضی نے ان کی شہادت پر فیصلہ دیا اور تمام شرائط دعوٰی پائی گئیں توقاضی ان کی گواہی پر فیصلہ کردے گا تو دیکھو اﷲ تعالٰی تمہاری حفاظت فرمائے ان کے اس قول کی طرف کہ انہوں نے کہا''فلاں شہر کا قاضی'' اور اس کے باپ اور دادا کے نام کوذکر کرنے کی شرط کا تذکرہ انہوں نے نہیں کیا کیونکہ اس وقت شہر کا قاضی ایک ہی ہے نہ کہ دو جیسا کہ معلوم ہے۔(ت)
(۲؎ العقود الدریۃ کتاب الشہادات ارگ بازار قندھار افغانستان ۱ /۳۴۶)
اشباہ میں ہے:
تکفی النسبۃ الی الزوج لان المقصود الاعلام ؎۱ اھ۔
عورت کی نسبت زوج کی طرف کرنا کافی ہے کیونکہ مقصود تو شناخت کراناہے اھ(ت)
(۱؎ الاشباہ والنظائر الفن الثانی کتاب الشہادات ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی ۱ /۳۸۶)
لفظ اشھدقطعاً رکن شہادت ہے بے اس کے شہادت شہادت ہی نہیں قبول وعدم قبول تو دوسرا درجہ ہے،
تنویرا لابصار ودرمختار میں ہے:
رکنھا لفظ اشھد لاغیر الی قولہ فتعین۲؎۔
شہادت کارکن لفظ
اشھد
(میں گواہی دیتا ہوں) ہے نہ کہ اس کا غیر (ماتن کے قول
فتعین
تک)۔(ت)
(۲؎ درمختار شرح تنویر الابصار الفن الثانی کتاب الشہادات مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۹۰)
انہیں میں ہے :
لزم فی الکل من المراتب الاربع لفظ اشھد بلفظ المضارع بالاجماع وکل مالا یشترط فیہ ھذااللفظ کطہارۃ ماء ورؤیۃ ھلال فہو اخبار لاشہادۃ۳؎۔
چاروں مراتب میں سے ہر ایک میں لفظ اشھد بصیغہ مضارع بالاجماع لازم ہے، اور جس جگہ یہ لفظ شرط نہیں جیسے پانی کی طہارت اور چاند کی رؤیت تو وہ خبردیناہے نہ کہ شہادت۔(ت)
(۳؎ درمختار شرح تنویر الابصار الفن الثانی کتاب الشہادات مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۹۱)
شروع شہادت سے پہلے یہ کہلوا لینا کہ
''اشھد باﷲ''
سچ کہوں گا، ہرگز کافی نہیں کہ وہ حلف ہے نہ کہ شہادت، اور
''اشھد''
کلام شہادت پر داخل ہونا لازم نہ کہ حلف پر، شاہدوں سے حلف لینا تو شرعاً جائز بھی نہیں
کما فی الدر وغیرہ لانا امرنا باکرامھم
(جیسا کہ دروغیرہ میں ہے کیونکہ ہمیں گواہوں کے احترام کا حکم دیا گیا ہے۔ت) ظاہر ہے کہ حکام وشہود خصوم وتمام حضار ان الفاظ کو حلف ہی سمجھتے حلف ہی کہتے حلف ہی کی نیت کرتے ہیں اور رکن شہادت وہ
اشھد
ہے جو بمعنی خبر ہو نہ وہ کہ بمعنی حلف وقسم ہے،
تبیین الحقائق وعالمگیریہ میں ہے:
رکنھا لفظ اشھد بمعنی الخبردون القسم۴؎۔
رکن شہادت لفظ اشھد ہے جبکہ خبر کی نیت سے ہو نہ کہ قسم کی نیت سے(ت)
(۴؎ فتاوٰی ہندیۃ بحوالہ تبیین الحقائق کتاب الشہادات نورانی کتب خانہ پشاور ۳ /۴۵۰)
اشھد با ﷲ سچ کہوں گا ایک قسم ہوگئی جس کا کفارہ بہت آسان ہے کلام شہادت پر اشھد داخل نہ ہو ا جس میں غلط گوئی موجبِ ہلاکت ہوتی،
کمانص علیہ العلماء الکرام فی حکمۃ عدم تحلیف الشاہد و وضع ھذا اللفظ عوضہ ان شاھد الزورلما اراداھلاک مال المشہود علیہ عوض باھلاک ذاتہ بخلاف مالو حلف اذکان یسیرا علیہ کفارتہ۔
جیسا کہ گواہوں سے حلف نہ لینے اور اس کے بجائے لفظ اشھد رکھنے کی حکمت کے بارے میں علماء کرام نے نص فرمائی ہے کہ جھوٹا گواہ جب مشہودعلیہ کے مال کی ہلاکت کا ارادہ کرے تو اس کا بدلہ اسے ہلاکت ذات کی صورت میں ملتا ہے بخلاف قسم کے گواہ پر اس کا کفارہ ادا کردینا آسان ہوتا ہے(ت)
غرض ایسی شہادت ہر گز شہادت نہیں اور اس پر جو قضا ہو اصلاً نافذ نہیں
لانتفاء احداطراف القضاء وھو الطریق فان القاضی انما یقضی بالبینۃ اوالنکول اوالاقرار فاذاانعدمت انعدم القضاء۔
اطرافِ قضاء میں سے ایک یعنی طریق کے منتفی ہونے کی وجہ سے کیونکہ قاضی گواہوں یا انکار مدعا علیہ یا اقرار مدعی علیہ کے ذریعے ہی فیصلہ کرتا ہے جب یہ معدوم ہوں تو قضاء بھی معدوم ہوگی(ت)
فتاوٰی خیریہ میں ہے:
ومما نظمہ ابن الغرس فی الفواکہ البدریۃ
(ابن الغرس نے فواکہ بدریہ میں نظم کیا۔ت)
اطراف کل قضیۃ حکمیۃ ست یلوح بعدھا التحقیق
حکم ومحکوم بہ ولہ ومحکوم علیہ وحاکم وطریق۱؎
(ہر قضاء کے چھ اطراف ہوتے ہیں جن کے بعد تحقیق ظاہر ہوتی ہے:حکم، محکوم بہ، محکوم لہ، محکوم علیہ، حاکم اور طریق۔ت)
(۱؎ فتاوٰی خیریہ کتاب ادب القاضی دارالمعرفۃ بیروت ۲ /۹)
وبفقد واحد من اطراف القضیۃ یفقد الحکم وبذٰلک یعرف بطلان المحضر المذکور۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
اطراف قضاء میں سے ایک کے مفقود ہونے کی وجہ سے حکم مفقود ہوجاتا ہے اور اسی سے مذکورہ دستاویز کا بطلان بھی معلوم ہوجاتا ہے۔واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
مسئلہ۳: ۹شوال ۱۳۰۸ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے اپنی زوجہ منکوحہ ہندہ کو دوسرے ضلع سے اپنے مکان کو روانہ کیا، اثنائے راہ میں بکربہ نیت فاسد بھگا کر اپنے یہاں لے گیا، زید نے نالش فرار کی، ہندہ نے بیان کیا زید مجھے جائداد لکھ دینے کو کہتا تھا میں نےنہ لکھی اس نے تین بار کہا میں نے تجھے طلاق دی اور شہادت میں اپنا حقیقی بھائی اور رشتہ کاچچا اور ایک عورت کے روٹی پکانے پر ہندہ کے یہاں نوکر ہے پیش کرتی ہے، اور یہ تینوں شخص جاہل وغیر پابند نماز ہیں، اس صورت میں طلاق ثابت ہوگی یا نہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب: طلاق ونکاح ہم مسلمانوں کے شرعی ودینی معاملے ہیں ان کا ثبوت اسی طور پر ہونا لازم جس طرح شریعت مطہرہ میں مقرر کیا گیا ہے، شریعت مطہرہ میں پابند نماز نہ ہونا تو معاذاﷲ حد درجہ کا فسق ہے تارک جماعت کی گواہی سے بھی طلاق ثابت نہیں ہوتی۔
عالمگیری میں ہے:
کل فرض لہ وقت معین کالصلوٰۃ والصوم اذااخرمن غیر عذرسقطت عدالتہ۱؎۔
جس فرض کا وقت معین ہے جیسے نماز اور روزہ اگرکوئی بلاعذر اس میں تاخیر کرے تواس کا عادل ہونا ساقط ہوجاتا ہے۔(ت)
(۱؎فتاوٰی ہندیۃ الباب الرابع نورانی کتب خانہ پشاور ۳/ ۴۶۶)
اسی میں ہے:
اذاترک الرجل الصلوٰۃ استخفافا بالجماعۃ بان لایستعظم تفویۃ الجماعۃ کما یفعلہ العوام اومجانۃ او فسقا لاتجوز شہادتہ۲؎۔
اگر کوئی شخص بطورتحقیر باجماعت نماز نہ پڑھے بایں طور کہ جماعت کے فوت ہوجانےکو کوئی بڑی بات نہ سمجھے جیسا کہ عوام الناس کرتے ہیں یا بلاوجہ یا بطور فسق وفجور جماعت کوترک کرے تو اسکی گواہی ناجائز ہے۔(ت)
(۲؎ فتاوٰی ہندیۃ الباب الرابع نورانی کتب خانہ پشاور ۳/ ۴۶۶)
اور ان کا جاہل ہونا دوسری وجہ ان کی ردشہادت کی ہے،
درمختار میں ہے:
لاتقبل شہادۃ الجاہل علی العالم لفسقہ بترک مایجب تعلمہ شرعاً فحینئذ لاتقبل شہادتہ علی مثلہ ولاعلی غیرہ وللحاکم تعزیرہ علی ترکہ ذٰلک ثم قال والعالم من یستخرج المعنی من الترکیب کما یحق وینبغی۱؎۔
جاہل کی گواہی عالم کے خلاف قبول نہیں کی جائیگی کیونکہ جن احکام شرعیہ کا سیکھنا اس پر واجب ہے اس کو ترک کرنے کی وجہ سے وہ فاسق ہوگیا، تو اس صورت میں یعنی فاسق ہونے کی صورت میں تو اس کی گواہی نہ اپنے جیسے جاہل اور نہ ہی غیر جاہل پر قبول کی جائے گی، اور اس ترک تعلم پر حاکم اس کو بطور تعزیر سزادے سکتاہے، پھر کہا کہ عالم وہ ہے جو تراکیب الفاظ سے معنی کا استخراج کرسکے جیسا کہ ثابت اور مناسب ہے۔(ت)
(۱ ؎ درمختار کتاب الشہادۃ باب القبول وعدمہ مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۹۵)
پھر عورت میں تیسری وجہ اور ہے کہ وہ ہندہ کی نوکر ہے اور نوکر کی گواہی آقا کے حق میں مقبول نہیں،
درمختار میں ہے :
لاتقبل شہادۃ الاجیر الخاص لمستاجرہ مستانہۃ او مشاہرۃ اوالخادم۲؎الخ۔
اجیر خاص (مزدور یانوکر) کی گواہی اپنے مستاجر کے حق میں قبول نہیں کی جائے گی چاہے اجرت سالانہ ہو یا ماہانہ، یا اجیر خاص سے مرادخادم(تابع یا شاگرد خاص ہے)۔(ت)
(۲ درمختار کتاب الشہادۃ باب القبول وعدمہ مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۹۵۔۹۴)
پس صورت مستفسرہ میں طلاق ثابت نہیں زید ہندہ بدستور زوج و زوجہ مانے جائیں گے۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔