Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
29 - 151
مسئلہ۴۷: ازرامپور مرسلہ سید محمد منور علی صاحب تحصیلدار بھوپال    ۲۲شعبان معظم۱۳۱۴ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہندہ نے اپنا ایک مکان جس کا جار ملا صق زید ہے غیبت زید میں جبکہ وہ اپنی نوکری پر بھوپال میں تھا عمروکے ہاتھ بیع کیا اور بیعنامہ بعبارت معمولی لکھا اس مکان کے جانب شمال جو دیوار مکان مبیع ومکان شفیع میں حد فاصل ہے اصل الفاظ بیع کے ذکر میں اس دیوار پر ایراد عقد کاکچھ تذکرہ نہیں  ،نہ تفصیل عملہ مبیعہ میں ، بآنکہ ایک ایک چیز مفصلا لکھی ہے اس کا نام ہے ، حدود مبیع جہاں لکھے ہیں وہاں زیر حد شمالی یہ لفظ ہیں(شمالی مکان میاں منور علی و پاکھ کلاں شامل میاں منور علی ودیوار سراسر ودخل مبیعہ ہذا) زید جب بھوپال سے آیا اور بیع پر اطلاع پائی مدعی شفعہ ہوا اور عرضی میں بنائے شفعہ ثابت کرنے کو یہ الفاط لکھے(امراؤ بیگم مدعا علیہا بائعہ نے مکان مدعا بہا معلومہ مقبوضہ اپنا عوض مبلغ ماصہ عہ /قیمت اصل بموجب بیعنامہ رجسٹری شدہ ۲۲/اگست ۱۸۸۹ء بغیبت مدعی بدست مدعا علیہ بیع صحیح شرعی کیا) دیوار مذکور جس پر ہمیشہ سے زید ومورث زید کا قبضہ تھا اور رہے مکان زید کی کھپر یلیں اوران کی ترکیبیں اس پر پڑی ہیں اور ہندہ وعمروکا کوئی قبضہ اس پر نہ تھا، نہ ہے، نہ ان کے مکان کی کوئی کڑی یا ترک وغیرہ اس دیوار پر ہے، اب عمرو مدعی ہوا کہ یہ دیوار مکان مبیع ہندہ کی ہے اور میں بحکم بیع اس کا مالک ہوں زید سے دلادی جائے مگر کوئی ثبوت اس دیوار میں اپنی ملک کا نہ دے سکا سوا اس کے کہ زید نے دعوی شفعہ میں بوجہ عبارت مذکورہ امراؤ بیگم نے اپنا مکان مقبوضہ بیع صحیح شرعی کیا اس بیعنامہ کو مسلم رکھا اور اس کے حوالہ دینے سے زید کا بیعنامہ دیکھناظاہر ہے اور اس میں دیوار مذکور بھی داخل بیع تھی تو زید کا بذریعہ شفعہ اسے طلب کرنا صریح اقرار ہوچکا کہ دیوار ملک عمرو مشتری ہے حالانکہ زید نے ہر گز بیعنامہ نہ دیکھا نہ اس کے سامنے لکھا گیانہ وہ اس وقت ا س شہر میں تھا اثبات بنائے شفعہ کے لئے تاریخ رجسٹری معلوم کرکے عرضی دعوٰی میں ذکر بیعنامہ کیا تھا۔ اس صورت میں علمائے شرع مطہر سے استفسار ہے کہ زید کا وہ الفاظ لکھنا دیوار ملک عمرو ہونے کا شرعاً اقرار قرار پائے گا یانہیں؟اور اس بناء پر عمرو کااستحقاق اس دیوار پر ثابت ہوسکتا ہے یانہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب

صورت مستفسرہ میں دعوی عمرو محض بے ثبوت ہے، نہ اس بناء پر دیوار اسے دلائی جاسکتی ہے اولاً جبکہ دیوار حسب تحریر سوال زید کے استعمال میں ہے اور عمرووہندہ کا کوئی عملہ اس پر نہیں جس سے ان کا استعمال ثابت ہو تو بحکم ظاہر دیوار ملک خاص زید ہے۔ 

تنویرالابصار ودرمختار وغیرہما میں ہے:
الحائط لمن جذوعہ علیہ۱؎۔
دیوار اس کی ہے جس کا اس پر شہتیر ہے۔(ت)
 (۱؎ درمختار شرح تنویر الابصار    کتاب الدعوٰی    باب دعوی الرجلین    مطبع مجتبائی دہلی    ۲ /۱۲۷)
معین الحکام میں ہے:
ان لاحد ھما علیہ جذوع ولاشیئ علیہ للاٰخر یقضی بہ لرب الجذوع لانہ مستعملہ۲؎۔
ایک فریق کا اس پر شہتیر ہے اور دوسرے کا کچھ نہیں ہے تو دیوار کا فیصلہ شہتیر والے کے حق میں ہوگا کیونکہ وہ اس کو استعمال کررہا ہے۔(ت)
 (۲؎ معین الحکام    الباب التاسع والاربعون     مصطفی البابی مصر    ص۱۶۳)
اور خود عمرو جبکہ تخلیہ دیوار کا نالشی ہوا تو اپنا خارج اور زید کا ذوالید وقابض ہونا تسلیم کرلیا بہر حال عمرو اس مقدمہ میں شرعاً مدعی ہے پس تاوقتیکہ ثبوت مقبول شرعی سے اپنا دعوی ملک منور نہ کرے مقبول نہیں ہوسکتا دعوی شفعہ میں زید کا حوالہ بیعنامہ دینا کون سی دلیل شرعی ہے کہ اس نے بیعنامہ دیکھا اور اس کا لفظ لفظ تسلیم کرلیا بیان سائل کہ اثبات بنائے شفعہ کےلئے تاریخ رجسٹری معلوم کرکے ذکر بیعنامہ کیا گیا ہرگز قابل التفات نہیں۔

ثانیاً اگر فرض کریں کہ بیان مذکور سائل بعید از قیاس نہ ہے تو غایت یہ کہ یہ ایک قرینہ ظاہرہ ہوگا اور ظاہر مدعی کو کام نہیں دیتا، نہ اس کی بناء پر ثبوت ملک ہوسکتا ہے۔

درمختار وغیرہ عامہ کتب فقہیہ میں ہے :
الظاہر یصلح حجۃ للدفع لاللاستحقاق۱؎۔
ظاہر دفع کی صلاحیت رکھتا ہے نہ کہ ثبوت استحقاق کی۔(ت)
 (۱ ؎ درمختار    کتاب القضاء    مسائل شتی    مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۸۶)
ثالثاً تسلیم ہی کیجئے کہ اس سے نہ صرف ظاہراً بلکہ قطعاً ویقینا زید کا بیعنامہ کو دیکھ کر دینا اور عبارت مذکورہ لکھنا ثابت ہے تاہم اس سے کس قدر ثبوت ہوا یہ کہ زید مکان مبیع کو مملوک ومقبوض ہندہ جانتا اور بیع کو صحیح مانتا اور بذریعہ شفعہ لینا چاہتا ہے اس سے اب کب زید کو انکار ہوا وہ اب بھی کہے گا کہ واقعی ہندہ نے اپنا ہی مکان مملوک و مقبوض بیع کیا اور یہ بیع صحیح بھی ہے اور میں بذریعہ شفعہ اس کا خواستگار بھی ہوا، رہی یہ دیوار، نہ یہ مملوک ومقبوض ہندہ تھی نہ اس پر بیع وار د ہوئی، نہ میں نے شفعہ میں مانگی، الفاظ عقد بیع میں مکان ہندہ کاذکر ہے مکان ہندہ جس قدر تھا وہی ایجاب وقبول میں داخل ہوا،اسی کو بذریعہ شفعہ طلب کیا گیا ذکر حدود عقد بیع نہیں، نہ وہ حاکی ایجاب و قبول ہے، تو تسلیم صحت بیع سے تسلیم صحت جملہ الفاظ زائدہ مندرجہ بیعنامہ کیونکر لازم ہوسکتی ہے، علماء تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے بیعنامہ پر خود اپنی گواہی لکھ کر مہر کردی تاہم یہ اسکا اقرار نہ قرار پائے گا کہ شے مبیع ملک بائع ہے میری ملک نہیں وہ اس گواہی کردینے کے بعد بھی مکان مبیع پر دعوٰی ملک کرسکتا ہے جبکہ اس کے الفاظ سے صراحۃً اس کا خلاف نہ ثابت ہو۔
درمختار میں ہے :
یؤیدہ مسألۃ کتابتہ وختمہ علی صک البیع فانہ لیس باقرار بعدم ملکہ۱؎۔
اس کی تائید اس مسئلہ سے ہوتی ہے فروختگی کی رسیدپر گواہ کے دستخط اور مہر ہونے کے باوجودیہ اس کے مالک نہ ہونے کا اقرار نہیں
(۱؎ درمختار    کتاب الاقرار    مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۱۳۲)
Flag Counter