Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
28 - 151
مسئلہ۴۵ : کیافرماتے ہیں علمائے دین اس صورت میں کہ زید فوت ہوا اور ترکہ زید متوفی کا عوض دین مہر زوجہ ہندہ کے مکفول تھا عمرو نے نالش انفکاک رہن بادائے ایک سوتر یسٹھ روپیہ دین مہر کے عدالت میں دائر کرکے ڈگری حاصل کی اور بحکم عدالت کل دین مہر ہندہ کو عمرو نے ادا کردیا بعدہ ہندہ نے اپنا حصہ بدست حسینی دختر اپنی کے بیع کردیا اب حسینی حصہ ہندہ کا چاہتی ہے اس صورت میں حسینی بلاادائے دین مہر اس کے جو کل عمرو نے ادا کردیا ہے حصہ ہندہ کا تقسیم کراسکتی ہے یانہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب

سائل مظہر ہے کہ وہ ادا کرنا جانب عمرو سے بطریق تبرع نہ تھا اور یہ دین ترکہ سے کم ہے اور سوا اس کے میت پر اور دین نہیں، پس تصرف ہندہ کا اپنے حصہ میں بیع کے ساتھ صحیح ہوا کہ دین غیر مستغرق مانع ملک ورثہ نہیں مگر باوجود اس کے بوجہ تعلق حق دائن یا مرہون کے لئے محبوس رہے گا، اور دائن اگر بیع کو جائز نہ رکھے تو بیع مذہب راجح پر نفاذ نہ پائے گی،
قال العلامۃ السید الطحطاوی فی حاشیۃ الدرمن کتاب الفرائض حکم الترکۃ قبل قضاء الدیون کحکم المرھون بدین علی المیت فلا تنفذ تصرفات الورثۃ فیہا ھذااذاکانت الترکۃ اقل من الدین اومساویۃ لہ واما اذا کان فیہا زیادۃ علیہ ففی نفوذ تصرفات الورثۃ وجہان احدھما النفوذ الی ان یبقی قدر الدین واظہر ھما عدم النفوذ علی قیاس المرھون ۱؂ اھ عجم زادہ(عہ)۔
علامہ سید طحطاوی نے در کے حاشیہ میں کتاب الفرائض میں فرمایا: میت پر قرض کی ادائیگی سے قبل اس کا ترکہ قرض میں رہن کے حکم میں ہوگا تو اس ترکہ میں ورثاء کے تصرفات نافذ نہ ہوں گے جبکہ ترکہ قرض سے کم یا مساوی ہو لیکن اگر ترکہ قرض سے زائد ہو توا س میں دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ زائد میں ورثا کا تصرف نافذ ہوگا یہاں تک کہ مقدار دین باقی رہ جائے، دوسری یہ کہ ان کا تصرف نہ ہوگا مرہون چیز پر قیاس کی وجہ سے، دونوں صورتوں میں یہ دوسری زیادہ ظاہر ہے اھ عجم زادہ۔(ت)
عہ :  لفظ عجم زادہ کے بعد اصل میں بیاض ہے۔
 (۱؎ حاشیہ الطحطاوی علی الدرالمختار    کتاب الفرائض     دارالمعرفۃ بیروت    ۴ /۳۶۷)
پس مشتریہ تاوقتیکہ ترکہ ایفا یا ابرادین سے نہ ہوجائے حصہ ہندہ پر قبضہ نہیں کرسکتی اور صرف اس کابقدر حصہ رسدی اپنے کے ادا کردینا کافی نہ ہوگا جب تک کل دین ادا نہ ہوجائے،
کماذکرنامن ان الدین ولولم یکن محیطا یمنع نفاذ تصرفات الورثۃ۔
جیسے ہم نے ذکر کیا کہ دین اگرچہ وراثت کو محیط نہ ہو وہ ورثاء کے تصرفات کے نفاذ سے مانع ہے۔(ت)

ہاں اگر دائن روا رکھے اور اس امر پر راضی ہوجائے تو اسے اختیار ہے کہ حبس اس کے حق کےلئے تھا پس حسینی اس تقدیر پر قابض ہوسکتی ہے اور حصہ ہندہ کے عوض ان کے ثمن حق دائن میں محبوس رہیں گے
کما ھو حکم المرھون المصرح بہ فی المتون
 (جیسا کہ متون میں مرہون چیز کا حکم تصریح شدہ ہے۔ت) واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔ (جیسا کہ متون میں مرہون چیز کا حکم تصریح شدہ ہے۔ت) واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
مسئلہ۴۶ : کیافرماتے ہیں علمائے دین اور مفتیان شرع متین اس صورت میں، چالیس برس کا عرصہ ہوامسمی زید فوت ہوا، بعد وفات شوہر بموجودگی دیگر ورثاء شرعی کل متروکہ زید پر مسماۃ ہندہ زوجہ بعوض دین مہر قابض ودخیل ومتصرف مالکانہ ہوئی اورتین لڑکیاں بھی زید کی تھیں، گودین مہر کثیر التعداد تھا اور اس قدر جائداد مورث نہ تھی کہ مکتفی دین مہر کو ہو اور منجملہ جائداد متروکہ شوہری مسماۃ نے ایک قطعہ زمین بعد وفات شوہر بعوض مبلغ (صہ/) روپیہ رہن رکھا اور اس میں یہ لفظ تحریر ہے کہ مالکانہ قابض ودخیل ومتصرف ہوں اور اس فعل مالکانہ کو ورثہ تسلیم کرتے رہے اور بھی افعال مالکانہ بلا شرکت احدے ہوتے رہے، چنانچہ اس متروکہ شوہری سے اپنے بھتیجوں کو ایک مکان پختہ اراضی شوہری میں بنوایا اور بعلم وآگاہی واطلاع اور موجودگی ورثاایک مدت تک تعمیر ہوتا رہا، کوئی مزاحم ومعترض نہ ہوا، اور یہ سب افعال ملکیتی تسلیم ہوتے رہے، اور لڑکیاں جو شوہرنے چھوڑی تھیں کبھی ہارج ومزاحم نہ ہوئیں، نہ تقسیم چاہی نہ ترکہ معین ہوا، بالکلیہ زوجہ مالک و قابض ومتصرف رہی اور جمیع افعال ملکیت پر عملدرآمد ہوتا رہا کوئی مخالفت نہ کی، اور اس کے بعد بجیات مسماۃ ہندہ کے ہوتے رہے کسی لڑکی نے نہ تقسیم چاہی نہ ترکہ طلب کیا، مجرد اپنی والدہ ہندہ کے پاس آتی جاتی رہیں اور شفقت مادرانہ ہوتی رہی اب عرصہ پندرہ سولہ سال کا ہوا کہ مسماۃ ہندہ فوت ہوئی اور اس کے ورثاء میں سے دو لڑکیا ں اور دوبھتیجے ہیں بموجب فرائض شریف کے دودو لڑکیوں کے اور ایک ایک برادر زادہ کاحصہ ہوتا ہے اور ۶ سے مسئلہ قرار پاتا ہے چونکہ اب لڑکیوں نے کہ حصہ قلیل ہوا جاتا ہے اور برادرزاد گان مستحق حصہ شرعی ہیں محض اتلاف حق کے لئے چالیس برس کے بعد یہ امر بیان ہوتا ہے کہ آج تک کبھی اس امر کا تذکرہ بھی نہیں آیا تھا کہ مسماۃ ہندہ کل ترکہ پر قابض بوجھہ ترکہ ہوگئی ہوگی اور کبھی یہ حیلہ پیش ہوتا ہے کہ جنازہ اٹھتے وقت اکثر مہرمعاف بھی ہوجاتا ہے، رواجاً معاف کردیا ہوگا، اور کبھی یہ بیان کہ معاف کردیا اس امر کا بیان کنندہ سوائے ان دو لڑکیوں متوفیہ کے کہ وہ خود اپنی کمی ترکہ کے سبب سے اور باغوائے اپنے اہل وعیال کے اس وقت بیان کرتی ہیں کبھی سابق بیان بھی نہیں کیا ابطال وکمی حق برادر زاد گان مسماۃ متوفیہ کےلئے باوجود عملدرآمد ہونے افعال ملکیت مسماۃ ہندہ کے ۲۵ ،۳۰سال تک اوراظہار قبضہ دین مہر اور عدم اظہار معافی مہر سوائے بیان سال حال مجرد بیان خیالی دو لڑکیوں کا بغیر علم وآگاہی دیگر بزرگان خاندان کے اور نہ ہونے کسی وثیقہ تحریری کے بلکہ بر خلاف اس کے عمل در آمد ہوتا رہا اور کسی وارث نے یہ ذکرنہ کیا اور انتقالات تحریری اور زبانی مسماۃ ہندہ ہمیشہ مسلم کئے پس ایسی حالتوں میں یہ مہر معاف سمجھا جائے گا یا کیا؟اور تقسیم ترکہ اب مسماۃ ہندہ کی ہوگی یا شوہر ہندہ کی قرار دینا چاہئے اور یہ عملدرآمد کیسا سمجھا جائے گا؟بینواتوجروا۔
الجواب

صورت مستفسرہ میں دعوٰی دختران ہر گز قابل سماعت نہیں، نہ اب وہ ترکہ ترکہ شوہر ٹھہرسکے، نہ مجردان کے بیان سے مہر کی معافی سمجھی جائے اور بیان بھی کیسا مضطرب کہ کبھی تو بربنائے رواج یہ احتمالی حکم کہ جنازہ اٹھتے وقت مہر معاف ہوجاتا ہے یہاں بھی ہوگیا ہوگا، حالانکہ یہ کلیہ بھی غلط ہے، کوئی معاف کردیتا ہے کوئی نہیں کرتا، اور سب معاف کردیا کرتے تو کیا تھا، خاص ہندہ کی معافی ثابت ہونا چاہئے تھی اور کبھی کچھ سمجھ کر یہ قطعی دعوٰی کہ معاف کردیا اگر معاف کردیا تھا تو تم نے بربنائے مہر کل جائدا د پر ہندہ کو کیوں قبضہ کرنے دیا تھا اور چوبیس پچیس برس تک اس کے تصرفات مالکانہ دیکھ کر کیوں خاموش رہیں اور اس کے انتقال پر بھی  پندرہ سولہ برس کا سکوت کس کے لئے تھا یہ خاموشی چہل سالہ شرعاً قرینہ واضحہ ہے کہ دعوٰی بربنائے زوروتلبیس واتلاف حق برادر زادگان ہے، ہمارے ائمہ اصحاب متون وشروح وفتاوٰی تصریح فرماتے ہیں کہ جب ایک جائداد میں کوئی شخص ایک مدت تک خود تصرفات مالکانہ کرتا رہے یا بیع خواہ ہبہ خواہ کسی اور طرح دوسرے کو تملیک کرے اور وہ دوسرا ایک زمانہ تک اس میں متصرف رہے پھر ایک مدعی جو اس شہر میں موجود ہو اور ان حالات پر مطلع ہو دعوٰی کرنے لگے کہ یہ جائداد میری ملک ہے اب وہ دعوٰی بجہت میراث ہو خواہ کسی دوسرے سبب سے ہرگز ہرگز نہ سنا جائے گا اور اس کا ان تصرفات کے وقت خاموش رہنا اپنی اجنبیت اور متصرف کی مالکیت کا صریح اقرار قرار پائے گا،
فی فتاوی العلامۃ المرحوم سیدی محمد بن عبداﷲ الغزی التمرتاشی مصنف تنویر الابصار سئل عن رجل لہ بیت فی داریسکنہ مدۃ تزید علی ثلث سنوات ولہ جاربجانبہ والرجل المذکور یتصرف فی البیت المزبور ھدماوعمارۃ مع اطلاع جارہ علی تصرفہ فی المدۃ المذکورۃ فھل اذاادعی البیت اوبعضہ بعد ماذکر من تصرف الرجل المذکور فی البیت ھدماوبناء فی المدۃ المذکورۃ تسمع دعواہ ام  لااجاب لاتسمع دعواہ علی ماعلیہ الفتوی۱؎،
سیدی علامہ محمد بن عبداﷲ الغزی التمرتاشی مرحوم مصنف تنویر الابصار کے فتاوٰی میں ہے کہ ان سے ایسے شخص کے متعلق سوال ہو اجو ایک حویلی کے کمرہ میں عرصہ زائد از تین سال سے رہائش پذیر ہے اور وہ اپنے کمرہ میں توڑ پھوڑ ومرمت کرتا رہا اس کا پڑوسی اس کے یہ تصرفات دیکھتا رہا تو اب اس پڑوسی کو مذکورہ تصرفات پر اطلاع کے باوجود اس کمرہ کے کل یا بعض پر دعوٰی کا حق ہے اور کیا اس کا دعوٰی قابل سماعت  ہوگا یا نہیں ؟ تو انھوں نے جواب میں فرمایا کہ اس کا دعوی قابل سماعت نہ ہوگا اس پر ہی فتوی ہے،
 (۱؎ العقود الدریۃ     بحوالہ فتاوٰی غزی     کتاب الدعوٰی     ارگ بازار قندھار افغانستان    ۲ /۴)
وفتاوی الامام العلامۃ خیر الملۃ والدین الرملی سئل فی رجل اشتری من اٰخر ستۃ اذرع من ارض بیدالبائع وبنی بھا بناء وتصرف فیہ ثم بعدہ ادعی رجل علی البانی المذکوران لہ ثلثۃ قراریط ونصف قیراط فی المبیع المذکورارثا عن امہ ویرید ھدمہ والحال ان امہ تنظرہ یتصرف بالبناء والانتفاع المذکورین ھل لہ ذلک ام لا، اجاب لاتسمع دعواہ لان علمائنا نصوافی متونھم وشروحھم وفتاوٰھم ان تصرف المشتری فی المبیع مع اطلاع الخصم ولوکان اجنبیا بنحوالبناء والغرس والزرع یمنعہ من سماع الدعوی قال صاحب المنظومۃ اتفق اساتیذنا علی انہ لاتسمع دعواہ ویجعل سکوتہ رضاللبیع قطعا للتزویرو الاطماع والحیل والتلبیس وجعل الحضور وترک المنازعۃ اقرارابانہ ملک البائع۱؎اھ ملخصا
اور امام علامہ خیرالدین رملی کے فتاوی میں ہے ان سے سوال ہوا کہ ایک شخص نے دوسرے سے چھ ذراع زمین خریدی جو کہ بائع کے قبضہ میں تھی جس کو خرید نے کے بعد خریدا رنےاس پر تعمیر کی اور دیگر تصرفات کئے پھر بعد میں ایک اور شخص نے اس خریدار مذکور پر دعوٰی کردیا کہ مبیع زمین میں ساڑھے تین قیراط میری ملکیت ہے جو مجھے والدہ سے وراثت میں ملی ہے اور وہ تعمیر کو گرانے کا مطالبہ کررہا ہے حالانکہ مدعی کی والدہ خریدار کو تعمیر وغیرہ تصرفات کرتے ہوئے دیکھتی رہی ہے تو اس مدعی شخص کو اس دعوٰی کا حق ہے یانہیں، انہوں نے جواب میں فرمایا کہ اس کا دعوٰی مسموع نہ ہوگا کیونکہ ہمارے علماء نے متون، شروح اور فتاوٰی میں نص فرمائی ہے کہ مبیع میں خریدار کے تصرفات پر مخالف کو اطلاع ہونے کے باوجود کہ وہ تعمیر، پودے اور زراعت جیسے تصرفات کررہاہے اتنی مدت خاموش رہنا اس کے دعوٰی کی سماعت کے لئے مانع ہے اگرچہ ایسا مدعی اجنبی کیوں نہ ہو۔صاحب منظومہ نے فرمایا کہ ہمارے اساتذہ نے فرمایا ہے کہ ایسے شخص کا دعوی قابل سماعت نہ ہوگا اور اس کی خاموشی کو اس بیع پر رضامندی قرار دیا جائیگا تاکہ فریب لالچ، حیلہ سازی اور تلبیس کا دروازہ بند ہوسکے اور موجودگی کے باوجود اس کا منازعت نہ کرنا یہ اس بات کا اقرار ہے کہ یہ چیز بائع کی ملکیت تھی اھ ملخصاً،
 (۱؎ فتاوٰی خیریہ    کتاب الدعوی    دارالمعرفۃ بیروت    ۲ / ۸۷و ۸۸)
وفیہا ایضا سئل فی رجل تلقی بیتا عن والدہ وتصرف فیہ کما کان والدہ من غیر منازع ولا مدافع مدۃ تنوف عن خمسین سنۃ والآن برزجماعۃ یدعون ان البیت لجدھم الاعلی فہل تسمع دعوٰھم مع اطلاعھم علی التصرف المذکور واطلاع اٰبائھم وعدم مانع یمنعھم من الدعوی، اجاب لا تسمع ھذہ الدعوی۱؎ وفیہا عن البزازیۃ علیہ الفتوی قطعا للاطماع الفاسدۃ۲؎
اور اس میں یہ بھی ہے کہ ایک شخص نے اپنے والد سے مکان حاصل کیا اور اپنے والد کی طرح اس میں بغیر رکاوٹ و ممانعت تقریباً پچاس سال کی مدت تک تصرفات کرتا رہا اور اب ایک جماعت نے دعوٰی شروع کردیا کہ یہ مکان ہمارے جداعلٰی کا ہے تصرفات مذکورہ پر ان کو اور ان کے آباء کو اطلاع ہونے کے باوجود ان کا منع نہ کرنا حالانکہ رکاوٹ نہ تھی، تو کیا اس گروہ کا دعوٰی قابل سماعت ہے، تو انہوں نے جواب میں فرمایا کہ یہ دعوٰی مسموع نہ ہوگا اور اس میں بزازیہ سے منقول ہے کہ اسی پر فتوٰی ہے تاکہ طمع فاسدکا سد باب ہوسکے۔
 (۱؎ فتاوٰی خیریہ     کتاب الدعوٰی    دارالمعرفۃ بیروت    ۲ /۵۵)

(۲؎فتاوٰی خیریہ     کتاب الدعوٰی    دارالمعرفۃ بیروت      ۲ /۵۹)
وفی الولوالجیۃ ثم الخیریۃ ثم الحامدیۃ وغیرہما رجل تصرف زمانا فی ارض ورجل اٰخر رأی الارض والتصرف ولم یدع ومات علی ذٰلک لم تسمع بعدذٰلک دعوی ولدہ فتترک علی یدالمتصرف لان الحال شاھد۳؎وفی الخیریۃ وبہ افتی شیخ الاسلام شہاب الدین احمد المصری۴؎،
ولوالجیہ پھر خیریہ پھر حامدیہ وغیرہا میں ہے کہ ایک شخص زمانہ بھر زمین میں تصرف کرتا ہے اور دوسراشخص زمین اور اس میں تصرفات دیکھتا رہا اور کوئی دعوٰی نہ کیا اسی حال میں وہ فوت ہوگیا تو اب اس کے بیٹے کا دعوٰی قابل سماعت نہ ہوگا بلکہ زمین کو قابض کے پاس رہنے دیا جائے گا کیونکہ اس پر حال شاہد ہے، اور خیریہ میں ہے کہ شہاب الدین شیخ الاسلام احمد حلبی مصری نے اسی پر فتوٰی دیا ہے۔
 (۳؎فتاوٰی خیریہ بحوالہ فتاوٰی الولوالجی       کتاب الدعوٰی    دارالمعرفۃ بیروت      ۲ /۵۵)

(۴؎فتاوٰی خیریہ بحوالہ فتاوٰی الولوالجی       کتاب الدعوٰی    دارالمعرفۃ بیروت     ۲ /۵۹)
وفی العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ مجرد الاطلاع علی التصرف مانع من الدعوی۵؎فیہا لم یقیدوہ بموت ولابمدۃ کما تری۱؎ ،
عقود الدریہ فی تنقیح الفتاوٰی الحامدیہ میں ہے کہ تصرفات پر اطلاع ہونا ہی دعوٰی کے لئے مانع ہے اور اس میں ہے کہ فقہاء نے اس حکم کو موت اور مدت سے مقید نہیں فرمایا جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو،
 (۵؎ العقود الدریہ      کتاب الدعوٰی   ارگ بازار قندھار افغانستان۲ /۴)

(۱؎ العقود الدریۃ     کتاب الدعوی    ارگ بازار قندھار افغانستان    ۲ /۴)
وفی ردالمحتار من مسائل شتی مجرد السکوت عند الاطلاع علی التصرف مانع وان لم یسبقہ بیع۲؎،
اور ردالمحتار کے مسائل شتی میں ہے کہ اطلاع ہوجانے پر سکوت ہی دعوٰی کےلئے مانع ہوگا اگرچہ بیع نہ ہو___
 (۲؎ ردالمحتار        مسائل شتی        داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵/ ۴۷۳)
وفی الدرالمختار باع عقارااوحیوانا اوثوبا وابنہ وامرأتہ اوغیرھما من اقاربہ حاضریعلم بہ ثم ادعی الابن مثلاً انہ ملکہ لاتسمع دعواہ کذااطلقہ فی الکنز والملتقی وجعل سکوتہ کالافصاح قطعا للتزویروالحیل۳؎(عہ)۔
اوردرمختار میں ہے ایک شخص نے زمین یا جانور یا کپڑا فروخت کیا جبکہ اس کا بیٹا یا بیوی یا دیگر اقارب حاضر تھے اور جانتے تھے پھر مثلاً بیٹے نے دعوٰی کردیا کہ فروخت شدہ چیز میری ہے تو اس کا دعوٰی مسموع نہ ہوگا۔ اس کو کنز اور ملتقی میں یوں ہی مطلق ذکر کیا اور اس موقعہ پر سکوت کو اقرار کی طرح قرار دیا تاکہ حیلہ سازی اور فریب کاری کا سدباب ہوسکے۔(ت)
            عہ:  اصل میں ایک صفحہ کی بیاض ہے شاید جواب مکمل دستیاب نہ ہوا۔
(۳؎ درمختار   مسائل شتّٰی   مطبع مجتبائی دہلی         ۲/ ۳۴۶)
Flag Counter