Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
27 - 151
 (۲) والیے کہ تفویض خصومتے بعالمے مستجمع شرائط صلوح للقضاء کند اگر او خود مسلمان ست ہمچو نوابان ریاستہائے اسلامیہ اگرچہ زیر دست سلطان کافر باشد سپردنش بلاریب معتبر بود وعالم درخصوص آں خصومت مثل قاضی شدہ کہ بعزل ہیچ یک از فریقین ازقضا نرودزیرا کہ والی راچوں اختیار تقلید قضادرجملہ امورست در امرے خاص بالاولٰی باشد والقضاء ممایختص بکل ما خصہ المقلد کما نصوا علیہ وفی جامع الفصولین والبحر والتتارخانیۃ والمبسوط والمعراج وغیرہا کل مصرفیہ وال مسلم من جھۃ الکفار تجوز فیہ(ولفظ الاخیر من یجوز لہ۱؎) اقامۃ الجمع والاعیاد واخذ الخراج وتقلید القضاء وتزویج الایامی لاستیلاء المسلم علیہم۲؎اھ
 (۲) قضاکی اہلیت والی شرط کا جامع عالم ہو تو اس کو کسی والی نے کوئی مقدمہ سپرد کیا ہو اگر وہ والی خود مسلمان ہے جیسا کہ اسلامی ریاستوں کے نواب حضرات اگرچہ وہ کافر سلطان کے ماتحت ہیں تو یہ سپردداری بلا شک معتبر ہوگی، اور اس خاص مقدمہ میں وہ عالم قاضی کی مثل ہوگا کہ فریقین میں سے کسی کے معزول کرنے سے وہ معزول نہ ہوگبا کیونکہ جب ایسے والی کو جملہ اختیار والے قاضی کی تقرری کا اختیار ہے تو خاص ایک اختیار والے قاضی کی تقرری کا اختیار بطریق اولٰی ہوگا اور قضاء ان امو رمیں سے ہے کہ تقرری کرنے والے کی تخصیص کی وجہ سے خاص ہوجاتی ہے جیسا کہ اس پر فقہاء نے تصریح فرمائی ہے۔ جامع الفصولین، بحر، تاتارخانیہ، مبسوط اور معراج وغیرہ میں ہے وہ تمام شہر جن میں کفار کی طرف  سے مسلمان والی ہوں وہاں اقامت جمعہ، عیدین، خراج کی وصولی، قاضیوں کا تقرر اور یتیم لڑکیوں کا نکاح کرنا جائز ہے، آخری کے الفاظ میں (جن کو جائز ہے) کیونکہ ان پر مسلمان والی ہے اھ،
 (۱؎ ردالمحتار    بحوالہ معراج الدرایۃ    باب الجمعۃ    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱/ ۵۴۰)

(۲؎ جامع الفصولین     الفصل الاول فی القضاء     اسلامی کتب خانہ کراچی     ۳ /۱۷۲)

(بحرالرائق     کتاب القضاء     فصل فی التقلید    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۱۴)
وفی البحر عن المحیط الامام الذی استعمل القاضی امر رجلا ممن یجوز شہادتہ ان یحکم بین رجلین وھوبمنزلۃ القاضی المولی اھ ۱؎واگر مفوض کافر ست مفوض الیہ بتفویض او برمذہب معتمد مؤید بدلائل شرعیہ وقواعد ملیہ قاضی نشود ووجہہ اقول: ان الکافر لایلی فکیف یولی قال تعالٰی
لن یجعل اﷲ للکفرین علی المؤمنین سبیلا۲؎،
المولی بالفتح انما یستفید نفاذ القول من المولی بالکسر قال المحقق علی الاطلاق فی الفتح اذالم یکن سلطان ولامن یجوز التقلد منہ کما ھو فی بلاد المسلمین غلب علیہم الکفار کقرطبۃ فی بلاد المغرب الاٰن یجب علی المسلمین ان یتفقواعلی واحد منھم۳؎اھ مختصرا،
بحر میں محیط سے منقول ہے کہ جو امام قاضی کی تقرری کرتا ہے وہ ایسے شخص کو فیصلہ کرنے کا حکم دے جو شہادت کی اہلیت رکھتا ہو تو جائز ہوگا اور وہ شخص قاضی کے قائم مقام ہوگا اھ، اور اگر تقرر کرنے والا خود کافر ہوتو شرعی دلائل اور دینی قواعد سے مؤید قول کے مطابق مقرر کردہ شخص قاضی نہ ہوگا، میں کہتا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ کافر خود مسلمانوں کا ولی نہیں تو دوسرے کو کیسے ولی بناسکتا ہے، اﷲ تعالٰی نے فرمایا: اﷲ تعالٰی ہر گز کافروں کو مسلمانوں پر راہ نہ دے گا۔ مولٰی(فتح کے ساتھ)کے قول کا نفاذ مولی(کسرہ کے ساتھ) سے مستفاد ہوتاہے۔ محقق علی الاطلاق نے فتح میں فرمایا جب مسلمانوں کا نہ کوئی سلطان ہو نہ ہی کوئی ایسا والی جو قاضیوں کا تقرر کرسکے جیسا کہ مسلمانوں کے بعض علاقوں پرکفار کا غلبہ مغرب میں ہوا ہے مثلاً قرطبہ آج کل، تو مسلمانوں پر وہاں واجب ہے کہ وہ اپنے اتفاق سے کسی ایک پر راضی ہوجائیں اھ مختصراً۔
 (۱؎ بحرالرائق     کتاب القضاء     باب التحکیم    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ۷ /۲۵)

(۲؎ القرآن الکریم     ۴ /۱۴۱)

(۳؎ فتح القدیر     کتاب ادب القاضی    مکتبہ رضویہ سکھر    ۶ /۳۶۵)
قال فی النھر ھذاھوالذی تطمئن النفس الیہ فلیعتمد۴؎اھ قال الشامی الاشارۃ بقولہ وھذا، الی ماافادہ کلام الفتح من عدم صحۃ تقلد القضاء من کافر۵؎الخ
نہر میں فرمایا:اسی پر طبیعت مطمئن ہے لہذا اسی پر اعتماد چاہئے اھ، علامہ شامی نے فرمایا:ھذاکے ساتھ ان کا اشارہ فتح کے اس کلام کی طرف ہے جس میں کافر کی طرف سے تقرری قضاکو نادرست کہا گیا ہے الخ۔
 (۴؎ ردالمحتار بحوالہ نہر    کتاب القضاء     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴ /۳۰۸)

(۵؎ ردالمحتار    کتاب القضاء     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴ /۳۰۸)
اقول : ویؤیدہ ماقد منافی مسألۃ الاولی عن المبسوط والمعراج وجامع الفصولین وغیرہا ثم رأیت العلامۃ البحرایدہ بہ فی البحرحیث قال بعد نقل کلام الکمال  ویؤیدہ مافی جامع الفصولین۱؎الخ،
میں کہتا ہوں کہ پہلے مسئلہ میں ہم نے جو مبسوط، معراج، جامع الفصولین وغیرہ کابیان نقل کیا ہے وہ اس کی تائید کرتا ہے پھر میں نے علامہ بحر کو اسی سے اس کی تائید بحر میں کرتے ہوئے دیکھا جہاں انہوں نے کمال کے کلام کو نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ جامع الفصولین کا بیان اس کی تائید کررہا ہے الخ۔
 (۱؎ بحرالرائق    کتاب القضاء    فصل فی التقلید    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۶/ ۲۷۴)
وظاھراً حکم نیز نشود اگر رفتن متخاصمین پیش او ہمیں بربنائے تفویض حاکم ست قال فی ردالمحتار فی البحر عن البزازیۃ قال بعض علمائنا اکثر قضاۃ عہد نافی بلادنا مصالحون لانھم تقلدواالقضاء بالرشوۃ ویجوز ان یجعل حاکما بترافع القضیۃ واعترض بان الرفع لیس علی وجہ التحکیم بل علٰی اعتقاد انہ ماضی الحکم الاتری ان البیع ینعقد ابتداء بالتعاطی لکن اذاتقدمہ بیع باطل او فاسد وترتب علیہ التعاطی لاینعقد البیع لکونہ ترتب علی سبب اٰخر فکذاھنا۲؎اھ باختصار آرے اگر خصمین برضائے خود سوئے او ترافع کنند حکم می شود وپیش از حکم بعزل ہر یکے متعزل گردد کما ھو حکم الحکم وھو ظاہر، واﷲسبحانہ وتعالٰی اعلم۔
ظاہر یہ ہے کہ کافر کا مقرر کردہ قاضی ثالث بھی نہیں بن سکتا بشرطیکہ فریقین اس نظریہ سے اس کے ہاں پیش ہوں کہ یہ حاکم کا مقرر کردہ ہے، ردالمحتار میں ہے کہ بحر میں بزازیہ سے منقول ہے کہ ہمارے بعض علماء نے فرمایا ہے کہ ہمارے علاقہ کے اکثر قاضی ثالث ہیں کیونکہ انہوں نے رشوت سے قضاء حاصل کی ہے تو قاضی نہ ہوئے، تاہم اگر مقدمہ پیش ہوتو وہ ثالث کی حیثیت سے فیصلہ کرسکتے ہیں، اس پر اعتراض ہوا کہ ان کے ہاں مقدمہ بطور ثالث پیش نہیں ہوا بلکہ فریقین نے اس اعتقاد پر پیش کیا کہ وہ قاضی نافذ الحکم ہے، تو یہ فیصلہ درست نہ ہوگا، کیا دیکھتے نہیں کہ ابتداء بیع لین دین سے منعقد ہوجاتی ہے لیکن وہی بیع پہلے باطل یا فاسد ہوچکی ہو تو اب لین دین کے تبادلہ سے وہ بیع منعقد نہ ہوگی کیونکہ یہ دستی لین دین کا تبادلہ اب پہلے فاسد سبب پر مرتب ہے (تو یہاں بھی اگرچہ ابتداء ثالث ہوسکتا تھا لیکن اب فاسد عمل پر مرتب ہونے کی وجہ سے وہ ثالث قرار نہ پائیگا)اھ مختصرا۔ ہاں اگر فریقین اپنی مرضی سے ثالث سمجھ کر اس کے ہاں پیشی کریں تو وہ ثالث ہوسکے گا اور فیصلہ سے قبل فریقین میں سے ہر ایک کی معزولی سے معزول قرار پائے گا جیسا کہ ثالثی کا حکم و قانون ہے اور یہ واضح بات ہے۔واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم(ت)
 (۲؎ ردالمحتار    کتاب القضاء  باب التحکیم    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴ /۴۸۔۳۴۷)
مسئلہ۴۴ : علمائے دین اس مسئلہ میں کیافرماتے ہیں کہ زید کی دو زوجہ ہیں، زید نے زوجہ اول کو کل جائداد اپنی بالعوض مہر بیع کردی اور قبضہ و دخل مثل نفس خاص اپنے کے کرادیا۔ اب زوجہ ثانی کہتی ہے کہ میرا بھی مہر ادا کرو ورنہ میں نالش کرکے نصف جائداد بالعوض اپنے مہر کے تقسیم کرالوں گی، آیا زوجہ ثانی تقسیم کرالینے نصف جائدا کی مستحق ہے یانہیں؟زید کہتاہے کہ ابھی مہر تجھ کو بذریعہ نالش وصول نہیں ہوسکتا تا وقتیکہ طلاق نہ ہوجائے میں محنت مزدوری کرکے ادا کروں گا، آیا یہ قول زید کا درست ہے یاغلط؟
الجواب

صورت مسئولہ میں جب زید نے وہ جائداد زوجہ اولٰی کے ہاتھ بیع کردی زوجہ ثانیہ کو اس سے نصف جائداد عوض مہر لینے کا اختیار نہیں اور دربارہ مہر جب شرط تعجیل و تاجیل سے عاری ہو اعتبار عرف کاہے ان دیار کا عرف نہیں کہ قبل از فرق مہر ادا کیا جائے پس مطالبہ زوجہ ثانیہ محض نامسموع، البتہ اس کا مہر ذمہ زید واجب الادا ہے یہ حکم قضاءً صحیح ہے مگر دیانۃً اگر اس کا اس بیع سے زوجہ ثانیہ کو محروم رکھنا ہے تو اپنی اس نیت فاسد اور اس بیع پر کہ مبنی اس نیت پر ہے عنداﷲ ماخوذ ہے واﷲ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter