Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
26 - 151
قطع نظر کنیم تا رجوع مسلمین بلد بسوئے او درخصومات وترافع باودر قضا باو رضابحکمش درفیصلہابرائے قضائے شرعی او بسند ست کہ بہمچوحالت تراضی مسلمین نائب مناب تقلید وتولیہ سلطان دین ست فی جمعۃ ردالمحتار عن معراج الدرایۃ عن المبسوط لوالولاۃ کفارایجوز للمسلمین اقامۃ الجمعۃ ویصیر القاضی قاضیا بتراضی المسلمین اھ۱؎، وفی قضائہ عن التتارخانیۃ امابلاد علیہا ولاۃ کفار فیجوز للمسلمین اقامۃ الجمع والاعیاد ویصیر القاضی قاضیا بتراضی المسلمین اھ قال وعزاہ مسکین فی شرحہ الی الاصل ونحوہ فی جامع الفصولین۲؎اھ ای فی الفصل الاول منہ مثلہ بحروفہ وعنہ نقل فی البحرواینجا شہادت شنودن وحکم نمودن را ہیچ حاجت بتقدیم دعوٰی از جانب زن نبود زیرا کہ حرمت فرج از حقوق رب العزۃ عزوعلااست واثبات مصاہرت ازابواب شہادت حسبہ فی وقف ردالمحتار تحت قولہ والذی تقبل فیہ الشہادۃ حسبۃ بدون الدعوی اربعۃ عشرۃ مانصہ وھی الوقف وطلاق الزوجۃ (الٰی قولہ) وحرمۃ المصاھرۃ۱؎الخ
اس سے قطع نظر شہر کے مسلمانوں کا اپنے تنازعات میں اس کی طرف رجوع کرکے فیصلے لینا اور اسکے فیصلوں کو رضامندی سے قبول کرنا یہ بھی اس عالم کی شرعی قضاء کے لئے خود سند ہے کیونکہ ایسی صورت میں مسلمانوں کا متفق ہونا سرکاری ولایت اور تقرری کے قائم مقام ہوجاتا ہے۔ ردالمحتار کے جمعہ کے باب میں معراج الدرایہ سے بحوالہ مبسوط منقول ہے اگر والی کافر ہوں تو مسلمانوں کو جمعہ کا قیام اور قاضی کا تقرر جائز ہے وہ مسلمانوں کی رضامندی سے قاضی ہوجاتا ہے اھ،اسی کے باب القضاء میں تاتارخانیہ سے منقول ہے وہ علاقے جن پر کفار والی ہیں وہاں مسلمانوں کو جمعہ، عیدین قائم کرنا جائز ہے اور ان کا باہمی رضامندی سے مقرر کردہ قاضی، قاضی قرار پائے گا، فرمایا اس کو مسکین نے اپنی شرح میں مبسوط کی طرف منسوب کیاہے، اور جامع الفصولین میں بھی اس طرح ہے یعنی اس کی پہلی فصل میں انہی حروف کے ساتھ ایسے مذکور ہے اور اسی سے بحر میں منقول ہے، یہاں شہادت کی سماعت اور فیصلہ کرنے کے لئے عورت کی طرف سے دعوٰی کی حاجت نہیں ہے کیونکہ شرمگاہ کی حرمت حقوق اﷲ میں سے ہے اور حرمت مصاہرت کا اثبات شہادت حسبہ(یعنی حقو ق اﷲکے تحفظ کےلئے) کے باب سے ہے، ردالمحتار کے باب الوقف میں ماتن کے قول،'وہ مقام جہاں حسبہ شہادت بغیر دعوٰی قبول ہوتی ہے وہ چودہ مقام ہیں، اس کی عبارت یوں ہے، وہ مقام، وقف، طلاق زوجہ، اسکے قول، حرمت مصاہرت الخ،
 (۱؎ ردالمحتار    باب الجمعۃ    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱/ ۴۱۔۵۴۰)

(۲؎ ردالمحتار    کتاب القضاء    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴/ ۳۰۸)

(۱؎ ردالمحتار    کتاب الوقف    فصل یراعی شرط الواقف فی اجارتہ     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۳ /۴۰۲)
پس حکم تفریق کہ از عالم مذکور صادر شد قضائے شرعی تام ونافذ وواجب الاتباع ست از ہموں وقت مدت عدت بشمار آید واگر ازیں ہم در گزریم وحضور پدرزن نیز از جانب اوبروجہ وکالت فی الخصومۃ درخواست حکم نبودہ باشد تابترافع خصمین معنی تحکیم پدید آمدے واورااختیار تفریق ہمچوقاضی بحکم تحکیم حاصل شدےفان الحکم لہ الحکم فی کل مالیس بحد ولاقود ولادیۃ علی عاقلۃ فی التنویر حکما رجلا فحکم بینھما ببینۃ اواقراراونکول صح لوفی غیرحد وقود ودیۃ علی عاقلۃ۲؎،
تو عالم مذکور کا حکم تفریق شرعی قضا کے طور تام اور نافذ اور واجب الاتباع ہے اور اسی وقت سے عدت شمار ہوگی، اگر ہم اس حیثیت کو در گز بھی کرلیں تو عورت کی طرف سے اس کے والد کا بطور وکیل مقدمہ حاضر ہونا بھی فیصلہ کا مطالبہ قرار پاکر دونوں فریقوں کی طرف سے مقدمہ کی پیشی سے عالم مذکور کےلئے ثالثی کا حکم ظاہر کرتا ہے جس سے بحیثیت ثالث قاضی کی طرح اس کو تفریق کے فیصلہ کا اختیار حاصل ہوتا ہے کیونکہ ثالث کو حدود، قصاص، دیت کے ماسوا فیصلہ کرنا جائز ہے۔ تنویر میں ہے کہ دونوں فریقوں نے ایک شخص کو ثالث بنایا تو اس نے گواہی یا اقرار یا قسم سے انکار کی بناء پر فیصلہ کیا تو صحیح ہے بشرطیکہ حدود، قصاص اور عاقلہ پر دیت کا معاملہ نہ ہواھ۔
  (۲؎ درمختار شرح تنویر الابصار    کتاب القضاء باب التحکیم    مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۸۲)
ونیز زن را از خانہ بر آوردن وحوالت بہ پدرش کردن کہ از زوج صادر شد ایں راہم بجائے متارکہ ننہیم جائیکہ زن مدخولہ باشد وشوئے چیزے از الفاظ متارکہ برزبان نیاورد ہمچناں دستش گرفتہ بدست پدر دادبناء علی ظاہر مافی البحر وغیرہ واللفظ لہ لاتحقق للمتارکۃ الابالقول ان کانت مدخولا بھا کقولہ تارکتک اوتارکتھا اوخلیت سبیلک، اوخلیت سبیلہا اوخلیتہا ۱؎الخ وان کان لایبعدان یقوم الفعل الدال علیہ مقام القول وانما المراد نفی التحقق بمجرد الترک علی عزم ان لایعود کما یستبین بمقابلتہ بہ تاہم گفتن زوج مر عالم را کہ اگر اقرار من ثبوت یا بد زن مرااز من جداکن توکیل بتفریق ست وتوکیل تعلیق رامے پذیر د فی بیوع ردالمحتار عن البزازیۃ تعلیق الوکالۃ بالشرط جائز۲؎،
نیز بیوی کوگھر سے نکال کر اس کے باپ کے سپرد کرنا خاوند کا یہ عمل متارکہ کے قائم مقام ہوسکتا ہے جہاں پر بیوی مدخولہ ہو اور خاوند نے متارکہ کا لفظ زبان سے ادا نہ کیاہو، اور یوں ہی بیوی کا ہاتھ پکڑ کر اس کے والد کے سپرد اس کو کردیا ہو، بحر وغیرہ کے ظاہر بیان کے مطابق۔ بحر کے الفاظ ہیں کہ متارکہ کا تحقق خاوند کے قول کے بغیر نہ ہوگا جبکہ بیوی مدخولہ ہو، مثلاً قول یوں ہو کہ میں نے تجھے چھوڑا، یا اس کو چھوڑا، یا میں نے تیرا راستہ کھول دیا، یا اس کا راستہ کھول دیا، کہے، الخ۔ اور اگر کوئی ایسا فعل جو قول کے قائم مقام بن سکتا ہو تو اس فعل کو قول پر دال قرار دینا بعید نہیں ہے۔ بحر کے قول میں صرف دوبارہ عود نہ کرنے کے عزم کے طور پر بیوی کو ترک کرنے پر متارکہ کا عدم تحقق مراد ہے جیسا کہ مقابلہ کے طور پر اس کو ذکر کرنے سے ظاہر ہو رہا ہے، تاہم خاوند کا عالم مذکور کو یہ کہنا اگر میرے اقرار کا ثبوت ہوجائے تو میری بیوی کو مجھ سے جدا کردو، یہ عالم کو اپنی طرف تفریق کا وکیل بنانا ہے جبکہ توکیل میں تعلیق ہوسکتی ہے، ردالمحتار کے بیوع کے باب میں بزازیہ سے منقو ل کہ توکیل کو کسی شرط سے معلق کرنا جائزہے،
 (۱؎ بحر الرائق     کتاب النکاح    باب المہر    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۳/ ۱۷۲)

(۲؎ ردالمحتار    کتاب البیوع     باب مایبطل بالشرط الفاسد الخ    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴/ ۲۳۰)
پس تفریق عالم بحکم توکیل متارکہ از جانب شوئے شدو حکم فرقت وعدت وملک نفس بعد ازاں بروئے کار آمد و اگر ازیں جملہ وجوہ پنجگانہ دامن نظر بر چنیم وہمچناں گیریم کہ عالم بے قضاوبے تحکیم وبے توکیل برستم فضولی حکم تفریق نمودہ است نیز رنگ نفاذ یافت زیراکہ حکم فضولی نزد ماباطل نیست بلکہ بر تنفیذ متخاصمین موقوف اینجا کہ زن وشوہر ہر دو براں حکم راضی شدند و براں بستہ تنفیذش کردند بنفاز انجا مید وتسلیم لاحق ہمچو تحکیم سابق گردید کما نص علیہ فی ردالمحتار عن الطحطاوی عن الھندیۃ عن المحیط،
پس اس صورت میں عالم کا تفریق کرنا خاوند کی طرف سے اس کو متارکہ کی توکیل کی بناء پر ہے، اس تفریق پر حکم فرقت، عدت اور بیوی کا خود مختار ہونا، مرتب ہو کر نافذ ہوا ہے، اگر ہم پانچ مذکورہ وجوہ سے صرف نظر کر بھی لیں (یہ قرار دیں کہ عالم مذکور نے بغیر قضاء، بغیر تحکیم(ثالثی) اور بغیر توکیل یہ تفریق کی ہے اور بطور فضولی یہ کارروائی کی ہے، تب بھی یہ تفریق نافذ ہوجائے گی کیونکہ ہمارے نزدیک فضولی کا عمل باطل قرار نہیں پاتا بلکہ فریقین کی تنفیذ پر موقوف رہتا ہے جبکہ یہاں مرد اور عورت دونوں نے اس عالم کے عمل پر رضامندی ظاہر کردی ہے اوراس کے عمل کے نفاذ کو پختہ کردیا تو وہ عمل نافذ ہوگیا اگرچہ عالم کے عمل کے بعد راضی ہوئے لیکن  بعد کا تسلیم کرنا بھی تحکیم سابق کی طرح ہے یعنی گویا انہوں نے اس کو پہلے ثالث بنایاا ور تسلیم کرلیا جسا کہ اس پر ردالمحتار میں طحطاوی سے بحوالہ ہندیہ تصریح منقول ہے کہ محیط میں ایسے ہے۔
وفی البحر لو حکم بغیر رضاھمالم یجز الاان یجیزا بعد الحکم اھ۱؎مختصراوفیہ عن المحیط لوامرالقاضی رجلا ان یحکم بین رجلین لم یجز اذالم یکن ماذونا بالاستخلاف الاان یجیزہ القاضی بعد الحکم او یتراضی علیہ الخصمان۲؎اھ ،
اور بحر میں ہے اگر کسی نے فریقین کی اجازت کے بغیر ثالثی فیصلہ دیا تو جائز نہ ہوگا الایہ کہ فریقین فیصلہ کے بعد اس کو تسلیم کرلیں اھ مختصرا۔ اور اسی میں محیط سے منقول ہے اگر قاضی نے کسی شخص کو فریقین میں فیصلہ کرنے کا حکم دیا تو قاضی کا حکم جائز نہ ہوگا بشرطیکہ قاضی کو اپنا خلیفہ بنانے کی اجازت نہ ہو،مگر اس صورت میں کہ اس شخص کے فیصلہ کے بعد قاضی اس کی توثیق کردے یا فریقین اس شخص کے فیصلہ کو باہمی رضامندی سے تسلیم کرلیں، تو وہ فیصلہ نافذ ہوجائیگااھ،
 (۱؎ بحرالرائق     کتاب القضاء     باب التحکیم     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۷ /۲۹)

(۲؎بحرالرائق    بحوالہ محیط       کتاب القضاء     باب التحکیم   ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۷ /۲۵)
بالجملہ کیفما کان فرقت میان ایں زن و شو حاصل شد و درفتوائے سابقہ روشن کردہ ایم کہ اقرار زنا بمادر زن مثبت حرمت مصاہرت ست واصرار برآں نامشروط ورجوع ازاں نامقبول پس بعد عدت عناں زن ھم بدست زن باشد جزیں کس باہر کہ خواہد عقد زنا شوئی بندد۔واﷲ سبحنہ وتعالٰی اعلم۔
خلاصہ یہ کہ اس مرد و عورت کے درمیان متارکہ اور فرقت ہوچکی ہے، اورپہلے ہم اپنے فتوٰی میں واضح کرچکے ہیں کہ اپنی بیوی کی والدہ سے زنا کے اقرار سے حرمت مصاہرہ ثابت ہوجاتی ہے اور یہ کہ حرمت کے لئے اس اقرار پر اصرار کرنا شرط نہیں ہے اور اس اقرارسے رجوع بھی صحیح نہیں ہے، پس عدت گزرجانے کے بعد یہ عورت خود مختار ہے وہ اس مرد کے سوا جس سے چاہے نکاح کرسکتی ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔(ت)
Flag Counter