Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
25 - 151
مسئلہ۴۰ تا ۴۱:  ۱۵ ذی الحجہ ۱۳۱۲ھ

(۱)کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہندہ کہتی ہے کہ میر امہر پانسو روپیہ تھا اور گواہ کہتے ہیں کہ نکاح تو ہمارے سامنے ہوا لیکن مہر یاد نہیں تو ہندہ کو کس قدر مہر بموجب شرع شریف کے ملنا چاہئے۔بینواتوجروا۔

(۲) ہندہ کہتی ہے کہ مہر میرا مبلغ پانسوروپیہ کا تھا اور گواہ بھی بیان کرتے ہیں کہ ہمارے سامنے مہر پانسو روپے کا باندھا گیا تھا اور ہم گواہ تھے لیکن مجوز ان گواہوں پر اطمینان نہیں کرتے ہیں تو بموجب شرع شریف کے کس قدر مہر ہونا چاہئے۔بینواتوجروا۔
الجواب

(۱) اگر یہ پانسو روپے ہندہ کا مہر مثل یا مہر مثل سے کم ہے تو پورے پانسو دلائے جائیں گے گواہوں کی کچھ حاجت نہیں، اور اگر زیادہ ہے تو جتنا مہر مثل ہے اس قدر ضرور دلایا جائے، باقی زیادتی بے شہادت شرعی یا بے قبول زوج کے نہ دلائیں گے، 

فتاوٰی قاضیخان وعالمگیری میں ہے:
ان کان النکاح معروفا کان القول قول المرأۃ الی مہر مثلھا یدفع ذلک الیہا۱؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
اگر نکاح مشہور ومعروف ہے تو مہر مثل تک بیوی کا دعوٰی قبول ہوگا اور اسے دے دیا جائے گا۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی قاضی خاں    کتاب الوصایا     فصل فی تصرفات الوصی الخ        نولکشور لکھنؤ    ۴ /۸۵۹)
 (۲) اگر وہ گواہ شرعاً قابل اطمینان نہیں تو ان کا ہونا نہ ہونا برابر ہے اس صورت میں مہر مثل تک ہندہ کی بات بے گواہ مان لی جائے گی اس سے زیادتی  مقبول نہ ہوگی جب تک شوہریا اس کے وارث تسلیم نہ کریں یا عورت گواہان شرعی سے ثبوت نہ دے۔
مسئلہ۴۲ تا۴۳: ازالہ آباد محلہ دوندے پور مکان صوبہ دار مرحوم مرسلہ مولوی محمد عبیداﷲ صاحب۱۳جمادی الاولٰی ۱۳۱۳ھ

جامع الکمالات العلمیہ والعملیۃ حاوی الفنون الاصلیۃ والفرعیۃ مخدوعی المعظم ومطاع مفخم والاشان جناب مولوی کااحمد رضاخان صاحب دام مجدہم، السلام علیکم ورحمۃ اﷲوبرکاتہ، یہ استفتاء پنجاب سے آیا ہے اصل مستفتی صاحب ذی علم کی عبارت بعینہا درج استفتاء ہے۔
سوال اول: چہ میفرمایند علمائے دین ومفتیان شرع متین اندریں مسئلہ کہ شخصے روبروئے چند اشخاص اقرار نمود کہ باوالدہ منکوحہ خود زنا نمودم بعد ازچہارپنج ماہ مثلاً منکوحہ خودرا درخانہ خود آوردوآباد شد ندگرفت مرد مان طعن کردند ازاقرار سابق رجوع نمود حکومت ایں امر پیش عالم شہر برد شہود براقرار ش بحضور آں پیش قاضی شہادت ادانمودند عالم موصوف بموجب شہادت حکم بحرمت آں منکوحہ کرد، براں حکم راضی شدہ ہموں وقت زوجہ خود را والد آں نمود واز خانہ بیروں کرد آیا در صورت مزبورہ منکوحہ برآں مقر حرام میشودیا نہ وبعد گزشتن عدت نکاحش باشخص دیگر جائز یا نہ؟بینواتوجروا۔
سوال اول: کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص نے چند اشخاص کے روبرو یہ اقرار کیا کہ میں نے اپنی منکوحہ کی والدہ سے زنا کیا ہے، اس کے چند ماہ بعد وہ اپنی منکوحہ کو اپنے گھر لایا اور آباد کرلیا، لوگوں نے اس پر طعن کیا تو وہ اپنے سابقہ اقرار سے پھر گیا، یہ فیصلہ شہر کے عالم کے پاس گیا تو گواہوں نے اس کے اقرار پر قاضی کے سامنے شہادت دی تو عالم مذکور نے بموجب شہادت اس پر منکوحہ کے حرام ہونے کا حکم دیا تو وہ شخص اس حکم پر راضی ہوگیا اسی وقت اس نے زوجہ کو اس کے والد کے حوالے کردیا اور اپنے گھر سے نکال دیا، کیا مذکورہ صورت میں اقرار کرنے والے پر اس کی بیوی حرام ہوگئی ہے یانہیں؟اور عدت گزارنے کے بعدوہ کسی دوسرے شخص سے نکاح کرسکتی ہے یانہیں بینواتوجروا۔(ت)
سوال دوم: ایک اور مسئلہ بھی جناب محرر تحریر دام مجدہم نے جناب والا سے دریافت فرمایا ہے اس کے سوال کو بھی انہیں کی عبارت سے عرض کرتا ہوں:
''مسئلہ دیگر ازفاضل علامہ بریلوی دام فیضہم پرسش فرمایند کہ حاکمان وقت کہ مقدمہ برضائے فریقین حوالہ عالمے مے نمایندوازاں عالم استدعائے فیصلہ مے نمایند عالم موصوف دراں مقدمہ حکم قاضی دارد یا حکم ست واگر فریقین یا کہ یک فریق بلا امر حاکم آنرامعزول کند معزول می شود کہ بسبب حوالہ کردن حاکم وقت حکم قاضی گرفت بغیر عزل حاکم معزول نمی گردد بتفصیل جواب ایں سوالات ازعلامہ موصوف استدعا کنند''۔انتہت بالفاظہا۔
''دوسرا مسئلہ علامہ فاضل بریلوی دام فیضہم سے پوچھیں کہ حاکمان وقت نے فریقین کی رضامندی سے مقدمہ ایک عالم کے سپرد کیا اور اس سے فیصلہ طلب کیا، تو عالم مذکور کو اس مقدمہ میں قاضی کی حیثیت حاصل ہوگی یا ثالث کی اور اگر دونوں یا ایک فریق حاکم کی اجازت کے بغیر اس کو معزول کردیں تو وہ معزول قرار پائے گا یا حاکم وقت کے سپرد کرنے کی وجہ سے اس کا حکم قاضی والا ہوگا کہ حاکم کے معزول کئے بغیر معزول نہ ہوگا، اس سوال کا جواب علامہ صاحب سے بالتفصیل حاصل کریں''۔سائل کے الفاظ ختم ۔(ت)
الجواب

(۱) سائل فاضل بعد استکشاف وانمودند کہ مراد بقاضی مذکور فی السوال ہماں عالم ست غیر او عالمے جید دراں بلدہ نیست اہالی بلدہ وقت حاجت بمرضی خود رجوع باومی نمایند آں اعلم اہل بلد گا ہے فیصلہ نزاع مے نماید وگاہے جواب می دہد قاضی شرع آنجا کسے نیست مرد مان شہرکہ شخصے مذکور روبروئے ایشاں چندیں بار بمجالس متفرقہ اقرار زنا بمادر زنش کردو بازرہ انکار وجحود اقرار نورد حسب معمول ماجراپیش عالم موصوف بردند وتصفیہ ایں امر باستماع شہود خواستند آں کس نیز پیش عالم رفتہ گفت کہ ایناں برمن دروغ بستہ اند گاہے اقرار ایں کار نہ کردہ ام ازروئے شرع شریف فیصلہ ایں امر فرمایند اگر اقرار من بموجب شریعت ثابت شود زوجہ مرااز من تفریق نما یند عالم موصوف باستدعائے اہالی بلد وآں مقر شہود را طلب نمود اقرار پیش مرد مان بسیار کردہ بود مگر چار اشخاص را کہ نزد او معتبر بودند پیش خواند گواہان نزد عالم بحضورآں مقر بغیبت زنش ادائے شہادت کردند ، بعد ثبوت عالم بثبوت اقرار زنا حرمت زن حکم کرد مقر را فرمود کہ زن را فی الحال حوالہ والدش کن والد منکوحہ بمجلس حکم حاضر بود مقر تسلیم نمود وگفت اینک ہمچناں کنم مجلس برخاست مقر ہموں وقت زن راحوالہ پدرش نمود زوجہ را دریں باب دخلے نہ بود محض زوج واہالی بلدہ درخواست ایں فیصلہ نمودند لکن زوجہ بریں قضاوحکم راضی گشت انتہی ودرسوال افزودند کہ اگر زن را دریں صورت بشخصے دیگر نکاح رواست بسبب تفریق عالم ست یا بسبب حوالت کردن زوج ومحکم رااختیار تفریق مثل قاضی ہست یانے انتہی، درصورت مستفسرہ کہ بلادبوجہ استیلائے نامسلمانان ازقاضی شرع خالی ست اگر ہمہ از تصریح علماء کرام کہ در ہمچو مقام عالم دین کہ اعلم اہل بلد باشد قاضی و والی شرع میشود،
وضاحت طلب کرنے کے بعد سائل نے یہ ظاہر کیا ہے کہ سوال میں مذکور قاضی سے مراد عالم ہے جس سے بڑاکوئی عالم شہر میں نہیں ہے شہر والے لوگ اپنی ضروریات پر اپنی مرضی سے اس عالم سے رجوع کرتے ہیں تو شہر کا یہ بڑاعالم کبھی تنازع میں فیصلہ سناتا ہے اور کبھی جواب دے دیتا ہے، اس شہر میں کوئی قاضی شرع

نہیں ہے وہ لوگ جن کے روبرو مذکور شخص نے مختلف مجلسوں میں متعدد بار اپنی منکوحہ کی والدہ سے زنا کا اقرار کیا بعد ازاں اس نے اپنے اقرار سے انکار کیا تو ان لوگوں نے حسب معمول ماجراعالم موصوف کے ہاں پیش کیا اور گواہوں کی شہادت پر اس ماجر ا کا فیصلہ طلب کیا اور وہ مذکور شخص بھی عالم کے پاس گیااور کہا کہ ان لوگوں نے مجھ پر افتراء باندھا ہے میں نے اس کام کا اقرار نہیں کیا لہذا آپ ازروئے شرع شریف اس معاملہ کا فیصلہ فرمادیں اگر بموجب شرع میرا اقرار ثابت ہوجائے تو میری بیوی کو مجھ سے جدا کردیں، تو عالم موصوف نے شہر والوں اور اس اقرار کرنے کے مطالبہ پر گواہ طلب کئے اگرچہ متعدد لوگوں کے سامنے اس نے اقرار کیا ہے مگر صرف چار گواہ جو عالم مذکور کے نزدیک معتبر تھے طلب کئے اور گواہوں نے اقرارکرنے والے کی موجودگی اور اس کی بیوی کی غیر موجودگی میں گواہی دی تو عالم مذکور نے اقرار کے ثابت ہوجانے پر اس شخص پر اس کی بیوی کے حرام ہونے کا فیصلہ فرمایا، اور مقر کو حکم دیا کہ عورت کو فوراً اس کے والد کے حوالے کردو جبکہ منکوحہ کا والد فیصلہ کی مجلس میں موجود تھا، مقر نے اس فیصلہ کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ میں ایسے ہی کروں گا، مجلس ختم ہوگئی، اور مقر نے اسی وقت عورت کو اس کے والد کے سپرد کردیا، عورت کا اس میں کوئی دخل نہ ہوا، اور محض شہر والوں اور خاوند کی درخواست پر یہ فیصلہ ہوا، لیکن بیوی نے اس فیصلہ کو راضی خوشی قبول کیا، وضاحت ختم ہوئی، سوال میں انہوں نے یہ اضافہ کیا ہے اگر اس صورت میں عورت کو دوسرے شخص سے نکاح جائز ہو تو یہ جواز عالم کی تفریق سے ہوگا یا خاوند کی طرف سے بیوی کو اس کے والد کے سپرد کرنے کی وجہ سے ہوگا، اور کیا ثالث کو قاضی کی طرح تفریق کا اختیار ہے یا نہیں(اضافہ ختم ہوا) مسئولہ صورت میں حکم یہ ہے کہ جو علاقے کفار کے غلبے کی وجہ سے قاضی سے خالی ہوں تمام علماء کرام کی تصریح کے مطابق ایسے مقامات میں جو شہر کا بڑا عالم ہو وہ قاضی قرار پاتا ہے اور شرعاً والی بن جاتا ہے،
فی النوع الثالث من الفصل الثانی من الباب الثانی من الحدیقۃ الندیۃ الطریقۃ المحمدیۃ للعلامۃ العارف باﷲسیدی عبدالغنی النابلسی قدس سرہ القدسی عن الفتاوی العتابیۃ للامام الاجل ابی نصراحمد بن محمد بن عمر البخاری العتابی المتوفی ۵۸۶ ھ اذاخلاالزمان من سلطان ذی کفایۃ فالامور موکلۃ الی العلماء ویلزم الامۃ الرجوع الیہم ویصیرون ولاۃ فاذا عسر جمعہم علی واحد استقل کل قطر باتباع علمائہ فان کثر وافالمتبع اعلمھم فان استووااقرع بینھم۱؎الخ،
طریقہ محمدیہ کی شرح حدیقہ ندیہ کی نوع ثالث کے باب ثانی کی فصل ثانی مصنفہ علامہ عارف باﷲسیدی عبدالغنی النابلسی (قدس سرہ القدسی) میں فتاوٰی عتابیہ مصنفہ امام اجل ابو نصر احمد بن محمد بن عمر بخاری عتابی متوفی ۵۸۶ھ کے حوالے سے منقول ہے کہ جب زمانہ شرعی سلطان سے خالی ہو تو امور علماء کے سپرد ہوجاتے ہیں اور امت پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ ان علماء کی طرف رجوع کرے اور یہ علماء والی بن جاتے ہیں تو جب تمام لوگوں کا ایک عالم پر اجتماع دشوار ہے تو ہر علاقہ اپنے علماء کی اتباع کرے اور اگر علاقہ میں علماء کثیر ہوں تو پھر سب سے بڑے عالم کی اتباع ہوگی اور اگر سب برابرہوں تو قرعہ اندازی سے متعین کیاجائے الخ،
 (۱؎ الحدیقۃ الندیۃ    النوع الثالث من الفصل الثانی     مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد    ۱ /۳۵۱)
Flag Counter