Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
24 - 151
مسئلہ۳۸: ازاوجین مکان میر خادم علی صاحب اسسٹنٹ مرسلہ حاجی یعقوب علی صاحب غرہ۲ شعبان ۱۳۱۲ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایام سابق میں قصبہ بڑوانی میں حاکم ہنود تھا اس کو بادشاہ اسلام نے مشرف باسلام کرکے عہدہ قضاء پر مقرر کیا تھا بعد معدود الایام کے وہ راہی سوئے جناں ہو ااس کی اولاد سے ورثہ مسلم نہ تھا اولاد ہنود اس کی اس کے قائم مقام ہوئی اور دفتر قضابھی اس کے قبضہ میں رہا ان ایام میں 

مسلمان وہاں کے مذہب سے واقف نہ تھے موافق حکم حکام ہنود نکاح ہوتا رہا اب جماعت اہل اسلام اپنا قاضی مسلم مقرر کیا چاہتی ہے، درست ہے یاکہ وہی حکام ہنود عہدہ قضاء پر قائم رہے اور چند ملازم مسلم اس کے طرفدار کس سزا کے مستحق ہیں، ان مسائل میں جو حکم مصدق بالتصدیق ہو بیان فرمائیں بعبارت کتب رحمۃ اﷲ علیہ اجمعین۔
الجواب

شریعت مطہرہ میں مسلمانوں پر کوئی عہدہ حکومت کسی کافر کو دینا روا نہیں،
قال تعالٰی لن یجعل اﷲ للکٰفرین علی المؤمنین سبیلا۱؎۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا: اﷲ تعالٰی ہر گز کافروں کو مومنین پر ولایت نہ دے گا۔(ت)
 (۱؎ القرآن الکریم       ۴/ ۱۴۱)
نہ مسلمان کے نکاح بر طریقہ کفار کرنے روا ہیں۔
قال اﷲ تعالٰی
ولاتتبعوا خطوات الشیطٰن۲؎۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا: شیطانوں کے راستوں کی پیروی نہ کرو۔(ت)
   ( ۲؎ القرآن الکریم     ۲ /۱۶۸)
نہ مسلمانوں کو دینی کام میں کافر سے مدد لی جاسکتی ہے۔ حدیث میں ہے :
قال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم انالانستعین بمشرک۳؎۔
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: ہم کسی مشرک سے مدد نہ لیں گے۔(ت)
(۳؎ المصنف لابن ابی شیبہ کتاب الجہاد    حدیث۱۵۰۰۹   ادارۃ القرآن کراچی۱۲ /۳۹۵)
جو مسلمان اس ہندو کے طرفداورمددگار ہیں شرعاً مستحق تعزیر وگنہگار ہیں،
قال اﷲ تعالٰی لایتخذ المومنون الکفرین اولیاء من دون المؤمنین۴؎۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا: مومن کفار کو اپنا دوست نہ بنائیں مومنین کے علاوہ۔(ت)
(۴؎ القرآن الکریم  ۴/ ۱۴۴)
ان  پر اس ناجائز طرفداری سے توبہ لازم ہے،
قال اﷲ تعالٰی ولاتعاونواعلی الاثم والعدوان۵؎۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا: گناہ اور عداو ت میں ایک دوسرے سے تعاون مت کرو۔واﷲ تعالٰی اعلم۔(ت)
 (۵؎ القرآن الکریم ۵/۲)
مسئلہ۳۹:ازبنارس کندیگر ٹولہ مسجد بی بی راجی شفاخانہ مرسلہ مولوی حکیم عبدالغفور صاحب غرہ شعبان ۱۳۱۳ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ چاندمحمد کے چار پسر تھے:تاج محمد، لطف اﷲ، کریم اﷲ،عبدالواحد۔ اور ایک دخترجان بی بی۔ چاند محمد نے ایک مکان خام سفالہ پوش اپنے روپے سے تاج محمد کے نام نیلام میں خرید کیا، کچھ روز بعد چاند محمد نے ایک مکان خام سفالہ پوش اور تھوڑی سی زمین تاج محمد مذکور اور لطف اﷲ پسر ثانی کے نام اپنے روپے سے خرید کیا، بوقت خرید دونوں پسر بالغ تھے، چونکہ واقعہ ستر برس کا ہے لہذا یہ نہیں معلوم کہ الفاظ بیع وشراء کے کس کی جانب مضاف تھے لیکن قبالہ مکان وزمین چاند محمد نے تاج محمد ولطف اﷲکے نام کیا مگر قبضہ کسی کو نہ دیا کرایہ مکان ہمیشہ آپ لیتے رہے، بعد چند سال کے تاج محمد ایک پسر فیض اﷲ کو چھوڑ کر اپنے والد وبردران وخواہر کی حیات میں قضا کیا بعدہ چاندمحمد نے دونوں مکان توڑکر مع زمین کے اس پر مکان پختہ اپنے روپے خاص سے تیار کیا، بعد ازاں لطف اﷲ نے انتقال کیا، غرض دونوں پسر جن کے نام مکان زمین خرید کی گئی انتقال کرگئے، بعدہ چاند محمد کو اتفاق سفر حج کا ہو ا بوقت سفر حج کریم اﷲ وعبدالواحد وغیرہ نے اپنے والد سے کہا کہ فیض اﷲ تو محجوب ہوگئے لیکن ان کو کچھ دینا چاہئے بوجہ کہنے پسران کے چاند محمدنے کہا کہ فلاں مکان دیا جائے، چنانچہ سادہ کاغذ پر لکھ بھی دیا لیکن قبضہ نہ دیا چونکہ کاغذ گم ہوگیا لہذا مجبوری ہے ورنہ اس کے مضمون سے اطلاع دی جاتی، بعد واپسی سفر حج کے چاند محمد نے فیض اﷲمحجوب اور ایک اپنے پسر عبدالواحد کو لے کر مکان تحریر میں قیام کیا، بعد ازاں چاند محمد کریم اﷲ وعبدالواحد وجان بی بی کو چھوڑ کر انتقال کرگیا، اس وقت مکان مذکور میں فیض اﷲمحجوب اور عبدالطیف مقیم ہیں، خلاصہ سوال یہ ہے کہ فیض اﷲ اس مکان میں سے حصہ پائیں گے یا وہ مکان پائیں گے جوان کے نام چاند محمد نے بوقت سفر حج کے لکھا تھا یا کچھ نہ پائیں گے، اگر مکان متنازع فیہ میں سے حصہ پائیں گے تو اس قدرمالیت دی جائے گی جوان کے والد تاج محمد کے نام خرید ہوئی تھی یا جس قدر عمارت چاند محمدنے بعد انتقال تاج محمد کے بنوائی تھی سب فیض اﷲ کو مع اس زمین سابق کے ملے گی، بینواتوجروا۔
الجواب

مجرد قبالہ کوئی حجت شرعیہ نہیں، نہ صرف اس کی بناء پر کچھ حکم ہوسکتا ہے نہ کوئی اپنا استحقاق ثابت کرسکتا ہے، 

فتاوٰی امام قاضی خاں واشباہ والنظائر وفتاوٰی خیریہ وعقود الدریہ وغیرہا میں ہے :
واللفظ للرملی اماالثبوت بمجرد اظہار الحجۃ بلا بینۃ شرعیۃ فلاقائل بہ من ائمۃ الحنفیۃ المعتمد علی قولھم لان الخط رسم مجردخارج عن حجج الشرع الثلث التی ھی البینۃ والاقرار والنکول وھذالاتوقف فیہ لاحد۱؎۔
رملی کے الفاظ ہیں: محض خط کو حجت ظاہر کرنا ثبوت کے لئے بغیر گواہی کے، توائمہ احناف میں سے جن کے قول پر اعتماد ہے کوئی بھی اس کا قائل نہیں ہےکیونکہ خط محض تحریر ہے جو شرعی تین دلائل سے خارج ہے شرعی دلائل گواہی، اقراراور قسم سے انکار ہیں، اس میں کسی کوتوقف نہیں ہے۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی خیریہ    کتاب ادب القاضی    ۲ /۱۲،    باب خلل المحاضر والسبحلات    ۲ /۱۹،    کتاب الوقف ۱ /۲۰۳و ۲۲۸)

(کتاب الدعوی    ۲ /۴۷    اشباہ والنظائر    الفن الثانی    کتاب القضاء والشہادۃ    ۱ /۳۳۸)
خصوصاً صورت مستفسرہ کا قبالہ تو بنظر عرف غالب بھی قابل لحاظ نہیں، ایسی صورت میں اکثر یہی ہوتا ہے کہ باپ بطور خود خرید کر بغرض تخفیف خرچ وثقیل مسافت قبالہ اولاد کے نام کرادیتا ہے مقصود اولاد کو تملیک کرنا ہوتا ہے نہ کہ فضولی بن کر کوئی عقد از جانب اولاد کرنا جس کا نفاذ اجازت اولاد بائعین پر موقوف ہے
یعلم ذٰلک کل من عرف العرف الشائع بینھم
 (جو آپس کے مشہور عرف کو جانتا ہے اسے یہ معلوم ہے۔ت) ولہذا اس عقد کے بعد بائعین کو بلاتامل تحریر قبالہ وغیرہ تکمیلات عرفیہ کرادیتے ہیں اولاد کے منتظر نہیں رہتے۔ یہ قبالہ ان کے نام کرانا بحکم عرف جانب مشتری سے دلیل تملیک وہبہ ہوتا ہے، چاند محمد کا بعد تحریر قبالات مکانات پر اپنا قبضہ رکھنا شکست وریخت بنائے عمارت پختہ وغیرہا تصرفات مالکانہ کرتے رہنافیض اﷲ کو محجوب الارث مان کراس کے لئے کسی جائداد لکھنے کی ذکرکرنا یہ سب معاملات دلیل واضح ہیں کہ وہ خریداریاں چاند محمد نے اسی عرف غالب کے طور پر کی تھیں اور ازانجا کہ تاج محمد ولطف اﷲ پیش از قبضہ مکانات انتقال کر گئے وہ ہبہ عرفی باطل ہوگیا اور مکانات بدستور ملک چاند محمد پر رہے اگر بعقد شرعی اس کی ملک میں آگئے تھے، ورنہ اکثر یہ نیلام کہ ڈگریوں میں ہوا کرتے ہیں ہر گز بیع نافذ شرعی نہیں، نہ ان کے سبب وہ شے ملک مشتری میں داخل ہو جب تک اصل مالک اس بیع کو جائز ونافذنہ کریں
کما بیناہ بتوفیق اﷲ تعالٰی فی فتاوٰینا
 (جیسا کہ اس کو ہم نے اﷲتعالٰی کی توفیق سے اپنے فتاوٰی میں بیان کیا ہے۔ت)

درمختار میں ہے :
یمنع الرجوع فیہا موت احد العاقدین بعد التسلیم فلو قبلہ بطل۲؎اھ ملتقطا۔
عقد کرنے والے دونوں فریقوں میں سے ایک کی موت ہبہ میں رجوع کے لئے مانع ہے جب ہبہ پر قبضہ کے بعد موت واقع ہوئی ہو اور اگر قبضہ سے قبل موت واقع ہوئی تو ہبہ باطل ہوجائیگا اھ ملتقطا(ت)
 (۲؎ درمختار    کتاب الہبۃ    باب الرجوع فی الہبۃ    مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۱۶۱)
پس فیض اﷲ کا اس مکان میں اصلاً حق نہیں، ہاں اگر شہادت مقبولہ شرعیہ سے ثابت کرتاکہ خاص عقد بیع بنام تاج محمد واقع ہوا چاند محمد اس ایجاب وقبول میں محض فضولی تھا، پھر تاج محمد نے اس شراء فضولی کو جائزکیا اور مالک مکان ہو ا تو البتہ جو مکان ملک تاج محمد تھا اس سے بقدر اپنے سہم شرعی کے فیض اﷲ کو ملتا اور اس کے عملہ قدیم کا تاوان بھی بقدر اپنے حصہ کے ترکہ چاند محمد سے پاتا جسے اس نے توڑڈالاتھا،مگر یہ عمارت پختہ کہ چاند محمد نے اپنے روپے سے بنائی اس میں فیض اﷲ کا یوں بھی حق نہ ہوتا جب تک شہادت شرعیہ سے ثابت نہ کرتا کہ یہ تعمیر چاند محمد نے بطور خود تاج محمد ہی کے لئے بنائی یا تاج محمد نے اس سے درخواست کرکے بنوائی،
فی الدرعمردار زوجتہ بمالہ باذنھا فالعمارۃ لہا والنفقۃ دین علیہا ولو لنفسہ بلااذنھا فالعمارۃ لہ ولہا بلااذنھا فالعمارۃ لہاوھو متطوع فی البناء، ولو اختلفا فی الاذن وعدمہ ولابینۃ فالقو ل لمنکرہ بیمینہ، وفی ان العمارۃ لھا اولہ فالقول لہ۱؎اھ ملخصاً۔
در میں ہے اگر خاوند نے اپنے مال سے بیوی کا مکان تعمیر کیا اگر بیوی کی اجازت سے کیا تو مکان بیوی کا ہوگاخرچہ بیوی پر قرض ہوگا اور اگر بیوی کی اجازت کے بغیر اپنے لئے تعمیر کیا تو عمارت خاوند کی ہوگی، اگر بیوی کےلئے اس کی اجازت کے بغیر بنایا تو عمارت بیوی کی ہوگی اور تعمیر خاوند کی طرف سے مفت ہوگی، اوراگر اذن اور عدم اذن دونوں کا اختلاف ہو ا ورگواہی نہ ہو تو منکر کا قول قسم کے ساتھ معتبر ہوگا، اور عمارت کی ملکیت میں اختلاف ہو کہ بیوی کا ہے یا خاوند کا ہے تو خاوند کا قول معتبر ہوگا اھ ملخصاً(ت)
 (۱؎درمختار      مسائل شتی     مطبع مجبتائی دہلی     ۲ /۳۴۸)
یوں ہی وہ مکان کہ وقت سفر حج چاند محمد نے فیض اﷲ کو دیا اور قبضہ دینے سے پہلے انتقال کیا اس میں بھی فیض اﷲ کا کوئی حق نہ رہا،
  لما علمت ان موت احدھما قبل القبض یبطل الھبۃ۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
کیونکہ تجھے معلوم ہے کہ قبضہ سے قبل ایک کی موت ہبہ کو باطل کردیتی ہے۔واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
Flag Counter