Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
23 - 151
مسئلہ۳۶: ازاوجین مکان میر خادم علی صاحب اسسٹنٹ مرسلہ یعقوب علی خاں۱۳/رمضان مبارک ۱۳۱۱ھ

اکمل کامل وافضل افاضل مولانا احمد رضاخان صاحب بعد ابراز مراسم سلام مصدع خدمت ہے کہ اب بادشاہی اسلام کا ہندوستان میں نشان باقی نہیں اور جو بعض بعض ملک میں نواب اسلام ہیں وہ بھی اجرائے تمام احکام شرعی کے مجاز نہیں اور عہدہ قضا تو جب سے مفقود ہے برائے نام قاضی ہیں ملبوس علم سے مبرااور ان میں بھی ثقہ چیدہ چیدہ، باوجود ان وجوہات کے وہ قاضی وحکام ہنود وغیرہ ولایت عامہ کا خاصہ رکھتے ہیں یانہیں؟ اور اگر نہیں تو قاضی شرع کسے قرار دیا جائے کہ اسے ولایت صبی وصبیہ کی ہو۔زیادہ نیاز۔
الجواب

اسلامی ریاستوں میں والیان مسلمین جن حکام کو مقدمات فیصل کرنے پر مقرر کرتے ہیں وہ شرعاً قاضی ہیں والی کی طرف سے جو اختیارات جائز انہیں سپرد ہوں گے وہ اختیار شرعی ہیں اگرچہ یہ ریاستیں زیر غلبہ کفار ہوں
فی جامع الفصولین کل مصرفیہ وال مسلم من جہۃ الکفار تجوزفیہ اقامۃ الجمع والاعیاد واخذالخراج وتقلید القضاء وتزویج الایامٰی لاستیلاء المسلم علیہم واماطاعۃ الکفرۃ فھی موادعۃ ومخادعۃ۱؎الخ ویأتی تمامہ ونحوہ فی ردالمحتار عن التتارخانیۃ وعن معراج الدرایۃ عن المبسوط وعن شرح مسکین عن الاصل۔
جامع الفصولین میں ہے جس شہر میں کفار کی طرف سے مقرر کردہ مسلمان والی ہو تو وہاں جمعہ، عیدین، خراج وصول کرنا، قاضی حضرات کو مقرر کرنا اور یتیم لڑکیوں کا نکاح کردینا جائز ہے کیونکہ مسلمانوں کا وہاں غلبہ ہے، رہا یہ کہ کفار کی اطاعت ہے تو یہ عارضی معاملہ اور دکھاوا ہے الخ اس کی مکمل بحث عنقریب آئے گی، اور ردالمحتار میں تاتارخانیہ سے ایسا ہی منقول ہے اور اس میں معراج الدرایہ بحوالہ مبسوط اور شرح مسکین بحوالہ اصل، سے بھی منقول ہے۔(ت)
(۱؎جامع الفصولین     الفصل الاول فی القضاء ومایتصل بہ    المطبعۃ الازہریہ مصر    ۱ /۱۴)
اور ان کا جاہل ہونا مذہب اصح پر منافی قضانہیں کہ جاہل عالم سے فتوٰی لے کر کام کرسکتا ہے،
فی جامع الفصولین کونہ عالما او مجتہدا لیس بشرط۲؎۔
جامع الفصولین میں ہے کہ قاضی کا عالم یا مجتہد ہونا شرط نہیں ہے۔(ت)
 (۲؎ جامع الفصولین     الفصل الاول فی القضاء ومایتصل بہ    المطبعۃ الازہریہ مصر    ۱ /۱۴)
یونہی غیر ثقہ بلکہ فاسق ہونا بھی، اگرچہ فاسق کو قاضی کرنا گناہ ہے،
فی الفتح والوجہ تنفیذ قضاء کل من ولاہ سلطان ذوشوکۃ وان کان جاہلا فاسقاوھو ظاہرالمذھب عندنا فیحکم بفتوی غیرہ ۳؎اھ ،
فتح میں ہے کہ صحیح وجہ یہ ہے کہ جس کو صاحب شوکت سلطان قاضی مقرر کردے اگرچہ وہ جاہل فاسق ہو اس کی قضاہمارے ہاں نافذ ہوجائے گی یہی ظاہر مذہب ہے اور ایسی صورت میں وہ قاضی دوسرے کے فتوے پر عمل کرے گا اھ،
 (۳؎ فتح القدیر         کتاب ادب القاضی    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۶ /۳۵۷)
وفی الدرالمختار الفاسق اہلھا فیکون اھلہ لکنہ لایقلد وجوبا ویاثم مقلدہ کقابل شہادتہ بہ یفتی۴؎۔
اور درمختار میں ہے فاسق شہادت کااہل ہے تو قضاکا اہل ہوگا لیکن لازم ہے کہ ایسے کو مقرر نہ کیا جائے اور مقرر کرنے والا گنہگار ہوگا جیسا کہ ایسے کی شہادت قبول کرنے والا گنہگار ہوگا،اسی میں فتوٰی ہے۔(ت)
(۴؎ درمختار        کتاب القضاء     مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۷۱)
اسی طرح بعض احکام مثل حدود میں اجرائے حکم شرع سے ممنوع ہونا بھی کہ اگر یہ ممانعت یوں ہے کہ وہ مد جس میں شرع سے مخالفت کرتے ہیں اس قاضی کی حد سماعت ہی سے خارج رکھی اور اسے جن مقدمات کے سننے کے اختیاردیا ان میں اتباع شرع سے منع نہ کیا جب تو ظاہر کہ قضا ہر طرح صالح تخصیص ہے
کما نص علیہ فی الاشباہ وغیرہا
(جیسا کہ اس پر اشباہ وغیرہ میں تصریح ہے۔ت) اور اگر یوں کہ بعض امور مفوضہ میں مطابق شرع حکم دینے سے منع کیا تاہم قضا متحقق ہے اگرچہ ایسی جگہ اس کا اختیار کرنے والا فاسق ہے،
فی الدرالمختار یجوز تقلد القضاء من السلطان العادل والجائر ولو کافراذکرہ مسکین وغیرہ الااذاکان یمنعہ عن القضاء بالحق فیحرم ۱؎۔
درمختار میں ہے کہ سلطان عادل ہو یا ظالم اس کا قاضی مقرر کرنا جائز ہے اور اگر کافر ہو تو بھی جائز ہے اس کو مسکین وغیرہ نے ذکر کیا ہے، ہاں اگر کافر قاضی کو حق کے فیصلوں سے منع کرے تو پھر اس کی طرف سے تقرری حرام ہوگی۔(ت)
 (۱؎ درمختار     کتاب القضاء    مطبع مجتبائی دہلی    ۲ /۷۳)
ہاں مسلمانوں کے معاملات اور اطفال مسلمین کے ولایات میں قاضی کا مسلمان ہونا شرط ہے ہندو وغیرہ کفار کو مسلمان پر اصلاً ولایت نہیں ہوسکتی،
قال اﷲ تعالٰی ولن یجعل اﷲ للکفرین علی المؤمنین سبیلا۲؎۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا:اوراﷲ تعالٰی کافروں کو مسلمانوں پرکوئی ولایت نہ دے گا۔(ت)
(۲؎ القرآن الکریم    ۴/ ۱۴۱)
غرض اسلامی ریاستوں میں قاضیان ذی اختیار شرعی کا موجود ہونا واضح، اور جہاں اسلامی ریاست اصلاًنہیں وہاں اگر مسلمانوں نے باہمی مشورہ سے کسی مسلمان کو اپنے فصل مقدمات کے لئے مقرر کرلیا تو وہی قاضی شرعی ہے،
فی جامع الفصولین بعدمامر عنہ اولا، واما فی بلاد علیہا ولاۃکفار فیجوز للمسلمین اقامۃ الجمع والاعیاد ویصیر القاضی قاضیا بتراضی المسلمین۳؎الخ ونحوہ فیما مر معہ من الکتاب۔
جامع الفصولین میں اولاً مذکور کے بعد ذکر کیا کہ لیکن وہ شہر جہاں کافر والی ہوں تو وہاں مسلمانوں کی رضا واتفاق سے جمعہ، عیدین کا قیام اور قاضی کا تقرر جائز ہوگا الخ اور ایسا ہی اس کے ساتھ کتاب میں بھی مذکور ہے۔(ت)
 (۳؎ جامع الفصولین     الفصل الاول فی القضاء    اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱ /۱۴)
اور اگر ایسا نہ ہو تو شہر کا عالم کہ عالم دین و فقہیہ ہو اور اگر وہاں چند علماء ہیں تو جو ان سب میں زیادہ علم دین رکھتا ہو وہی حاکم شرع ووالی دین اسلام وقاضی وذوی اختیار شرعی ہے مسلمانوں پر واجب ہے کہ اپنے کاموں میں اس کی طرف رجوع کریں اور اس کے حکم پر چلیں، یتیمان بے ولی پر وصی اس سے مقرر کرائیں نابالغان بے وصی کا نکاح اس کی رائے پر رکھیں ایسی حالت میں اس کی اطاعت من حیث العلم واجب ہونے کے علاوہ من حیث الحکم بھی واجب،
فی الحدیقۃ الندیۃ شرح الطریقۃ المحمدیۃ وفی العتابی اذاخلاالزمان من سلطان ذی کفایۃ فالامور موکلۃ الی العلماء ویلزم الامۃ الرجوع الیہم ویصیرون ولاۃ فاذا عسر جمعہم علی واحد استقل کل قطر باتباع علمائہ فان کثروافالمتبع اعلمھم فان استووااقرع بینھم وقال السمھودی وھذامن حیث انعقاد الولایۃ الخاصۃ فلاینافی وجوب طاعۃ العلماء مطلقا۱؎الخ۔
حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ میں ہے کہ عتابی میں ہے کہ جب سلطان اسلام سے زمانہ خالی ہو تو پھر امور علماء کے سپرد ہوں گے اور وہی والی قرار پائیں گے اورامت پر لازم ہوگا کہ ان کی طرف رجوع کریں اور ایک عالم پر اجتماع سب کے لئے دشوار ہوتو ہر علاقہ اپنے اپنے علماء کی اتباع کرے، اور اگر ایک علاقہ میں علماء کثیر ہوں تو بڑے عالم کی اتباع ہوگی،تو اگر وہ سب مساوی ہوں تو ایک کو قرعہ اندازی کے ذریعہ متعین کریں۔ سمہودی نے فرمایا: یہ بیان ولایت خاصہ کے متعلق ہے تو علماء کی مطلقاً اطاعت کے وجوب کے منافی نہ ہوگا الخ۔(ت)
 (۱ ؎ الحدیقۃ الندیۃ    النوع الثالث من الفصل الثانی    مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد         ۱ /۳۵۱)
رہے یہ نکاح خوانی کے قاضی جو گاؤں گاؤں مقرر ہوتے ہیں یہ کوئی چیز نہیں، نہ انہیں کچھ ولایت،
کما لایخفی
 (جیساکہ پوشیدہ نہیں۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۳۷: یکم صفر۱۳۱۲ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس باب میں کہ ایک بھائی نے چھوٹے بھائی کی شادی کی، بعد انتقال والدین کے، اپنے پاس سے رسومات شادی میں مثل زیور اور پارچہ وغیرہ میں صرف کیا، بعدہ اولاد ہونے میں صرف کیا، اورجب اس بھائی کا انتقال ہوا تو صرف تجہیز و تکفین اور چہلم وغیرہ کا کیا، پس اس صورت میں زوجہ اور دختر کے حصہ سے کس قدر ملنا چاہئے۔بینواتوجروا۔
الجواب

سائل مظہر کہ چھوٹا بھائی وقت شادی بالغ تھا، قریب بیس برس کے عمر ہوگی، اور اس کا اپنا کچھ مال نہ تھا، نہ بڑے بھائی نے مال مشترک سے اس کی شادی کا صرف کیا بلکہ خاص اپنا ذاتی مال اٹھایا اور اس صرف کی نہ چھوٹے بھائی نے درخواست کی تھی نہ بڑے نے اس سے اجازت لی، بلکہ بطور خود جیسے والدین اپنے بچوں اور ان کے نہ ہونے کی حالت میں بڑے بھائی اپنے چھوٹوں کی شادیاں کرتے ہیں شادی کردی، پس صورت مستفسرہ میں بڑابھائی ان مصارف کوکسی سے مجرانہیں لے سکتا،
فان من انفق فی امر غیرہ بغیرامرہ ولامضطرا الیہ فانہ یعد متبرعا فلایرجع بشیئ۔
کیونکہ جس نے غیر کے معاملہ میں اس کے حکم اور کسی مجبوری کے بغیر خرچ کیا تو وہ خرچہ بطور نیکی ہوگا لہذا اس خرچہ کی وصولی کے لئے رجوع نہ کرسکے گا۔(ت)

ہاں اگررسم ورواج عام ظاہر سے کسی شیئ کی نسبت ثابت ہو کہ یہ چیز سامان شادی میں اس قوم میں محض بطور عاریت دی جاتی ہے دے ڈالنا مقصود نہیں ہوتا تو صرف اس شے کا استحقاق بڑے بھائی کو ہے اگر وہ شے موجود ہے لے لے اور تلف ہوگئی تو کسی سے مطالبہ نہیں کرسکتا
فان العواری امانات لاتضمن الابالتوی
 (کہ عاریتاً لی ہوئی چیزیں امانت ہوتی ہیں ضائع کئے بغیر ان کا ضمان نہ ہوگا۔ت) اور اگر چھوٹے بھائی یا اس کی زوجہ نے خود خرچ کردی تلف کرڈالی تو جس نے کی اس سے اس کا تاوان لے سکتا ہے، اسی طرح بھائی کے اولاد ہونے میں جو اٹھایا اس کا بھی مطالبہ کسی سے نہیں جبکہ بنظر عرف صرف احسان وسلوک منظور ہوتا ہو، اور اگر عرف سے یہ ثابت ہو کہ اس تقریب میں جو کچھ بڑا بھائی چھوٹے کے یہاں دیتا ہے وہ بطور قرض ہوتا ہے کہ جب اس کے یہاں تقریب ہوتو اسے معاوضہ دینا پڑتا ہے تو اس صورت میں وہ قرض ہے اس کا عوض ترکہ برادر سے پائے گا
کما یستفاد ذٰلک من نص الفتاوی الخیریۃ
 (جیسا کہ فتاوٰی خیریہ کی تصریح سے یہ مستفاد ہے۔ت)اور صورت مسئولہ میں جب کہ بڑابھائی چھوٹے کا وارث ہے کہ زوجہ و دختر کے ساتھ بھائی بھی حصہ پاتا ہے تو جو کچھ اس نے چھوٹے بھائی کے کفن ودفن بقدر سنت میں لگایا اسی قدر مجرالے سکتا ہے اس سے زائد جو کچھ فاتحہ وسوم وچہلم میں اٹھایا وہ بھی نرااحسان تھا جسے کسی سے مجرا نہ پائے گا
کما نص علیہ العلامۃ الطحطاوی فی فرائض حاشیۃ علی الدرالمختار
 (جیسا کہ علامہ طحطاوی نے حاشیہ درمختار میں اس پر تصریح کی ہے۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter