Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
22 - 151
مسئلہ۳۲ تا۳۵: ازبلگرام شریف ضلع ہر دوئی محلہ سلھڑہ مرسلہ سیدمحمد زاہد صاحب ۴جمادی الآخر۱۳۱۱ھ 

کیافرماتے ہیں علمائے دین مسائل ذیل میں :

(۱) زید کہ ایک علاقہ کا حاکم وقت کی جانب سے مہتمم مقرر ہے بذات خود حاکم نہیں ہے کہ کوئی حکم یا فیصلہ قطعی کرسکتا ہے تو ایسی صورت میں اگر بکر جو اسی علاقہ میں رہتا ہے بغیر کسی خواہش ودباؤ کے بموجب رواج یا اخلاق انسانی کے زید کی دعوت کرے یا کوئی تحفہ کسی قسم کا پیش کرے تو اس کا لینا داخل رشوت ہے یانہیں اور جائز ہے یاناجائز؟

(۲) زید بحکم حاکم وقت کے تحقیقات کے واسطے اسی علاقہ میں جس کا وہ مہتمم ہے کسی فریق کے مکان پر جائے یا بصورت نہ ہونے فریق ثانی بمقابلہ حاکم کے تحقیقات بکر کو جائے اس وقت کھانا کھلانا بکر کا یا معمولی تحفہ پیش کرنا اور زید کو اس کا قبول کرنا داخل رشوت وناجائز ہوگا یا جائز درحالیکہ بغیر خدمت گزاری بکر کے بھی زید کا طریق عمل یکساں ہے۔

(۳) بخلاف ہر دو دفعات کے اگر زید حاکم مختار وفیصلہ قطعی کرسکتا ہے تو زید کو اپنے حدود علاقہ کے اندر دعوت وتحفہ کا قبول کرنا کیسا ہے، جائز یا ناجائز؟

(۴) جس حالت میں زید کے طریق عمل سے بکر واقف ہوجائے کہ دعوت وتحفہ سے زید میرے حق میں کچھ رعایت نہ کرے گا اپنے طریق عمل پر پورا قائم رہے گا اور باوجود اس عمل کے نمبر ۱و۲کا برتاؤ کرے تو جائز ہے یاناجائز؟
الجواب

جو شخص بذات خود خواہ از جانب حاکم کسی طرح کا قہر وتسلط رکھتا ہو جس کے سبب لوگوں پر اس کا کچھ بھی دباؤ ہواگرچہ وہ فی نفسہ ان پر جبر وتعدی نہ کرے دباؤ نہ ڈالے اگرچہ وہ کسی فیصلہ قطعی بلکہ غیر قطعی کا بھی مجاز نہ ہو جیسے کو توال، تھانہ دار، جمعدار یا دہقانیوں کے لئے زمیندار مقدم پٹواری یہاں تک کہ پنچایتی قوموں یا پیشوں کے لئے ان کا چودھری، ان سب کو کسی قسم کے تحفہ لینے یا دعوت خاصہ(یعنی وہ دعوت کہ خاص اسی کی غرض سے کی گئی ہو کہ اگر یہ شریک نہ ہو تو دعوت ہی نہ ہو)قبول کرنے کی اصلاً اجازت نہیں مگر تین صورتوں میں، اول اپنے افسر سے جس پر اس کا دباؤ نہیں، نہ وہاں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی طرف سے یہ ہدیہ ودعوت اپنے معاملات میں رعایت کرانے کے لئے ہو۔ دوم ایسے شخص سے جو اس کے  منصب سے پہلے بھی اسے ہدیہ دیتا یا دعوت کرتا تھا بشرطیکہ اب سے اسی مقدار پر ہے ورنہ زیادت روا نہ ہوگی مثلاً پہلے ہدیہ ودعوت میں جس قیمت کی چیز ہوتی تھی اب اس سے گراں قیمت پر تکلف ہوتی ہے یا تعداد میں بڑھ گئی یا جلد جلد ہونے لگی کہ ان سب صورتوں میں زیادت موجود اور جواز مفقود، مگر جبکہ اس شخص کا مال پہلے سے اس زیادت کے مناسب سب زائد ہوگیا ہو جس سے سمجھا جائے کہ یہ زیادت اس شخص کے منصب کے سبب نہیں بلکہ اپنی ثروت بڑھنے کے باعث ہے۔ سوم اپنے قریب محارم سے،جیسے ماں باپ اولاد بہن بھائی نہ چچا ماموں خالہ پھوپھی کے بیٹے کہ یہ محارم نہں اگرچہ عرفاً انہیں بھی بھائی کہیں۔ محارم سے مطلقاً اجازت ظاہر عبارت قدوری پر ہے ورنہ امام سغناقی نے نہایہ پھر امام محقق علی الاطلاق نے فتح القدیر میں اسے بھی صورت دوم ہی میں داخل فرمایا کہ محارم سے بھی ہدیہ ودعوت کا قبول اسی شرط سے مشروط کہ پیش از حصول منصب بھی وہ اس کے ساتھ یہ برتاؤ برتتے ہوں مگر یہ کہ اسے یہ منصب ملنے سے پہلے وہ فقراتھے اب صاحب مال ہوگئے کہ اس تقدیر پر پیش ازمنصب عدم ہدیہ ودعوت بربنائے فقر سمجھاجائے گا اور فی الواقع اظہر من حیث الدلیل یہی نظر آتا ہے کہ جب باوصف قدرت پیش از منصب عدم یا قلت وبعد منصب شروع باکثرت بربنائے منصب ہی سمجھی جائے گی اس تقدیر پر صرف دو ہی صورتیں مستثنٰی رہیں پھر بہرحال جو صورت مستثنٰی ہوگی وہ اسی حال میں حکم جوا ز پاسکتی ہے جب اس وقت اس شخص کا کوئی کام اس سے متعلق نہیں ورنہ خاص کام پڑنے غرض متعلق ہونے کے وقت اصلاً اجازت نہیں خواہ وہ افسر ہو یا بھائی یا پہلے سے ہدیہ وغیرہا دینے والا بلکہ ایسے وقت عام دعوت میں شریک ہونا بھی نہ چاہئے نہ کہ خاص، پھر جہاں جہاں مانعت ہے اس کی بنا صرف تہمت و اندیشہ رعایت پر ہے حقیقۃً وجود رعایت ضرور نہیں کہ اس کاا پنے عمل میں کچھ تغیر نہ کرنا یا اس کا اس کی عادت بے لوثی سے آگاہ ہونا مفید جواز ہوسکے۔ دنیا کے کام امید ہی پر چلتے ہیں، جب یہ دعوت و ہدایا قبول کیا کرے گا تو ضرور خیال جائے گا کہ شاید اب کی بار کچھ اثر پڑے کہ مفت مال دینے کی تاثیر مجرب ومشاہد ہے اس بار نہ ہوئی اس بار ہوگی، اس بار نہ ہوئی پھر کبھی ہوگی، اور یہ حیلہ کہ اس کا ہدیہ و دعوت بربنائے اخلاق انسانیت ہے نہ بلحاظ منصب، اس کا رد حضور اقدس سید المرسلین صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم فرماچکے ہیں، جب ایک صاحب کو تحصیل زکوٰۃ پر مقرر فرما کر بھیجا تھا انہوں نے اموال زکوٰۃ حاضر کئے اور کچھ مال جدارکھے کہ یہ مجھے ملے ہیں فرمایا اپنی ماں کے گھر بیٹھ کر دیکھا ہوتا کہ اب کتنے تحفے ملتے ہیں یعنی یہ ہدایا صرف اسی منصب کی بنا پر ہیں اگر گھر بیٹھا ہوتا تو کون آکر دے جاتا، اس مسئلہ کی تفاصیل میں اگرچہ کلام بہت طویل ہے مگر یہاں جو کچھ مذکور ہوابعونہ تعالٰی خلاصہ تنقیح وصالح تحویل ہے،
فی الدر المختارویرد ھدیۃ التنکیر للتقلیل وھی مایعطی بلاشرط اعانۃ بخلاف الرشوۃ الامن اربع السلطان والباشا وقریبہ المحرم او ممن جرت عادتہ بذٰلک بقدر عادتہ ولاخصومۃ لھما ویرددعوۃ خاصۃ وھی التی لایتخذ ھا صاحبھا لو لاحضورالقاضی ولایجیب دعوۃ خصم ولوعامۃ للتھمۃاھ۱؎ملخصا،
درمختار میں ہے وہ ہدیہ کو رد کردے، ہدیہ کی تنکیر قلت کے لئے، اور یہ وہ ہے کہ اس کو اعانت کی شرط کے بغیر دیا جائے بخلاف رشوت کہ اس میں اعانت کی شرط ہوتی ہے۔ قاضی صرف چار حضرات سے ہدیہ وصول کرسکتا ہے بادشاہ، گورنر،اپنے قریبی محارم، اور جس سے پہلے وصول کی عادت جاری تھی وہ بھی عادت کے مطابق، بشرطیکہ آخری دونوں کا مقدمہ اس کے ہاں نہ ہو، اور وہ خاص دعوت کو رد کردے، خاص دعوت وہ ہے جس میں اگر قاضی نہ ہو تو دعوت نہ ہو، اور مقدمہ کے کسی فریق کی دعوت قبول نہ کرے اگرچہ یہ دعوت عام ہو کیونکہ مقام تہمت ہے اھ ملخصاً۔
 (۱؎ درمختار     کتاب القضاء     مطبع مجتبائی دہلی    ۲/ ۷۵۔۷۴)
وفی ردالمحتار الاصل فی ذٰلک مافی البخاری عن ابی حمید الساعدی قال استعمل النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم رجلا علی الصدقۃ فلما قدم قال ھذا لکم وھذالی قال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ھلاجلس فی بیت ابیہ او بیت امہ فینظر ایھدی لہ ام لاوتعلیل النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم دلیل علی تحریم الھدیۃ التی سببھا الولایۃ فتح، قال فی النھر الظاھر ان المراد بالعمل ولایۃ ناشئۃ عن الامام اونائبہ کالساعی والعاشراھ قلت ومثلھم مشائخ القری والحرف وغیرھم ممن لہ قھروتسلط علی من دونھم فانہ یھدی الیہم خوفامن شرھم اولیروج عندھم ورأیت فی حاشیۃ شرح المنھج للعلامۃ محمدالداودی الشافعی الفقیہ قال ع ش ومن العمال مشائخ الاسواق والبلدان ومباشر الاوقاف  وکل من یتعاطی امرایتعلق بالمسلمن انتہی، وعبارۃ القلانسی ولایقبل الھدیۃ الا من ذی رحم محرم او وال مقدم علیہ فی الرتبۃ ووجہہ ان منع قبولہا انما ھو للخوف من مراعاتہ لاجلہا وھوان راعی الملک ونائبہ لم یراعہ لاجلہا قولہ المحرم ھذاالقید لابدمنہ لیخرج ابن العم نھر قولہ ولاخصومۃ لھما قال فی البحر والحاصل ان من لہ خصومۃ لایقبلھا مطلقا ومن لاخصومۃ لہ فان کان لہ عادۃ قبل القضاء قبل المعتاد والا لااھ ای سواء کان محرما او غیرہ علی مامرعن شیخ الاسلام، قال فی البحر فلوکان من عادتہ الدعوۃ فی کل شھر مرۃ فدعاہ کل اسبوع بعد القضاء لایجیبہ ولواتخذلہ طعاما اکثر من الاول لایجیبہ الاان یکون مالہ قد زادکذافی التاتارخانیۃ۱؎اھ اھ ملتقطا
اور ردالمحتار میں ہے: اس میں اصل یہ ہے کہ بخاری شریف میں ابوحمید الساعدی رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک شخص کو صدقہ پر عامل بنایا تو جب وہ واپس آیا تو اس نے صدقات پیش کرتے ہوئے عرض کی کہ یہ مال آپ کے بیت المال کا ہے اور یہ میرا ہے، تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا یہ اپنے باپ یا ماں کے گھر بیٹھ کر کیوں نہیں دیکھتا کہ اس کو ہدیہ ملتا ہے یانہیں، تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیان کردہ وجہ ایسے ہدیہ کی حرمت کی دلیل جو کسی عہدہ کی بناپر ملے، فتح۔اور نہر میں فرمایا: ظاہر ہے کہ ولایت وعہدہ سے مراد یہ ہے کہ وہ امام یا نائب امام کی طرف سے سونپا گیا ہو جیسا کہ زکوٰۃ یا عشر وصول کرنے والا، اھ۔ میں کہتا ہوں اسی طرح دیہاتوں اور حرفتوں کے نگران وغیرہ جن کو اپنے ماتحتوں پر تسلط اور غلبہ ہوتا ہے کیونکہ ان کے شرکاخوف یا ان سے طمع ہوتا ہے، میں نے علامہ محمد داؤدی شافعی فقیہ کی شرح منہج میں دیکھا ہے انہوں نے ع ش کے حوالہ سے فرمایا عاملین میں سے بازاروں، شہروں کے نگران اور اوقاف کے ذمہ داراور تمام ایسے لوگ جن کو مسلمانوں کے امور سے متعلق کیا گیا ہو اھ، اور قلانسی کی عبارت یوں ہے کہ وہ صرف اپنے ذی رحم محرم یا اپنے سے بڑے مرتبہ والے کسی والی کا ہدیہ قبول کرسکتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہدیہ قبول کرنے کی ممانعت صرف اس وجہ سے ہے کہ کہیں ہدیہ کی  وجہ سے ہدیہ والے کی رعایت نہ کرے تو اگر وہ بادشاہ یا اس کے نائب کی رعایت کرے گا تو وہ اس کی رعایت نہ کرینگے، اور اگر کرے گا تو ہدیہ کی وجہ سے نہ کرے گا۔ ماتن کا قول"محرم" تو یہ قید ضروری ہے تاکہ چچا زاد اس اجازت سے خارج ہوجائے، نہر۔ اور اس کا قول کی خصومت نہ ہو(یعنی ان کا مقدمہ نہ ہو) تو بحر میں فرمایا حاصل یہ کہ ان کا ہدیہ مطلقاً قبول نہ کرے اور جس کا مقدمہ نہ ہو تو اگر قضاء سے قبل اس سے ہدیہ وصول کرنے کی عادت تھی تو عادت سے زائد قبول کرنے کی ممانعت ہے، اگر وہ ایسا نہیں تو پھر قبول نہ کرے اھ، یعنی محرم ہو یا نہ ہو جیسا کہ شیخ الاسلام سے منقول گزار، بحر میں فرمایا:اگر قضا سے قبل ایک ماہ پر دعوت کی عادت تھی تو اب قضاء کے بعد ہر ہفتہ دعوت شروع کردی تو قبول نہ کرے اور اگر اب کھانا زیادہ پر تکلف ہو تو قبول نہ کرے، ہاں دعوت قبول کرنے والا پہلے سے زیادہ مالدار ہوگیا تو قبول کرے جیسا کہ تاتارخانیہ میں ہے اھ ملتقطا،
 (۱؎ ردالمحتار    کتاب القضاء    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴ /۳۱۰تا۳۱۲)
وفی الھندیۃ یقبل الھدیۃ من الوالی الذی ولاہ ولوکان للخلیفۃ خصومۃ لم یقبل ھدیتہ الابعد الحکم کذافی العتابیۃ۱؎اھ،
اور ہندیہ میں ہے کہ قاضی اپنے والی کی دعوت قبول کرے جس نے اس کی تقرری کی ہے اور خلیفہ کا کوئی مقدمہ اس کے پاس ہو تو پھر فیصلہ کرنے کے بعد اس کی دعوت قبول کرے، جیسا کہ عتابیہ میں ہے اھ،
 (۱؎ فتاوٰی ہندیۃ     کتاب القضاء     الباب التاسع فی رزق القاضی     نورانی کتب خانہ پشاور    ۳ /۳۳۰)
وفی فتح القدیر قال شیخ الاسلام قالواماذکر فی الضیافۃ فمحمول علی مااذاکان المحرم لم یجری بینھما الدعوۃ والمھاداۃ وصلۃ القرابۃ واحدث بعد القضاء ذٰلک فاذاکانت الحالۃ ھذہ فہو کالاجنبی سواء ومافی الھدیۃ محمول علی انہ کان جری بینھما المہاداۃ وصلۃ القرابۃ قبل القضاء فاذااھدی بعد القضاء لاباس بقبولہ انتہی فقد اٰل الحال الی انہ لافرق بین القریب والغریب فی الھدیۃ والضیافۃ۲؎الخ واﷲ تعالٰی اعلم۔
اور فتح القدیر میں فرمایا: شیخ الاسلام نے فرمایا: فقہاء کرام نے کہا ہے کہ ضیافت کے متعلق جومذکور ہے وہ اس بات پر محمول ہے کہ محرم کی عادت اگر پہلے سے ہدیہ، دعوت اور قرابت کا صلہ جاری نہ ہو اور اب قضاء کے بعد ہدیہ دے تو ایسی حالت میں وہ محرم اور اجنبی مساوی ہیں، اورجو ہدیہ سے متعلق مذکور ہے وہ پہلے سے جاری ہدیہ اور صلہ قرابت پر محمول ہے اگر یہ قضاء کے بعد بھی ہدیہ دے تو قبول کرنے میں قباحت نہیں ہے اھ تو حال کا مآل یہ ہوا کہ ضیافت اور ہدیہ کے معاملہ میں قریبی اور غیر قریبی کا کوئی فرق نہیں الخ واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
 (۲؎ فتح القدیر         کتاب ادب القاضی     مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۶ /۳۷۲)
Flag Counter