Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
21 - 151
 خیریہ وعقود میں ہے : سئل فی ابن کبیرذی  زوجۃ وعیال لہ کسب مستقل حصل بسببہ اموالا ھل ھی لوالدہ اجاب ھی للابن حیث لہ کسب مستقل واما قول علمائنا یکون کلہ للاب فمشروط کما یعلم من عبارتھم بشروط منھا اتحاد الصنعۃ وعدم مال سابق لھما وکون الابن فی عیال ابیہ فاذاعدم واحدمنھا لایکون کسب الابن للاب وانظر الی ماعللوابہ المسألۃ ان الابن اذاکان فی عیال الاب یکون معینا لہ فمدارالحکم علی ثبوت کونہ معینا لہ فیہ فاعلم ذٰلک۲؎اھ ملخصاً۔
ایسے جوان شادی شدہ عیالدار بیٹے جس کا اپنا مستقل کاروبار ہے اور کاروبار میں اموال حاصل ہوئے، کے متعلق سوال ہوا کہ کیا یہ اموال اس بیٹے کی ملک ہوں گے یا والد کے ہوں گے، جواب دیا کہ بیٹے کی ملک ہیں جبکہ یہ بیٹے کا اپنا مستقل کاروبار ہے ہمارے علماء کرام کا یہ ارشاد کہ وہ تمام والد کا ہے ان کا یہ ارشاد چند شرطوں سے مشروط ہے جیسا کہ ان کی عبارات سے معلوم ہے ان شرائط میں سے بعض یہ ہیں کہ باپ بیٹے کاکام ایک ہو، بیٹے کا پہلے سے اپنا مال نہ ہو، بیٹا باپ کے عیال میں شامل ہو تو ان شرائط میں سے جب کوئی شرط مفقود ہوتو بیٹے کی کمائی والد کے لئے نہ ہوگی، مسئلہ کے بیان میں علماء کی ذکر کردہ علت پر غور کرنا چاہئے انہوں نے فرمایا: جب بیٹا باپ کی عیال میں شامل ہو اور اس کا معاون ہو تو حکم کا مدار اس پر ہے کہ وہ اس میں باپ کا معاون ہو،یہ معلوم ہونا ضروری ہے اھ ملخصا۔(ت)
(۲؎ العقود الدریۃ     کتاب الدعوٰی     حاجی عبدالغفار ارگ بازار قندھار افغانستان    ۲ /۱۷)
مگر جو چہارم حصہ پیداوار میں باپ نے اسے دینا کہا تھا اس کا دعوٰی اسے کسی حالت میں نہیں پہنچتا کہ اگر وہ کہنا محض بطور وعدہ واحسان تھا اور غالب یہی ہے جب تو پر ظاہر کہ
لاجبر فی التبرع
 (تبرع میں جبر نہیں۔ت)اور اگر بروجہ معاوضہ محنت وعقد اجارہ تھا تو جہالت اجروفساد اجارہ سے قطع نظر بیٹے کواپنے کام کی اجرت باپ سے لینی جائز نہیں، نہ اس کی خدمت پر اجیر بن سکتا ہے کہ خدمت پدری طاعت الٰہی ہے اور طاعات پر اجارہ ناجائز، 

علامہ طحطاوی حاشیہ درمختار میں کتاب الفرائض میں فرماتے ہیں :
الولد اذااٰجر نفسہ لوالدہ لیخدمہ وکذالمرأۃ اجرت نفسہا من زوجہا لتخدمہ لم یجز لان خدمتہا تقع صلۃ للزوج فصارت مستحقۃ فلم تجز الاجارۃ۱؎اھ ملخصاً۔
جب بیٹے نے اپنے آپ کو والد کا یا بیوی نے اپنے آپ کو خاوند کا مزدور بنایا تاکہ یہ ان کی خدمت کرسکیں تو یہ جائز نہ ہوگا کیونکہ یہ خدمت خاوند کے لئے صلہ ہے لہذا وہ اس خدمت کا حقدار ہے تو اجارہ جائز نہ ہوگا اھ ملخصاً(ت)
 (۱؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار     کتاب الفرائض    دارالمعرفۃ بیروت    ۴ /۳۶۷)
خزانۃ المفتین میں فتاوی امام قاضیخان سے ہے :
الاب اذا استاجر ابنہ البالغ فعمل الابن لااجرلہ۲؎۔
باپ جب اپنے بالغ بیٹے کو اجیربنائے اور بیٹاکام کرے تو بیٹے کو اجرت نہ ملے گی۔(ت)
 (۲؎ خزانۃ المفتین         کتاب الاجارۃ     قلمی نسخہ        ۲/ ۱۶۲)
رہا باپ کا اسے اپنی میراث سے محروم کرنا وہ اگر یوں ہو کہ زبان سے لاکھ بار کہے کہ میں نے اسے محروم الارث کیا یا میرے مال میں اس کا کچھ حق نہیں یا میرے ترکہ سے اسے حصہ نہ دیا جائے یا خیال جہال کا وہ لفظ بے اصل کہ میں نے اسے عاق کیا یا انہیں مضامین کی لاکھ تحریریں لکھے رجسٹریاں کرائے یا اپنا کل مال اپنے فلاں وارث یا کسی غیر کو ملنے کی وصیت کرجائے ایسی ہزار تدبیریں ہوں کچھ کار گر نہیں نہ ہر گز وہ ان وجوہ سے محجوب الارث ہوسکے کہ میراث حق مقرر فرمودہ رب العزۃ جل وعلا ہے جو خود لینے والے کے اسقاط سے ساقط نہیں ہوسکتا بلکہ جبراً دلایا جائے گا اگرچہ وہ لاکھ کہتا رہے مجھے اپنی وراثت  منظور نہیں میں حصہ کا مالک نہیں بنتا میں نے اپنا حق ساقط کیا پھردوسرا کیونکر ساقط کرسکتا ہے،
قال اﷲ تعالٰی یوصیکم اﷲ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین۳؎۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا: اﷲ تعالٰی تمہیں اولاد کے متعلق وصیت فرماتا ہے بیٹے کو دو بیٹیوں کا حصہ ہے۔(ت)
(۳؎ القرآن الکریم     ۴ /۱۱)
اشباہ میں ہے:
لو قال الوارث ترکت حقی لم یبطل حقہ۱؎۔
اگر وارث کہے میں نے اپنا حصہ چھوڑا تو اس سے اس کا حق باطل نہ ہوگا۔(ت)
(۱؎ الاشباہ والنظائر    الفن الثالث    احکام النقدالخ    ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی    ۲ /۱۶۰)
غرض بالمقصد محروم کرنے کی کوئی سبیل نہیں، ہاں اگر حالت صحت میں اپنا مال اپنی ملک سے زائل کردے تو وارث کچھ نہ پائے گا کہ جب ترکہ ہی نہیں تو میراث کا ہے میں جاری ہو مگر اس قصد ناپاک سے جو فعل کریگا عنداﷲ گنہگاروماخوذرہے گا۔     حدیث میں ہے حضور پرنور سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
من فرمن میراث وارثہ قطع اﷲ میراثہ من الجنۃ یوم القٰیمۃ۔رواہ ابن ماجۃ۲؎عن انس بن مالک رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
جو اپنے وارث کو اپنا ترکہ پہنچنے سے بھاگے اﷲ تعالٰی روز قیامت اس کی میراث جنت سے قطع فرمادے۔(اسے ابن ماجہ نے حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت کیا۔(ت)
 (۲؎ سنن ابن ماجہ    ابواب الوصایا    باب الحیف فی الوصیۃ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۱۹۸)
یونہی ایک زوجہ کے پیچھے دوسری کی خبرگیر ی نہ کرنی دوہراگناہ اور بنص قرآن حرام قطعی ہے۔ 

حدیث میں ہےحضور سیدالمرسلین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
اذاکانت عندہ امرأتان فلم یعدل بینھما جاء یوم القٰیمۃ وشقہ ساقط۳؎۔ رواہ الترمذی وابوداود والنسائی وابن ماجۃ وابن حبان والحاکم عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
جس کے دو بیبیاں ہوں اور وہ انہیں برابر نہ رکھے قیامت کے دن اس حال پر آئے کہ اس کی ایک طرف کی کروٹ گری ہوئی ہو(اسے ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، ابن حبان اور حاکم نے ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ت)
 (۳؎ جامع الترمذی     ابواب النکاح    باب ماجاء فی التسویۃ بین الضرائر    امین کمپنی دہلی         ۱/ ۱۳۶)
Flag Counter