فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
2 - 151
ظاہر ہے کہ اعتبار منقول فی المذہب کا ہے نہ کہ بحث کا، حتی کہ علمائے کرام نے تصریح فرمائی کہ منقول کے مقابل امام ابن ہمام کی ابحاث بھی مقبول نہیں حالانکہ وہ بالغ درجہ اجتہاد مانے جاتے ہیں۔
ردالمحتارکتاب الحج میں ہے:
قد قال تلمیذہ العلامۃ قاسم ان ابحاثہ المخالفۃ للمذھب لاتعتبر فافھم۲؎۔
ابن ھمام کے شاگرد علامہ قاسم نے کہا کہ ان کی جو ابحاث خلاف مذہب ہیں ان پر اعتبار نہیں کیا جائے گا، پس غور کرو۔(ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الحج باب الجنایات داراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۲۰۶)
طحطاوی کتاب الطلاق فصل ثبوت النسب میں ہے:
النص ھوا لمتبع فلایعول علی البحث معہ۱؎۔
اتباع تو نص کی ہی کی جائے گی اس کے ہوتے ہوئے بحث پر اعتماد نہیں کیاجائیگا۔(ت)
(۱؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار کتاب الطلاق فصل فی ثبوت النسب دار المعرفۃ بیروت ۲ /۲۴۱)
اقول: وباﷲ التوفیق
(میں کہتاہوں اور توفیق اﷲ سے ہے۔ت) ظاہراً ان کی نظر اس طرف گئی کہ ذکر حدود کی حاجت تمیز ذات مشہود بہ کے لئے ولہذا فرمایا کہ بعد تصادق خصمین اصل دار میں شہادت مقبول ہوجانی چاہئے حدود میں تنازع پڑے تو اس کا مقدمہ جدا ہولے گا حالانکہ ذکر حدود کی ضرورت علم مقدار مشہود بہ کے لئے ہے،
درروغرروغیر ہا کتب معتمدہ میں ہے:
ان قدرھا لایصیر معلوماً الا بالتحدید۲؎۔
گھر کی مقدار کا تعین اس کی حدوں کو بیان کئے بغیر معلوم نہیں ہوسکتا۔(ت)
(۲؎ الدرر الحکام شرح غررر الاحکام کتاب الدعوٰی میرمحمد کتب خانہ کراچی ۲ /۳۳۱)
تواصل دار بلا تعیین مقدار کیا چیز ہے جس کا قاضی حکم کرے یہ تو ایسا ہے کہ زید عمرو پر ہزار روپے کا دعوٰی کرے شہود شہادت دیں کہ اس کا اس پر کچھ آتا ہے کیایہ گواہی اصل دین کے اثبات میں مقبول ہوجائے گی ہر گز نہیں،
ولم یقل بہ احد وبہ ظہر الجواب عن قیاسہ علی مسالۃ الجارین فان ثمہ لم یختلفا فی اصل داریھما فالتسلیم لعدم النزاع علی جہۃ القضاء وانما یحتاج القاضی الی علم المقدار فیما یدعی بہ عندہ فیرید القضاء بہ علی المنکر ۔
اس کا قائل کوئی بھی نہیں اور اسی سے مسئلہ جارین پر اس کے قیاس کا جواب ظاہر ہوگیا کیونکہ وہاں دونوں پڑوسیوں میں ان کے اصل گھروں کے بارے میں اختلاف واقع نہیں ہوا چنانچہ وہاں قضاء کی جہت سے نزاع معدوم ہونے کی وجہ سے تسلیم متحقق ہوئی، بیشک قاضی اس بات کا محتاج ہے کہ اس گھر کی مقدار اسے معلوم ہو جس کا دعوٰی اس کے پاس کیاگیا ہے اور وہ منکر کے خلاف اس کا فیصلہ کرنا چاہتا ہے۔(ت)
اگر ایسی شہادت مقبول ہوتو لازم کہ دعوٰی بھی بلا تعیین حدودقبول ہوجائے وہی وجہ وہاں بھی جاری ہے کہ اصل دین اس وقت حکم چاہتا ہے حدود میں نزاع پڑے تو یہ مقدمہ جداہولے گا حالانکہ یہ جملہ کتب مذہب کے خلاف ہے،
خود جامع الفصولین میں ہے:
لوادعی عقارا فلا بد من ذکر بلدۃ فیما المدعی ثم من ذکر المحلۃ ثم السکۃ ثم حدودہ فلو ذکر حدین لایکفی ولوذکر الثلثۃ کفی وکل جواب عرفتہ فی الدعوی فھو الجواب فی الشہادۃ اھ ۱؎مختصرا۔
اگر عقار (غیر منقو ل)کا کہا تو اس شہر کا ذکر ضروری ہے جس میں مدعی ہے پھر محلہ گلی اور عقار کی حدوں کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے، اگراس نے دو حدوں کا ذکر کیا تو کافی نہیں اور اگر تین کاذکر کیا تو کافی ہے اور جو حکم تونے دعوی میں پہچانا وہی حکم شہادت میں ہے مختصراً۔(ت)
(۱؎ جامع الفصولین الفصل السادس اسلامی کتب خانہ کراچی ۱ /۷۳)
بالجملہ نظر حاضر میں یہ بحث قابل اعتماد نہیں مشہود لہ وعلیہ کی تعیین ضرور ہے مگر تحقیق یہ ہے کہ وہاں مقصود صرف رفع التباس ہے جس طرح ہو یہاں تک کہ اگر صرف نام یا تنہا لقب یا مجرد صفت ہی سے رفع اشتباہ ہوجائے بس ہے ورنہ ذکر نام ونام پدر بالا تفاق اور نام جدامام اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے نزدیک ضرور ہے اور یہی صحیح ہے ہاں اگر قاضی ماذون صرف نام و نام پدر پر قبول کرکے قضا کردے نافذ ہوجائے گی عورت کے لئے نام وزوجیت کافی ہے،
درمختار میں ہے:
فلو قضی بلاذکر الجد نفذ فالمعتبر التعریف لاتکثیر الحروف حتی لو عرف باسمہ فقط او بلقبہ وحدہ کفی۲؎۔
اگر داد ا کا ذکر کئے بغیر قاضی نے قضا کردی تو نافذ ہوگی اس میں معتبر توصرف پہچان کراناہے نہ کہ گفتگو میں زیادہ الفاظ استعمال کرنا یہاں تک کہ اگر محض نام سے اس کی پہچان ہوجائے یا تنہا لقب سے شناخت ہوجائے تو کافی ہے۔(ت)
(۲؎درمختار کتاب الشہادات مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۹۱)
جامع الفصولین، ملتقط وفصول عمادیہ وہندیہ ومنح الغفار وتنقیح الحامدیہ میں ہے:
والحاصل ان المعتبر انما ھو حصول المعرفۃ وارتفاع الاشتراک ۳؎۔
خلاصہ یہ کہ اعتبار تو صرف شناخت کے حصول اور اشتراک واشتباہ کے خاتمے کا ہے(ت)
(۳؎ فتاوٰی ہندیۃ بحوالہ الفصول العمادیۃ کتاب الثالث نورانی کتب خانہ پشاور ۳ /۴۵۹)
اعتبار اس بات کا ہے کہ شناخت حاصل ہوجائے اور اشتباہ دور ہوجائے چاہے کسی بھی شے سے ہو۔(ت)
(۴؎ جامع الفصولین الفصل التاسع اسلامی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۲۰)
ردالمحتار میں ہے:
قولہ او بلقبہ وکذا بصفتہ کما افتی بہ فی الحامدیۃ فیمن یشھد ان المرأۃ التی قتلت فی سوق کذافی یوم کذافی وقت کذا قتلھا فلان تقبل بلابیان اسمھا واسم ابیھا حیث کانت معروفۃ لم یشار کہا فی ذٰلک غیرہا۱؎۔
صاحب درمختار کا قول
او بلقبہ
(یا اس کے لقب سے شناخت ہوجائے) ایسا ہی حکم ہے اس کی صفت کے ساتھ شناخت کا،جیسا کہ فتاوٰی حامدیہ میں اس پر فتوٰی دیا گیا ہے اس شخص کے بارے میں جو گواہی دے کہ فلاں دن، فلاں وقت، فلاں بازار میں جو عورت قتل کی گئی اس کو فلاں نے قتل کیا ہے تو اس عورت اور اس کے باپ کانام بیان کئے بغیر شہادت قبول کرلی جائے گی جبکہ وہ مقتولہ عورت مشہور ہو اور اس وصف میں اس کے ساتھ کوئی اور شریک نہ ہو۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الشہادات داراحیاء التراث العربی بیروت ۴ /۳۷۲)