Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
18 - 151
ردالمحتار میں ہے :
فی البزازیۃ من القاعدی طروالبات یبطل الموقوف اذاحدث لغیر من باشر الموقوف کما اذاباع المالک ماباعہ الفضولی من غیر الفضولی ولو ممن اشتری من الفضولی۲؎اھ ملخصا۔
بزازیہ میں قاعدی سے منقول ہے کہ قطعی فیصلے کا طاری ہونا موقوف بیع کو باطل کردیگا جب موقوف عمل کرنے والے کے غیر سے جدید بیع ہوجائے مثلاً فضولی نے جس چیز کو فروخت کیا اسی کو مالک نے کسی غیر فضولی کے پاس فروخت کردیا ہو اگرچہ یہ غیروہی ہو جس کو فضولی نے فروخت کیا تھا اھ ملخصاً(ت)
(۲؎ ردالمحتار     کتاب البیوع    فصل فی الفضولی        داراحیاء التراث العربی بیروت۴ /۱۴۲)
تو مجموع ۱۰بسوہ سے ۵بسوہ ۷ بسوانسی ۵-۵/۶ کچوانسی ملک الٰہی بیگم ہوئیں۔رہی کنیز شیریں اس نے اور اس کی ماں بیگم نے اگرچہ اپنی مقدار حصص سے بہت زائدیعنی ۵ بسوہ کی بیع کی مگر یہ بیع ان کے صرف انہی حصوں پر مقتصر رہی جو کہ ترکہ ذاتی کریم الدین سے انہں ملی تھی نہ بدیں سبب کہ انہوں نے بعد تقسیم یہی پانچ بسوہ سے بیع کئے جو بالتعیین ترکہ کریم الدین فرض کرلئے گئے تھے کہ یہ فرض وتعین تو شرعاً محض بیہودہ وبے معنی تھی
کما اسلفنا
 (جیساکہ ہم نے پہلے بیا ن کیا ہے۔ت) بلکہ اس وجہ سے کہ انہیں صرف انہی حصص کی بیع مقصود تھی اور اسی قدر پر عقد وارد کیا
کما لایخفی
 (جیسا کہ پوشیدہ نہیں۔ت) تو ۵بسوانسی ۴-۱/۶ کچوانسی کہ ترکہ وجیہ الدین سے انہیں پہنچیں ان کی بیع میں داخل نہ ہوئیں بلکہ غیر مالک یعنی نجم النساء خواہ نیلام کنندگان نےبے اذن مالکان بیچیں تو بیع اگر حیات بیگم میں واقع ہوئی تو بوجہ موت بلااجازت اس کے حصے یعنی ابسوانسی ۵/۶کچوانسی میں باطل محض ہوگئی جسے کنیز شیریں بھی نافذ نہیں کرسکتی
کما قدمنا عن الھندیۃ
 (جیسا کہ ہم پہلے ہندیہ سے نقل کرچکے ہیں۔ت) اور اس کے بعد ہوئی تو مثل حصہ کنیز شیریں اجازت کنیز شیریں پر موقوف رہی جس کی تنفیذ وابطال کا اختیار کنیز شیریں کواب تک حاصل ہے۔

ولاتکون دعوٰھا مسقطۃ لخیارہا ومعینۃ لابطال البیع کما حققہ المولی المحقق علی الاطلاق فی فتح القدیر شرح الھدایۃ۔
اس کا دعوی اس کے خیار کو ساقط کرے گا نہ بطلان بیع کےلئے معاون ہوگا جیساکہ محقق علی الاطلاق نے فتح القدیر شرح ہدایہ میں اس کی تحقیق فرمائی ہے۔(ت)
بہر طور مجموع۰ابسوہ سے ۵بسوانسی ۴-۱/۶ کچوانسی پر کنیز شیریں کوہر طرح دعوٰی پہنچتا ہے۔
نسبت حصص: 

ہماری تقریر سے واضح ہوگیا کہ ۱۰بسوہ کس قدر حقیت کنیز شیریں والٰہی بیگم کےلئے محفوظ، اور اس میں ہر ایک کا حق کتنا ہے، اب ان دونوں کے حصوں میں نسبت دریافت کرنے کے لئے بغرض تیسیر طریق سب کسور کو کسر اصغر یعنی سدس ۱/۶ کچوانسی کا ہمجنس کیجئے تو حصہ الٰہی بیگم (۸۷۵ء ا) ہے اور نصیب کنیز شیریں ۶۲۵یہ دونوں توافق بخمس خمس خمس بجزءٍ من مائۃ وخمسۃ وعشرین رکھتے ہیں اول کا وفق ۱۰۳ دوم کا پانچ تو حصہ کنیز شیریں کو حق الٰہی بیگم سے وہی نسبت ہوئی جو پانچ کو۱۰۳ سے ہوتی ہے اسی سے ہر جز و جائدا د میں ان کا رسدی حصہ معلوم ہوجائے گا یعنی بوجہ بطلان تقسیم وبقائے شیوع جائداد محفوظ ۵بسوہ ۱۲ بسوانسی ۱۰کچوانسی کا جو ٹکڑا جوذرہ جہاں کہیں ہوگا اسکے ۱۰۸ سہام سے ۵ سہم کنیز شیریں اور ۱۰۳الٰہی بیگم کے ہیں۔

شرکت ملک :

 اس میں ہر شریک دوسرے کے حصے سے محض اجنبی ہوتا ہے ۔

عالمگیری میں ہے :
شرکۃ ملک ان یتملک رجلان شیئا من غیر عقد الشرکۃ بینھما نحو ان یرثا مالا اویوھب لھما اویملکا بالشراء اوالصدقۃ لایجوز لاحدھما ان یتصرف فی نصیب الاٰخر الابامرہ وکل واحد منھما کالاجنبی فی نصیب صاحبہ ویجوز بیع احدھما نصیبہ بغیر اذنہ ۱؎اھ ملتقطا۔
شرکت ملک یہ ہے کہ دو شخص کسی ایک چیز کے عقد شرکت کے بغیر مالک ہوجائیں مثلاً دونوں ایک چیز کے وارث ہیں یا ایک چیزدونوں کو ہبہ ہوئی یا خریداری یا صدقہ کے ذریعہ ایک چیز کے مالک بنے، تو اس میں دونوں میں سے کوئی بھی دوسرے کے حصہ میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف نہیں کرسکتا اور اپنے حصہ میں دونوں ایک دوسرے سے اجنبی ہیں لہذا ہرایک اپنے حصہ میں دوسرے کی اجازت کے بغیر تصرف کرسکتا ہے اھ ملتقطا(ت)
 (۱؎ فتاوی ہندیہ    کتاب الشرکۃ     الباب الاول     نورانی کتب خانہ پشاور     ۲ /۳۰۱)
تنویر الابصار میں ہے:
شرکۃ ملک وھی ان یملک متعدد عینا اودینا بارث اوبیع اوغیر ھما وکل اجنبی فی مال صاحبہ الخ۱؎۔
شرکت ملک یہ ہے کہ متعدد اشخاص عین یا دین میں وراثت یا بیع یا کسی اور طرح مشترکہ مالک ہوجائیں اور ہر ایک دوسرے کے حصہ میں اجنبی ہوگا الخ۔(ت)
(۱؎ درمختار شرح تنویر الابصار کتاب الشرکۃ  مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۳۷۰)
تو ظاہر ہے کہ اگر ان میں ایک کسی غاصب پر دعوٰی کرکے اپنے مقدار حصہ میں اپنا اثبات ملک واستقرار حق کرائے تو اس ثبوت واستقراء میں دوسرے شریک کا ہر گز کوئی استحقاق نہیں آسکتا کہ جو سہام ایک کو پہنچتے ہیں دوسرے کا اس میں کیاحق ہے اس کے لئے اس کے سہام جدا ہیں پس ایک کے تقرر حق میں مزاحم ہونا گویا بعینہٖ یہ کہنا ہے کہ تو اپنے سہام میں مجھے شریک کرلے اور اپنے خاص حق سے مجھے کچھ دے دے اس کے کوئی معنی نہیں، نہ ایسا دعوٰی قابل سماعت، ہاں اگر ایک شریک بے تقسیم شرعی ملک مشاع سے کسی معین ٹکڑے پر قبضہ کرلے تو بیشک دوسرے کا اس پر دعوٰی پہنچتا ہے کہ جب شیوع ہے ہر ہر ذرہ میں دونوں کا استحقاق ہے 

فلایقبض شیئا معینا الاوقد قبض ملک صاحبہ مخلوطامع  ملک نفسہ کما نص علیہ فی الکتب جمیعا۔تو کسی معین چیز کا قبضہ دوسرے کے حصہ پر مخلوط قبضہ کے بغیر اپنے حصہ پر نہ ہوسکے گا جیسا کہ تمام کتب میں اس پر تصریح ہے۔(ت)

یا ایک شریک جھوٹا دعوٰی کرکے اپنے حق سے زیادہ میں اپنے لئے اثبات ملک کرالے تو بھی دوسر ے کی مزاحمت بجا ہے کہ اس نے اس کے حق میں دست اندازی کی
یدل علی کل ذٰلک فروع جمۃ مذکورۃ فی کتب المذھب
 (اس پر کتب مذہب میں مذکور کثیر فروعات دال ہیں۔ت) غرض ان دو صورتوں کے سوا مجرد اثبات ملک واستقرار حق میں دوسرے شریک کی مزاحمت محض بیہودہ ونامسموع ہے۔ جب یہ امور منقح ہولئے اور پر ظاہر کہ یہاں احتمال صحت دعوٰی کی صورت اولٰی یعنی قبض شے معین مفرز تو واقع نہ ہوئی کہ الٰہی بیگم نے ان ۳بسوہ ۱۰بسوانسی کا پٹی بانٹ کراگر کوئی مستقل قبضہ بالتعین نہ کیا تو صرف صورت ثانیہ یعنی حق سے زیادہ اثبات ملک کرالینے کا دیکھنا باقی رہا اگر یہ ۳ بسوہ ۱۰بسوانسی حق الٰہی بیگم سے زائد ہیں تو بیشک کنیز شیریں کو صرف قدر زائد میں اختیار مزاحمت ہے ورنہ اصلاً نہیں، مگر ہم تحقیق کر آئے کہ ترکہ وجیہ الدین کوکریم الدین کی جدائی جو ا س تقسیم باطل کا حاصل تھی محض غلط ہے بلکہ وہ ساری جائداد جس طرح حیات ہر دو برادر میں مختلط وغیر منقسم تھی اب تک بدستوراسی حالت پر ہے تو صرف ان ۵بسووں میں جو نجم النساء کے ہاتھ میں تھے کنیز شیریں کا حق جاننا اور دوسری پٹی میں نہ ما ننا محض غلطی ہے بلکہ حکم شیوع جو ٹکڑا جہاں کہیں ہے ہر ایک میں کنیز شیریں والٰہی بیگم حصہ رسد شریک ہیں اب اگر اس فرضی جدائی کو اصلاً نظر سے ساقط کیجئے جب تو نہایت ظاہر کہ الٰہی بیگم نے اپنے حق سے بہت کم میں اثبات ملک کرایا حق اس کا ۵بسوہ ۵-۵/۶کچوانسی تھا اور ڈگری صرف ۳بسوہ ۱۰بسوانسی کی حاصل کی پھر کنیز شیریں اس کے حق خاص میں سے کس چیز کا صلہ مانگتی ہے۔ اور اگر یہ خیال کیجئے کہ گو تقسیم شرعی نہیں مگر دو ٹکڑے جدا جدا ہولئے جن میں ایک پر قربان علی دوسرے پر اس کی زوجہ وپسر قابض ہوئے اور الٰہی بیگم نے بھی صرف ایک فریق پر دعوٰی کیا، تو اس نظر سے بھی دعوٰی الٰہی بیگم اس کے حصہ رسد سے کم ہے کہ اس پٹی میں بعد استثنائے حصہ نجم النساء کہ بدست بیگم زوجہ قربان علی بیع ہوا ۳ بسوہ ۵بسوانسی حق الٰہی بیگم و کنیز شیریں ہیں انہیں بلحاظ نسبت مذکورہ۱۰۸پر تقسیم کیجئے تو حاصل قسمت ۱۳-۸/۹کچوانسی ہے جسے ۵میں ضرب دینے سے ۳ بسوانسی ۹-۴/۹کچوانسی ہوتی ہیں اسی قدر رسدی حصہ کنیز شیریں ہے اور باقی ۳بسوہ ۱۱بسوانسی ۱۰-۵/۹کچوانسی حق الٰہی بیگم تھے جس میں اس نے تین بسوہ دس بسوانسی میں اپنی ملک ثابت کرائی تو کنیز شرییں کے حق میں کون سی مزاحمت کے دعوی کنیز شیریں کاحاصل یہ ہے کہ اس قدر بھی تیری ملک نہیں یا اگرچہ تیری ملک ہے مگر اس میں سے کچھ مجھے واپس دے حالانکہ اس سے زائد اس کی ملک ہے کہ اور ملک غیر پر دعوٰی کرنا محض بے معنی اور اگر ان سب تحقیقات نفیسہ سے قطع نظر کیجئے اور خواہی نخواہی مان ہی لیجئے کہ تقسیم مذکور صحیح تھی اور یہی ۵بسوہ بالتعین ترکہ وجیہ الدین تھے اور خاص انہیں میں استحقاق کنیز شیریں ہے تاہم اس تقدیر باطل پر بھی دعوٰی کنیز شیریں کہ حصہ رسدی پاؤں کوئی معنٰی نہیں رکھتا رسدی حصہ کا تو یہ حاصل کہ جس قدر پر الٰہی بیگم نے ڈگری پائی یہ اور وہ ۵بسوانسی کہ باقی رہیں دونوں ٹکڑوں میں الٰہی بیگم و کنیز شیریں اپنے اپنے حصوں کی نسبت سے شریک ہیں بحساب اربعہ متناسبہ  اس مقدار ڈگری شدہ میں جو کچھ حصہ کنیز شیریں نکلے اب ملے باقی حصہ الٰہی بیگم ہو اور ۵بسوانسی میں دونوں کا دعوٰی رہے حالانکہ اس تقدیر باطل پر الٰہی بیگم جس قدر ترکہ وجیہ الدین سے استحقاق رکھتی تھی اس سے ۴-۱/۶کچوانسی زیادہ کی ڈگری پاچکی
کمایظھر ممااسلفنا بیانہ
 (جیساکہ ہمارے پہلے بیان سے ظاہر ہے۔ت) تو رسدی حصہ مانگنے کے کیا معنی، بلکہ قدر زائد یعنی ۴-۱/۶کچوانسی کا دعوٰی کرنا تھا، غرض ساری غلطی کا منشایہ ہے کہ کنیز شیریں یعنی اس کے مختار عام نے اثبات ملک واستقرار حق کرانے کو بالتعیین ایک پارہ معینہ مفرزہ منقسم پر قبضہ کرلینا سمجھتا ہے حالانکہ ان کا بدیہی فرق ایسا نہیں جو کسی پر مخفی رہے، پس بہ نہایت پارہئ معینہ مفرزہ منقسم پر قبضہ کرلینا سمجھتا ہے حالانکہ ان کا بدیہی فرق ایسا نہیں جو کسی پر مخفی رہے، پس بہ نہایت وضوح روشن ہوگیا کہ کنیز شیریں کا دعوٰی اصلاً وجہ صحت وقابلیت سماعت نہیں رکھتا۔
واﷲسبحٰنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم وصلی اﷲ تعالٰی علٰی سیدنا محمد وآلہٖ وصحبہ وبارک وسلم۔
Flag Counter