Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
17 - 151
مسئلہ ۲۸ :۲۲/ربیع الثانی شریف ۱۳۰۷ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اور مفتیان شرع متین اس صورت میں کہ مسمیان وجیہ الدین وکریم الدین پسران نظام الدین مالک مشترک بحصہ مساوی ۱۰بسوہ حقیت زمینداری موضع رچہا پر گنہ فرید پور کے تھے ۵/اپریل ۱۸۴۹ء کو وجیہ الدین احد الشریک نے وفات پائی نجم النساء زوجہ صدق النساء مادر ونظام النسا ہمشیرہ حقیقی ذوی الفروض وکریم الدین برادر علاتی عصبہ، جملہ چاروارث شرعی چھوڑے، تاریخ ۱۵/ماہ مذکور کوصدق النساء مادر وجیہ الدین فوت ہوئی اس کی وارث مسماۃ نظام النساء دختر ہوئی اور ۱۱/ستمبر ۱۸۵۳ء کو کریم الدین نے قضا کی، مسماۃ بیگم زوجہ مسماۃ کنیز شیریں دختر ذوی الفروض ومسماۃ نظام النساء ہمشیرہ علاتی عصبہ وارث فوت ہوئے مگر تمام حقیت دیہہ مذکور پر قبضہ بطور خود بعوض دین مہر بیوگان مورثان کا رہا کہ ۱۸۷۳ء میں ۶بسوہ حسب نالش نجم النساء کی تقسیماً علیحدہ ہوگئے اور ۵بسوہ مسماۃ کنیز شیریں وبیگم نے بدست قربان علی  فروخت کرڈالے اور ۱۸۷۶ء میں اول مسماۃ بیگم مری، اس کی وارث صرف مسماۃ کنیز شیریں دختر ہوئی، بعدہامسماۃ نظام النساء اعلٰی درجہ کی حصہ دار اور جو بانتظار بیبیاقی دین مہر میں بیوگان کے قبضہ جائداد سے دست کش تھی فوت ہوئی، اس کے وارث محض عوض وکریم بخش نبیر گان ثناء اﷲ عم حقیقی متوفیہ بحق عصوبت ہوئے دین مہر مسماۃ نجم النساء کا ۱۸۷۸ء میں اور دین مہر مسماۃ بیگم کا ۱۸۸۲ء تک آمدنی جائداد سے اد ا ہوگیا باوجود بیباق ہوجانے دین مہر کے نجم النساء نے منجملہ ۵بسوہ بدست مسماۃ بیگم زوجہ قربان علی مذکور اور بھاگی رتھ کے فروخت کرڈالے اور ۲بسوہ تمسک موسومہ مولچندمیں مکفول کی کہ وہ بسوات مکفولہ بعلت ڈگری مطالبہ مذکور تاریخ ۲۰/مارچ۱۸۸۸ء کو بخریداری ممتاز حسین پسر قربان علی نیلام ہوگئی یکم اگست ۱۸۸۶ء کو محمد عوض وکریم بخش وارثان نظام النساء نے کل حق حقوق اپنا واقع ۱۰بسوہ مذکور بدست مسماۃ الٰہی بیگم بیع کیا کہ بوجہ خریداری کے مشتریہ نے نالشات دیوانی میں دائر کرکے ڈگریات اثبات حق ودخل بقدر ۰۳/بسوہ کے بمقابلہ مسماۃ نجم النساء ونیز مشتریان اس کی کے علیحدہ علیحدہ حصہ دار حاصل کیں، بعد اسکے مسماۃ کنیز شیریں مہاجرہ حسب اتفاق بریلی آئی، ممتاز حسین مدعا علیہ نے ایک مختار نامہ عام مسماۃ کنیز شیریں سے اپنے حقیقی بھائی عاشق علی کے نام تحریر کرا لیا ، چنانچہ عاشق علی مذکورنے بعد چلے جانے مسماۃکنیز شیریں کے نالش منجانب کنیز شیریں بدیں بیان رجوع کی ہے کہ۰۳بسوہ ڈگری شدہ الٰہی بیگم پر بذریعہ وراثت وجیہ الدین کے مسماۃ کنیز شیریں کو رسدی حصہ ملے، مدعاعلیہا کو یہ عذر ہے کہ ۱۰بسوہ متروکہ مورثان میں مسماۃ نجم النساء کو ابسوہ ۵بسوانسی اور مسماۃ کنیز شیریں کو مع مسماۃ بیگم کے ۳ بسوہ ۷ بسوانسی اور محمد عوض وکریم بخش مدعا علیہما کو ۵بسوہ ۷ بسوانسی پہنچے تو جملہ حصہ داران نے کل حقوق اپنے فروخت کرڈالے بقائم مقامی ان کے مشتریان مالک ہیں، اور بوجہ عدم شمول مسماۃ نظام النساء کے تقسیم ونیز بیع منجانب نجم النساء ونیز مسماۃ کنیز شیریں کے جہاں تک حصہ شرعی مشتریہ مدعاعلیہا ہے کالعدم ہے اور بیع مستلزم تفریق حصص بائع ہے فقط بوجوہات معروضہ بالا کے شرعاً دعوٰی اجرائے توریث مدعیہ نسبت ۰۳ بسوہ مقبوضہ الٰہی بیگم مدعا علیہا کے قابل قبول ہے یانہیں اور عذر مدعا علیہا کس قدر قابل لحاظ ہے؟ بحوالہ کتب بینواتوجروا۔
الجواب

صورت مستفسرہ میں کنیز شیریں کا دعوٰی محض باطل وبے بنیاد ہے، اس مسئلہ کی تحقیق میں چند امور تنقیح طلب کا جن کا حکم معلوم ہونے کے بعد باذن اﷲتعالٰی خود ہی منکشف ہوجائے گا:

(۱) پانچ پانچ بسوہ کی تقسیم کہ نجم النساء نے کرائی صحیح ہے جس کے سبب ترکہ وجیہ الدین میں حصہ کنیز شیریں صرف اسی پٹی سے متعلق ہے جو نجم النساء کے ہاتھ میں تھی یا باطل اور اس کا حق دونوں پٹیوں میں شائع۔

(۲) بائعان وغیربائعان جملہ ورثہ کے حصص متروکات میں کس کس قدر ہیں۔

(۳) بیعین کہ نجم النساء وبیگم وکنیز شیریں ونیلام کنندگان نے کیں کہاں تک اثر رکھتی ہیں جس سے ظاہر ہو کہ مشتریوں کے ہاتھ میں کتنی حقیتیں اثر بیع سے محفوظ وقابل دعوٰی وارثان ہیں۔

(۴) ان محفوظ حقیتوں میں رسدی حصے کے حساب سے کنیز شیریں والٰہی بیگم کا حق کس نسبت سے ہے۔ 

(۵) شرکت ملک میں ایک شریک کو دوسرے کے حق سے کتنا تعلق ہے، باقی رہا یہ کہ نجم النساء وبیگم وکنیز شیریں کی بیعیں کیاحالت رکھتی ہیں اور مشتریوں کو بوجہ تفریق صفقہ کیا کیا اختیار حاصل اور اس کے سوا اور امور متعلقہ معاملہ سے تعرض نہ کروں گا کہ یہ باتیں اس مسئلہ میں زیر بحث نہیں۔ اب بتوفیق ا ﷲ تعالٰی ہرامر کاجواب لیجئے۔

تقسیم مذکور محض باطل وبے اثر ہے، اولاً نظام النساء اس میں شریک نہ کی گئی، 

ہدایہ میں ہے:
ظہر شریک ثالث لھما والقسمۃ بدون رضاہ باطلۃ ۱؎۔
جب دو کے ساتھ تیسرا شریک ظاہرہوجائے تو پھر اس کے بغیر تقسیم باطل قرار پائے گی۔(ت)
 (۱؎ الہدایہ    کتاب القسمۃ     باب دعوی الغلط    مطبع یوسفی لکھنؤ    ۴ /۴۱۹)
ثانیاً ظاہر ہےکہ نظام النساء کا حق وجیہ الدین وکریم الدین دونوں کے ترکہ میں بروجہ شیوع تھا تو الٰہی بیگم کہ بوجہ شراء اس کے ورثہ کے قائم مقام ہوئی دونوں حصص میں استحقاق شائع رکھتی ہے اور ایسا استحقاق بالاجماع باعث انتقاض تقسیم ہوتا ہے،

 عالمگیری میں ہے :
ان استحق جزء شائع من النصیبین انتقضت القسمۃ۲؎۔
اگر دو حصوں کا استحقاق شائع جز یعنی ناقابل انقسام ہوتو وہ تقسیم ختم ہوجائے گی(ت)
(۲؎ فتاوٰی ہندیۃ     الباب العاشرفی القسمۃ یستحق الخ     نورانی کتب خانہ پشاور    ۵ /۲۲۵)
پس ظاہر ہوا کہ یہ پٹیاں محض نامعتبر ہیں اور ترکہ میں وراثۃً خواہ شراء جتنے حقدار ہیں سب کا حق بدستور مجموع ۱۰بسوہ میں شائع یہاں تک کہ جو ذرہ زمین لیجئے اس میں سب کا استحقاق حصہ رسد میں ہے
فان ھذا ھو معنی الشیوع کما نصواعلیہ قاطبۃ
(کیونکہ شیوع کا معنی یہی ہے جیساکہ فقہاء نے اس پر نص کی ہے۔ت) 

تفصیل حصص: وجیہ الدین جس کا ترکہ صورت مذکورہ میں ۹۶سے منقسم ہوکریوں بٹا:

نجم النساء: ۲۴،نظام النساء: ۶۷، کنیزشیریں: ۵
کما یظہر بالتخریج
 (جیسا کہ مسئلہ کی تخریج سے ظاہر ہے) اس کے پانچ بسوہ کی تقسیم یہ ہوئی :

نجم النساء: ا بسوہ ۵بسوانسی،نظام النساء : ۳بسوہ ۹بسوانسی ۱۵-۵/۶کچوانسی، 

کنیز شیریں: ۵بسوانسی ۴-۱/۶کچوانسی۔

اور کریم الدین جس کا ترکہ آٹھ سے تقسیم پاکر یوں پہنچا: بیگم: ۱،کنیز شیریں:۴، نظام النساء: ۳

اس کے پانچ بسوہ یوں منقسم ہوئے :

بیگم:۱۲بسوانسی ۱۰کچوانسی، کنیز شیریں:۲بسوہ ۱۰بسوانسی، نظام النساء:ابسوہ ۷ا بسوانسی ۱۰کچوانسی۔ یہاں سے ظاہر ہے کہ ترکہ وجیہ الدین میں حصہ نظام انساءء ۳بسوہ ۱۰بسوانسی گمان کرنا غلط تھا جس میں اس کے حق شرعی سے ۴-۱/۶ کچوانسی کی زیادتی اور کنیز شیریں کے حق میں اسی قدر کی کمی کی گئی۔ بیع ہر شخص کی اپنی ہی ملک میں نافذ ہوتی ہے اور بیع ملک غیر بے اذن غیر، اجازت پر موقوف رہتی ہے اگر نہ جائز رکھے باطل ہوجائے فتاوٰی امام قاضی خاں میں ہے:
اذاباع الرجل مال الغیر عندنایتوقف البیع علی اجازۃ المالک۱؎۔
جب بغیر اجازت کسی کے مال کو فروخت کیا ہو تو ہمارے نزدیک وہ بیع مالک کی اجازت پر موقوف ہوگی(ت)
 (۱؎ فتاوٰی قاضی خان     کتاب البیع     فصل فی البیع الموقوف     نولکشور لکھنؤ    ۲ /۳۵۱)
اور مجرد سکوت یعنی بیع کی خبر پانا اور خاموش رہنا اجازت نہیں،

عالمگیری میں ہے:
بلغ المالک ان فضولیا باع ملکہ فسکت لایکون اجازۃ۲؎۔
مالک کو اطلاع ملی کہ ایک اجنبی نے اس کی ملکیت فروخت کردی ہے مالک خاموش رہا تو یہ اجازت نہ ہوگی۔(ت)
(۲؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب البیوع     الباب الثانی عشر نورانی کتب خانہ پشاور    ۳ /۱۵۳)
اور بعد موت مالک اس کے ورثہ جائز نہیں کرسکتے، فتاوٰی خانیہ میں ہے:
اذامات المالک لاینفذ باجازۃ الوارث۳؎۔
جب مالک فوت ہوجائے تو اس کے ورثاء کی اجازت سے بیع نافذنہ ہوگی۔
 (۳؎ فتاوٰی قاضیخان     کتب البیع     فصل فی البیع الموقوف     نولکشور لکھنؤ    ۲/ ۳۵۱)
بس نجم النساء وبیگم وکنیز شیریں کی بیعیں اگر نافذ ہوئیں تو صرف انہیں کے حصوں یعنی۱ بسوہ ۵بسو انسی ۱۲نسوانسی ۱۰کچوانسی ۲بسوا۱۰بسوانسی میں ہوئیں۔  

عالمگیری میں ہے :
  عبدبین رجلین غصبہ احدھما من صاحبہ فباعہ بالف درہم ودفعہ الی المشتری جازالبیع فی حصتہ۱؎۔
ایک عبد دو مالکوں کی مشترکہ ملک تھا ان میں سے ایک نے غصب کرکے فروخت کردیا او مشتری سے ہزار درہم لے کر اس کو قبضہ دے دیا تو فروخت کرنیوالے کے اپنے حصہ میں بیع جائز ہوگی(ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ   کتاب الشرکۃ     الباب السادس فی المتفرقات    نورانی کتب خانہ پشاور    ۲ /۳۴۶)
اور بیع نیلام کا غیر نافذ ہونا تو اظہر من الشمس کہ جب نجم النساء اپنا حصہ بدست بیگم زوجہ قربان علی بیچ چکی تھی تواب جائداد میں اس کا کیا باقی تھا جو اس کے قرضہ میں نیلام کیا جاتا بہرحال نفاذ بیع انہیں تین حصوں یعنی مجموع ۱۰بسوہ سے ۴بسوہ ۷ بسوانسی ۱۰کچو انسی تک محدود ہے باقی ۵بسوہ ۱۲بسوانسی ۱۰کچوانسی نفاذبیع سے محفوظ ہیں، دونوں ترکوں میں حصہ نظام النساء کی محفوظی تو ظاہر خواہ بیعیں اس کی حیات میں ہوئیں یا بعد کہ برتقدیر اول اس کے بے اجازت دئے انتقال کرنے اور برتقدیر ثانی اس بیع نے جو مالکوں یعنی محمد عوض وکریم بخش نے بدست الٰہی بیگم کی اگلی سب بیعوں کو جہاں تک ان کے حصوں سے متعلق نہیں باطل کردیا۔
Flag Counter