Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
16 - 151
وفی الخیریۃ وقد کثر افتاء الحنفیۃ عن علماء مصر یتساوی الجارمع الاجنبی فی الحکم المذکور لاشتراکھا فی العلم والعلۃ الموجبۃ بعدم سماع دعوی الجار بعد تصرف المشتری زرعا وبناء علی ماعلیہ الفتوی قطع الاطماع الفاسدۃ سدباب التزویر والتلبیس وھذاالقدر مشترک بین الجاروالاجنبی۲؎الخ،۔
اور خیریہ میں ہے:مصر کے حنفی علماء کے فتاوٰی میں اکثرطور پر پڑوسی کو اجنبی کے مساوی حکم دیا گیا ہے کیونکہ مشتری کے زراعت وتعمیر کے تصرفات پر اطلاع کے بعد دونوں علم اور عدم سماعت دعوٰی کی علت میں مساوی ہیں حالانکہ فتوٰی کی بنیاد فاسد لالچ اور جھوٹ اور دھوکہ کو ختم کرنا اور وہ دونوں میں مشترک ہے اجنبی ہو یا پڑوسی ہو، الخ،
 (۲؎ فتاوٰی خیریہ     کتاب الدعوٰی    دارالمعرفۃ بیروت    ۲ /۶۰)
وفی العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوٰی الحامدیۃ ثم ان مافی الخلاصۃ والولوالجیۃ یدل علی ان البیع غیر قید بالنسبۃ الی الاجنبی ولوجارا بل مجرد الاطلاع علی التصرف مانع من الدعوی۳؎الخ،
عقود الدریہ وتنقیح الفتاوی میں ہے، کہ، پھرخلاصہ اور ولوالجیہ کے بیان میں اس بات پر دلالت ہے کہ بیع کا ذکر بطور قید نہیں کسی بھی اجنبی کے لئے خواہ وہ پڑوسی ہو بلکہ صرف تصرف پر اطلاع ہی دعوٰی سے مانع ہے الخ۔
 (۳؎ العقود الدریہ   کتاب الدعوٰی    ارگ بازار قندھار افغانستان    ۲ /۴)
وفیہما بعد نقل فتوی العلامۃ الغزی کما ذکرنا ھا، فانظر کیف افتی بمنع سماعھا من غیرالقریب بمجرد التصرف مع عدم سبق البیع وبدون مضی خمس عشرۃ سنۃ اواکثر۱؎، وفیہا لم یقیدوہ بمدۃ ولابموت کما تری۲؎، وفیہا ولیس ایضا مبنیا علی المنع السلطانی کما فی المسئلۃ الاٰتیۃ (قال الفقیر المجیب یعنی مسئلۃ عدم سماع الدعوی خمس عشرۃ سنۃ وھو مثال للمنفی لاللنفی) ثم قال بل ھو حکم اجتہادی نص علیہ الفقہاءکما رأیت فاغتنم تحریرھذہ المسئلۃ فانہ مفردات ھذاالکتاب والحمدﷲ المنعم الوھاب۳؎انتہی،
ان دونوں کتب میں علامہ غزی کے فتوٰی کو جسے ہم نے ذکرکیا ہے نقل کرنے کے بعد، فرمایا:دیکھو انہوں نے پہلے بیع کا دعوٰی نہ ہونے اور پندرہ سال یا زائد عرصہ کے ذکر نہ ہونے کے باوجود کسی بھی اجنبی کے دعوٰی کے غیر مسموع ہونے کوکیسے ذکر فرمایا ہے، اس میں مذکور ہے کہ جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو کسی مدت یا موت سے فقہاء کرام نے مقید نہیں کیا، اور اس میں یہ بھی ہے کہ یہ کسی حاکم کے منع پر نہیں ہے جیسا کہ آئندہ مسئلہ میں آرہا ہے، مجیب کہتا ہے کہ پندرہ سال کی مدت کا ذکر عدم سماع دعوٰی میں منفی کی مثال ہے نفی کی نہیں، پھر فرمایا: بلکہ اجتہادی حکم ہے جیسے کہ تم فقہاء کرام کی اس پر تصریح کو دیکھ رہے ہو، ا س مسئلہ کے بیان کوغنیمت سمجھو کیونکہ یہ اس کتاب کے منفرد مسائل میں سے ہے، الحمد للہ المنعم الوھاب اھ،
 (۱؎ العقود الدریۃ     کتاب الدعوی    ارگ بازار قندھار افغانستان    ۲ /۴)

(۲؎العقود الدریۃ     کتاب الدعوی    ارگ بازار قندھار افغانستان    ۲ /۴)

(۳؎ العقود الدریۃ     کتاب الدعوی    ارگ بازار قندھار افغانستان    ۲ /۴)
وفی ردالمحتار من مسائل شتی مجرد السکوت عند الاطلاع علی التصرف مانع وان لم یسبقہ بیع۴؎وفیہ من کتاب القضاء امادعوی الاجنبی ولو جارا فلابدفی منعہا من السکوت بعد الاطلاع علی تصرف المشتری ولم یقیدوہ بمدۃ۴؎الخ وفیہ من اٰخرکتاب الوقف لیس لہذا مدۃ محدودۃ واما عدم سماع الدعوی بعد مضی خمس عشرۃ سنۃ اذا ترکت بلا عذر فذاک فی غیر ھذہ الصورۃ۱؎ الخ۔
اورردالمحتار کے مسائل مختلفہ میں ہے:مشتری کے تصرفات پر مطلقا اطلاع دعوٰی کے مانع ہے اگرچہ پہلے بیع کی اطلاع نہ پائی ہو اور اسی کتاب میں کتاب القضاء سے ہے کہ مشتری کے تصرفات پر اطلاع کے وقت سکوت کرنا اگرچہ بیع کا علم پہلے نہ ہو اہو اجنبی خواہ پڑوسی کے دعوٰی کے لئے مانع ہے، اسکوانہوں نے کسی مدت سے مقیدنہیں کیا الخ، اور اسی میں کتاب الوقف کے آخر میں ہے کہ اس کے لئے کسی مدت کی حد نہیں ہے، لیکن پندرہ سال کے بعد دعوٰی کا غیر مسموع ہونا جبکہ بلاعذر دعوٰی ترک کیا ہو، تو اس کا تعلق اس صورت سے نہیں ہے الخ۔
 (۴؎ ردالمحتار        مسائل شتّٰی        داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵/ ۴۷۳)

(۵؎ردالمحتار    کتاب القضاء   داراحیاء التراث العربی بیروت   ۴ /۳۴۴)

(۱؎ ردالمحتار    کتاب الوقف    فصل یراعی شرط الواقف فی اجارتہ     داراحیاء التراث العربی بیروت۳ /۴۴۶)
قال الفقیر المجیب غفراﷲ تعالٰی لہ وانمااکثرنا من النقول فی ھذہ المسئلۃ لان منھم من وضعہا فی البیع خاصۃ کالعلائی فی الدرالمختار والزاھدی فی الفتیۃ (عہ۱) وابن نجیم فی الاشباہ وآخرین فی آخر ومنھم من قید تصرف المشتری بالزرع والبناء کالفاضل الدمشقی فی الدروالعلامۃ الغزی فی التنویر اوالغرس ونحوہ ایضا کالمحقق الرملی فی الفتاوٰی ومنھم صورھا بموت المتصرف ودعوی المدعی علی ورثۃ کما فی فتاوٰی الخلاصۃ ومنھم من قررھافی عکس ذٰلک اعنی موت غیر المتصرف ودعوی ورثتہ علی المتصرف علی مافی الولوالجیۃ ومنھم من ادرج فی التصویر سکوتہ ھذامدۃ تنوف عن کذاوکذاسنۃ کالخیریۃ وغیرہ ومنھم قصرالحکم علی الجارولم یفصح انہ فی غیرہ جارحتی اشتبہ ذٰلک علی بعض الفضلا کالسید الحموی والشیخ صالح بن عبداﷲ الغزی الی ان دفعہ العلامۃ الرملی فی ماسرد نامن جواھرنصوص الفتح ان کل ذٰلک محض تصویر للمسئلۃ وتقریر للاسئلۃ من دون حصرولاقصر وان لاتقدیر بمدۃ ولاتقیدبموت ولا تخصیص بجوار ولابتصرف دون تصرف بعد ان کان ممالایطلق الاللملاک ولا امتناع عن السماع قطعا للاطماع الاللسکوت وترک النزاع مع الوقف والاطلاع علی تصرف واختراع ولئلا یشتبہ مانحن فیہ بمسئلۃ عدم سماع الدعوی بعد مضی خمس عشرۃ سنۃ فانہا تعم مااذاوقع التصرف اولاحصل الاطلاع ام لاوھی مسئلۃ تلاحمت فیہا الآراء والاحلام وتشاجرت الظنون والافہام ومن قال فیہا بعدم السماع فانما بنی الامر علی النہی السلطانی ثم اضطربت کلما تہم فی مجاریہا فمن تارک لہا علی الاطلاق ومن مستثن لاشیاء ثم لم یتفقوافی المستثنیات علی کلمۃ واحدۃ ومنھم من عمم باخراج کل مافیہ عذرللمدعی وھواجمع واصوب ثم عظم الاعتراف فی دعوی المیراث فقوم یسمعون واٰخرون یمنعون کما فصلہ الفاضل المحقق العلامۃ سیدی امین الدین الشامی فی العقود الدریۃ ومنسوۃ(عہ۲) وردامر الامارۃ مع استثنائھا واٰخرھی بدونہ کما ذکرہ ایضا فی ردالمحتار بخلاف مانحن فیہ فلایقدر بمدۃ ولایبتنی علی نھی وانما ھی حکم من الفقہاء الکرام قطعا لمادۃ الزور والتلبیس کما قد سمعت وھذاممایستوی فیہ دعوی الارث وغیرہ ولذارأیتہم مطلقین القول ھھنا من دون تخصیص ولااستثناء ولاجرم ان افتی بہ الرملی فی مسئلتین مسوقتین فی دعوی الارث کما قرأنا علیک فافھم وتثبت فان المقام مزلۃ الاقدام۔
مجیب غفراﷲ تعالٰی کہتا ہے ہم نے اس مسئلہ میں کثیر نقول اس لئے پیش کی ہیں کہ بعض نے اس مسئلہ کو بیع میں خاص کیا ہے جیسا کہ علامہ علائی نے درمختار میں اور علامہ زاہدی نے قنیہ اور ابن نجیم نے الاشباہ میں اور دیگر حضرات نے اپنی کتب میں بیان کیا، اور بعض حضرات نے مشتری کے خاص تعمیر اور زراعت کے تصرفات میں اس کو وضع کیا جیسا کہ فاضل دمشقی نے در میں اور علامہ غزی نے تنویر اور بعض نے پودے لگانے کو بھی شامل کیاہے جیسا کہ محقق رملی نے اپنے فتاوٰی میں اور بعض نے اسکی صورت تصرف کرنیوالے کی موت کے بعد اس کے وارثوں پر مدعی کے دعوٰی کو بنایا ہے جیسا کہ خلاصۃ الفتاوی میں، اور بعض نے اس کی صورت بالعکس بیان کی یعنی غیر قابض کی موت کے بعد اس کے وارثوں کا قابض متصرف پر دعوٰی، جیسا کہ ولوالجیہ میں اور بعض نے اس میں اجنبی کی خاموشی اتنے یا اتنے سال سے زائد کوصورت میں شامل کیا ہے جیسا کہ علامہ خیر الدین وغیرہ نے، اوربعض نے اس حکم کو صرف پڑوسی تک محدود کیا اوریہ ذکرنہ کیا کہ غیر میں بھی یہ حکم جاری ہے حتی کہ بعض فضلاء کو اشتباہ ہوگیا جیسے سید حموی اور شیخ صالح بن عبداﷲ الغزی حتی کہ علامہ رملی کو اس کا دفاع کرنا پڑا، اور ہم نے فتح کے نصوص کے جواہر ذکر کئے کہ یہ تمام بیانات مسئلہ کی محض صورتیں ہیں اور سوالات کی تقریر ہے اس میں کوئی حصر، مدت کی تحدید،موت کی قید، پڑوسی کی تخصیص نہیں ہے اور نہ ہی کسی تصرف کا تعین ہے سوائے اس کے کہ یہ تصرف مالکانہ ہو اور مشتری کے تصرفات واختراعات پر اطلاع کے بعد سکوت ہو اور نزاع نہ پایا جائے تو فساد ولالچ کو ختم کرنے کے لئے دعوٰی کی سماعت ممتنع ہوگی اور اس لئے بھی کثیر نقول ذکر کی ہیں تاکہ اس مسئلہ کا پندرہ سال کے بعد عدم سماع والے مسئلہ سے اشتباہ نہ رہے، کیونکہ اس مسئلہ کا دائرہ عام ہے مشتری کا تصرف ہو یانہ ہو پھر اس کی اطلاع اجنبی کو ہوئی ہو یانہ ہوئی ہو اور اس مسئلہ میں آراء اور دلائل، ظنون اور افہام کا ٹکراؤ ہے جنہوں نے وہاں دعوٰی غیر مسموع کہا ہے انہوں نے سرکاری ممانعت کی بنا پر کہا ہے پھر سرکاری ممانعت کو جاری کرنے میں فقہاء کرام کے کلام میں اختلاف ہے بعض نے علی الاطلاق اس کو جاری مانا ہے اور بعض نے بعض وجوہ سے استثناء کیاہے پھر مستثنیات میں کسی ضابطہ پر اتفاق نہ کیا بعض نے جہاں مدعی کا عذر ہو وہاں سرکاری حکم سے علی العموم استثناء ماناہے یہی موقف جامع اوردرست ہے پھر بڑی معرکہ آرائی میراث کے دعوٰی میں ہوئی بعض نے اس دعوٰی کو قابل سماعت قراردیا اور بعض نے غیر مسموع قرار دیا جیسا کہ اس کی تفصیل فاضل محقق علامہ سیدی امین الدین شامی نے عقود الدریۃ میں فرمائی اس اختلاف کا منشاء اور وجہ امیر کا حکم ہونا ہے کہ یہ حکم قابل استثناء ہے یانہیں، جیسا کہ یہ بھی ردالمحتار میں مذکور ہے، اس تفصیل کے برخلاف ہمارے زیر بحث مسئلہ میں تو نہ کوئی مدت مقررہ ہے اور نہ ہی یہ سرکاری حکم منع پر مبنی ہے بلکہ یہ فقہاء کرام کا اجتہادی حکم ہے جو کہ جھوٹ اور جعل سازی کے خاتمہ کے لئے ہے جیسا کہ آپ نے سنا، اور اس میں وراثت اورغیر وراثت کا دعوٰی مساوی ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں فقہاء نے مطلق قول فرمایا ہے جسے تم نے دیکھا ہے کہ وہ یہاں نہ تخصیص کرتے ہیں اور نہ ہی استثناء کرتے ہیں، بہرحال رملی نے دعوٰی وراثت کے دو مسئلوں میں یہی فتوٰی دیا ہے جیسا کہ ہم نے آپ کو بیان کیا ہے، سمجھو اور ثابت قدم رہو کیونکہ پھسلنے کا مقام ہے۔
عہ۱:  فی الاصل ھکذا واظنہ  انہ ''قنیۃ''۱۲عبد۔  اصل میں اس طرح ہے اور میرے گمان کے مطابق یہ لفظ قنیہ ہے۱۲عبد(ت) عہ۲ : فی الاصل ھکذا واظنہ انہ منشؤہ ورددامرالامارۃ مع استثنائھا۱۲''عبد''۔
پس صورت مستفسرہ میں جبکہ موصی لہما نے جائداد میں اس قدر تصرفات کئے نصف ملتے ہی دے ڈالی اور لینے والے نے اوروں کے ہاتھ بیچی ادھر وہ آئی گئی فیصل ہوئی ادھر جو باقی رہی اس میں موصی لہما تحصیل تشخیص کرتے رہے اورکچھ اس میں سے بھی جدا کی جس پر خریدار  قابض متصرف ہوئے اس عرصہ تک یہ مدعی کیونکر اپنا حق چھوڑے بیٹھے رہے اور اپنی اس قدر جائداد کثیر کا زید وعمرومن و تو کے ہاتھوں میں لوٹ پھیر جبکہ دیکھا، اگر فی الواقع یہ صاحب حق ہوتے تو کیونکر اس قدر مدت تک صبر کرتے، آخر نہ دیکھا کہ امام علامہ 

محمد بن عبداﷲ غزی قدس سرہ الشریف نے تو کچھ اوپر تین برس گزرنے میں دعوٰی نامسموع ٹھہرایا یہاں تو چھ سال سے اونچے ہوچکے، بالجملہ اگر ایسی حالت میں ہندہ زندہ ہوتی اور وہ خود دعوٰی کرتی تو اس کی بھی نہ سنی جاتی اب کہ اس کے مرنے کے بھی کئی سال بعد ان مدعیوں کو یاد آیا کہ ہندہ تو زینب کی بہن تھی اور ہم اس کے ہمشیرہ زاد اور وہ خواہر کہلائی جاتی، ان کی بات پر کوئی بھی التفات نہ کیاجائے گا اور جائداد بدستور موصی لہماکے قبضہ میں رکھی جائے گی،
فی الفتاوی الخیریۃ فعلم بذلک ان الام لوکانت حیۃ ثم ادعت بعد ذٰلک لاتسمع دعوھٰا ومامنع المورث فی مثلہ منع الوارث بالاولٰی۱؎وفی الحاشیۃ الشامیۃ من لاتسمع دعواہ لما نع لاتسمع دعوی وارثہ بعدہ کما فی البزازیۃ وغیرھا انتہی۲؎، واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔
فتاوٰی خیریہ میں ہے: تو اس سے معلوم ہوا کہ ماں اگر زندہ ہوتی پھر بعد میں دعوٰی کرتی تو اس کا دعوی مسموع نہ ہوگا اور جہاں مورث کا دعوٰی مسموع نہ ہوگاتو وہاں وارث کادعوی بطریق اولی نہ سناجائے گا ، اور حاشیہ شامی میں ہے: جب مانع کی وجہ سے کسی کا دعوی مسموع نہ ہو تو اس کے بعد اس کے وارث کا دعوٰی وہاں مسموع نہ ہوگا اھ جیساکہ بزازیہ وغیرہ میں ہے انتہی۔ واﷲسبحانہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی خیریہ    کتاب الدعوٰی    دارالمعرفۃ بیروت    ۲ /۸۸)

(۲؎ ردالمحتار    کتاب الوقف    فصل یراعی شرط الواقف فی اجارتہ     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۳ /۴۴۶)
Flag Counter